Re: Nazar Na Lagey
وَقَالَ يَا بَنِيَّ لاَ تَدْخُلُواْ مِن بَابٍ وَاحِدٍ وَادْخُلُواْ مِنْ أَبْوَابٍ مُّتَفَرِّقَةٍ وَمَا أُغْنِي عَنكُم مِّنَ اللّهِ مِن شَيْءٍ إِنِ الْحُكْمُ إِلاَّ لِلّهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَعَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ
. اور فرمایا: اے میرے بیٹو! (شہر میں) ایک دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ مختلف دروازوں سے (تقسیم ہو کر) داخل ہونا، اور میں تمہیں اﷲ (کے اَمر) سے کچھ نہیں بچا سکتا کہ حکم (تقدیر) صرف اﷲ ہی کے لئے ہے۔ میں نے اسی پر بھروسہ کیا ہے اور بھروسہ کرنے والوں کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہئے
. وَلَمَّا دَخَلُواْ مِنْ حَيْثُ أَمَرَهُمْ أَبُوهُم مَّا كَانَ يُغْنِي عَنْهُم مِّنَ اللّهِ مِن شَيْءٍ إِلاَّ حَاجَةً فِي نَفْسِ يَعْقُوبَ قَضَاهَا وَإِنَّهُ لَذُو عِلْمٍ لِّمَا عَلَّمْنَاهُ وَلَـكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لاَ يَعْلَمُونَ
. اور جب وہ (مصر میں) داخل ہوئے جس طرح ان کے باپ نے انہیں حکم دیا تھا، وہ (حکم) انہیں اﷲ (کی تقدیر) سے کچھ نہیں بچا سکتا تھا مگر یہ یعقوب (علیہ السلام) کے دل کی ایک خواہش تھی جسے اس نے پورا کیا، اور (اس خواہش و تدبیر کو لغو بھی نہ سمجھنا، تمہیں کیا خبر!) بیشک یعقوب (علیہ السلام) صاحبِ علم تھے اس وجہ سے کہ ہم نے انہیں علمِ (خاص) سے نوازا تھا مگر اکثر لوگ (ان حقیقتوں کو) نہیں جانتے
یوسف 67تا68
حافظ ابن کثیر رحمة اﷲ علیہ مذکورہ دونوں آیات کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ یعقوب علیہ السلام کے واقع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے جب انہوں نے اپنے بچو کو حکم دیا کہ تم سب اکٹھے ایک دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ سب الگ الگ دروازوں سے جانا یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب یعقوب علیہ السلام نے بنیامین کو اس کے بھائیوں کے ساتھ مصر بھیجا تھااس کی تفسیر میں جیسا کہ حضرت عباس ، محمد بن کعب اور مجاہد، ضحاک اور قتادہ، اور سدی کہتے ہیں کہ ایسا انہوں نے نظر بد کے ڈر سے کہا تھا کہ ان کے بچے انتہائی خوبصورت اور اعلیٰ ڈیل ڈول کے مالک تھے تو حضرت یعقوب علیہ السلام کو نظر کا ڈر تھا کیوں کہ نظر برحق ہے جو شاہ سوار کو اس کی سواری سے اتار دیتی ہے.
وما اغنی عنکم من اﷲ شئی یعنی یہ احتیاط اﷲ تعالیٰ کی تقدیر کو بدل نہیں سکتی.
ولما دخلو من حیث امرھم ابوھم ما کان یغنی عنھم من اﷲ من شئی الا حاجة فی نفس یعقوب قضاھا .
مفسرین کہتے ہیں کہ یہ خواہش نظر بد سے بچاؤ کی ہے اﷲتعالیٰ کا فرمان ہے (وان یکادالذین کفروا لیز لقونک بابصارھم لما سموا الذکرو ویقولون انہ لمجنون )( سورة القلم: آیت 51)
حافظ ابن کثیر رحمتہ اﷲ علیہ ابن عباس اور مجاہد سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یعنی وہ آپ کو حسد کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں. اﷲ تعالیٰ آپ کوان سے بچاتا ہے.
یہ آیت اس بات پر دلیل ہے کہ نظر لگتی ہے اور باقاعدہ اس کا اثر ہوتا ہے جیسا کہ اس پر بہت سی احادیث دلالت کرتی ہیں.
