Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

Lissan Urdu

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #16
    Re: Lissan Urdu

    Originally posted by aabi2cool View Post
    ۔
    ek ek baat sach hai aabid bhai.........
    khair apni zuban se brh kr ehsaas o jazbaat kisi aur zuban me byaan na ekiye ja sktay....asar apni zubaan me hi hota hai...yeh tou khud frebi hai aur kuch nae....hans ki chaal chlnay se kon hans bn ska hai....andha dhund taqleed aap ko kahin ka nae chorrti......

    achaa khyaal hai......qabil e amal b hoskta hai....:thmbup:
    شاہ حسین جیہناں سچ پچھاتا' کامل عِشق تیہناں دا جاتا

    Comment


    • #17
      Re: Lissan Urdu

      حامیانِ اُردو کی خدمت میں
      دَعوتِ فِکر وعَملْ

      از: اَلحاج حافظ منشی عبدالغفور
      ناظم مدرسہ انوارالقرآن نعمت پور، سہارنپور


      اپنے گھر میں اَجنبی اردو ہے آج
      اہلِ اُردو کاش رکھ لیں اِس کی لاج

      کی صحیح مصدق ہے، باہمی میل ملاپ کی مستحکم زنجیر وعلامت ہے، یہ ہماری قومی ملکی مشترکہ گنگاجمنی تہذیب وتمدن کی ضامن ہے، اس کی جڑیں معاشرہ میں تہذیبی اخلاقیات اور ہندوستان کی عظیم جمہوری تاریخ میں پیوست ہیں، اردو کی معیاری اور ٹھوس تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ سماج اورمعاشرہ میں آج بھی اپنا ایک مقام ووقار بنارہے ہیں اردو کا دائرہ کار ساری دنیا میں پھیلا ہوا ہے، عالمی زبانوں میں اس کا نمبر تیسرا ہے، شاید ہی دنیاکا کوئی ملک ایساہو جہاں اردو لکھنے، پڑھنے، بولنے اور سمجھنے والے افراد موجود نہ ہوں؛ لیکن افسوس اس پر ہے کہ آج اردو کے بڑے بڑے محقق، اُدباء، شعراء، نقاد ومبصرین کے بچے اردو سے نہ صرف نا آشنا ہی نہیں بلکہ انہیں اردو سے کوئی سروکار بھی نہیں ہے، یہ لوگ اپنے بچوں کو اردو میڈیم اِسکولوں میں پڑھنا تو دور کی بات اردو سکھاتے تک نہیں، عام طور پر نئی نسل کا اردو سے بتدریج لگاؤ کم تو ہوہی رہا ہے، بیگانہ بھی ہوتی جارہی ہے اور نابلد طبقہ برابر بڑھ رہا ہے، اردو کے تئیں عدم دلچسپی، بے حسی، بے توجہی کی انتہا ہورہی ہے، اگر ہم نے اپنے بچوں تک اردو کی وِراثت نہ پہنچائی تو ہم موردِ الزام ٹھہریں گے، اہل اردو کو اردو سے والہانہ تعلق ہونا چاہئے، اردو کے مایہ ناز پروفیسر رشید احمد صدیقی نے اپنے مخصوص انداز میں لکھا ہے کہ مغلیہ حکومت نے ہندوستان کو تین چیزیں دیں:
      (۱)
      اُردو
      (۲)
      غالب
      (۳)
      اور تاج محل
      حال ہی میں جموں کے نامور اردو کے صاحب طرز ادیب و

