Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

! اوراد و وظائف کی حقیقت !

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • ! اوراد و وظائف کی حقیقت !

    اسلام علیکم قارئین کرام
    چند دن پہلے ہماری ایک سسٹر (زونش) نے قرِآنی آیات پر مبنی وظائف کا سلسلہ شروع کیا جس پر ہمارے ایک دیرینہ دوست کو اعتراض ہوا کہ یہ ناجائز ہیں ۔ پہلے تو ہم نے انھے سمجھانے کی بہت کوشش کی باز رہیں جس چیز کا انسان کو علم (بصورت ادراک) نہ ہو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اس کہ وجود سے ہی انکار کردیا جائے مگر کیا کریں کہ ہمارے دوست بھی دیرینہ ہیں اور یہ مسئلہ بھی دیرینہ ہے لہزا ہم نے بہت سوچنے سمجھنے کہ بعد اس موضوع پر قلم اٹھانے کا فیصلہ کرلیا اگرچہ کہ ہمیں اپنی علمی بے بضاعتی کا حقیقی ادراک بھی ہے مگر تاہم قرِآن و سنت سے اس مسئلہ پر کسی قدر روشنی ڈالنے کی اپنی سی کوشش کریں گے ۔ ۔ ۔ ۔

    تخلیق کائنات کے ابتدائی مراحل سے لے کرانسان کی پیدائش تک، اللہ تعالی نے انسان کے لئے جو کچھ پیدا کیا ہے وہ انسان کی فلاح وبہبود اور نفع رسانی کے لئے پیدا کیا، پھر انسان کو بے شمار ظاہری اور باطنی، جسمانی اور روحانی نعمتیں عطا کیں لیکن ان تمام نعمتوں میں سے سب سے بڑی نعمت اور سب سے بڑا انعام واکرام رشدو ہدایت کا وہ نظام ہے جو رسولوں کی بعثت اور آسمانی صحیفوں کے ذریعے قائم کیا۔اور پھر ان میں بھی سب سے بڑی نعمت عظمٰی خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود مسعود جو کہ سراپا رحمت ہیں اور پھر انکو جو کتاب ملی یعنی قرآن وہ بھی مومنوں کہ لیے شفاء اور رحمت ہے ۔اللہ تعالی نے ہر بیماری کے لۓ شفا نازل فرمائی ہے اور قرآن پاک تمام جسمانی و روحانی امراض کے لۓ باعث شفا ہے اللہ تعالی قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے۔

    قرآن پاک میں ارشاد باری تعالٰی ہے کہ ۔ ۔ ۔
    وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ وَلاَ يَزِيدُ الظَّالِمِينَ إِلاَّ خَسَارًا
    اور ہم قرآن میں وہ چیز نازل فرما رہے ہیں جو ایمان والوں کے لئے شفاء اور رحمت ہے اور ظالموں کے لئے تو صرف نقصان ہی میں اضافہ کر رہا ہے


    .



    اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس بھی کسی بیماری یا مشکل میں قرآن پاک سے رجوع کیا جاۓ گا۔ اللہ تعالی بیماری میں شفا نصیب فرماۓ گا اور مشکل آسان کر دے گا قرآن پاک میں ہر بیماری کا شافی علاج موجود ہے قرآن پاک کی بہت سی سورتیں اور آیات مبارکہ امراض کو رفع کرنے کے لۓ اپنا شافی اثر دکھاتی ہیں۔ ہمارا اس بات پر پختہ اور کامل یقین ہونا چاہۓ کہ قرآن پاک کی مبارک آیات سے بیماریوں کا شافی علاج ممکن ہے ۔
    قرآن پاک سے شفا حاصل کرنے کے لۓ صداقت و ایمان کامل خالص جذبہ اور پختہ اعتقاد ہونا ضروری ہے تب ہی بیماریوں سے چھٹکارا ممکن ہے کیونکہ جس کو قرآن پاک سے شفا حاصل نہ ہو تو پھر اس کو اللہ تعالی شفا کی کوئی راہ نہیں دکھاتا اور جس کے لۓ قرآن پاک کافی نہ ہو اس کی کفایت کہيں بھی ممکن نہیں۔
    یہ آیت مبارکہ قرآن پاک کی شفائی خصوصیات کی طرف رہنمائی کرتی ھے۔ اور کیوں نہ کرے، قرآن پاک کی پہلی ھی سورت ھے جس کا مطلب ھے شفاء دینے والی۔قرآن پاک دنیا کی وہ واحد کتاب ھے جس سے دنیا بھر کے مریضوں کو شفاء حاصل ھوتی ھے۔ بیمار روحیں، سقیم اجسام اور روگی دل اس کی برکت سے شفایاب ھوجاتے ھیں۔ اندھی آنکھیں اس کی مدد سے بینا ھوجاتی ھیں۔ زنگ آلود سینے آئینوں کی مانند چمک اٹھتے ھیں۔ الغرض امراض قدیم سے امراض جدید تک کا علاج اس میں موجود ھے۔ یہ شفاء کاملہ کی ایک ایسی شمع ھے جس کا اجالا ھر گھر اور ھر جگر میں اپنی روشنی بکھیر رھا ھے۔
    اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب ہدایت کو مختلف ناموں سے پکارا، اور قرآن کریم کے یہ تمام نام آیات قرآنی سے ماخوذ ہیں، جس طرح اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ اس کی صفات اور عظمتوں کا عنوان ہیں، اسی طرح اس کے کلام کی خصوصیات اور
    خوبیوں پر دلالت کرنے والے متعدد نام اور القاب تجویز کئے گئے۔ کہیں القرآن کہا، کہیں الفرقان ،کہیں الکتاب سے تعبیر کیا، کہیں حکومت سے، اور کہیں بدی رحمہ کہا۔
    امام جلال الدین سیوطی نے اپنی معروف کتاب الاتقان فی علوم القرآن میں چھپن ناموں کا ذکرکیا، اور یہ سب کے سب قرآن کریم کی مختلف آیات سے ماخوذ ہیں لیکن اس وقت ہماری گفتگو کا جو موضوع ہے، وہ لفظ٫٫ شفا،، ہے۔ قرآن کریم کا ایک نام شفا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ سورة یونس میں ہے:
    يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِّمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ
    . اے لوگو! بیشک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت اور ان (بیماریوں) کی شفاء آگئی ہے جو سینوں میں (پوشیدہ) ہیں اور ہدایت اور اہلِ ایمان کے لئے رحمت (بھی)

    mankind! Surely, there has come to you an admonition from your Lord and a cure for all those (diseases) which are (hidden) in the breasts. And it is guidance and mercy (too) for those who are blessed with faith