(تفسیر ابن کثیر جلد6 صفحہ410 )
نظر کہ بر حق ہونے پر احادیث سے دلائل
نظر بد برحق ہے۔ اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ امام مسلم نے صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ تاجدار رسالت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نظر لگنا حق ہے۔ اگر کوئی چیز تقدیر کو کاٹ سکتی ہے تو وہ نظر بد ہی کاٹتی۔
صحیح مسلم میں ہے حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بخار، نظربد اور پھوڑے میں جھاڑ پھونک کی رخصت دی۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر میں ایک لڑکی دیکھی۔ اس کے چہرہ میں سفعہ (یعنی زردی) تھی۔ حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اس کو دم کراؤ کیونکہ اس کو نظر لگ گئی ہے۔ (صحیح بخاری و مسلم)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شر اور انسانوں کو نظر لگ جانے سے اللہ تعالٰی کی پناہ مانگا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ معوذ تین نازل ہوئیں تو رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ان دونوں کو لے لیا اور ان دونوں کے ماسوا کو ترک کر دیا۔ (ترمذی۔ ابن ماجہ)
حضرت ابو امامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عامر بن ربیعہ نے سہل بن حنیف کو غسل کرتے ہوئے دیکھا تو کہنے لگا کہ خدا کی قسم میں نے نہ تو آج کے دن کی مانند کوئی دن دیکھا اور نہ ہی سہل کی جلد کی مانند خوبصورت کسی پردہ نشین (حسین) عورت کی جلد دیکھی۔ اتنا کہنا ہی تھا کہ سہل گر گئے۔ اس واقعہ کو بارگاہ رسالت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں عرض کیا گیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ سہل بن حنیف کا کچھ (دعا) و علاج وغیرہ فرمائیں گے۔ خدا تعالٰی کی قسم وہ بیماری کی شدت کے سبب اپنا سر نہیں اٹھا سکتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‘ تم کسی کے معلق گمان کرتے ہو کہ اس نے اسے نظر لگائی ہے۔ صحابہ کرام علیھم الرضوان نے عرض کیا کہ عامر بن ربیعہ کے متعلق ہمارا گمان ہے۔
راوی کا بیان ہے کہ حضور شہنشاہ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عامر بن ربیعہ کو بلایا اور اسے سخت وست کہا اور فرمایا‘ تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو قتل کیوں کرنا چاہتا ہے۔ تو نے برکت کی دعاء کیوں نہ کی۔ اب سہل کیلئے (اپنے اعضاء دھو) چنانچہ عامر نے ان کے لئے اپنا چہرہ، دونوں ہاتھ، دونوں کہنیاں گھٹنے، پاؤں کی انگلیوں کے کنارے اور پاجامے کے اندر کے اعضاء ستر ایک برتن میں دھو کر دئیے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ پانی سہل پر ڈالا وہ اسی وقت اٹھ کر کھڑے ہو گئے۔ جیسے کہ ان کو کوئی شکای ہی نہ تھی۔ (مشکوٰۃ)
مالک کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ “نظر کا لگ جانا حق ہے۔ اس کے لئے وضو کر۔“ چنانچہ حضرت عامر نے حضرت سہل رضی اللہ عنہما کے لئے وضو بمعہ استنجا کیا۔ (مذکورہ)
حضرت عثمان بن عبداللہ بن موہب سے روایت ہے کہ میرے گھر والوں نے مجھے پانی کا ایک پیالہ دے کر حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہما کی خدمت با عظمت بھیجا۔ اس لئے کہ جب کسی کو نظر لگ جاتی ہے یا کوئی اور تکلیف ہوتی تو وہ ایک بڑا پیالہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہما کی خدمت اقدس میں بھیجتا۔ حضرت ام الومنین تاجدار انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے ال مبارک نکالتیں جو انہوں نے چاندی کی ایک نلکی میں رکھے ہوئے تھے۔ وہ ان بالوں کو اس پیالے میں پانی کے اندر ہلاتیں اور مریض وہ پانی پی لیتا اور شفایاب ہو جاتا۔ راوی کا بیان ہے کہ میں نے نلی میں جھانک کر دیکھا تو چند ایک سرخی مائل ہوئے مبارک نظر پڑے۔ (بخاری شریف)
