Re: Think Different - badley ga Pakistan
سب سے پہلے تو ہمیں مہذب کہنے کا بہت بہت شکریہ ڈیر ایڈمن جی
فورمز پر اس قسم کے سوالات اور بحث و مباحثہ ہوتے ہی رہتے ہیں پر جیسا کہ آپ نے کہا کہ آپ اس حوالے سے اپنی
کتاب جو کہ یقیقنن ایک طبقہ کی نظروں سے گذرے گی اس کے لیے ان تمام سوالات کو اٹھارہے ہیں میں یہ تو نہیں جانتا
کہ جو کچھ میں کہوں گا وہ مانا جائے گا یا نہیں کیونکہ بہت سی باتوں کا ثبوت اس کے عمل درآمد ہونے کے بعد دیا
جاسکتا ہے اس سے پہلے نہیں
جب ہم پاکستان کو بدلنے کی بات کرتے ہیں تو درحقیقت ہم معاشرے کی تبدیلی کی بات کرتے ہیں اور معاشرہ ایسی چیز
ہے جو اوپر سے بنا بنایا نہیں آجاتا بلکہ افراد ہی مل کر معاشرے کو جنم دیتے ہیں ۔ اسی لیے میں اپنی بات میں پاکستان
کی جگہ زیادہ تر معاشرے لفظ کا ہی استعمال کرونگا
جہاں تک بات ہے سوچ کو بدلنے سے معاشرے کے بدل جانے کا بہت قوی حد تک یہ بات درست ہے مگر وہ سوچ جس
پر عمل کرکے ہمارے معاشرے کے افراد زندگی گذارتے ہیں کیونکہ ویسے جب بھی ہم کسی سے بھی یہاں تک کہ کسی
انجان شخص سے بھی اس کی سوچ کے متعلق گفتگو کرتے ہیں شاذ و ناز ہی ہمیں اس میں برائی نظر آتی ہے ہر
شخص ہی اپنے طور پر ایمان دار مخلص دیانت دار نظر آتا ہے یا خود کو پیش کرتا ہے
یہ میری نظر میں وہ پہلا دھوکہ ہے جو ہم کسی اور کو کیا خود اپنے آپ کو دیتے ہیں ۔ اور یہ افراد کی وہ سوچ ہوتی ہے
جس پر خود اس کا عمل نہیں ہوتا لہذا اس سوچ کو بدلہ جائے گا جس پر عمل ہوگا کیونکہ معاشرے میں پیدا ہونے والے
ہر اچھے اور برے نتیجہ کا حامل افراد کا عمل ہوتا ہے
اب بات کرتے ہیں کہ اس سوچ کو بدلہ کیسے جائے ؟
اس سوچ کو بدلنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے لوگوں میں افراد میں شعور کو بیدار کیا جائے کیونکہ ایک علمی اور
تحقیقی نگاہ میں ایک بگڑے ہوئے معاشرے کی قوم کو بے شعور ہی گردانا جاتا ہے انہی بے شعوروں میں سے باشعور
لوگوں کا یہ کام ہے اور اس کام کے لیے اپنی ذاتی انا مذہبی انا جسے آپ انتہا پسندی یا مختلف عقائد کا نام دے سکتے ہیں
سرے سے ختم کرنا ہوگا یہ مشکل ہے یا نا ممکن ابھی میں اس بحث میں نہیں صرف بدلاؤ کی بات کررہا ہوں
میں نہ صرف ایسی باتوں ایسی سوچوں ایسے عمل کرنے کے لیے تیار ہوں بلکہ میری زندگی کا ایک ایک پل اسی مقصد
کے لیے وقف ہے بلکہ اب لفظ مقصد استعمال ہوگیا ہے تو یہ بھی بتاتا چلوں کہ اس مقصد کی انتہا صرف و صرف اپنے
ملک یا صرف اپنی قوم کی ہی اصلاح نہیں بلکہ انسانیت کو اس کے شرف انسانیت کا احساس دلانا تک بھی شامل ہے اس