    ایک ہی آیت میں قرآن کریم کو چار ناموں سے پکارا گیا، وعظ و نصیحت کہا گیا،شفا کہا گیا، اور ہدایت و رحمت سے تعبیر کیا گیا۔ قرآن حکیم کو کہا گیا شفاء لمانی الصدور، دلوں میں برے کاموں سے جو روگ لگ جاتے ہیں ان کے لئے شفاء ہے۔ شفاء کے معنی بیماری دور ہونے کے ہیں۔ یعنی دلوں کے وہ روگ اور وہ بیماریاں جن کے سبب انسان تمام انسانی اوصاف کھو بیٹھتا ہے، اور حیوانات سے بھی بدتر ہو جاتاہے ۔
    ان سب کا علاج اس میں موجود ہے۔ مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم دلوں کی بیماریوں کا کامیاب علاج اور صحت و شفاء کا نسخہ اکسیر ہے۔ امام حسن البصری فرماتے ہیں کہ قرآن کی اس صفت سے معلوم ہوتا ہے کہ و ہ خاص دلوں کی بیماریوں کے لئے نسخہ شفاء ہے۔ لیکن اکثر مفسرین کا کہنا ہے کہ قرآن کریم ہر بیماری کے لئے شفاء ہے خواہ وہ بیماری قلبی اور روحانی ہو یاجسمانی۔
    مگر روحانی بیماریاں انسان کے لئے جسمانی بیماریوں کی نسبت زیادہ تباہ کن ہوتی ہیں۔بعض اہل تحقیق مفسرین نے کہا ہے کہ: اس آیت میں قرآن کی پہلی صفت وعظمت کا تعلق انسان کے ظاہری اعمال سے ہے جن کو شریعت کہا جاتا ہے، اور شفاء لما فی الصدور کا تعلق انسان کے باطنی اعمال سے ہے جس کو طریقت اور تصوف کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ قرآن نے دل ہی کو حکمت بصارت اور تمام عزائم واعمال کا مرکز اور حقیقی زندگی کا منبع قرار دیا ہے۔
    قلب ہی کے بارے میں جناب رسالت مآب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ انسان کی تمام تر صلاح و فساد کا دارومدار قلب پر ہے،اگر یہ ٹھیک ہو جائے تو پورا جسم انسانی ٹھیک ہو جاتا ہے، اور اگر قلب بگڑ جائے تو پورا انسانی جسم خراب ہو جاتا ہے۔ قرآن کی نظر میں زندہ وہی لوگ ہیں جن کا دل زندہ ہے،اور جنکے دل زندہ نہیں وہ مردوں کی طرح ہیں۔
    بعض روایات اور علمائے امت کے تجربات سے یہ بات ثابت ہے کہ قرآن کریم جس طرح قلبی امراض کے لئے اکسیر عظم ہے اسی طرح وہ جسمانی امراض کا علاج بھی بہتر طریقے سے کرتا ہے۔ حضرت ابو سعید خدری کی روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا ٫ میرے سینے میں تکلیف ہے،،۔
    آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا::٫٫قرآن پاک کی تلاوت کروکیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے شفاء لمافی الصدور،،۔ یعنی قرآن شفاء ہے ان تمام بیماریوں کی جو سینوں میں ہوتی ہیں۔ امام غزالی نے خواص قرآنی کے نام سے ایک مستقل کتاب لکھی ہے جس میں بے شمار علما اور صالحاکے تجربات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کریم میں کی مختلف آیات میں مختلف جسمانی امراض کے لئے شفائے کلی ثابت ہوتی ہے۔


    جاری ہے ۔۔ ۔ ۔
    ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

  • #2
    قارئین کرام یہ تو تھے قرآن و سنت کی روشنی میں قرآنی آیات کہ مبنی بر شفاء ہونے کہ مختصر دلائل اب ہم آتے اپنے دوست کہ اعتراضات کہ جوابات کی طرف ۔ ۔۔ ۔
    ہمارے دوست نے براہ راست قرآن کہ بطور شفاء ہونے کا تو انکار نہیں کیا اور نہ ہی اپنے اعتراضات میں کوئی ٹیکنکل اعتراض کیا ہے جتنے بھی اعتراض کیئے ہیں وہ سب مبنی بر عقل ہیں یعنی ہمارے دوست نے پہلے تو یہ بھی واضح نہیں کیا کہ جو وظائف بہن نے نقل کیے ہیں ان (پر اور انکہ کرنے والے ) پر وہ کیا حکم لگاتے ہیں حرام ، مکروہ یا مکروہ تنزیہی وغیرہ اور نیز یہ کہ ان میں سے کسی بھی حکم کو لگانے میں ان کہ پاس کیا شرعی دلیل ہے وغیرہ وغیرہ ۔ ۔ ۔
    جو اعتراض دوست نے کیے اب ہم ان کو زکر کرکے باری باری ان سب کا جائزہ لیں گے
    Isi wazeefay ko le lo jo zonaish ne pesh kia he. Is tarah ke aur bhi bohat se wazeefay is forum pe post huay hein, unhein le lo. In ki hakeekat kia he? In ka origin kia he? In wazaif ko bananay ka aur implementation ka criteria kia he, aur kis ne kis bunyaad per derive kia? Is ki 7 baar perhnay ki logic kia he ,tu kuch arguments dena chahta he to de. I will be there to have with you "ilmi guftagu"