      پروفیسر آنند لہر صاحب نے وکلاء کے ایک خاص مجمع کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اردو دفتروں میں ہو نہ ہو لوگوں کے دلوں میں ضرور ہے،اردو اُن تمام لوگوں کی زبان ہے، جو اسے بولتے، سمجھتے اور جانتے ہیں، اس لیے نئی نسل میں اردو پڑھنے پڑھانے کا رُجحان پیدا کریں، تاکہ وہ اپنی ادبی وِراثت سے واقف ہوسکیں، حقیقت تو یہ ہے کہ زبانوں میں اردو نہ صرف سب سے زیادہ چاشنی والی زبان ہے، بلکہ سیکھنے میں بھی سب سے آسان ہے اردو میں جو کشش جاذبیت، جامعیت اور اختصاریت پائی جاتی ہے وہ دوسری زبانوں میں ناپید ہے، آنجہانی پنڈت جواہر لال نہرو آزاد بھارت کے پہلے وزیر اعظم اردو لکھتے پڑھتے بولتے تھے، ان کی مادری زبان اردو تھی موصوف کی تقریب شادی خانہ آبادی کا دعوت نامہ اردو میں مختصر اور انتہائی جامع شائع ہوا تھا، مگر افسوس کا مقام ہے کہ آج اپنے ہی وطن میں اردو بے یارومددگار ہے، یہ تو اپنی اندرونی طاقت اور حسن و کشش کے باعث ہنوز زندہ وتابندہ ہے، حال میں بھی عوام و خواص کے ایک بڑے طبقہ کی زبان ہے، بقول عزیز برنی (ایڈیٹر روزنامہ راشٹریہ سہارا اردو) آج وہی اردو جو ۱۹۴۷/ تک پورے ملک کی قومی اور رابطہ کی زبان رہی ہے، محض ایک ووٹ کی کمی کی وجہ سے قومی زبان بننے سے رہ گئی تھی گویا اب۔

      ظلمات کی صلیب پہ عیسیٰ بنی ہوئی
      زخموں سے چور میر کی اُردو زباں ہے آج
      اِس لیے اردو کی اہمیت واِفادیت نیز ضرورت کے پیش نظر اس کے فروغ و بقا ترویج واشاعت کی ذمہ داری آئینی اور اخلاقی نیز ملی اور سیاسی طور پر ہم سب اہل اردو پر عائد ہوتی ہے، ہمیں یہ ذمہ داری اپنا فرض جان کر بڑی مستعدی، تندہی اور دلچسپی سے نبھانی چاہئے اردو کی ہمہ جہت ترقی اور بقا کے لیے تن من دھن سے کوشاں رہیں چونکہ آگے آنے والی نسلوں کی اردو تعلیم و ترویج کا انحصار ہماری حال کی کوششوں پر ہے، مدارس عربیہ اردو کی فلاح و بہبود کے لیے بہت منظم اور موٴثر طرز و طریق پر کام کررہے ہیں، ہمارے یہ مدارس پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں، سب ہی محب وطن اور اردو دوست ہیں اس کی ترقی اور بقا کے لیے شب و روز کوشاں اور خواہاں ہیں، اب نہ صرف اردو والے کم ہورہے ہیں؛ بلکہ اردو کا شوق اردو کا چلن اور اردو کا تحفظ و تلفظ بھی کھوتے جارہے ہیں، اسکولوں میں جو بحیثیت اردو ٹیچرس لگے ہوئے ہیں وہ بھی ناقص اردو جاننے کے سبب غالب کو گالب، ذوق کو جوق، غلطی کو گلتی، ضرورت کو جرورت، حالات حاضرہ کو ہالات ہاجرہ، عارف انصاری کوآرف انساری لکھتے، پڑھتے، بولتے ہیں، گل اور غل نبات اور بنات کے تلفظ ومعنی اور موقع محل میں کوئی فرق نہیں جانتے، اس لیے صحیح اردو کی ترویج و تعلیم کا جہاں تک تعلق ہے اس کے لیے ٹھوس اور گہری کاوشوں کی ضرورت ہے تاکہ اردو لکھنے پڑھنے والوں کی تعداد میں اضافہ اوراس کا دائرہ عمل زیادہ سے زیادہ وسیع ہو، اس لیے حامیان اردو سے گزارش ہے کہ اردو کی بہرنوع تنظیم و ترقی نیز اصلاحات و اصطلاحات کے لیے حسب ذیل اُمور پر کمربستہ ہوکر عمل پیرا ہوں:
      (۱)
      تجربہ ہے کہ بچوں کی علمی صلاحیتیں مادری زبان میں بسہولت اُبھرتی ہیں چونکہ ہماری اور ہمارے بچوں کی مادری زبان اردو ہے، اس لیے اپنے بچوں کو بالخصوص ابتدائی تعلیم مادری زبان اردو میں دیں اور دلائیں۔
      (۲)
      بچے اپنے گرد وپیش اور گھریلو ماحول سے بہت کچھ سیکھتے ہیں، نئی نسل کو اردو سے رُوشناس کرانے کے لیے اپنے گھروں میں اردو کی تعلیم کا بہترین بندوبست کریں، گفتگو بھی صاف و شستہ ردو میں کی جائے اس طرح اردو کو گھروں کے اندر بھی جاری اور ساری رکھیں۔
      (۳)
      اُردو اخبارات و رسائل خرید کر پڑھیں، اردو کی کتابیں
      خرید کر ناشرین کتب کی حوصلہ افزائی کریں، گھر کے تمام افراد میں اردو اخبارات، دینی رسائل و جرائد کے مطالعہ کا رُجحان پیدا کریں۔
      (۴)
      کاروباری اِداروں، کارخانوں، فیکٹریوں، ساریوں، رہائش گاہوں، دکانوں، مکانوں، بنگلوں، دفتروں نیز مارکیٹ اگر ذاتی ہوتو اس پر بھی نام وغیرہ کے سائن بورڈ و اشتہارات اور تختیاں وغیرہ اردو رسم الخط میں لکھواکر لگائیں۔
      (۵)
      وزیٹنگ کارڈ، لیٹرپیڈ پر اپنا نام و مکمل پتہ اَوّل اُردو میں لکھوائیں، خط و کتابت ہمیشہ اردو میں کریں، خطوط پر پتے پہلے اردو میں لکھیں، دستخط ہرجگہ اردو میں کریں۔