سبحان اللہ ! رحمت عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک کا دھوون بھی بیماروں کیلئے شفاء ہے۔
:jazak:
Originally posted by aabi2cool
View Post
ویسے تو یہ مسئلہ ایسا نہیں ہے کہ اس پر کچھ اظہار خیال کیا جائے میری نظر میں یہ متفق علیہ مسئلہ ہے مگر سارا سسٹر نے بڑے پُر اسرار طریقے سے جو اصرار کیا تو میں نے سوچا کچھ کاپی پیسٹ ہو ہی جائے ۔ ۔ ۔ ۔
نظر کہ برحق ہونے پر قرآن مجید سے دلائل
نظر کہ برحق ہونے پر قرآن مجید سے دلائل
وَقَالَ يَا بَنِيَّ لاَ تَدْخُلُواْ مِن بَابٍ وَاحِدٍ وَادْخُلُواْ مِنْ أَبْوَابٍ مُّتَفَرِّقَةٍ وَمَا أُغْنِي عَنكُم مِّنَ اللّهِ مِن شَيْءٍ إِنِ الْحُكْمُ إِلاَّ لِلّهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَعَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ
. اور فرمایا: اے میرے بیٹو! (شہر میں) ایک دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ مختلف دروازوں سے (تقسیم ہو کر) داخل ہونا، اور میں تمہیں اﷲ (کے اَمر) سے کچھ نہیں بچا سکتا کہ حکم (تقدیر) صرف اﷲ ہی کے لئے ہے۔ میں نے اسی پر بھروسہ کیا ہے اور بھروسہ کرنے والوں کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہئے
. وَلَمَّا دَخَلُواْ مِنْ حَيْثُ أَمَرَهُمْ أَبُوهُم مَّا كَانَ يُغْنِي عَنْهُم مِّنَ اللّهِ مِن شَيْءٍ إِلاَّ حَاجَةً فِي نَفْسِ يَعْقُوبَ قَضَاهَا وَإِنَّهُ لَذُو عِلْمٍ لِّمَا عَلَّمْنَاهُ وَلَـكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لاَ يَعْلَمُونَ
. اور جب وہ (مصر میں) داخل ہوئے جس طرح ان کے باپ نے انہیں حکم دیا تھا، وہ (حکم) انہیں اﷲ (کی تقدیر) سے کچھ نہیں بچا سکتا تھا مگر یہ یعقوب (علیہ السلام) کے دل کی ایک خواہش تھی جسے اس نے پورا کیا، اور (اس خواہش و تدبیر کو لغو بھی نہ سمجھنا، تمہیں کیا خبر!) بیشک یعقوب (علیہ السلام) صاحبِ علم تھے اس وجہ سے کہ ہم نے انہیں علمِ (خاص) سے نوازا تھا مگر اکثر لوگ (ان حقیقتوں کو) نہیں جانتے
یوسف 67تا68
حافظ ابن کثیر رحمة اﷲ علیہ مذکورہ دونوں آیات کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ یعقوب علیہ السلام کے واقع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے جب انہوں نے اپنے بچو کو حکم دیا کہ تم سب اکٹھے ایک دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ سب الگ الگ دروازوں سے جانا یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب یعقوب علیہ السلام نے بنیامین کو اس کے بھائیوں کے ساتھ مصر بھیجا تھااس کی تفسیر میں جیسا کہ حضرت عباس ، محمد بن کعب اور مجاہد، ضحاک اور قتادہ، اور سدی کہتے ہیں کہ ایسا انہوں نے نظر بد کے ڈر سے کہا تھا کہ ان کے بچے انتہائی خوبصورت اور اعلیٰ ڈیل ڈول کے مالک تھے تو حضرت یعقوب علیہ السلام کو نظر کا ڈر تھا کیوں کہ نظر برحق ہے جو شاہ سوار کو اس کی سواری سے اتار دیتی ہے.
وما اغنی عنکم من اﷲ شئی یعنی یہ احتیاط اﷲ تعالیٰ کی تقدیر کو بدل نہیں سکتی.
ولما دخلو من حیث امرھم ابوھم ما کان یغنی عنھم من اﷲ من شئی الا حاجة فی نفس یعقوب قضاھا .
مفسرین کہتے ہیں کہ یہ خواہش نظر بد سے بچاؤ کی ہے اﷲتعالیٰ کا فرمان ہے (وان یکادالذین کفروا لیز لقونک بابصارھم لما سموا الذکرو ویقولون انہ لمجنون )( سورة القلم: آیت 51)
حافظ ابن کثیر رحمتہ اﷲ علیہ ابن عباس اور مجاہد سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یعنی وہ آپ کو حسد کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں. اﷲ تعالیٰ آپ کوان سے بچاتا ہے.
یہ آیت اس بات پر دلیل ہے کہ نظر لگتی ہے اور باقاعدہ اس کا اثر ہوتا ہے جیسا کہ اس پر بہت سی احادیث دلالت کرتی ہیں.
