ماسٹر-مغلے آج تو عید کا سماں ہے تیری آنکھ میں آنسو کیوں ؟
مغلا-اداسی کے ساتھ ) ماسٹر جی آج مجھے دکھ ہورہا ہے کاش میں بھی تھوڑا بہت پڑھ لکھ جاتا تو مجھ میں بھی عقل ہوتی
ماسٹر-کیا ہو ا تیری عقل کو
مغلا - ماسٹر مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ آج کہ دن کیا کروں ،میں بہت خوش ہوں بے شک کہ آج کہ دن میرے سوہنے سرکار صلی اللہ علیہ والہ وسلم تشریف لائے پر میں عملی طور پہ اس خوشی کا اظہار کیسے کروں یہ میری سمجھ میں نہیں آرہا
ماسٹر-کیوں مغلے کیوں سمجھ نہیں آرہی
مغلا- ماسٹر یہ جو پہاڑیاں لگائی ہیں سب نے رنگ برنگے کپڑے پہنے ہیں سب نے اس خوشی میں ،تو میرے سوہنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم اس سے خوش ہونگے بھلا کہ نہیں
ماسٹر -اچھا تو تم نے کیا سوچا پھر
مغلا-اداسی سے -ماسٹر مجھے سمجھ نہیں آرہی نا ،میں بہت سارے پٹاخے بھی لیکر آیا تھا کہ خوشی منائوں گا لیکن میرا دل نہیں مانتا کہ میرے سوہنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بھی خوش ہونگے ،میں اسی سوچ میں تھا کہ زور کی ہوا چلی اور پٹاخوں والی گٹھری پانی میں گر گئی
ماسٹر-اچھا پھر تم نے کیا کیا ؟
مغلا- ماسٹر میرا دل پریشان ہوگیا پھر میں روتا ہوا آرہا تھا کہ راستے میں مسجد کا دروازہ کھلا ہوا نظر آیا میں اندر چلا گیا مولوی صاھب نے مجھے نماز پڑھایئ تو مجھے نماز پڑھ کےایسا احساس ہوا جیسے ناراض ماں نے بانہیں کھول دی ہوں
ماسٹر- واہ مغلے تیرے قربان لیکن تو ابھی بھی کیوں رو رہا ہے
مغلا-ماسٹر جی کیا بتاوں ،مجھے یاد آیا کہ پچھلے چھہ ماہ سے میری اور میرے ہمسائے دل محمد کی لڑایئ چل رہی ہے ہم ایک دوسرے کو دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے ہر وقت ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا موقع ڈھونڈتے ہیں
تو میں آج اداس دل کے ساتھ اس کہ ڈیرے پہ گیا کہ وہ اس کے ساتھی مجھے دیکھتے ہی سانپ کی طرح پھنکارنے لگے
میں آگے بڑھا سلام لیا اور ایک خالی موڑھے پہ بیٹھ گیا نطریں جھکا کر کسی نے سلام کا جواب دیا کسی نے نہیں
میں اپنی چھڑی سے زمین پر لکیریں کھینچنے لگا کہ احساس ہوا دل محمد میرے سامنے آن کھڑا ہوا ہے ہونٹوں پہ میٹھی مسکراہٹ اور آنکھوں میں پیار کی گرمی لیے
اس نے مجھے کندھوں سے اوپر اٹھایا اور گلے سے لگا لیا میں نے محسوس کیا کہ میری آنکھیں پانیوں سے تر ہیں
میں نے دل محمد سے کہا
دل محمد آج تیری دعوت ہے میری طرف تو گاوں کے سب نمبرداروں اور وڈیروں کے ساتھ کھانے پہ آجانا
ماسٹر میں واپس آیا تیاری کی چارپائیاں بچھا دیں تکیے رکھ دیے ہر طرح سے اچھا کیامیٹھے اور نمکین چاولوں کی دیگیں پکوائیں ، کھانا تیار ہوا تو دیکھا دل محمد ارہا ہے گاوں کے سب پکھی واسوں کو لیکر سب نے ملکر کھانا کھایا ہاتھ دھلوائے سب کے جب سب چل دیے تو میں نے دل محمد کو روک کر کہا
دل محمد یہ کیا میں نے تجھے نمبرداروں اور تہمارے ساتھیوں کو لانے کو کہا تھا ،دل محمد بولا نہیں مغلے تو نے مجھے کہا تھا سب پکھی واسوں کو لیکر آنا انکا کھانا ہے میرئ طرف
(مغلا رورتے ہوئے)ماسٹر جی میری عقل کام نہیں کرتی مجھے سمجھ نہیں آرہی کیا یہ زبان پر دماغ کی بجائے دل کی مرضی چلتی ہے بھلا
ماسٹر - مغلے تیری عقل پہ دنیا کہ تمام عقل والوں کی عقلیں قربان
------------------------------------------------------------------
مغلا-اداسی کے ساتھ ) ماسٹر جی آج مجھے دکھ ہورہا ہے کاش میں بھی تھوڑا بہت پڑھ لکھ جاتا تو مجھ میں بھی عقل ہوتی
ماسٹر-کیا ہو ا تیری عقل کو