      (۶)
      شادی بیاہ کی تقریبات، جلسہ وجلوس کے اِشتہارات واِعلانات کے فولڈر و پوسٹر اور دعوت نامے اردو میں چھپوائیں۔

      (۷)
      گھر اور دُکان کے سامان کی فہرست آمد و خرچ کاحساب اردو میں لکھیں۔

      (۸)
      حامیانِ اُردو جذبہٴ ایثار سے بستی بستی، محلہ محلہ اردو کے تعلیمی سینٹر قائم کرکے رضاکارانہ طور پر اردو پڑھائیں، اردو پڑھاؤ تحریک پُرامن طور پر چلائیں۔
      (۹)
      اِنگلش میڈیم اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کے والدین و سرپرستان اردو کو ایک مضمون کی حیثیت سے پڑھنے کا مطالبہ ذمہ دارانِ اسکول و کالج سے کریں اِن اسکولوں میں پڑھنے والے بچے خود بھی ذوق و شوق سے اردو پڑھیں لکھیں سمجھیں اور فخر سے بولیں۔

      (۱۰)
      مردم شماری کے زمانہ میں مادری زبان کے خانے میں لفظ اردو اپنے سامنے پُر کرواکر بعدہ جانچ بھی کرلیں۔

      (۱۱)

      اپنے بچوں کا داخلہ ایسے اسکول میں کرائیں جہاں اُردو کا مضمون بھی پڑھایا جاتا ہو۔

      (۱۲)