    تو جناب ان تمام قرآنی وظائف کی حقیقت خود قرآن و سنت ہیں اور ان کا اوریجن خود قرآن ہے ان کو کسی نے نہیں بنایا بلکہ یہ بنے بنائے قرآن پاک میں موجود ہیں اور لاکھوں صلحاء امت نے اپنے اپنے علم اور ذاتی مشاہدات اور تجربات کی روشنی میں جن جن قرآنی آیات کو جن جن امراض میں مفید پایا انکو اپنی اپنی کتابوں میں ذکر کردیا ہے لہزا ان وظائف کو خود سے نہیں بنایا گیا بلکہ خود قرآنی حکم کہ مطابق کہ اس قرآن میں ہر طرح کی شفاء ہے قرآن کا علم رکھنے والوں نے ان وظائف کو قرآن پاک میں سے اخذ کیا ہے اور انکی بنیاد بھی قرآن و سنت ہی ہے رہ گئی بعض مخصوص وظائف کو مخصوص تعداد میں پڑھنے کی بات تو یہ رعایت بھی احادیث کریمہ میں موجود ہے اور ایسی بہت سی احادیث کریمہ ہیں کہ جن میں بعض آیات اور بعض سورتوں کہ خواص کو مخصوص تعداد میں پڑھنے کہ ساتھ نتھی کیا گیا ہے لہزا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انھی احادیث کو مد نظر رکھتے ہوئے بعد کہ زمانہ کہ مفسرین محدثین اور فقہاء اور اولیاء و صلحاء نے اپنے اپنے علم اور ذاتی تجربے اور مشاہدے کی بنیادپر جن جن آیات اور سورتوں کہ جو جو خواص دیکھے وہ اپنی اپنی کتابوں میں نقل کردیئے اور یہ کوئی اچنبے کی بات نہیں کہ جن لوگوں کا اوڑھنا بچھونا ہی کتاب و سنت ہو کیا ہی عجب ہو کہ اللہ پاک نے ان کو اپنی آیات کے خواص کا خصوصی علم نہ بخشا ہو لہزا یہ تمام کہ تمام اوراد و وظائف ان میں سے بعض مسنون ہیں کہ براہ راست احادیث میں انکا زکر آگیا ہے لہزا انکو ہر طرح سے اولیت حاصل ہے اور بعض غیر مسنون ہیں کہ احادیث میں تو انکا زکر نہیں مگر امت لاکھوں صلحاء کرام کے شبانہ روز( قرآن و سنت میں غرق رہنے ) کا نتیجہ ہیں ۔ ۔ ۔۔ اب آخر میں ایک بہت ہی اہم اعتراض کا ازالہ کرتا چلا جاؤں جو کہ ایک مغالطہ ہے اور اصل میں یہی مغالطہ اس قسم کی بحثوں کا موجد بنا کرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہمارے احباب نے یہ سمجھا رکھا ہے کہ جس چیز کا زکر براہ راست قرآن و سنت میں نہ وہ وہ حرام ہوتی ہے یعنی منع ہوتی ہے یا ناجائز ہوتی ہے جبکہ یہ دراصل میں قرآن و سنت کہ اصول سے ناواقفیت اور قلت فہم کا نتیجہ ہے دیکھے عدم زکر کبھی بھی ممانعت کی دلیل نہیں ہوا کرتا یعنی کسی بھی چیز کا قرآن یا سنت میں زکر نہ ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ چیز یا کام بھی حرام ہے بلکہ اصل میں وہ کام یا چیز حرام ہوگی جو کہ قرآن و سنت سے ٹکرائے گی اور یہ اصول بھی خود قرآن و سنت سے ہی اخذ کردہ ہے ۔ ۔۔ دیکھیئے قرآن کریم کی سورہ مائدہ کی پہلی آیت میں ہے کہ ۔ ۔
    يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَوْفُواْ بِالْعُقُودِ أُحِلَّتْ لَكُم بَهِيمَةُ الْأَنْعَامِ إِلاَّ مَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ غَيْرَ مُحِلِّي الصَّيْدِ وَأَنتُمْ حُرُمٌ إِنَّ اللّهَ يَحْكُمُ مَا يُرِيدُ
    اے ایمان والو! (اپنے) عہد پورے کرو۔ تمہارے لئے چوپائے جانور (یعنی مویشی) حلال کر دیئے گئے (ہیں) سوائے ان (جانوروں) کے جن کا بیان تم پر آئندہ کیا جائے گا (لیکن) جب تم اِحرام کی حالت میں ہو، شکار کو حلال نہ سمجھنا۔ بیشک اﷲ جو چاہتا ہے حکم فرماتا ہے


    .


