اسلام علیکم قارئین کرام
چند دن پہلے ہماری ایک سسٹر (زونش) نے قرِآنی آیات پر مبنی وظائف کا سلسلہ شروع کیا جس پر ہمارے ایک دیرینہ دوست کو اعتراض ہوا کہ یہ ناجائز ہیں ۔ پہلے تو ہم نے انھے سمجھانے کی بہت کوشش کی باز رہیں جس چیز کا انسان کو علم (بصورت ادراک) نہ ہو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اس کہ وجود سے ہی انکار کردیا جائے مگر کیا کریں کہ ہمارے دوست بھی دیرینہ ہیں اور یہ مسئلہ بھی دیرینہ ہے لہزا ہم نے بہت سوچنے سمجھنے کہ بعد اس موضوع پر قلم اٹھانے کا فیصلہ کرلیا اگرچہ کہ ہمیں اپنی علمی بے بضاعتی کا حقیقی ادراک بھی ہے مگر تاہم قرِآن و سنت سے اس مسئلہ پر کسی قدر روشنی ڈالنے کی اپنی سی کوشش کریں گے ۔ ۔ ۔ ۔
تخلیق کائنات کے ابتدائی مراحل سے لے کرانسان کی پیدائش تک، اللہ تعالی نے انسان کے لئے جو کچھ پیدا کیا ہے وہ انسان کی فلاح وبہبود اور نفع رسانی کے لئے پیدا کیا، پھر انسان کو بے شمار ظاہری اور باطنی، جسمانی اور روحانی نعمتیں عطا کیں لیکن ان تمام نعمتوں میں سے سب سے بڑی نعمت اور سب سے بڑا انعام واکرام رشدو ہدایت کا وہ نظام ہے جو رسولوں کی بعثت اور آسمانی صحیفوں کے ذریعے قائم کیا۔اور پھر ان میں بھی سب سے بڑی نعمت عظمٰی خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود مسعود جو کہ سراپا رحمت ہیں اور پھر انکو جو کتاب ملی یعنی قرآن وہ بھی مومنوں کہ لیے شفاء اور رحمت ہے ۔اللہ تعالی نے ہر بیماری کے لۓ شفا نازل فرمائی ہے اور قرآن پاک تمام جسمانی و روحانی امراض کے لۓ باعث شفا ہے اللہ تعالی قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے۔
قرآن پاک میں ارشاد باری تعالٰی ہے کہ ۔ ۔ ۔
وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ وَلاَ يَزِيدُ الظَّالِمِينَ إِلاَّ خَسَارًا
اور ہم قرآن میں وہ چیز نازل فرما رہے ہیں جو ایمان والوں کے لئے شفاء اور رحمت ہے اور ظالموں کے لئے تو صرف نقصان ہی میں اضافہ کر رہا ہے
چند دن پہلے ہماری ایک سسٹر (زونش) نے قرِآنی آیات پر مبنی وظائف کا سلسلہ شروع کیا جس پر ہمارے ایک دیرینہ دوست کو اعتراض ہوا کہ یہ ناجائز ہیں ۔ پہلے تو ہم نے انھے سمجھانے کی بہت کوشش کی باز رہیں جس چیز کا انسان کو علم (بصورت ادراک) نہ ہو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اس کہ وجود سے ہی انکار کردیا جائے مگر کیا کریں کہ ہمارے دوست بھی دیرینہ ہیں اور یہ مسئلہ بھی دیرینہ ہے لہزا ہم نے بہت سوچنے سمجھنے کہ بعد اس موضوع پر قلم اٹھانے کا فیصلہ کرلیا اگرچہ کہ ہمیں اپنی علمی بے بضاعتی کا حقیقی ادراک بھی ہے مگر تاہم قرِآن و سنت سے اس مسئلہ پر کسی قدر روشنی ڈالنے کی اپنی سی کوشش کریں گے ۔ ۔ ۔ ۔
تخلیق کائنات کے ابتدائی مراحل سے لے کرانسان کی پیدائش تک، اللہ تعالی نے انسان کے لئے جو کچھ پیدا کیا ہے وہ انسان کی فلاح وبہبود اور نفع رسانی کے لئے پیدا کیا، پھر انسان کو بے شمار ظاہری اور باطنی، جسمانی اور روحانی نعمتیں عطا کیں لیکن ان تمام نعمتوں میں سے سب سے بڑی نعمت اور سب سے بڑا انعام واکرام رشدو ہدایت کا وہ نظام ہے جو رسولوں کی بعثت اور آسمانی صحیفوں کے ذریعے قائم کیا۔اور پھر ان میں بھی سب سے بڑی نعمت عظمٰی خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود مسعود جو کہ سراپا رحمت ہیں اور پھر انکو جو کتاب ملی یعنی قرآن وہ بھی مومنوں کہ لیے شفاء اور رحمت ہے ۔اللہ تعالی نے ہر بیماری کے لۓ شفا نازل فرمائی ہے اور قرآن پاک تمام جسمانی و روحانی امراض کے لۓ باعث شفا ہے اللہ تعالی قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے۔
قرآن پاک میں ارشاد باری تعالٰی ہے کہ ۔ ۔ ۔
وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ وَلاَ يَزِيدُ الظَّالِمِينَ إِلاَّ خَسَارًا
اور ہم قرآن میں وہ چیز نازل فرما رہے ہیں جو ایمان والوں کے لئے شفاء اور رحمت ہے اور ظالموں کے لئے تو صرف نقصان ہی میں اضافہ کر رہا ہے
.
