Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

! اقبال علیہ رحمہ اور عشق مصطفٰی صلی اللہ عل

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • ! اقبال علیہ رحمہ اور عشق مصطفٰی صلی اللہ عل

    ماہ ربیع الاول (المعروف ربیع النور ) کی مناسبت سے علامہ اقبال علیہ رحمہ کہ درس عشق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کی چند جھلکیاں ۔ ۔ ۔ ۔



    یہ حقیقت کہ صوفیاء کی تعلیم اور ان کا فکر عشقِ رِسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کس قدر لبریز ہے کسی بھی اہل علم سے مخفی نہیں۔ عشقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لبریز اسی فکر کی نشاندہی کرتے ہوئے

    علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
    ہر کہ عشقِ مصطفیٰ سامانِ اوست

    بحر و بر دَر گوشۂ دامانِ اوست

    محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عشق جس نے اپنا سامان (زادِ راہ) بنا لیا، یہ بحری و برّی کائنات اس کے زیرنگیں آگئی۔

    ایک اور مقام پر بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اس طرح عرض پرداز ہیں کہ عشق و مستی کے ہزاروں قلزم ایک شعر میں محصور نظر آتے ہیں :
    ذِکر و فکر و علم و عرفانم توئی

    کشتی و دریا و طوفانم توئی

    حضور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے ذِکر و فکر اور علم و معرفتِ اِلٰہی کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ دریا اور اس کی طوفانی موجیں، بھی آپ ہیں اور ساحلِ مراد تک پہنچانے والی کشتی بھی آپ ہیں۔

    اِسی حقیقت کو اُردو میں علامہ نے اِس طرح دہرایا ہے :
    نگاہِ عشق و مستی میں وہی اَوّل، وہی آخر

    وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یٰسیں، وہی طٰہٰ


    ایک اور مقام پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ عشقِ رِسالت کا درس کیف و مستی کی عجیب کیفیت میں ڈوب کر دیتے ہیں :
    معنیء حرفم کنی تحقیق اگر

    بنگری بادیدۂ صدیق اگر
    قوت قلب و جگر گردد نبی
    از خدا محبوب تر گردد نبی


    میرے اشعار کے معنی و مفہوم کو اگر تو تحقیق کی نظر سے دیکھنا چاہتا ہے تو اس کے لئے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی آنکھ چاہیے۔ اگر یہ میسر آ جائے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی سے دِل و جگر کو تقویت یعنی حوصلہ ملتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا سے زیادہ محبوب ہو جاتے ہیں۔

    ایک اور مقام پر علامہ نے کہا :
    خاکِ یثرب اَز دو عالم خوشتر است

    اے خنک شہرے کہ آنجا دلبر است

    یثرب یعنی مدینہ منورہ کی سر زمیں دُنیا جہان کے ہر مقام سے زیادہ اچھی ہے اور وہ شہر کیوں نہ اچھا ہو جہاں محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مسکن ہے۔

    نسخۂ کونین را دیباجہ اوست

    جملہ عالم بندگان و خواجہ اوست

    حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کتابِ کونین کا دیباچہ یعنی حرفِ آغاز ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کائنات کے آقا اور باقی سب غلام ہیں۔


    علامہ کی دربارِ رِسالت میں درج ذیل اِلتجا بھی اِسی سبق کی آئینہ دار ہے :
    مسلماں آں فقیرِ کج کلاہے

    رمید از سینۂ اُو سوزِ آہے
    دلش نالد! چرا نالد؟ نداند
    نگاہے یا رسول اﷲ نگاہے!

    مسلمان وہ کجکلاہ فقیر ہے جو کسی کو خاطر میں نہیں لاتا مگر اس کے سینے سے آہِ سوزناک نکل گئی ہے۔ اس کا دِل فرطِ اضطراب سے نالہ کناں ہے اور وہ یہ نہیں جانتا کہ وہ دل) کیوں رو رہا ہے۔)


    نہ صرف یہ کہ علامہ نے اُمتِ محمدیہ علیٰ صاحبھا الصلوٰۃ و السلام کو ذاتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے والہانہ عشق کا پیغام دیا بلکہ اسی عشق رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ملت اسلامیہ کی بقا و دوام کا راز بھی قرار دیا اور یہی وہ انقلاب انگیز قوت تھی جس سے سامراجی و طاغوتی طاقتیں خائف تھیں۔ آپ فرماتے ہیں :
    لَانَبِیّ بَعْدِی ز اِحسانِ خدا است