    اب یہاں پر ایک بہت ہی اہم اصول کا بیان ہورہا ہے دیکھیئے اور سمجھیئے غور سے ۔ ۔
    أُحِلَّتْ لَكُم بَهِيمَةُ الْأَنْعَامِ إِلاَّ مَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ
    یعنی ۔ ۔ تمہارے لئے چوپائے جانور (یعنی مویشی) حلال کر دیئے گئے (ہیں) سوائے ان (جانوروں) کے جن کا بیان تم پر آئندہ کیا جائے گا ۔ ۔ ۔ ۔۔ یعنی جب حلال کا زکر کیا اللہ پاک نے تو مطلق رکھا یہ کہہ کر کہ تمہارے لیے چوپائے حلال کردیئے گئے اب اس مطلق سے جتنے بھی چوپائے تھے وہ سب کہ سب حلال ٹھرے یعنی أُحِلَّتْ لَكُم بَهِيمَةُ الْأَنْعَامِ کی مطلقیت سے لیکن پھر اس کہ بعد جب حرام کا تذکرہ آیا تو اللہ پاک نے الا جو کہ حرف استثناء ہے جو کہ کسی نوع کہ کسی فرد کو دوسرے سے جدا کرنے کہ لیے آتا ہے کو زکر کرکے فرمایا کہ إِلاَّ مَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ یعنی سوائے ان کہ جو کہ آگے چل کر تم پر تلاوت کیئے جائیں گے یعنی تمام چوپائے حلال ہوئے اور حرام فقط وہی ٹھرے کہ جن کو آگے چل کر بیان کردیا جائے گا یعنی قرآن و سنت نے کھول کھول کر واضح طور پر بیان کردیا ۔ ۔ ۔ اس آیت سے ہمیں یہ اصول ملا کہ شریعت میں کسی بھی چیز کو حرام یا منع کرنے کہ لیے ہمیشہ سے اسکی دلیل طلب کی جائے گی یعنی منع کرنے والے سے پوچھا جائے گا کہ کہاں پر بیان ہوا کہ فلاں چیز منع یا حرام ہے جیسا کہ اس آیت نے واضح کیا اور پھر بعد والی آیات میں اللہ پاک نے ان چند جانوروں کا زکر کیا جو کہ حرام ہیں یعنی شریعت ہمیشہ حرام اشیاء کی لسٹ فراہم کرتی ہے جبکہ حلال یا وہ چیزیں جو کہ مباح ہیں یعنی نہ حلال نہ حرام انکو (بیان میں ) مطلق رکھتی ہے اب شریعت کی اس میں کیا حکمت ہے وہ تو اللہ پاک ہی بہتر جانتا ہے لیکن ہمارے ناقص زہن میں جو آتی ہے وہ ایک تو یہ کہ شریعت اپنے اندر وسعت رکھنا چاہتی ہے اور آسانیاں پیدا کرنا چاہتی ہے اور دوسرے یہ بھی کہ حرام اشیاء چونکہ مقابلے میں حلال اشیاء کہ بہت کم ہیں اسی لیے شریعت زیادہ تر مقامات پر فقط حرام امور جو کہ تعداد میں بہت کم ہوتے ہیں کا زکر کرکے باقیوں کو مباحات کہ دائرے میں رکھ دیتی ہے اسی لیے شریعت میں مباحات کا دائرہ بہت وسیع ہے ۔ ۔۔ اب آخر میں اتنا عرض کرتا چلوں کہ یاد رکھیں کہ جب کوئی شخص الفاظ قرآنی یا حروف قرآنی سے کسی بیماری کا علاج کرتا ھے تو اس کو رقية (یعنی دم درود یا جھاڑ پھونک یا تعویذ) کہا جاتا ھے۔ یہ رقیّہ قرآن پاک اور حدیث شریف دونوں ھی سے ثابت ھے۔ بلکہ قرآن پاک کی آخری گیارہ آیات (یعنی سورة الفلق اور سورة الناس) کا نزول اور تلاوت ھی یھودیوں کے کئے ھوئے جادو کا توڑ بنا تھا جس سے کوئی مفسّر قران انکار نہیں کرسکتا۔ اگر اب بھی کوئی انکار پر قائم رھے تو اسے سوائے ازلی عناد کے اور کیا کہا جاسکتا ھے! اور وہ جو منع فرمایا گیا ھے وہ صرف کفریہ اور شرکیہ فقروں سے کیا گیا ھے (جو کسی مسلمان سے متصوّر نہیں) کیونکہ ان کی وجہ سے آدمی کا ایمان چلا جاتا ھے نیز کفر اور شرک میں کوئی شفاء نہیں بلکہ یہ تو خود ھی مہلک بیماریاں ھیں۔ جبکہ قرآن پاک کی ایات سے کہیں منع نہیں فرمایا گیا۔ اور منع بھی کیوں فرمایا جاتا جبکہ اس میں شفاء خود خدائے بزرگ و برتر نے رکھی ھے اور ببانگ دہل فرمایا گیا ھے کہ وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآَنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ۔ (اور ہم قرآن میں اتارتے ہیں وہ چیز جو ایمان والوں کے لیے شفا اور رحمت ہے)