کے لیے آخری سانس تک کوشش جاری رہے گی کامیابی ملے یا نہیں مگر میں مجبور نہیں یا یوں کہہ لیں کہ ایک بدیانت
معاشرے میں جس طرح ایک ایمان دار بھی اسی معاشرے کا جزبن جاتا ہے مگر اپنے اصولوں سے بغاوت کرکے معاشرے
کے غلط اعمال کا حصہ نہیں بنتا بلکل اسی طرح پیش آنے والی مشکلات سے لڑنا ہے پیچھے نہیں ہٹنا
پھر آخر میں آپ نے ماحول کو بدلنے کے لیے خود کر بدلنے کی جو بات کی ہے میری پیش کردہ اوپر کی باتوں سے یہ
واضح ہے کہ یقینن پہلے خود کو بدلنا ہوگا جبھی یہ سب کچھ کرنے کی ہمت اور لگن پیدا ہوسکتی ہے
اب میں کچھ بات کرتا ہوں پاکستان کے حوالے مطلب یہ کہ تاریخی نگاہ سے آج تک اس کو دیکھتے ہوئے
شعور ، عقلمندی ، علم ، تحقیق کا واضح ثبوت یہ ہوتا ہے کہ آپ دیکھ لو کہ اگر آپ کو کوئی نقصان یا کوئی نتیجہ غلط
ملتا ہے تو غلطی کہاں پر ہے اور کیسے وہ طریقہ اپنایا جائے کہ پھر غلطی نہ ہو
افسوس کی بات ہے کہ ہم پاکستان حاصل کرلینے کے بعد اپنے ہی اختلافات کی بنا پر اس کو دو ٹکڑوں میں تبدیل کرچکے
ہیں مگر آج بھی اپنی غلطی سے سبق سیکھنے کو تیار نہیں
پاکستان میں بہت سی قومیں آباد ہیں یعنی کہ اپنے رسم و رواج ، علاقے اور زبان کے حوالے سے بھی اور مختلف مذہبی
فرقے اور پولیٹیکل پارٹی یعنی جب میری پوسٹ میں قوم کا لفظ پاکستان میں استعمال ہوگا تو مراد یہ سب لوگ ہونگے
تو ہم ان تمام قوموں کو ایک قوم کہتے ہیں جسے پاکستانی قوم کا نام دیا جاتا ہے ۔ ہمیں ہمارے ذاتی مشاہدے اور خبروں
سے اچھی طرح یہ بات معلوم ہوچکی ہے کہ ہم ایک قوم پہلے کبھی ہوں تو ہوں پر اب نہیں ہیں
ذاتی دشمنی اور حادثاتی موت کے علاوہ گرنے والی ہر لاش اس بات کی کھلی عکاسی کرتی ہے کہ ہم ایک قوم نہیں ہیں
اور صرف کہہ دینے سے یا لکھ دینے سے قوم ایک نہیں ہوتی ہمارے ملک کا پرچم بھلے ہی ایک کیوں نہ ہو ہم اپنے
اپنے جھنڈوں تلے ہیں ہر قوم کا اپنا ایک الگ پرچم ہے ۔ ہر قوم خود کو ٹھیک افضل و برتر سمجھتی ہے
اگر خود کو ایک قوم بنانا ہے تو یہ سوچ یہ طور طریقہ سرے سے ختم کرنا ہوگا رسم و رواج جسے آپ ثقافت کا نام دے
سکتے ہیں وہاں تک تو ٹھیک ہے لباس رہن سہن کا فرق بھی یہاں کوئی معنی نہیں رکھتا مگر اس کے علاوہ ہرقسم کا
نظریاتی اور مذہبی اور ملکی اختلاف ختم کر کے ایک ہونا ہوگا
قیام پاکستان سے پہلے اگر ہم ذرا سا غور کریں تو جس ڈیبیٹ اور اپیچ کے ذریعے بغیر کسی جنگ کے ہم نے اپنے لیے
یہ خطہ حاصل کیا وہ ویلڈ پوائنٹ ہم کو ملا کہاں سے ۔ وہ پوائنٹ وہ نقطہ ہمیں قرآن سے ملا ہے ۔
شاید آپ لوگ سوچیں میں قرآن کے اسٹوڈنٹ ہونے کی حیثیت سے خوامخواہ اس کو درمیان میں لا رہا ہوں یا پھر طرف
