ماہ ربیع الاول (المعروف ربیع النور ) کی مناسبت سے علامہ اقبال علیہ رحمہ کہ درس عشق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کی چند جھلکیاں ۔ ۔ ۔ ۔
یہ حقیقت کہ صوفیاء کی تعلیم اور ان کا فکر عشقِ رِسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کس قدر لبریز ہے کسی بھی اہل علم سے مخفی نہیں۔ عشقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لبریز اسی فکر کی نشاندہی کرتے ہوئے
علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
ہر کہ عشقِ مصطفیٰ سامانِ اوست
بحر و بر دَر گوشۂ دامانِ اوست
محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عشق جس نے اپنا سامان (زادِ راہ) بنا لیا، یہ بحری و برّی کائنات اس کے زیرنگیں آگئی۔
بحر و بر دَر گوشۂ دامانِ اوست
محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عشق جس نے اپنا سامان (زادِ راہ) بنا لیا، یہ بحری و برّی کائنات اس کے زیرنگیں آگئی۔
ایک اور مقام پر بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اس طرح عرض پرداز ہیں کہ عشق و مستی کے ہزاروں قلزم ایک شعر میں محصور نظر آتے ہیں :
ذِکر و فکر و علم و عرفانم توئی
کشتی و دریا و طوفانم توئی
حضور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے ذِکر و فکر اور علم و معرفتِ اِلٰہی کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ دریا اور اس کی طوفانی موجیں، بھی آپ ہیں اور ساحلِ مراد تک پہنچانے والی کشتی بھی آپ ہیں۔
کشتی و دریا و طوفانم توئی
حضور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے ذِکر و فکر اور علم و معرفتِ اِلٰہی کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ دریا اور اس کی طوفانی موجیں، بھی آپ ہیں اور ساحلِ مراد تک پہنچانے والی کشتی بھی آپ ہیں۔
اِسی حقیقت کو اُردو میں علامہ نے اِس طرح دہرایا ہے :
نگاہِ عشق و مستی میں وہی اَوّل، وہی آخر
وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یٰسیں، وہی طٰہٰ
ایک اور مقام پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ عشقِ رِسالت کا درس کیف و مستی کی عجیب کیفیت میں ڈوب کر دیتے ہیں :
معنیء حرفم کنی تحقیق اگر
بنگری بادیدۂ صدیق اگر
قوت قلب و جگر گردد نبی
از خدا محبوب تر گردد نبی
بنگری بادیدۂ صدیق اگر
قوت قلب و جگر گردد نبی
از خدا محبوب تر گردد نبی
میرے اشعار کے معنی و مفہوم کو اگر تو تحقیق کی نظر سے دیکھنا چاہتا ہے تو اس کے لئے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی آنکھ چاہیے۔ اگر یہ میسر آ جائے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی سے دِل و جگر کو تقویت یعنی حوصلہ ملتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا سے زیادہ محبوب ہو جاتے ہیں۔
ایک اور مقام پر علامہ نے کہا :
خاکِ یثرب اَز دو عالم خوشتر است
اے خنک شہرے کہ آنجا دلبر است
اے خنک شہرے کہ آنجا دلبر است
یثرب یعنی مدینہ منورہ کی سر زمیں دُنیا جہان کے ہر مقام سے زیادہ اچھی ہے اور وہ شہر کیوں نہ اچھا ہو جہاں محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مسکن ہے۔
نسخۂ کونین را دیباجہ اوست
جملہ عالم بندگان و خواجہ اوست
نسخۂ کونین را دیباجہ اوست
جملہ عالم بندگان و خواجہ اوست
حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کتابِ کونین کا دیباچہ یعنی حرفِ آغاز ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کائنات کے آقا اور باقی سب غلام ہیں۔
علامہ کی دربارِ رِسالت میں درج ذیل اِلتجا بھی اِسی سبق کی آئینہ دار ہے :
مسلماں آں فقیرِ کج کلاہے
رمید از سینۂ اُو سوزِ آہے
دلش نالد! چرا نالد؟ نداند
نگاہے یا رسول اﷲ نگاہے!
رمید از سینۂ اُو سوزِ آہے
دلش نالد! چرا نالد؟ نداند
نگاہے یا رسول اﷲ نگاہے!