    جب یہ بات ثابت ھوگئی کہ الفاظ قرآنی یا حروف قرآنی میں امراض کی شفاء موجود ھے تو ھر جائز طریقے سے کیا گیا رقیّہ جائز ھوگا۔ اس کی چند صورتیں ذیل میں دی گئی ھیں۔
    آیات قرآنی پڑھ کر مریض (یا آسیب زدہ) پر پھونک ماردینا۔
    آیات قرآنی پڑھ کر پانی یا کسی اور حلال اور پاک اور طیّب شئے (مثلا کھانے وغیرہ) پر دم کردینا۔
    آیات قرآنی کسی کاغذ وغیرہ پر (بتاکید ادب) لکھ کر دینا۔
    آیات قرآنی کو نقوش کی صورت میں لکھ کر دینا۔
    مریض (یا آسیب زدہ) کو حسب بیماری کوئی آیت وغیرہ خاص تعداد میں ورد کیلئے دے دینا۔
    یا اوپر بتائے گئے طریقوں میں سے ایک سے زائد طریقے پر عمل کرنا۔
    اوپر بتائے گئے پہلے دو طریقوں کو دم کرنا کہا جاتا ھے۔ دوسرے دو طریقوں کو تعویذ کہا جاتا ھے اور پانچواں طریقہ ورد و وظائف کے ذریعے علاج کہلاتا ھے۔ یہ سب طریقے جائز ھیں اور صدیوں سے مسلمان اکابرین ان پر عمل کرتے آئے ھیں اور آج بھی عمل کر رھے ھیں۔ بلکہ انہوں نے تو اس علم پر مستقل کتابیں لکھ کر امّت مصطفی پر بڑا احسان کیا ھے۔ یاد رکھیں کہ اوپر بتائے گئے اعمال میں سے کوئی سا بھی عمل کسی بھی طرح سے کسی بھی وقت شرک میں داخل نہیں ھوتا کیونکہ شرک کسی غیر خدا کو خدائی کا مقام دینے کا نام ھے جبکہ دم درود میں تو خود اللہ وحدہ لاشریک کے مقدّس کلام سے استفادہ کیا جاتا ھے، کلام الہی کا شرک سے کیا واسطہ۔ یہ تو خود شرک کی جڑیں ھمیشہ کیلئے کاٹنے کیلئے نازل ھوا ھے۔ اب کسی عقل کے اندھے کو کلام الہی میں ھی شرک دکھائی دے تو اس میں کلام الہی کا کوئی قصور نہیں۔ قصور ھے تو ان آنکھوں کا ھے جن پر شرک کی عینک چڑھی ھوئی ھے یا اس بری عقل ناقص کا ھے جس پر مسلمانوں کو ھر صورت مشرک بنانے کا بھوت سوار ھے۔ خدا ایسے فضول جنون سے ھمیں اپنی پناہ میں رکھے۔ آمین!
    علم رقیّہ ایک مشکل علم ھے جو کسی استاد کے بغیر حاصل نہیں ھوتا۔ اسے سیکھنے کیلئے ایک حدیث شریف ضرور مدّ نظر رکھیں کہ

    ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

    Comment


    • #3
      Originally posted by aabi2cool View Post
      اسلام علیکم قارئین کرام


      اور قرآن پاک تمام جسمانی و روحانی امراض کے لۓ باعث شفا ہے اللہ تعالی قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے۔

      اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس بھی کسی بیماری یا مشکل میں قرآن پاک سے رجوع کیا جاۓ گا۔ اللہ تعالی بیماری میں شفا نصیب فرماۓ گا اور مشکل آسان کر دے گا قرآن پاک میں ہر بیماری کا شافی علاج موجود ہے قرآن پاک کی بہت سی سورتیں اور آیات مبارکہ امراض کو رفع کرنے کے لۓ اپنا شافی اثر دکھاتی ہیں۔ ہمارا اس بات پر پختہ اور کامل یقین ہونا چاہۓ کہ قرآن پاک کی مبارک آیات سے بیماریوں کا شافی علاج ممکن ہے ۔
      قرآن پاک سے شفا حاصل کرنے کے لۓ صداقت و ایمان کامل خالص جذبہ اور پختہ اعتقاد ہونا ضروری ہے تب ہی بیماریوں سے چھٹکارا ممکن ہے کیونکہ جس کو قرآن پاک سے شفا حاصل نہ ہو تو پھر اس کو اللہ تعالی شفا کی کوئی راہ نہیں دکھاتا اور جس کے لۓ قرآن پاک کافی نہ ہو اس کی کفایت کہيں بھی ممکن نہیں۔


      . اے لوگو! بیشک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت اور ان (بیماریوں) کی شفاء آگئی ہے جو سینوں میں (پوشیدہ) ہیں اور ہدایت اور اہلِ ایمان کے لئے رحمت (بھی)





      بعض روایات اور علمائے امت کے تجربات سے یہ بات ثابت ہے کہ قرآن کریم جس طرح قلبی امراض کے لئے اکسیر عظم ہے اسی طرح وہ جسمانی امراض کا علاج بھی بہتر طریقے سے کرتا ہے۔ حضرت ابو سعید خدری کی روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا ٫ میرے سینے میں تکلیف ہے،،۔
      آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا::٫٫قرآن پاک کی تلاوت کروکیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے شفاء لمافی الصدور،،۔ یعنی قرآن شفاء ہے ان تمام بیماریوں کی جو سینوں میں ہوتی ہیں۔ امام غزالی نے خواص قرآنی کے نام سے ایک مستقل کتاب لکھی ہے جس میں بے شمار علما اور صالحاکے تجربات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کریم میں کی مختلف آیات میں مختلف جسمانی امراض کے لئے شفائے کلی ثابت ہوتی ہے۔


      جاری ہے ۔۔ ۔ ۔
      waalikum asslam

      :jazak:
      Last edited by saraah; 24 April 2009, 16:04.
      شاہ حسین جیہناں سچ پچھاتا' کامل عِشق تیہناں دا جاتا

