زمانے پر ازل سے ایک ابدی اسغراق طاری ہے اور زمانے کے اس ابدی اور ازلی استغراق میں لمحے ہیں کہ گزر رہے ہیں ساعتیں ہیں کہ تمام ہو رہی ہیں اور وقت ہے کہ بہہ رہا ہے۔۔زندگی نے دنوں اور راتوں کی ایک معیاد پوری کر لی ہے اور ایک اور سال تاریخ کے وجود میں گم ہونے جا رہا ہے۔۔قوموں نے تجربوں کی کچھ اور زادو جنس اکھٹی کر لی ہے۔
زندگی برابر اگے بڑھ رہی ہے ہم نئے سال کے حاشیے پر کھڑے ہیں اور منفعت اور خسارے کی فرد حساب ہمارے ہاتھوں میں ہے۔۔دنوں اور راتوں سے ہماری اب تک جو معاملت رہی ہے اس میں ہمیں نفع کم اور خسارہ زیادہ ہوا ہے۔۔آنے والا سال شاید تلافی کا سال ہو اسی سے ہماری تمام امیدیں وابستہ ہیں اس سال میں ایک خیر ہے اور وہ یہ کہ ہمیں چیزوں کو قبول کرنے یا رد کرن کا اختیار ہوگا اور یہ ہماری خواہش ہے جو بڑی حسرتوں کے بعد پوری ہو ریہ ہے ۔ساتھ ہی یہ ہماری ازمائش کا دور ہوگا۔
جان لیا جائے کہ آنے والے دن بڑے واقعات انگیز دن ہیں واقعات ہمارے ھق میں کتنے مہربان ہوں گے یا کتنے نامہربان یہ خود ہم پہ منحصر ہے اب ہمیں خود ہی جواب دہ ہونا ہے اور خؤد ہی جواب طلب۔۔جمہوریت کے اہتمام کا یہ دور ہم سے بڑی احتیاط کا متقاضی ہے۔۔ہم کو اپنے نفس کی اصلاح کرنی ہوگی ہم جمموہرت سے بچھڑ کر بہت خراب ہوئے ہیں سو اب اس سے بغل گیر ہونے کے لیے بہت کچھ سدھارنا ہوگا کہ جمہوریت کا مزاج بولنے کی سلیقہ شعاری اور سننے کی بردبادی سے عبارت ہے۔۔۔
اس نظام یعنی جمہوریت کے زیر اثر ہم میں سب سے پہلے اس امکان کو قبول کرنے کی اماداگی پید اکرنی چاہیے کہ صداقت شاید ہمارے ساتھ نہ ہو دوسرے کے ساتھ ہو۔۔جمہوریت ان لوگوں کے لیے یقینا ایک نا مناسب ترین نظام ہے جو اپنے قول کو قولِ فیصل سمجھتے ہیں اور دوسرے کی بات سننے کا حؤصلہ نہیں رکھتے۔۔
یہ سال جو گزر رہا ہے ہم نے بڑی امیدوں کے ساتھ شروع کیا تھا۔۔ نہ چاہتے ہوئے ہوئے دسمبر کےاخر میں وقت گزرنے کا احساس بڑھ جاتا ہے اور ہر گیا سال ایک محاسبہ چاہتا ہے۔میں س پوسٹ نمیں سب کو مدعو کرتا ہوں کہ وہ اس گزرے سال کے حوالے سے اپنی اپنے گرد پیش کی اپنے ملک کی بات شئیر کریں کیا کھویا کیا پایا ۔نئے سال سے کیا امیدیں کیا حالات کیا واقعات۔۔خیر کی امید رکھنا ایک خیر ہے اور ہمارے اپ کے اختیار میں اس کے سوا اور ہے بھی کیا۔۔قوم کو اگلے سال ایک بہترین موقع ملنا ہے جس سے پوری طرح فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے کاش ہم سا سے پوری طرح فائدہ اٹھائیں اور اس بدترین سرنوشت کو بدل سکیں جو ازل سے ہمارا مقسوم رہی ہے
خوش رہیں
پروفیسر بیتاب تابانی
زندگی برابر اگے بڑھ رہی ہے ہم نئے سال کے حاشیے پر کھڑے ہیں اور منفعت اور خسارے کی فرد حساب ہمارے ہاتھوں میں ہے۔۔دنوں اور راتوں سے ہماری اب تک جو معاملت رہی ہے اس میں ہمیں نفع کم اور خسارہ زیادہ ہوا ہے۔۔آنے والا سال شاید تلافی کا سال ہو اسی سے ہماری تمام امیدیں وابستہ ہیں اس سال میں ایک خیر ہے اور وہ یہ کہ ہمیں چیزوں کو قبول کرنے یا رد کرن کا اختیار ہوگا اور یہ ہماری خواہش ہے جو بڑی حسرتوں کے بعد پوری ہو ریہ ہے ۔ساتھ ہی یہ ہماری ازمائش کا دور ہوگا۔
جان لیا جائے کہ آنے والے دن بڑے واقعات انگیز دن ہیں واقعات ہمارے ھق میں کتنے مہربان ہوں گے یا کتنے نامہربان یہ خود ہم پہ منحصر ہے اب ہمیں خود ہی جواب دہ ہونا ہے اور خؤد ہی جواب طلب۔۔جمہوریت کے اہتمام کا یہ دور ہم سے بڑی احتیاط کا متقاضی ہے۔۔ہم کو اپنے نفس کی اصلاح کرنی ہوگی ہم جمموہرت سے بچھڑ کر بہت خراب ہوئے ہیں سو اب اس سے بغل گیر ہونے کے لیے بہت کچھ سدھارنا ہوگا کہ جمہوریت کا مزاج بولنے کی سلیقہ شعاری اور سننے کی بردبادی سے عبارت ہے۔۔۔
اس نظام یعنی جمہوریت کے زیر اثر ہم میں سب سے پہلے اس امکان کو قبول کرنے کی اماداگی پید اکرنی چاہیے کہ صداقت شاید ہمارے ساتھ نہ ہو دوسرے کے ساتھ ہو۔۔جمہوریت ان لوگوں کے لیے یقینا ایک نا مناسب ترین نظام ہے جو اپنے قول کو قولِ فیصل سمجھتے ہیں اور دوسرے کی بات سننے کا حؤصلہ نہیں رکھتے۔۔
یہ سال جو گزر رہا ہے ہم نے بڑی امیدوں کے ساتھ شروع کیا تھا۔۔ نہ چاہتے ہوئے ہوئے دسمبر کےاخر میں وقت گزرنے کا احساس بڑھ جاتا ہے اور ہر گیا سال ایک محاسبہ چاہتا ہے۔میں س پوسٹ نمیں سب کو مدعو کرتا ہوں کہ وہ اس گزرے سال کے حوالے سے اپنی اپنے گرد پیش کی اپنے ملک کی بات شئیر کریں کیا کھویا کیا پایا ۔نئے سال سے کیا امیدیں کیا حالات کیا واقعات۔۔خیر کی امید رکھنا ایک خیر ہے اور ہمارے اپ کے اختیار میں اس کے سوا اور ہے بھی کیا۔۔قوم کو اگلے سال ایک بہترین موقع ملنا ہے جس سے پوری طرح فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے کاش ہم سا سے پوری طرح فائدہ اٹھائیں اور اس بدترین سرنوشت کو بدل سکیں جو ازل سے ہمارا مقسوم رہی ہے
خوش رہیں
پروفیسر بیتاب تابانی
Comment