داری کررہا ہوں ۔ پر میری جستجو مجھے یہی بتاتی ہے ۔ اقبال صاحب کا دو قومی نظریہ ہو یا پھر جناح صاحب کے
دلائل ان کی بنیاد یہی تھی کہ کسی انسانی قوانین کے زیر اثر رہ کر خدا کے قانون کا نفاظ نہیں ہوسکتا ہم ایک ایسا خطہ
چاہتے ہیں جہاں کسی انسان کی نہیں خدا کی حکمرانی ہو اس کے احکامات پر معاشرے کا قیام عمل میں لایا جائے
کیونکہ مذہبی آزادی کی انگریزوں کی طرف سے کوئی روک ٹوک نہیں تھی بلکہ اگر آپ تاریخ کے اوراق پر نظر ڈالیں تو
ہندوؤں کی مذہبی رسومات پر پابندی لگائی گئی تھی ان کے عبادت یا مندروں میں ایک ٹائم فکس کیا گیا تھا اور حوالے
مسلمانوں کی نماز کا یا انکی عبادت کا دیا گیا تھا کہ ایک مخصوص ٹائم تو ہے یہاں تو جب جس کا دل چاہتا ہے آکر
گھنٹیاں اور بھجن شروع کرسکتا ہے اور یہ آس پاس بسنے والے لوگوں کے لیے باعث تکلیف ہے ۔ خیر اپنی بات کی
طرف آتے ہیں اس وقت یہ ویلڈ پوائنٹ جو کہ آج تک ویلڈ ہے اسی کی بدولت یہ ملک حاصل کیا گیا انڈیا آج تک اپنے ملک
کے ٹوٹ جانے کا غم مناتا ہے ۔
اس وقت تحریک کے لیڈران کا ساتھ دینے والے لوگوں نے یہی فرق ختم کیا تھا پٹھانوں نے خود کو پاکستان کا ساتھ دینے
عہد کیا ، بلوچوں نے ہم مسلمان ہیں اور ہم پاکستان کا حصہ بنیں گے پنجابی مسلمانوں نے ہم صرف مسلمان غرض یہ کہ
اپنے مخالفوں کے سامنے قوموں میں بٹ کر نہیں بلکہ ایک ہوکر مطالبہ کیا
وہ ایک شخصیت جسے قائد اعظم کا خطاب ملا جس کے کہے ہو ئے الفاظ میں نہ جانے کیا طاقت ہوتی کہ وہ ان پڑھ لوگ
یہ سمجھتے کہ بس اس نے جو کہہ دیا ہے وہ ٹھیک ہے اس نے کہا کہ ملک کے لیے خون کا دیا چاہیے تو ان لوگوں نے
کہاکہ ہم یہ دیا اپنے خون سے ضرور جلائیں گے ان لوگوں کے ذہن تھے یا نہ جانے کیا چیز تھی کہ جب اس خون سے
جلنے والے دیے کا نام پاکستان تجویز کیا گیا تو یہ لفظ ان لوگوں کی زندگی بن گیا کہ جس کی خاطر انہوں نے یہ سوچنا
شروع کر دیا کہ وہ اس دیے کو ضرور جلائیں گے تو جب وہ بندہ ان لوگوں سے خطاب کرنے آتا تو ان کے چہرے خوشیوں سے دمک جاتے اور پھر وہ وہ جلسہ نعروں سے جگمگا اٹھتا
لے کے رہیں پاکستان بن کے رہے گا پاکستان
سینے پہ گولی کھائیں گے پاکستان بنائیں گے
افسوس اس بات کا ہے وجہ چاہے کچھ بھی ہو اس وقت کی ایک قوم جو کہ صرف مزید ایک دوسری قوم کے ساتھ بھی خدا
کے احکامات کا نفاذ نہیں چاہتی تھی آج سینکڑوں ٹکڑوں میں بٹ چکی ہے اور آپس کی نفرت ہندو اور مسلمان سے بھی
بڑھ کر ہوگئی ہے
ہمیں اپنے شعور کو بلند کر کے ہی اس بے شعوری کو ختم کرنا ہوگا
میں پوسٹ کی طوالت کی بہت معذرت چاہتا ہوں