مغلا - ماسٹر مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ آج کہ دن کیا کروں ،میں بہت خوش ہوں بے شک کہ آج کہ دن میرے سوہنے سرکار صلی اللہ علیہ والہ وسلم تشریف لائے پر میں عملی طور پہ اس خوشی کا اظہار کیسے کروں یہ میری سمجھ میں نہیں آرہا
ماسٹر-کیوں مغلے کیوں سمجھ نہیں آرہی
مغلا- ماسٹر یہ جو پہاڑیاں لگائی ہیں سب نے رنگ برنگے کپڑے پہنے ہیں سب نے اس خوشی میں ،تو میرے سوہنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم اس سے خوش ہونگے بھلا کہ نہیں
ماسٹر -اچھا تو تم نے کیا سوچا پھر
مغلا-اداسی سے -ماسٹر مجھے سمجھ نہیں آرہی نا ،میں بہت سارے پٹاخے بھی لیکر آیا تھا کہ خوشی منائوں گا لیکن میرا دل نہیں مانتا کہ میرے سوہنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بھی خوش ہونگے ،میں اسی سوچ میں تھا کہ زور کی ہوا چلی اور پٹاخوں والی گٹھری پانی میں گر گئی
ماسٹر-اچھا پھر تم نے کیا کیا ؟
مغلا- ماسٹر میرا دل پریشان ہوگیا پھر میں روتا ہوا آرہا تھا کہ راستے میں مسجد کا دروازہ کھلا ہوا نظر آیا میں اندر چلا گیا مولوی صاھب نے مجھے نماز پڑھایئ تو مجھے نماز پڑھ کےایسا احساس ہوا جیسے ناراض ماں نے بانہیں کھول دی ہوں
ماسٹر- واہ مغلے تیرے قربان لیکن تو ابھی بھی کیوں رو رہا ہے
مغلا-ماسٹر جی کیا بتاوں ،مجھے یاد آیا کہ پچھلے چھہ ماہ سے میری اور میرے ہمسائے دل محمد کی لڑایئ چل رہی ہے ہم ایک دوسرے کو دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے ہر وقت ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا موقع ڈھونڈتے ہیں
تو میں آج اداس دل کے ساتھ اس کہ ڈیرے پہ گیا کہ وہ اس کے ساتھی مجھے دیکھتے ہی سانپ کی طرح پھنکارنے لگے
میں آگے بڑھا سلام لیا اور ایک خالی موڑھے پہ بیٹھ گیا نطریں جھکا کر کسی نے سلام کا جواب دیا کسی نے نہیں
میں اپنی چھڑی سے زمین پر لکیریں کھینچنے لگا کہ احساس ہوا دل محمد میرے سامنے آن کھڑا ہوا ہے ہونٹوں پہ میٹھی مسکراہٹ اور آنکھوں میں پیار کی گرمی لیے
اس نے مجھے کندھوں سے اوپر اٹھایا اور گلے سے لگا لیا میں نے محسوس کیا کہ میری آنکھیں پانیوں سے تر ہیں
میں نے دل محمد سے کہا
دل محمد آج تیری دعوت ہے میری طرف تو گاوں کے سب نمبرداروں اور وڈیروں کے ساتھ کھانے پہ آجانا
ماسٹر میں واپس آیا تیاری کی چارپائیاں بچھا دیں تکیے رکھ دیے ہر طرح سے اچھا کیامیٹھے اور نمکین چاولوں کی دیگیں پکوائیں ، کھانا تیار ہوا تو دیکھا دل محمد ارہا ہے گاوں کے سب پکھی واسوں کو لیکر سب نے ملکر کھانا کھایا ہاتھ دھلوائے سب کے جب سب چل دیے تو میں نے دل محمد کو روک کر کہا
دل محمد یہ کیا میں نے تجھے نمبرداروں اور تہمارے ساتھیوں کو لانے کو کہا تھا ،دل محمد بولا نہیں مغلے تو نے مجھے کہا تھا سب پکھی واسوں کو لیکر آنا انکا کھانا ہے میرئ طرف
(مغلا رورتے ہوئے)ماسٹر جی میری عقل کام نہیں کرتی مجھے سمجھ نہیں آرہی کیا یہ زبان پر دماغ کی بجائے دل کی مرضی چلتی ہے بھلا
ماسٹر - مغلے تیری عقل پہ دنیا کہ تمام عقل والوں کی عقلیں قربان
------------------------------------------------------------------
اسلام اعلیکم اہل پیغام
میں عموما ریڈیو نہیں سنا کرتی آج اتفاق سے سنا تو ایف ایم 95 پہ میلاد النبی خصوصی ٹرانسمشن میں ایک پروگرام چل رہا تھا مغلے دی جھوک
مجھے سننے میں اچھا لگا یہاں آپ کے لیے اردو میں مختصر لکھا ہے اس میں وہ پنجابی والی چاشنی تو پیدا نہیں ہوسکی لیکن مقصد پورا ہو جائے اتنا ہی کافی ہے
تو اس میں جو پیغام ہے امید ہے وہ سمجھ میں آرہا ہوگا
اب میرا آپ سے سوال
آپ اس بار عید میلاد النبی پہ کیا کریں گے
کیا آپ جانتے ہیں آپ کو کیا کرنا ہے ؟؟؟
Comment