مسلمان وہ کجکلاہ فقیر ہے جو کسی کو خاطر میں نہیں لاتا مگر اس کے سینے سے آہِ سوزناک نکل گئی ہے۔ اس کا دِل فرطِ اضطراب سے نالہ کناں ہے اور وہ یہ نہیں جانتا کہ وہ دل) کیوں رو رہا ہے۔)
نہ صرف یہ کہ علامہ نے اُمتِ محمدیہ علیٰ صاحبھا الصلوٰۃ و السلام کو ذاتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے والہانہ عشق کا پیغام دیا بلکہ اسی عشق رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ملت اسلامیہ کی بقا و دوام کا راز بھی قرار دیا اور یہی وہ انقلاب انگیز قوت تھی جس سے سامراجی و طاغوتی طاقتیں خائف تھیں۔ آپ فرماتے ہیں :
لَانَبِیّ بَعْدِی ز اِحسانِ خدا است
پردۂ ناموسِ دینِ مصطفیٰ است
قوم را سرمایۂ قوت ازو
حفظِ سرِّ وحدتِ ملّت ازو
پردۂ ناموسِ دینِ مصطفیٰ است
قوم را سرمایۂ قوت ازو
حفظِ سرِّ وحدتِ ملّت ازو
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی نبی کا نہ آنا اﷲ تعالیٰ کا ہم پر احسان ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت ہماری عزت و ناموس کی محافظ ہے۔ اس قوت سے قوم مسلم کی شیرازہ بندی ہوتی ہے اور یہی ملی اتحاد و یکجہتی کا راز ہے۔
علامہ اُمتِ مسلمہ کو چراغِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پروانہ قرار دیتے ہوئے دیگر مقامات پر کہتے ہیں :
از رسالت ہم نوا گشتیم ما
ہم نفس ہم مدعا گشتیم ما
تانہ ایں وحدت زدستِ ما رود
ھستیء ما با ابد ہمدم شود
ہم نفس ہم مدعا گشتیم ما
تانہ ایں وحدت زدستِ ما رود
ھستیء ما با ابد ہمدم شود
رسالتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیضان سے ہم ایک دوسرے کے ہم نوا (ہم آواز) بن گئے اور ہمارا مقصودِ حیات ایک ہی ہو گیا ہے۔
اُمتے از ما سوا بیگانۂ
بر چراغِ مصطفیٰ (ص) پروانۂ
اُمتے از ما سوا بیگانۂ
بر چراغِ مصطفیٰ (ص) پروانۂ
اُمت مسلمہ غیر اﷲ سے کوئی سروکار نہیں رکھتی اور چراغِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پروانہ وار فدا ہونے کا جذبہ رکھتی ہے۔
تا شعار مصطفیٰ از دست رفت
قوم را رمزِ بقا از دست رفت
تا شعار مصطفیٰ از دست رفت
قوم را رمزِ بقا از دست رفت
جب سے یہ اُمت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوۂ مبارکہ کا دامن ہاتھ سے چھوڑ گئی ہے وہ اس بات سے بھی غافل ہے کہ قومی بقاء و سلامتی کا راز کیا ہے۔
زوال اسلام کے اس دور میں جب اقبال رحمۃ اللہ علیہ ملت اسلامیہ کے عروق مردہ میں عشق مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیغام کے ذریعے نئی روح پھونک کر اسے تباہی و ہلاکت سے بچانے کی فکر میں تھے، اسلام دشمن استعماری طاقتیں منظم ہو کر مسلمانوں کے دلوں سے اسی عشق رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جذبے کو نکالنے کی علمی، فکری اور عملی تدبیریں کر رہی تھیں۔ انہیں معلوم تھا کہ اگر مسلمانوں کے دل محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جذبہ عشق و محبت سے خالی ہو گئے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت انہیں اپنی کھوئی ہوئی عظمت واپس دلا سکتی ہے نہ اِصلاح و تجدید کی تحریکیں انہیں اپنی منزلِ مراد تک پہنچا سکتی ہیں۔ یہ محض ایک مفروضہ یا خیال خام نہیں بلکہ ایک روشن حقیقت ہے۔ مغربی استعمار کی اسی سازش کی طرف علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اشارہ فرماتے ہوئے کہا تھا :
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روحِ محمد اس کے بدن سے نکال دو
فکرِ عرب کو دے کے فرنگی تخیلات
اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو
روحِ محمد اس کے بدن سے نکال دو
فکرِ عرب کو دے کے فرنگی تخیلات
اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو
چنانچہ اسی مقصد کے تحت مغربی سامراج نے ایک طرف مسلمانوں کے اندر ایسے فرقہ وارانہ علمی مباحث کی سرکاری سطح پر حوصلہ افزائی شروع کی جن کا ہدف زیادہ تر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و ادب اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و کمالات کا اِنکار تھا تاکہ امت میں اہانت رسالت اور گستاخی نبوت کا فتنہ پیدا ہو۔ دوسری طرف یہ فکری میدان اسلامی تحقیق کے نام پر متعصب یہودی اور عیسائی مستشرقین کے سپرد کر دیا گیا جنہوں نے اسلام کی تعلیمات اور بانی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت اور سیرت پر اس انداز سے کتب تصنیف کیں کہ اگر ایک خالی الذہن سادہ مسلمان ان تصانیف کا مطالعہ کرتا ہے تو اس کا ذہن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اور تعلیمات کے بارے میں طرح طرح کے شکوک و شبہات کا شکار ہو جاتا ہے۔ چنانچہ ان کتابوں کے باقاعدہ مطالعہ سے جو ذہن تشکیل پاتا ہے اسے عشق و ادب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تصور سے دور کا بھی واسطہ نہیں رہتا۔ اس طرح مسلمانوں کے ذہنوں کو ہر دو طرح مسموم کرنے کا کام آج تک ہو رہا ہے۔
ہماری بدقسمتی کہ بعض مسلم مفکرین کے ہاتھوں بھی نادانستہ یہی کام سرانجام پانے لگا۔ وہ اس طرح کہ جب دورِ جدید میں مسائلِ حیات بدلے اور نئے نئے تقاضوں نے جنم لیا تو کئی مسلم مفکرین نے اسلام کی تعلیمات اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ کے مختلف گوشوں کو اس انداز سے پیش کرنا شروع کیا کہ عصر حاضر کے چیلنج کا مقابلہ کیا جاسکے۔ ہر چند کہ یہ علمی کوششیں نہ صرف درست تھیں بلکہ تقاضائے وقت کے پیش نظر ضروری تھیں، ان مفکرین کے سامنے مسلمانوں کو درپیش مسئلے کا محض ایک رخ رہا، دوسرا نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مقدس شخصیت کے دو پہلو ہیں جو اپنی اپنی جگہ علیحدہ اور مستقل بھی ہیں اور باہم لازم و ملزوم بھی۔ ان میں سے کسی ایک پہلو کو بھی نظرانداز کرنا اسلام کے لئے سخت نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
ماخوذ از : کتاب مطالعۂ سیرت کے بنیادی اصول ازعلامہ پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری
ماخوذ از : کتاب مطالعۂ سیرت کے بنیادی اصول ازعلامہ پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری
Comment