    پردۂ ناموسِ دینِ مصطفیٰ است
    قوم را سرمایۂ قوت ازو
    حفظِ سرِّ وحدتِ ملّت ازو

    حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی نبی کا نہ آنا اﷲ تعالیٰ کا ہم پر احسان ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت ہماری عزت و ناموس کی محافظ ہے۔ اس قوت سے قوم مسلم کی شیرازہ بندی ہوتی ہے اور یہی ملی اتحاد و یکجہتی کا راز ہے۔


    علامہ اُمتِ مسلمہ کو چراغِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پروانہ قرار دیتے ہوئے دیگر مقامات پر کہتے ہیں :
    از رسالت ہم نوا گشتیم ما

    ہم نفس ہم مدعا گشتیم ما
    تانہ ایں وحدت زدستِ ما رود
    ھستیء ما با ابد ہمدم شود

    رسالتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیضان سے ہم ایک دوسرے کے ہم نوا (ہم آواز) بن گئے اور ہمارا مقصودِ حیات ایک ہی ہو گیا ہے۔
    اُمتے از ما سوا بیگانۂ
    بر چراغِ مصطفیٰ (ص) پروانۂ

    اُمت مسلمہ غیر اﷲ سے کوئی سروکار نہیں رکھتی اور چراغِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پروانہ وار فدا ہونے کا جذبہ رکھتی ہے۔

    تا شعار مصطفیٰ از دست رفت

    قوم را رمزِ بقا از دست رفت

    جب سے یہ اُمت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوۂ مبارکہ کا دامن ہاتھ سے چھوڑ گئی ہے وہ اس بات سے بھی غافل ہے کہ قومی بقاء و سلامتی کا راز کیا ہے۔


    زوال اسلام کے اس دور میں جب اقبال رحمۃ اللہ علیہ ملت اسلامیہ کے عروق مردہ میں عشق مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیغام کے ذریعے نئی روح پھونک کر اسے تباہی و ہلاکت سے بچانے کی فکر میں تھے، اسلام دشمن استعماری طاقتیں منظم ہو کر مسلمانوں کے دلوں سے اسی عشق رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جذبے کو نکالنے کی علمی، فکری اور عملی تدبیریں کر رہی تھیں۔ انہیں معلوم تھا کہ اگر مسلمانوں کے دل محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جذبہ عشق و محبت سے خالی ہو گئے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت انہیں اپنی کھوئی ہوئی عظمت واپس دلا سکتی ہے نہ اِصلاح و تجدید کی تحریکیں انہیں اپنی منزلِ مراد تک پہنچا سکتی ہیں۔ یہ محض ایک مفروضہ یا خیال خام نہیں بلکہ ایک روشن حقیقت ہے۔ مغربی استعمار کی اسی سازش کی طرف علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اشارہ فرماتے ہوئے کہا تھا :
    وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا

    روحِ محمد اس کے بدن سے نکال دو
    فکرِ عرب کو دے کے فرنگی تخیلات
    اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو

    چنانچہ اسی مقصد کے تحت مغربی سامراج نے ایک طرف مسلمانوں کے اندر ایسے فرقہ وارانہ علمی مباحث کی سرکاری سطح پر حوصلہ افزائی شروع کی جن کا ہدف زیادہ تر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و ادب اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و کمالات کا اِنکار تھا تاکہ امت میں اہانت رسالت اور گستاخی نبوت کا فتنہ پیدا ہو۔ دوسری طرف یہ فکری میدان اسلامی تحقیق کے نام پر متعصب یہودی اور عیسائی مستشرقین کے سپرد کر دیا گیا جنہوں نے اسلام کی تعلیمات اور بانی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت اور سیرت پر اس انداز سے کتب تصنیف کیں کہ اگر ایک خالی الذہن سادہ مسلمان ان تصانیف کا مطالعہ کرتا ہے تو اس کا ذہن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اور تعلیمات کے بارے میں طرح طرح کے شکوک و شبہات کا شکار ہو جاتا ہے۔ چنانچہ ان کتابوں کے باقاعدہ مطالعہ سے جو ذہن تشکیل پاتا ہے اسے عشق و ادب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تصور سے دور کا بھی واسطہ نہیں رہتا۔ اس طرح مسلمانوں کے ذہنوں کو ہر دو طرح مسموم کرنے کا کام آج تک ہو رہا ہے۔
    ہماری بدقسمتی کہ بعض مسلم مفکرین کے ہاتھوں بھی نادانستہ یہی کام سرانجام پانے لگا۔ وہ اس طرح کہ جب دورِ جدید میں مسائلِ حیات بدلے اور نئے نئے تقاضوں نے جنم لیا تو کئی مسلم مفکرین نے اسلام کی تعلیمات اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ کے مختلف گوشوں کو اس انداز سے پیش کرنا شروع کیا کہ عصر حاضر کے چیلنج کا مقابلہ کیا جاسکے۔ ہر چند کہ یہ علمی کوششیں نہ صرف درست تھیں بلکہ تقاضائے وقت کے پیش نظر ضروری تھیں، ان مفکرین کے سامنے مسلمانوں کو درپیش مسئلے کا محض ایک رخ رہا، دوسرا نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مقدس شخصیت کے دو پہلو ہیں جو اپنی اپنی جگہ علیحدہ اور مستقل بھی ہیں اور باہم لازم و ملزوم بھی۔ ان میں سے کسی ایک پہلو کو بھی نظرانداز کرنا اسلام کے لئے سخت نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔

    ماخوذ از : کتاب مطالعۂ سیرت کے بنیادی اصول ازعلامہ پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری
    ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

  • #2

    Comment


    • #3
      Originally posted by kutkutariyaan View Post
      thinkingg
      har achi shy aap k feham se bala tar kion hoti hy janab??????????:mm:
      ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

      Comment


      • #4
        Originally posted by aabi2cool View Post

        میرے اشعار کے معنی و مفہوم کو اگر تو تحقیق کی نظر سے دیکھنا چاہتا ہے تو اس کے لئے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی آنکھ چاہیے۔ اگر یہ میسر آ جائے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی سے دِل و جگر کو تقویت یعنی حوصلہ ملتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا سے زیادہ محبوب ہو جاتے ہیں۔




        ہماری بدقسمتی کہ بعض مسلم مفکرین کے ہاتھوں بھی نادانستہ یہی کام سرانجام پانے لگا۔ وہ اس طرح کہ جب دورِ جدید میں مسائلِ حیات بدلے اور نئے نئے تقاضوں نے جنم لیا تو کئی مسلم مفکرین نے اسلام کی تعلیمات اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ کے مختلف گوشوں کو اس انداز سے پیش کرنا شروع کیا کہ عصر حاضر کے چیلنج کا مقابلہ کیا جاسکے۔ ہر چند کہ یہ علمی کوششیں نہ صرف درست تھیں بلکہ تقاضائے وقت کے پیش نظر ضروری تھیں، ان مفکرین کے سامنے مسلمانوں کو درپیش مسئلے کا محض ایک رخ رہا، دوسرا نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مقدس شخصیت کے دو پہلو ہیں جو اپنی اپنی جگہ علیحدہ اور مستقل بھی ہیں اور باہم لازم و ملزوم بھی۔ ان میں سے کسی ایک پہلو کو بھی نظرانداز کرنا اسلام کے لئے سخت نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔


        ماخوذ از : کتاب مطالعۂ سیرت کے بنیادی اصول ازعلامہ پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری
        :jazak:.....
        bohay umdah sharing hai aabi bhai.........:rose

        jo blue me likha hai...usko explain kren gay ....?
        شاہ حسین جیہناں سچ پچھاتا' کامل عِشق تیہناں دا جاتا

        Comment


        • #5
          :thmbup:

          Comment


          • #6
            Originally posted by saraah View Post
            :jazak:.....
            Bohay Umdah Sharing Hai Aabi Bhai.........:rose