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس بھی کسی بیماری یا مشکل میں قرآن پاک سے رجوع کیا جاۓ گا۔ اللہ تعالی بیماری میں شفا نصیب فرماۓ گا اور مشکل آسان کر دے گا قرآن پاک میں ہر بیماری کا شافی علاج موجود ہے قرآن پاک کی بہت سی سورتیں اور آیات مبارکہ امراض کو رفع کرنے کے لۓ اپنا شافی اثر دکھاتی ہیں۔ ہمارا اس بات پر پختہ اور کامل یقین ہونا چاہۓ کہ قرآن پاک کی مبارک آیات سے بیماریوں کا شافی علاج ممکن ہے ۔
قرآن پاک سے شفا حاصل کرنے کے لۓ صداقت و ایمان کامل خالص جذبہ اور پختہ اعتقاد ہونا ضروری ہے تب ہی بیماریوں سے چھٹکارا ممکن ہے کیونکہ جس کو قرآن پاک سے شفا حاصل نہ ہو تو پھر اس کو اللہ تعالی شفا کی کوئی راہ نہیں دکھاتا اور جس کے لۓ قرآن پاک کافی نہ ہو اس کی کفایت کہيں بھی ممکن نہیں۔
یہ آیت مبارکہ قرآن پاک کی شفائی خصوصیات کی طرف رہنمائی کرتی ھے۔ اور کیوں نہ کرے، قرآن پاک کی پہلی ھی سورت ھے جس کا مطلب ھے شفاء دینے والی۔قرآن پاک دنیا کی وہ واحد کتاب ھے جس سے دنیا بھر کے مریضوں کو شفاء حاصل ھوتی ھے۔ بیمار روحیں، سقیم اجسام اور روگی دل اس کی برکت سے شفایاب ھوجاتے ھیں۔ اندھی آنکھیں اس کی مدد سے بینا ھوجاتی ھیں۔ زنگ آلود سینے آئینوں کی مانند چمک اٹھتے ھیں۔ الغرض امراض قدیم سے امراض جدید تک کا علاج اس میں موجود ھے۔ یہ شفاء کاملہ کی ایک ایسی شمع ھے جس کا اجالا ھر گھر اور ھر جگر میں اپنی روشنی بکھیر رھا ھے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب ہدایت کو مختلف ناموں سے پکارا، اور قرآن کریم کے یہ تمام نام آیات قرآنی سے ماخوذ ہیں، جس طرح اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ اس کی صفات اور عظمتوں کا عنوان ہیں، اسی طرح اس کے کلام کی خصوصیات اور
خوبیوں پر دلالت کرنے والے متعدد نام اور القاب تجویز کئے گئے۔ کہیں القرآن کہا، کہیں الفرقان ،کہیں الکتاب سے تعبیر کیا، کہیں حکومت سے، اور کہیں بدی رحمہ کہا۔
امام جلال الدین سیوطی نے اپنی معروف کتاب الاتقان فی علوم القرآن میں چھپن ناموں کا ذکرکیا، اور یہ سب کے سب قرآن کریم کی مختلف آیات سے ماخوذ ہیں لیکن اس وقت ہماری گفتگو کا جو موضوع ہے، وہ لفظ٫٫ شفا،، ہے۔ قرآن کریم کا ایک نام شفا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ سورة یونس میں ہے:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِّمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ
. اے لوگو! بیشک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت اور ان (بیماریوں) کی شفاء آگئی ہے جو سینوں میں (پوشیدہ) ہیں اور ہدایت اور اہلِ ایمان کے لئے رحمت (بھی)
mankind! Surely, there has come to you an admonition from your Lord and a cure for all those (diseases) which are (hidden) in the breasts. And it is guidance and mercy (too) for those who are blessed with faith