      مرکزی اور ریاستی سرکاروں سے اُردو کے آئینی حقوق کے دائرہ میں رہتے ہوئے محکمہ تعلیمات کے وزیر وزراء، افسران وذمہ داران سے مل کر اردو کی تعلیم و ترقی کے لیے اردو میڈیم اسکول کھولنے کی مانگ کریں اور قدیم اسکولوں میں مزید ماہر اردو اساتذہ پڑھانے پر بھی زور دیں جہاں اردو نہیں پڑھائی جاتی وہاں شعبہ اردو منظور و رائج کرائیں اردو کے اصحاب فکر و نظر کو اس بارے میں سعی بلیغ کرنی چاہئے تاکہ اردو کو شہرت عام اور بقائے دوام حاصل ہو اردو کی تنظیم و ترقی اور بقا میں حائل تمام تر دشواریوں کو دُور کرنے کرانے کی جدوجہد کریں تاکہ اردو کا چلن عام ہو کر اس کی عظمتِ رَفتہ کی بازیابی ہو۔

      (۱۳)
      ہر اردو داں اپنے حلقہ اثر میں ہر جاننے والے کو اُردو پڑھنے کی طرف راغب کرے، نیز اپنے اندر بے لوث خدمات وجذبات کے ساتھ اردو کے لیے کام کرنے کی خواہش و تڑپ پیدا کرے سبھی طبقات کے افراد کو اردو پڑھنے کی ترغیب دیں۔

      (۱۴)

      ان تمام محکموں کے دفاتر میں جہاں اردو کے مترجم موجود ہیں درخواستیں اردو میں ہی دیں، اقلیتی فلاح و بہود کے دفاتر، اردو تنظیموں، اردو انجمنوں، اردو اکاڈمیوں، اردو قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان دہلی، غالب اکیڈمی جیسے اِداروں میں اردو زبان و اردو رسم الخط میں ہی لکھ کر اپنی عرضیاں پیش کریں۔

      (۱۵)

      اردو کو روزی روٹی سے زیادہ جذبات سے جوڑنا ضروری تو ہے ہی مفید سے مفید تر بھی ہے، اِس لیے حامیانِ اردو، اردو کے فروغ کی خاطر کوشش تن من دھن سے کریں، توقع ہے کہ اردو کا ماضی جیسا شاندار و تابناک رہا ہے، اِنشاء اللہ مستقبل بھی ایسا ہی روشن ہوکر رہے گا۔

      (۱۶)

      ہمارا بیشتر مذہبی اور ثقافتی تہذیبی اور تمدنی تاریخی
      اور تدریسی سرمایہ اردو زبان میں ہے، اِس لیے اردو کی نئی نسل تیار کرنا ہم سب کا ملی اور اَخلاقی فریضہ بنتا ہے، آنے والی نسل اگر اردو سے ناواقف رہی تو چونکہ ہمارا تمام تر تہذیبی ثقافتی اور دینی سرمایہ ہماری تاریخ ہمارا تشخص و تمدن اردو زبان میں ہے گویا اردو ہمارا ملی، قومی اور مذہبی اَثاثہ ہے، یہ سارے کا سارا اثاثہ ختم ہوکر رہ جائے گا، چنانچہ اردو ہمارے دین کی پہچان ہے، تہذیب و تمدن کی کان ہے، صلح وشرافت کی جان ہے، کتنی لذیذ وشیریں یہ اردو زبان ہے،اس لیے ہم اپنے بچوں کو اُردو سے آراستہ کرنالازم جانیں۔
      ٭٭٭
      http://www.darululoom-deoband.com/ur...07-July-08.htm
      ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

      Comment


      • #18
        Re: Lissan Urdu

        اردو کی تعمیر و ترقی اور ترویج و اشاعت کے حوالے سے دارالعلوم دیوبند کہ جریدہ ماہنامہ دارالعلوم بابت ماہ جولائی میں درج بالا مقالہ نظر سے گزرا ۔ ۔ ۔ اردو زبان کو درپیش مشکلات کے حوالہ سے درج بالا بالہ مقالہ اگرچہ خاص ہندوستان کہ اندرونی حالات واقعات کہ پس منظر میں ترتیب دیا گیا ہے مگر اس کی افادیت کہ پیش نظر ہم نے یہ مناسب سمجھا کہ پیغام کہ قارئین کہ لیے بھی اسے شئر کیا جائے ۔ ۔ ۔
        ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

        Comment


        • #19
          Re: Lissan Urdu

          Its very nice effort aabi..hats off to u...