شکریہ
بانیاز خان
سب سے پہلے تو ہمیں مہذب کہنے کا بہت بہت شکریہ ڈیر ایڈمن جی
فورمز پر اس قسم کے سوالات اور بحث و مباحثہ ہوتے ہی رہتے ہیں پر جیسا کہ آپ نے کہا کہ آپ اس حوالے سے اپنی
کتاب جو کہ یقیقنن ایک طبقہ کی نظروں سے گذرے گی اس کے لیے ان تمام سوالات کو اٹھارہے ہیں میں یہ تو نہیں جانتا
کہ جو کچھ میں کہوں گا وہ مانا جائے گا یا نہیں کیونکہ بہت سی باتوں کا ثبوت اس کے عمل درآمد ہونے کے بعد دیا
جاسکتا ہے اس سے پہلے نہیں
جب ہم پاکستان کو بدلنے کی بات کرتے ہیں تو درحقیقت ہم معاشرے کی تبدیلی کی بات کرتے ہیں اور معاشرہ ایسی چیز
ہے جو اوپر سے بنا بنایا نہیں آجاتا بلکہ افراد ہی مل کر معاشرے کو جنم دیتے ہیں ۔ اسی لیے میں اپنی بات میں پاکستان
کی جگہ زیادہ تر معاشرے لفظ کا ہی استعمال کرونگا
جہاں تک بات ہے سوچ کو بدلنے سے معاشرے کے بدل جانے کا بہت قوی حد تک یہ بات درست ہے مگر وہ سوچ جس
پر عمل کرکے ہمارے معاشرے کے افراد زندگی گذارتے ہیں کیونکہ ویسے جب بھی ہم کسی سے بھی یہاں تک کہ کسی
انجان شخص سے بھی اس کی سوچ کے متعلق گفتگو کرتے ہیں شاذ و ناز ہی ہمیں اس میں برائی نظر آتی ہے ہر
شخص ہی اپنے طور پر ایمان دار مخلص دیانت دار نظر آتا ہے یا خود کو پیش کرتا ہے
یہ میری نظر میں وہ پہلا دھوکہ ہے جو ہم کسی اور کو کیا خود اپنے آپ کو دیتے ہیں ۔ اور یہ افراد کی وہ سوچ ہوتی ہے
جس پر خود اس کا عمل نہیں ہوتا لہذا اس سوچ کو بدلہ جائے گا جس پر عمل ہوگا کیونکہ معاشرے میں پیدا ہونے والے
ہر اچھے اور برے نتیجہ کا حامل افراد کا عمل ہوتا ہے
اب بات کرتے ہیں کہ اس سوچ کو بدلہ کیسے جائے ؟
اس سوچ کو بدلنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے لوگوں میں افراد میں شعور کو بیدار کیا جائے کیونکہ ایک علمی اور
تحقیقی نگاہ میں ایک بگڑے ہوئے معاشرے کی قوم کو بے شعور ہی گردانا جاتا ہے انہی بے شعوروں میں سے باشعور
لوگوں کا یہ کام ہے اور اس کام کے لیے اپنی ذاتی انا مذہبی انا جسے آپ انتہا پسندی یا مختلف عقائد کا نام دے سکتے ہیں
سرے سے ختم کرنا ہوگا یہ مشکل ہے یا نا ممکن ابھی میں اس بحث میں نہیں صرف بدلاؤ کی بات کررہا ہوں
میں نہ صرف ایسی باتوں ایسی سوچوں ایسے عمل کرنے کے لیے تیار ہوں بلکہ میری زندگی کا ایک ایک پل اسی مقصد
کے لیے وقف ہے بلکہ اب لفظ مقصد استعمال ہوگیا ہے تو یہ بھی بتاتا چلوں کہ اس مقصد کی انتہا صرف و صرف اپنے
ملک یا صرف اپنی قوم کی ہی اصلاح نہیں بلکہ انسانیت کو اس کے شرف انسانیت کا احساس دلانا تک بھی شامل ہے اس