            Jo Blue Me Likha Hai...usko Explain Kren Gay ....?
            اقبال کا اشارہ صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی طرف ہے کہ اے میرے اشعار پڑھنے والے اگر تو میرے اشعار کی حقانیت کو جاننا چاہتا ہے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات کو صدیق اکبر کی آنکھ مبارک سے دیکھ کہ وہ صدیق اکبر عشق مصطفٰی میں گُندھے ہوئے کُشتہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے ۔۔۔ ۔ سارا سسٹر اگر آپ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی سیرت مبارکہ کا مطالعہ کریں تو آپ پر واضح ہوگا وہ فنا فی الرسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے یعنی انھوں نے اپنی ذات کو رسول پاک کی ذات میں گُم کردیا تھا ۔ ۔ غزوہ تبوک کہ لیے گھر کا سارا سامان لاکر پیش کردینا اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کہ اس استفسار کہ یہ ابوبکر گھر والوں کہ لیے کیا چھوڑا ؟تو عرض کی اللہ اور اس کا رسول صلہ اللہ علیہ وسلم ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ واکبر توکل اور عشق مصطفیٰی کی یہ معراج کسی اور صحابی کہ حصہ میں نہ آئی کہ آپ ہی کو مزاج آشناے رسول بھی کہا جاتا تھا ۔ ۔ ۔صلح حدیبیہ کہ موقع پر جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کہ دب کر صلح کرنے پر ادب کہ ساتھ چند اختلافی سوالات کیے اور پھر وہی سوالات صدیق اکبر کی بارگاہ میں دہرائے صدیق اکبر نے وہاں جو الفاظ فرمائے ہیں وہ عشق مصطفٰی میں فنا ذات ہی فرما سکتی ہے آپ حضرت عمر سے فرماتے ہیں کہ . . . ایھا الرجل انہ رسول اللہ ۔ ۔ ۔ اے شخص وہ اللہ کہ رسول ہیں اگر اپنی عاقبت چاہتا ہے تو رسول اللہ کہ دامن کو دانتوں کہ ساتھ مضبوطی سے پکڑ لے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔
            یہاں دانتوں کہ ساتھ پکڑنے میں جو لطیف اشارہ ہے وہ یہ ہے کہ جب انسان کوئی بھی شئے دانتوں سے پکڑتا ہے تو زبان بند رہتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔اللہ کہ رسول نے فرمایا کہ اس دنیا میں ہم پر کسی کا احسان نہیں کہ جس کا بدلہ ہم نے چکا دیا ہو سوائے صدیق کہ ان کا بدلہ کل قیامت کہ روز اللہ ہی چکائے گا ۔ ۔۔ غرض کیا کیا لکھوں اور کہان تک لکھوں صدیق اکبر کی ساری زندگی ہی عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ تھی
            ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

            Comment


            • #7
              Originally posted by munda_sialkoty View Post
              Quaid-e-Azam aik jagah aik takreer ker rahay thay English mein. Wahan per aik unperh aur saadah'looh betha waah waah ker raha tha. Saath mein bethay huay aik jawan ne us se poocha ke kia tujay angreezi ki samaj aa rahi he jo tu waah waah keh raha he. Is per wo bola ke samaj to mujay waqee nahi aa rahi lekin mein itna jaanta hoon ke Quaid-e-Azam jo bhi kehtay hein kamaal kehtay hein.

              Yaar tu bhi jo kehta he kamaal kehta he :D:
              kaheen wo paindo to hi to naheen tha khair ab aysi bhi baat naheen hy . . .. kahan hazrat e quaid azam aur kahan main gunah gar :salam:
              ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

              Comment


              • #8

                Comment


                • #9
                  [FONT="Arial Black"]Mr. Khalil How much Fake IDs would you make in Pegham... ?

                  See you Real Face in here 372-shed

                  Muhammad Khalil's Real Face [/FONT]

                  Comment


                  • #10
                    Originally posted by aabi2cool View Post
                    اقبال کا اشارہ صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی طرف ہے کہ اے میرے اشعار پڑھنے والے اگر تو میرے اشعار کی حقانیت کو جاننا چاہتا ہے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات کو صدیق اکبر کی آنکھ مبارک سے دیکھ کہ وہ صدیق اکبر عشق مصطفٰی میں گُندھے ہوئے کُشتہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے ۔۔۔ ۔ سارا سسٹر اگر آپ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی سیرت مبارکہ کا مطالعہ کریں تو آپ پر واضح ہوگا وہ فنا فی الرسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے یعنی انھوں نے اپنی ذات کو رسول پاک کی ذات میں گُم کردیا تھا ۔ ۔ غزوہ تبوک کہ لیے گھر کا سارا سامان لاکر پیش کردینا اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کہ اس استفسار کہ یہ ابوبکر گھر والوں کہ لیے کیا چھوڑا ؟تو عرض کی اللہ اور اس کا رسول صلہ اللہ علیہ وسلم ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ واکبر توکل اور عشق مصطفیٰی کی یہ معراج کسی اور صحابی کہ حصہ میں نہ آئی کہ آپ ہی کو مزاج آشناے رسول بھی کہا جاتا تھا ۔ ۔ ۔صلح حدیبیہ کہ موقع پر جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کہ دب کر صلح کرنے پر ادب کہ ساتھ چند اختلافی سوالات کیے اور پھر وہی سوالات صدیق اکبر کی بارگاہ میں دہرائے صدیق اکبر نے وہاں جو الفاظ فرمائے ہیں وہ عشق مصطفٰی میں فنا ذات ہی فرما سکتی ہے آپ حضرت عمر سے فرماتے ہیں کہ . . . ایھا الرجل انہ رسول اللہ ۔ ۔ ۔ اے شخص وہ اللہ کہ رسول ہیں اگر اپنی عاقبت چاہتا ہے تو رسول اللہ کہ دامن کو دانتوں کہ ساتھ مضبوطی سے پکڑ لے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔


                    یہاں دانتوں کہ ساتھ پکڑنے میں جو لطیف اشارہ ہے وہ یہ ہے کہ جب انسان کوئی بھی شئے دانتوں سے پکڑتا ہے تو زبان بند رہتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔اللہ کہ رسول نے فرمایا کہ اس دنیا میں ہم پر کسی کا احسان نہیں کہ جس کا بدلہ ہم نے چکا دیا ہو سوائے صدیق کہ ان کا بدلہ کل قیامت کہ روز اللہ ہی چکائے گا ۔ ۔۔ غرض کیا کیا لکھوں اور کہان تک لکھوں صدیق اکبر کی ساری زندگی ہی عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ تھی
                    :SubhanAllhaa:.....
                    AABI BHAI ILFAZ HI NAHI HAIN MERE PASS..........SubhanAllhaa:
                    شاہ حسین جیہناں سچ پچھاتا' کامل عِشق تیہناں دا جاتا

                    Comment


                    • #11
                      Last edited by saraah; 5 March 2009, 19:43.
                      شاہ حسین جیہناں سچ پچھاتا' کامل عِشق تیہناں دا جاتا

                      Comment


                      • #12
                        Originally posted by saraah View Post
                        aur Nabi Kareem S.a.w Ki Zaat E Muqqadsa K 2 Pehlouuon Ka Zikar Kiya Gya Hai....wo Zra Byan Kijiye......shukria....
                        ہماری بدقسمتی کہ بعض مسلم مفکرین کے ہاتھوں بھی نادانستہ یہی کام سرانجام پانے لگا۔ وہ اس طرح کہ جب دورِ جدید میں مسائلِ حیات بدلے اور نئے نئے تقاضوں نے جنم لیا تو کئی مسلم مفکرین نے اسلام کی تعلیمات اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ کے مختلف گوشوں کو اس انداز سے پیش کرنا شروع کیا کہ عصر حاضر کے چیلنج کا مقابلہ کیا جاسکے۔ ہر چند کہ یہ علمی کوششیں نہ صرف درست تھیں بلکہ تقاضائے وقت کے پیش نظر ضروری تھیں، ان مفکرین کے سامنے مسلمانوں کو درپیش مسئلے کا محض ایک رخ رہا، دوسرا نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مقدس شخصیت کے دو پہلو ہیں جو اپنی اپنی جگہ علیحدہ اور مستقل بھی ہیں اور باہم لازم و ملزوم بھی۔ ان میں سے کسی ایک پہلو کو بھی نظرانداز کرنا اسلام کے لئے سخت نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے

                        آپ کو غالبا اوپر والے اقتباس کی وضاحت مطلوب ہے ۔ ۔ ۔تو عرض ہے اوپر اقتباس میں امت مسلمہ کہ جس المیہ کی طرف نشاندہی کی ہے اسی المیہ کی وجہ سے ہی امت مسلمہ کا بدن فرقہ واریت کہ کانٹوں سے تار تار ہوا ۔ ۔ ۔اور اس مراد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کا ایک نورانی اور دوسرا بشری پہلو ہے یہ دونوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شانیں ہیں یعنی نورانیت مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم اور بشریت مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم بلکہ آپ یوں سمجھئے کہ یہ دونوں ذات مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کی دو مختلف جہتیں ہیں اور دونوں ایک دوسرے لیے لازم و ملزوم ہیں لہزا قرآن پاک گواہ کہ جب بھی کسی قوم نے اپنے پیغمبروں کہ بارے میں ان دونوں میں سے فقط کسی ایک پر انحصار کیا تو وہ قومیں گمراہی کا شکار ہوں گئیں یعنی جن قوموں کی نظر فقط پیغمبرانہ نورانیت پر رہی اور انھوں نے پیغمبروں کی بشریت کا انکار کرکے انبیاء کی نورانیت میں افراط سے کام لیتے ہوئے انھے اللہ پاک کا شریک ٹھرا لیا جیسے نصارٰی حجرت عیسٰی علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا مانتے ہیں نعوذ باللہ من ذالک اور اسی طرح جن قوموں کی نظر فقط انبیاء کرام کی بشریت پر رہی تو انھوں نے ابنیاء کرام کی بشریت کو تفریط کا نشانہ بناکر محض اپنے جیسا ایک بشر جانا اور یوں وہ گمراہ ہوئے جیسے حضرت یونس اور دیگر انبیاء علیہ السلام کی اقوام ۔ ۔ قرآن پاک نے ان دونوں کی مذمت بیان فرمائی ہے اور امت مسلمہ کہ سامنے انبیاء کرام کہ دونوں پہلوؤں کو بیان کیا ہے اور طریقہ کار قرآن پاک نے اس ضمن میں یہ اختیار کیا ہے کہ یا تو انبیاء کرام کی ذوات مقدسہ کہ دونوں پہلوؤں کو یکسر بیان کیا ہے یعنی ایک ساتھ اور اگر کبھی ان دونون میں سے کسی ایک کو علیحدہ طور پر بیان کیا ہے تو اس میں فضیلت یعنی عروجی پہلو یعنی نورانی پہلو کو ترجیح دی ہے اور ہمارے لیے قاعدہ یہ مقرر کیا ہے کہ ایمان دونون پہلوؤں پر ہونا چاہیے اور لیکن جب تقریر اور تحریر کا وقت آئے اور ان دونوں میں سے کسی ایک کو اختیار کرنا مقصود ہوتو فقط فضیلت والے پہلو کو اختیار کرو ۔ ۔ ۔ اس تقریر میں پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری صاحب علامہ اقبال کہ حوالے سے امت مسلمہ کی فقط ایک پہلو پر اصرار والی روش کی طرف ان الفاظ کہ ساتھ اشارہ کرتے ہیں کہ ۔ ۔۔ ہر چند کہ یہ علمی کوششیں نہ صرف درست تھیں بلکہ تقاضائے وقت کے پیش نظر ضروری تھیں، ان مفکرین کے سامنے مسلمانوں کو درپیش مسئلے کا محض ایک رخ رہا، دوسرا نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مقدس شخصیت کے دو پہلو ہیں جو اپنی اپنی جگہ علیحدہ اور مستقل بھی ہیں اور باہم لازم و ملزوم بھی۔ ۔۔ ۔ ۔یعنی امت مسلمہ کو اصلاح کا سبق دیتے ہوئے ان مفکرین کی نظر فقط نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زات بابرکات کہ بشری پہلو تک محدود رہی کہ جس کیو جہ سے دین میں ایک طرح کہ فتنوں نے جنم لیا ۔ ۔ والسلام
                        ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

                        Comment


                        • #13
                          Allah

                          Comment


                          • #14
                            Originally posted by aabi2cool View Post


                            آپ کو غالبا اوپر والے اقتباس کی وضاحت مطلوب ہے
                            bohat bohat bohat shukria aabi bhai......haqeeqtan mere ilam me azaafa hua hai........:alhamd:........aap k liye bohat c duayen...........:rose
                            شاہ حسین جیہناں سچ پچھاتا' کامل عِشق تیہناں دا جاتا

                            Comment


                            • #15
                              Originally posted by Yaaram View Post
                              Kya kahoN ...bohat umdah Intekhab - Hum talib ilmoN ke ilm main kaafi Izafa hua hay

                              Shukrya
                              Originally posted by saraah View Post
                              bohat bohat bohat shukria aabi bhai......haqeeqtan mere ilam me azaafa hua hai........:alhamd:........aap k liye bohat c duayen...........:rose
                              ALLAH PAAK AAP DONO KO KHUSH RAKHY AUR IS KA AJAR ATA FARMAY AMEEN :rose
                              ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

                              Comment

                              Working...
                              X