          Comment


          • #20
            Re: Lissan Urdu

            @ abi bro.

            reputation added
            " Obstacles are what you see when you take your eyes off your goals "

            Comment


            • #21
              Re: Lissan Urdu

              Originally posted by Xenja View Post
              @ abi bro.

              reputation added
              teddy
              ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

              Comment


              • #22
                Re: Lissan Urdu

                Originally posted by aabi2cool View Post
                اسلام علیکم سب سے پہلے تو ایک انتہائی ضروی اور اہم موضوع کو شروع کرنے پر داد قبول کیجیئے۔ اسکے بعد اگر ہم اردو زبان کی تاریخ و ارتقاء پر غور کریں تو اس سلسلے میں ہمیں اتنی متضاد آراء کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ انسانی دماغ چکرا کر رہ جاتا ہے مگر ایک بات تو طے ہے کہ جس پر تمام ماہر لسانیات متفق ہیں کہ برصغیر میں اردو زبان کی پیدائش یہاں پر اسلام یعنی مسلمانوں کی آمد سے ہوئی کہ مسلمان لشکر جب اس خطے میں داخل ہوئے تو مقامی لوگوں کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے انھے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جس کے نتیجے میں اردو زبان کا وجود عمل میں آیا اسی لیے اس کو لشکری زبان بھی کہا جاتا ہے جو کہ بنیادی طور پر عربی فارسی ترکی اور سنسکرت زبانوں کا مرکب ہے بعد میں اس میں دیگر علاقائی زبانوں کا دخول بھی ہوا جیسے پنجابی و سندھی وغیرہ دنیا کی کسی بھی زبان کی ترقی کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس میں ارتقاء کا عمل جاری رہے اور اردو میں یہ خوبی بکثرت موجود ہے اردو بے بہت سی زبانوں کے اثرات کو قبول کیا ہے یہی وجہ ہے کہ اردو زبان کو مختلف اوقات و ادوار میں مختلف ناموں مثلا ہندوی، ہندوستانی ، ریختہ، دکنی اور گجراتی کے ناموں سے یاد کیا جاتا رہا ۔ اس زبان نے ارتقا کی جتنی بھی منزلیں طے کیں اتنے ہی اس کے نام پڑتے چلے گۓ ۔ ناموں کی اس تبدیلی کے پس پردہ مختلف ادوار کی مخصوص تہذیبی و سیاسی روایات کی کارفرمائی نظر آتی ہے ۔ ماہرین لسانیات کے مطابق زبان کسی فرد کی تخلیق نہیں ہوتی بلکہ زبان کو معاشرتی ضرورت نے پیدا کیا اور اس کا ارتقاء زمانہ کی ضرورت اور حالات و افکار کے تابع رہا جس میں صدیوں کا عرصہ درکار ہوتا ہے ۔
                بقول باباۓ اردو مولوی عبدالحق ۔
                جس اصول پر بیج سے کونپل پھوٹتی ہے ۔ پتے نکلتے ،شاخیں پھیلتی ،پھل پھول لگتے ہیں اور ایک دن وہی ننھا سا پودا ایک تناور درخت ہو جاتا ہے اسی اصول کے مطابق زبان پیدا ہوتی ہے ۔ بڑھتی اور پھیلتی ہے ۔