ایک ہی آیت میں قرآن کریم کو چار ناموں سے پکارا گیا، وعظ و نصیحت کہا گیا،شفا کہا گیا، اور ہدایت و رحمت سے تعبیر کیا گیا۔ قرآن حکیم کو کہا گیا شفاء لمانی الصدور، دلوں میں برے کاموں سے جو روگ لگ جاتے ہیں ان کے لئے شفاء ہے۔ شفاء کے معنی بیماری دور ہونے کے ہیں۔ یعنی دلوں کے وہ روگ اور وہ بیماریاں جن کے سبب انسان تمام انسانی اوصاف کھو بیٹھتا ہے، اور حیوانات سے بھی بدتر ہو جاتاہے ۔
ان سب کا علاج اس میں موجود ہے۔ مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم دلوں کی بیماریوں کا کامیاب علاج اور صحت و شفاء کا نسخہ اکسیر ہے۔ امام حسن البصری فرماتے ہیں کہ قرآن کی اس صفت سے معلوم ہوتا ہے کہ و ہ خاص دلوں کی بیماریوں کے لئے نسخہ شفاء ہے۔ لیکن اکثر مفسرین کا کہنا ہے کہ قرآن کریم ہر بیماری کے لئے شفاء ہے خواہ وہ بیماری قلبی اور روحانی ہو یاجسمانی۔
مگر روحانی بیماریاں انسان کے لئے جسمانی بیماریوں کی نسبت زیادہ تباہ کن ہوتی ہیں۔بعض اہل تحقیق مفسرین نے کہا ہے کہ: اس آیت میں قرآن کی پہلی صفت وعظمت کا تعلق انسان کے ظاہری اعمال سے ہے جن کو شریعت کہا جاتا ہے، اور شفاء لما فی الصدور کا تعلق انسان کے باطنی اعمال سے ہے جس کو طریقت اور تصوف کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ قرآن نے دل ہی کو حکمت بصارت اور تمام عزائم واعمال کا مرکز اور حقیقی زندگی کا منبع قرار دیا ہے۔
قلب ہی کے بارے میں جناب رسالت مآب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ انسان کی تمام تر صلاح و فساد کا دارومدار قلب پر ہے،اگر یہ ٹھیک ہو جائے تو پورا جسم انسانی ٹھیک ہو جاتا ہے، اور اگر قلب بگڑ جائے تو پورا انسانی جسم خراب ہو جاتا ہے۔ قرآن کی نظر میں زندہ وہی لوگ ہیں جن کا دل زندہ ہے،اور جنکے دل زندہ نہیں وہ مردوں کی طرح ہیں۔
بعض روایات اور علمائے امت کے تجربات سے یہ بات ثابت ہے کہ قرآن کریم جس طرح قلبی امراض کے لئے اکسیر عظم ہے اسی طرح وہ جسمانی امراض کا علاج بھی بہتر طریقے سے کرتا ہے۔ حضرت ابو سعید خدری کی روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا ٫ میرے سینے میں تکلیف ہے،،۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا::٫٫قرآن پاک کی تلاوت کروکیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے شفاء لمافی الصدور،،۔ یعنی قرآن شفاء ہے ان تمام بیماریوں کی جو سینوں میں ہوتی ہیں۔ امام غزالی نے خواص قرآنی کے نام سے ایک مستقل کتاب لکھی ہے جس میں بے شمار علما اور صالحاکے تجربات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کریم میں کی مختلف آیات میں مختلف جسمانی امراض کے لئے شفائے کلی ثابت ہوتی ہے۔
جاری ہے ۔۔ ۔ ۔
Comment