کے لیے آخری سانس تک کوشش جاری رہے گی کامیابی ملے یا نہیں مگر میں مجبور نہیں یا یوں کہہ لیں کہ ایک بدیانت
معاشرے میں جس طرح ایک ایمان دار بھی اسی معاشرے کا جزبن جاتا ہے مگر اپنے اصولوں سے بغاوت کرکے معاشرے
کے غلط اعمال کا حصہ نہیں بنتا بلکل اسی طرح پیش آنے والی مشکلات سے لڑنا ہے پیچھے نہیں ہٹنا
پھر آخر میں آپ نے ماحول کو بدلنے کے لیے خود کر بدلنے کی جو بات کی ہے میری پیش کردہ اوپر کی باتوں سے یہ
واضح ہے کہ یقینن پہلے خود کو بدلنا ہوگا جبھی یہ سب کچھ کرنے کی ہمت اور لگن پیدا ہوسکتی ہے
اب میں کچھ بات کرتا ہوں پاکستان کے حوالے مطلب یہ کہ تاریخی نگاہ سے آج تک اس کو دیکھتے ہوئے
شعور ، عقلمندی ، علم ، تحقیق کا واضح ثبوت یہ ہوتا ہے کہ آپ دیکھ لو کہ اگر آپ کو کوئی نقصان یا کوئی نتیجہ غلط
ملتا ہے تو غلطی کہاں پر ہے اور کیسے وہ طریقہ اپنایا جائے کہ پھر غلطی نہ ہو
افسوس کی بات ہے کہ ہم پاکستان حاصل کرلینے کے بعد اپنے ہی اختلافات کی بنا پر اس کو دو ٹکڑوں میں تبدیل کرچکے
ہیں مگر آج بھی اپنی غلطی سے سبق سیکھنے کو تیار نہیں
پاکستان میں بہت سی قومیں آباد ہیں یعنی کہ اپنے رسم و رواج ، علاقے اور زبان کے حوالے سے بھی اور مختلف مذہبی
فرقے اور پولیٹیکل پارٹی یعنی جب میری پوسٹ میں قوم کا لفظ پاکستان میں استعمال ہوگا تو مراد یہ سب لوگ ہونگے
تو ہم ان تمام قوموں کو ایک قوم کہتے ہیں جسے پاکستانی قوم کا نام دیا جاتا ہے ۔ ہمیں ہمارے ذاتی مشاہدے اور خبروں
سے اچھی طرح یہ بات معلوم ہوچکی ہے کہ ہم ایک قوم پہلے کبھی ہوں تو ہوں پر اب نہیں ہیں
ذاتی دشمنی اور حادثاتی موت کے علاوہ گرنے والی ہر لاش اس بات کی کھلی عکاسی کرتی ہے کہ ہم ایک قوم نہیں ہیں
اور صرف کہہ دینے سے یا لکھ دینے سے قوم ایک نہیں ہوتی ہمارے ملک کا پرچم بھلے ہی ایک کیوں نہ ہو ہم اپنے
اپنے جھنڈوں تلے ہیں ہر قوم کا اپنا ایک الگ پرچم ہے ۔ ہر قوم خود کو ٹھیک افضل و برتر سمجھتی ہے
اگر خود کو ایک قوم بنانا ہے تو یہ سوچ یہ طور طریقہ سرے سے ختم کرنا ہوگا رسم و رواج جسے آپ ثقافت کا نام دے
سکتے ہیں وہاں تک تو ٹھیک ہے لباس رہن سہن کا فرق بھی یہاں کوئی معنی نہیں رکھتا مگر اس کے علاوہ ہرقسم کا
نظریاتی اور مذہبی اور ملکی اختلاف ختم کر کے ایک ہونا ہوگا
قیام پاکستان سے پہلے اگر ہم ذرا سا غور کریں تو جس ڈیبیٹ اور اپیچ کے ذریعے بغیر کسی جنگ کے ہم نے اپنے لیے
یہ خطہ حاصل کیا وہ ویلڈ پوائنٹ ہم کو ملا کہاں سے ۔ وہ پوائنٹ وہ نقطہ ہمیں قرآن سے ملا ہے ۔
شاید آپ لوگ سوچیں میں قرآن کے اسٹوڈنٹ ہونے کی حیثیت سے خوامخواہ اس کو درمیان میں لا رہا ہوں یا پھر طرف