                اسی اصول پر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس زبان کو ہر قسم کے خیالات کے اظہار کا وسیلہ بنایا جانے لگا اور یوں یہ بہتری کے ساتھ ترقی کی منازل طے کرنے لگی اور آج یہ اکثر ممالک میں بولی اور سمجھی جاتی ہے جن میں پاکستان ،بھارت ،بنگلہ دیش ،نیپال شامل ہیں ۔اور جہاں تک آپ کا یہ سوال ہے کہ اردو وزبان آج کہاں اسٹینڈ کرتی ہے تو اس ضمن مجھے انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ دنیا کی کسی بھی قوم کی ترقی میں اُسکی تہذیب و ثقافت اور زبان و ادب کا بڑا بنیادی اور اہم کردار ہوتا ہے ۔ کیونکہ قوم اپنے رہن سہن، طور طریقہ، بول چال اور علم سے پہچانی جاتی ہے۔ یہ سب چیزیں قوم کی تہذیب و ثقافت میں شامل ہوتی ہیں ۔ اور تاریخ گواہ ہے مختلف تہذیب و ثقافتیں ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتی رہتی ہیں۔ کبھی کوئی تہذیب غالب آ جاتی ہے تو کبھی کوئی۔ ہمیشہ اُن علاقوں کی تہذیب دوسری پر غالب آتی ہے جہاں کے رہنے والے یعنی اُس تہذیب کے والی وارث مضبوط لوگ ہوتے ہیں جو اپنی تہذیب و ثقافت سے بے شمار محبت کرتے ہے۔ہمارے اجداد کو اپنی تہذیب وثقافت سے بڑا پیار تھا اور یہ انکی محبت ہی تھی کہ انھوں نے اپنی الگ پہچان کی خاطر ڈھیروں قربانیاں دیکر ہمارے لیے ہمارا یہ پیارا وطن پاکستان حاصل کیا تاکہ ہم یہاں آزادی کے ساتھ اپنے دین کے اصولوں کے مطابق اس کے نظام کو نافذ کرسکیں اور اپنی زبان و تہذیب کے ساتھ اپنی اپنی زندگیاں گزار سکیں ۔
                اُن کا خیال تھا کہ وہ پاکستان حاصل کر کے وہاں اسلامی اصولوں کے مطابق اپنی تہذیب و ثقافت کو پروان چڑھائیں گے۔ لیکن انہیں نہیں پتہ تھا کہ اُن کے جانشین اُن کی قربانیوں کو ضائع کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔افسوس کہ ہم نہ تو اس ملک میں اسلامی نظام کو نافذ کرسکے اور نہ ہی اپنی تہذیب و ثقافت کے لیے کوئی اہم اقدامات کرسکےحد تو یہ ہے کہ اردو کو اس ملک کی قومی زبان کا درجہ حاصل ہونے کہ باوجود سرکاری سطح پر آج تک رائج نہ کیا جاسکا اور حالت ہماری یہ ہے کہ ہمارے ملک کا سب سے بڑا عہدے دار یعنی صدر جب پارلیمنٹ کے مشترکہ ایوانوں سے خطاب کرتا ہے تو وہ خطاب بھی انگریزی میں کرتا ہے اور اس میں بھی اتنی غلطیاں کرتا ہے کہ میڈیا اس کو جگ ہنسائی کا باعث بنا لیتا ہے اور انفرادی طور پر اگر اس فورم پیغام کو ہی لیں تو یہاں جب بھی میں نے اردو لکھی تو یار لوگوں کو یہی شکایت رہی کہ ہمیں سمجھ نہیں آتا کہ آپ کیا لکھتے ہو اور دوسری طرف انگریزی کا یہ عالم ہے کہ ہمارے فاضل رکن جناب منڈا سیالکوٹی صاحب یہ کہتے ہیں کہ ان کو بحث کرنے لیے انگریزی سے زیادہ مؤثر دوسری کوئی زبان میسر نہیں اور اگر اردو کی بات کریں تو وہ بھی یہی شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ اردو میں میں اپنے جزبات و احساسات وخیالات کا مؤثر طریقے سے اظہار نہیں کرسکتا انا للہ وانا الیہ راجعون اور اگر قوم کی پور مجموعی حالت پر نظر ڈالیں تو آج جدھر دیکھو ایسا لگتا ہے کہ ہماری نہ تو کوئی تہذیب ہے نہ کوئی ثقافت ہے اور نہ ہی کوئی اپنی زبان اور نہ ہی کوئی اپنی الگ سے پہچان ہے۔ دوستوں نے بالکل بجا فرمایا کہ یہاں پر جو کوئی بھی انگریزی کو دوچار ٹوٹے پھوٹے الفاظ اپنی گفتگو میں استعمال کرے اس کو پڑھا لکھا گردانا جاتا ہے اور ہم میں سے ہر ایک کو تب تک مکمل آرام نہیں آتا جب تک وہ اپنی گفتگو میں انگریزی کا تڑکا لگا کر اس کا صواد خود نہ چکھ لے یا پھر اپنی فراٹے دار انگریزی سے دوسروں کومزہ