(تفسیر ابن کثیر جلد6 صفحہ410 )
نظر کہ بر حق ہونے پر احادیث سے دلائل
نظر بد برحق ہے۔ اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ امام مسلم نے صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ تاجدار رسالت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نظر لگنا حق ہے۔ اگر کوئی چیز تقدیر کو کاٹ سکتی ہے تو وہ نظر بد ہی کاٹتی۔
صحیح مسلم میں ہے حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بخار، نظربد اور پھوڑے میں جھاڑ پھونک کی رخصت دی۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر میں ایک لڑکی دیکھی۔ اس کے چہرہ میں سفعہ (یعنی زردی) تھی۔ حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اس کو دم کراؤ کیونکہ اس کو نظر لگ گئی ہے۔ (صحیح بخاری و مسلم)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شر اور انسانوں کو نظر لگ جانے سے اللہ تعالٰی کی پناہ مانگا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ معوذ تین نازل ہوئیں تو رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ان دونوں کو لے لیا اور ان دونوں کے ماسوا کو ترک کر دیا۔ (ترمذی۔ ابن ماجہ)
حضرت ابو امامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عامر بن ربیعہ نے سہل بن حنیف کو غسل کرتے ہوئے دیکھا تو کہنے لگا کہ خدا کی قسم میں نے نہ تو آج کے دن کی مانند کوئی دن دیکھا اور نہ ہی سہل کی جلد کی مانند خوبصورت کسی پردہ نشین (حسین) عورت کی جلد دیکھی۔ اتنا کہنا ہی تھا کہ سہل گر گئے۔ اس واقعہ کو بارگاہ رسالت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں عرض کیا گیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ سہل بن حنیف کا کچھ (دعا) و علاج وغیرہ فرمائیں گے۔ خدا تعالٰی کی قسم وہ بیماری کی شدت کے سبب اپنا سر نہیں اٹھا سکتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‘ تم کسی کے معلق گمان کرتے ہو کہ اس نے اسے نظر لگائی ہے۔ صحابہ کرام علیھم الرضوان نے عرض کیا کہ عامر بن ربیعہ کے متعلق ہمارا گمان ہے۔
راوی کا بیان ہے کہ حضور شہنشاہ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عامر بن ربیعہ کو بلایا اور اسے سخت وست کہا اور فرمایا‘ تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو قتل کیوں کرنا چاہتا ہے۔ تو نے برکت کی دعاء کیوں نہ کی۔ اب سہل کیلئے (اپنے اعضاء دھو) چنانچہ عامر نے ان کے لئے اپنا چہرہ، دونوں ہاتھ، دونوں کہنیاں گھٹنے، پاؤں کی انگلیوں کے کنارے اور پاجامے کے اندر کے اعضاء ستر ایک برتن میں دھو کر دئیے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ پانی سہل پر ڈالا وہ اسی وقت اٹھ کر کھڑے ہو گئے۔ جیسے کہ ان کو کوئی شکای ہی نہ تھی۔ (مشکوٰۃ)
مالک کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ “نظر کا لگ جانا حق ہے۔ اس کے لئے وضو کر۔“ چنانچہ حضرت عامر نے حضرت سہل رضی اللہ عنہما کے لئے وضو بمعہ استنجا کیا۔ (مذکورہ)
حضرت عثمان بن عبداللہ بن موہب سے روایت ہے کہ میرے گھر والوں نے مجھے پانی کا ایک پیالہ دے کر حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہما کی خدمت با عظمت بھیجا۔ اس لئے کہ جب کسی کو نظر لگ جاتی ہے یا کوئی اور تکلیف ہوتی تو وہ ایک بڑا پیالہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہما کی خدمت اقدس میں بھیجتا۔ حضرت ام الومنین تاجدار انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے ال مبارک نکالتیں جو انہوں نے چاندی کی ایک نلکی میں رکھے ہوئے تھے۔ وہ ان بالوں کو اس پیالے میں پانی کے اندر ہلاتیں اور مریض وہ پانی پی لیتا اور شفایاب ہو جاتا۔ راوی کا بیان ہے کہ میں نے نلی میں جھانک کر دیکھا تو چند ایک سرخی مائل ہوئے مبارک نظر پڑے۔ (بخاری شریف)
سبحان اللہ ! رحمت عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک کا دھوون بھی بیماروں کیلئے شفاء ہے۔
Comment