      Comment


      • #4
        Originally posted by aabi2cool View Post
        بعض مخصوص وظائف کو مخصوص تعداد میں پڑھنے کی بات تو یہ رعایت بھی احادیث کریمہ میں موجود ہے اور یہ کوئی اچنبے کی بات نہیں کہ جن لوگوں کا اوڑھنا بچھونا ہی کتاب و سنت ہو کیا ہی عجب ہو کہ اللہ پاک نے ان کو اپنی آیات کے خواص کا خصوصی علم نہ بخشا ہو لہزا یہ تمام کہ تمام اوراد و وظائف ان میں سے بعض مسنون ہیں کہ براہ راست احادیث میں انکا زکر آگیا ہے لہزا انکو ہر طرح سے اولیت حاصل ہے اور بعض غیر مسنون ہیں کہ احادیث میں تو انکا زکر نہیں مگر امت لاکھوں صلحاء کرام کے شبانہ روز( قرآن و سنت میں غرق رہنے ) کا نتیجہ ہیں ۔ ۔ دیکھے عدم زکر کبھی بھی ممانعت کی دلیل نہیں ہوا کرتا یعنی کسی بھی چیز کا قرآن یا سنت میں زکر نہ ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ چیز یا کام بھی حرام ہے بلکہ اصل میں وہ کام یا چیز حرام ہوگی جو کہ قرآن و سنت سے ٹکرائے گی اور یہ اصول بھی خود قرآن و سنت سے ہی اخذ کردہ ہے ۔ ۔۔
        اب یہاں پر ایک بہت ہی اہم اصول کا بیان ہورہا ہے دیکھیئے اور سمجھیئے غور سے ۔ ۔
        أُحِلَّتْ لَكُم بَهِيمَةُ الْأَنْعَامِ إِلاَّ مَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ ۔ ۔۔ اب آخر میں اتنا عرض کرتا چلوں کہ یاد رکھیں کہ جب کوئی شخص الفاظ قرآنی یا حروف قرآنی سے کسی بیماری کا علاج کرتا ھے تو اس کو رقية (یعنی دم درود یا جھاڑ پھونک یا تعویذ) کہا جاتا ھے۔ یہ رقیّہ قرآن پاک اور حدیث شریف دونوں ھی سے ثابت ھے۔ بلکہ قرآن پاک کی آخری گیارہ آیات (یعنی سورة الفلق اور سورة الناس) کا نزول اور تلاوت ھی یھودیوں کے کئے ھوئے جادو کا توڑ بنا تھا جس سے کوئی مفسّر قران انکار نہیں کرسکتا۔ اگر اب بھی کوئی انکار پر قائم رھے تو اسے سوائے ازلی عناد کے اور کیا کہا جاسکتا ھے! اور وہ جو منع فرمایا گیا ھے وہ صرف کفریہ اور شرکیہ فقروں سے کیا گیا ھے (جو کسی مسلمان سے متصوّر نہیں) کیونکہ ان کی وجہ سے آدمی کا ایمان چلا جاتا ھے نیز کفر اور شرک میں کوئی شفاء نہیں بلکہ یہ تو خود ھی مہلک بیماریاں ھیں۔ جبکہ قرآن پاک کی ایات سے کہیں منع نہیں فرمایا گیا۔ اور منع بھی کیوں فرمایا جاتا جبکہ اس میں شفاء خود خدائے بزرگ و برتر نے رکھی ھے اور ببانگ دہل فرمایا گیا ھے کہ وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآَنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ۔ (اور ہم قرآن میں اتارتے ہیں وہ چیز جو ایمان والوں کے لیے شفا اور رحمت ہے)


        جب یہ بات ثابت ھوگئی کہ الفاظ قرآنی یا حروف قرآنی میں امراض کی شفاء موجود ھے تو ھر جائز طریقے سے کیا گیا رقیّہ جائز ھوگا۔ اس کی چند صورتیں ذیل میں دی گئی ھیں۔
        آیات قرآنی پڑھ کر مریض (یا آسیب زدہ) پر پھونک ماردینا۔
        آیات قرآنی پڑھ کر پانی یا کسی اور حلال اور پاک اور طیّب شئے (مثلا کھانے وغیرہ) پر دم کردینا۔
        آیات قرآنی کسی کاغذ وغیرہ پر (بتاکید ادب) لکھ کر دینا۔
        آیات قرآنی کو نقوش کی صورت میں لکھ کر دینا۔
        مریض (یا آسیب زدہ) کو حسب بیماری کوئی آیت وغیرہ خاص تعداد میں ورد کیلئے دے دینا۔
        یا اوپر بتائے گئے طریقوں میں سے ایک سے زائد طریقے پر عمل کرنا۔
        اوپر بتائے گئے پہلے دو طریقوں کو دم کرنا کہا جاتا ھے۔ دوسرے دو طریقوں کو تعویذ کہا جاتا ھے اور پانچواں طریقہ ورد و وظائف کے ذریعے علاج کہلاتا ھے۔ یہ سب طریقے جائز ھیں اور صدیوں سے مسلمان اکابرین ان پر عمل کرتے آئے ھیں اور آج بھی عمل کر رھے ھیں۔ ہ

        :jazak:
        شاہ حسین جیہناں سچ پچھاتا' کامل عِشق تیہناں دا جاتا

        Comment

        Working...
        X