                نہ چکھا لے کیوں کہ ہر چیز دوسروں کی اپنانے میں اور دن بدن دوسروں جیسا ہوجانے میں ہمیں کبھی کوئی عار محسوس ہی نہیں ہوتی۔ زبان سے لے کر لباس تک اور کھانے سے لےکر رسم و رواج تک سب کے سب بیگانے ہیں۔ آج کے ایک پاکستانی کا حلیہ دیکھو تو صاف پتہ چلے گا کہ اس کا کچھ بھی اپنا نہیں نہ زبان، نہ لباس، نہ خوراک اور نہ ہی رہن سہن۔ جب تک ہم اپنی قومی زبان میں انگریزی کا تڑکہ نہ لگائیں ہم سمجھتے ہیں شاید ہم کوئی جنگلی زبان بول رہے ہیں کسی دوسری زبان میں تحریر لکھنا اور بولنا اپنے لیے فخر محسوس کرتے ہیں۔ علم کی حد تک تو کئی دوسری زبان سیکھنا بہت اچھی بات ہے لیکن اپنی زبان پر کسی دوسری زبان کو فوقیت دینا اور اپنی زبان کو کم تر سمجھنا۔ یہ کہاں کا انصاف ہے؟آپ تاریخ کھول کر دیکھ لیجئے جن قوموں نے بھی ترقی کی اپنی زبان میں کی۔ کوئی بھی انسان اپنی زبان میں کوئی بھی علم اچھا سیکھ سکتا ہے نہ کہ کسی دوسری زبان میں۔ اس بات کی تاریخ گواہ ہے جس کی مثال آج دنیا کے کئی ترقی یافتہ ملک ہیں جیسے چین اور جاپان وغیرہ وغیرہ۔
                ہمارے صدر کے حالیہ دورہ چین میں میں نے واضح طور پر دیکھا کہ چینی رہنما دوسروں کے ساتھ اپنی زبان میں ہی گفتگو کرتے ہیں اور دوسروں تک اپنی بات پہنچانے کے لیے مترجم کا سہارا لیتے ہیں چین نے کس شعبے میں ترقی نہیں کی کیا ان کے رہنما انگریزی نہیں سیکھ سکتے تھے ؟تھے مگر اپنی ابان و ادب کے ساتھ انکی محبت کا تقاضہ ہے کہ وہ جہان کہیں بھی جائیں ابلاغ کے لیے اپنی بولی ہی بولتے ہیں چاہے اپنے ملک میں کسی کو بلائیں یا اقوام متحدہ میں جاکر ساری قومون کو مخاطب کریں ۔ ۔ اور ایک ہم ہیں! اپنی زبان کو باعثِ شرم محسوس کرتے ہیں اور کسی دوسری زبان کو اعلٰی شخصیت کی پہچان سمجھتے ہیں۔ ترقی یافتہ قوموں کی اپنی زبان کے ساتھ محبت کا شدید اندازہ مجھے یورپ آکر ہوا کہ یہ لوگ کس طرح اپنی زبان سے محبت کرتے ہیں اور دوسروں کی زبان سے تعصب برتتے ہیں اگرچہ تعصب کا لفظ اپنے عمومی استعمال میں اچھا نہیں مگر میری ذاتی رائے میں زبان کے معاملے میں اس کا برتاؤ جائز ہے لیکن پتہ نہیں ہمیں کیا ہو گیا ہے کہ بڑے فخر سے دوسروں کی زبان بولتے ہیں اور دوسروں کا لباس پہنتے ہیں کھانے کھاتے ہیں اور اُنہیں اعلٰی شخصیت کی پہچان سمجھتے ہیں جسے پوچھ لو کھانے میں* کیا پسند ہے؟ فورا جواب دے کا اٹالین فوڈ یا چاینیز وغیرہ بھلے اس نے کبھی اٹالین کی شکل بھی نہ دیکھی ہو کہ کیسا ہوتا ہے؟ اور بیرونی کھانوں کو اپنی پسند اس طرح سےبتاتے ہیں کہ جیسے معاشرے میں شخصیت کی قدرو منزلت کا معیار بیرونی کھانوں کی حرمت پر ہو ۔
                جب زبان بھی دوسروں کی اعلٰی لباس بھی اوروں کا بہترین ہو کھانے اور باقی سب کچھ بھی غیروں کے بڑیا ہوں تو پھر تہزیب کے لیے باقی بچتا ہی کیا ہے کہ جس کے لیے ہم لفظ اپنا استعمال کریں ۔ ۔ یاد رہےجو قومیں اپنی تہذیب و ثقافت بھلا دیتی ہیں تاریخ بھی انھیں کبھی یاد نہیں رکھتی
                XENYA ka yahi ilaaj he372-haha
                :thmbup:

                Comment


                • #23
                  Re: Lissan Urdu

                  Originally posted by munda_sialkoty View Post
                  XENYA ka yahi ilaaj he372-haha
                  aur tera seway chittar k dosra konsa hy wo bhi bata day
                  ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

                  Comment


                  • #24
                    Re: Lissan Urdu

                    Originally posted by aabi2cool View Post
                    aur tera seway chittar k dosra konsa hy wo bhi bata day
                    Tera sirf aik he ilaaj he, wo hein juraabein 372-haha
                    :thmbup:

                    Comment


                    • #25
                      Re: Lissan Urdu

                      Originally posted by munda_sialkoty View Post
                      Tera sirf aik he ilaaj he, wo hein juraabein 372-haha
                      aur wo jurabeen tery monh ki utran hongee zaroor372-haha
                      ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

                      Comment


                      • #26
                        Re: Lissan Urdu

                        Originally posted by aabi2cool View Post
                        aur wo jurabeen tery monh ki utran hongee zaroor372-haha
                        Mere moun se utaar ke tere moun pe he charhein gi na 372-hahawaise bhi tujay kia faraq perta he jhoothi cheezein pehananay mein, aakhir hay to tu GUJJAR he na.

                        Way Gujra way
                        Way Gujra way
                        :thmbup:

                        Comment


                        • #27
                          Re: Lissan Urdu

                          Originally posted by munda_sialkoty View Post
                          XENYA ka yahi ilaaj he372-haha
                          Itna asaan nahi hai... baqaul my doc. "we just don't know" :hehe:
                          " Obstacles are what you see when you take your eyes off your goals "

                          Comment


                          • #28
                            Re: Lissan Urdu

                            Originally posted by aabi2cool View Post
                            aur tera seway chittar k dosra konsa hy wo bhi bata day
                            sialkoty ka doosra ilaj ye hai :a stick:
                            Last edited by Z.; 8 November 2008, 21:20. Reason: addition
                            " Obstacles are what you see when you take your eyes off your goals "

                            Comment


                            • #29
                              Re: Lissan Urdu

                              Originally posted by Xenja View Post
                              sialkoty ka doosra ilaj ye hai :a stick:
                              is ka pehla ilaaj bhi yehi hy
                              ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

                              Comment


                              • #30
                                Re: Lissan Urdu

                                Originally posted by aabi2cool View Post
                                is ka pehla ilaaj bhi yehi hy
                                Yahi ilaaj he xenya ka 372-haha
                                :thmbup:

                                Comment

                                Working...
                                X