داری کررہا ہوں ۔ پر میری جستجو مجھے یہی بتاتی ہے ۔ اقبال صاحب کا دو قومی نظریہ ہو یا پھر جناح صاحب کے
دلائل ان کی بنیاد یہی تھی کہ کسی انسانی قوانین کے زیر اثر رہ کر خدا کے قانون کا نفاظ نہیں ہوسکتا ہم ایک ایسا خطہ
چاہتے ہیں جہاں کسی انسان کی نہیں خدا کی حکمرانی ہو اس کے احکامات پر معاشرے کا قیام عمل میں لایا جائے
کیونکہ مذہبی آزادی کی انگریزوں کی طرف سے کوئی روک ٹوک نہیں تھی بلکہ اگر آپ تاریخ کے اوراق پر نظر ڈالیں تو
ہندوؤں کی مذہبی رسومات پر پابندی لگائی گئی تھی ان کے عبادت یا مندروں میں ایک ٹائم فکس کیا گیا تھا اور حوالے
مسلمانوں کی نماز کا یا انکی عبادت کا دیا گیا تھا کہ ایک مخصوص ٹائم تو ہے یہاں تو جب جس کا دل چاہتا ہے آکر
گھنٹیاں اور بھجن شروع کرسکتا ہے اور یہ آس پاس بسنے والے لوگوں کے لیے باعث تکلیف ہے ۔ خیر اپنی بات کی
طرف آتے ہیں اس وقت یہ ویلڈ پوائنٹ جو کہ آج تک ویلڈ ہے اسی کی بدولت یہ ملک حاصل کیا گیا انڈیا آج تک اپنے ملک
کے ٹوٹ جانے کا غم مناتا ہے ۔
اس وقت تحریک کے لیڈران کا ساتھ دینے والے لوگوں نے یہی فرق ختم کیا تھا پٹھانوں نے خود کو پاکستان کا ساتھ دینے
عہد کیا ، بلوچوں نے ہم مسلمان ہیں اور ہم پاکستان کا حصہ بنیں گے پنجابی مسلمانوں نے ہم صرف مسلمان غرض یہ کہ
اپنے مخالفوں کے سامنے قوموں میں بٹ کر نہیں بلکہ ایک ہوکر مطالبہ کیا
وہ ایک شخصیت جسے قائد اعظم کا خطاب ملا جس کے کہے ہو ئے الفاظ میں نہ جانے کیا طاقت ہوتی کہ وہ ان پڑھ لوگ
یہ سمجھتے کہ بس اس نے جو کہہ دیا ہے وہ ٹھیک ہے اس نے کہا کہ ملک کے لیے خون کا دیا چاہیے تو ان لوگوں نے
کہاکہ ہم یہ دیا اپنے خون سے ضرور جلائیں گے ان لوگوں کے ذہن تھے یا نہ جانے کیا چیز تھی کہ جب اس خون سے
جلنے والے دیے کا نام پاکستان تجویز کیا گیا تو یہ لفظ ان لوگوں کی زندگی بن گیا کہ جس کی خاطر انہوں نے یہ سوچنا
شروع کر دیا کہ وہ اس دیے کو ضرور جلائیں گے تو جب وہ بندہ ان لوگوں سے خطاب کرنے آتا تو ان کے چہرے خوشیوں سے دمک جاتے اور پھر وہ وہ جلسہ نعروں سے جگمگا اٹھتا
لے کے رہیں پاکستان بن کے رہے گا پاکستان
سینے پہ گولی کھائیں گے پاکستان بنائیں گے
افسوس اس بات کا ہے وجہ چاہے کچھ بھی ہو اس وقت کی ایک قوم جو کہ صرف مزید ایک دوسری قوم کے ساتھ بھی خدا
کے احکامات کا نفاذ نہیں چاہتی تھی آج سینکڑوں ٹکڑوں میں بٹ چکی ہے اور آپس کی نفرت ہندو اور مسلمان سے بھی
بڑھ کر ہوگئی ہے
ہمیں اپنے شعور کو بلند کر کے ہی اس بے شعوری کو ختم کرنا ہوگا
میں پوسٹ کی طوالت کی بہت معذرت چاہتا ہوں
شکریہ
بانیاز خان
Comment