Announcement
Collapse
No announcement yet.
Unconfigured Ad Widget
Collapse
Lissan Urdu
Collapse
X
-
Re: Lissan Urdu
Walekam-Aslam
Mujhe Pakistan say ayey huey 5 years ho gayey hein, so itna nahi pata.
Lekin, I think aab likhnay mein yeh tabdeli aa gaye hai kay kuch lafzon ko sahi nahi likha jaata. Suad ki jagah Seen aur Toyen ki jagah Tay use ker detey hein log.
Aaj kal tou Pakistan mein jo English bol sakta hai usay educated samjha jaata hai aur jo nahi bolta usay unparh.
Hum khud he qadar nahi ker rahey apni Zuban ki tou auron say kia expect kia jaa sakta hai?
Comment
-
Re: Lissan Urdu
Originally posted by *Hijab* View PostWalekam-Aslam
Mujhe Pakistan say ayey huey 5 years ho gayey hein, so itna nahi pata.
Lekin, I think aab likhnay mein yeh tabdeli aa gaye hai kay kuch lafzon ko sahi nahi likha jaata. Suad ki jagah Seen aur Toyen ki jagah Tay use ker detey hein log.
Aaj kal tou Pakistan mein jo English bol sakta hai usay educated samjha jaata hai aur jo nahi bolta usay unparh.
Hum khud he qadar nahi ker rahey apni Zuban ki tou auron say kia expect kia jaa sakta hai?
bilkul sahi kaha aap nai......ke hum log apni zuban bhul chuky hain or dekha jaye to urdu main b urdu kam or english ziyda boli jati haii...:rosesigpic
Comment
-
Re: Lissan Urdu
Originally posted by *Hijab* View PostWalekam-Aslam
Mujhe Pakistan say ayey huey 5 years ho gayey hein, so itna nahi pata.
Lekin, I think aab likhnay mein yeh tabdeli aa gaye hai kay kuch lafzon ko sahi nahi likha jaata. Suad ki jagah Seen aur Toyen ki jagah Tay use ker detey hein log.
Aaj kal tou Pakistan mein jo English bol sakta hai usay educated samjha jaata hai aur jo nahi bolta usay unparh.
Hum khud he qadar nahi ker rahey apni Zuban ki tou auron say kia expect kia jaa sakta hai?" Obstacles are what you see when you take your eyes off your goals "
Comment
-
Re: Lissan Urdu
Walaikum asalam
good thread Xenja!
khalis urdu too buss ab nam ki hi reh gie hay, aajkal Pakistan men agar kisi ko english bolni nahi aati too woh parha likha tasawur nahi kia jata, yeh bhi aik waja hay hamaray mulk ki taraqe naa karnay ki, humnay apni zabaan hi choor di hay, koi aesa institute nahi hay joo khalis urdu ki taleem deta ho, aur yeh roman urdu nay rahi sahi qasar bhi nikaal di hay, aik too wasay hi urdu sirf naam ki hay aur iss kay baad too urdu ka naam bhi nahi hay, urdu sirf inter tak hamaray school/colleges mein parhai jati hay, iss kay baad urdu ka naam-o-nishaan bhi nahi lia jata, aur 10saal say wohi purani urdu koi tabdeli nahi.
Comment
-
Re: Lissan Urdu
اسلام علیکم سب سے پہلے تو ایک انتہائی ضروی اور اہم موضوع کو شروع کرنے پر داد قبول کیجیئے۔ اسکے بعد اگر ہم اردو زبان کی تاریخ و ارتقاء پر غور کریں تو اس سلسلے میں ہمیں اتنی متضاد آراء کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ انسانی دماغ چکرا کر رہ جاتا ہے مگر ایک بات تو طے ہے کہ جس پر تمام ماہر لسانیات متفق ہیں کہ برصغیر میں اردو زبان کی پیدائش یہاں پر اسلام یعنی مسلمانوں کی آمد سے ہوئی کہ مسلمان لشکر جب اس خطے میں داخل ہوئے تو مقامی لوگوں کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے انھے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جس کے نتیجے میں اردو زبان کا وجود عمل میں آیا اسی لیے اس کو لشکری زبان بھی کہا جاتا ہے جو کہ بنیادی طور پر عربی فارسی ترکی اور سنسکرت زبانوں کا مرکب ہے بعد میں اس میں دیگر علاقائی زبانوں کا دخول بھی ہوا جیسے پنجابی و سندھی وغیرہ دنیا کی کسی بھی زبان کی ترقی کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس میں ارتقاء کا عمل جاری رہے اور اردو میں یہ خوبی بکثرت موجود ہے اردو بے بہت سی زبانوں کے اثرات کو قبول کیا ہے یہی وجہ ہے کہ اردو زبان کو مختلف اوقات و ادوار میں مختلف ناموں مثلا ہندوی، ہندوستانی ، ریختہ، دکنی اور گجراتی کے ناموں سے یاد کیا جاتا رہا ۔ اس زبان نے ارتقا کی جتنی بھی منزلیں طے کیں اتنے ہی اس کے نام پڑتے چلے گۓ ۔ ناموں کی اس تبدیلی کے پس پردہ مختلف ادوار کی مخصوص تہذیبی و سیاسی روایات کی کارفرمائی نظر آتی ہے ۔ ماہرین لسانیات کے مطابق زبان کسی فرد کی تخلیق نہیں ہوتی بلکہ زبان کو معاشرتی ضرورت نے پیدا کیا اور اس کا ارتقاء زمانہ کی ضرورت اور حالات و افکار کے تابع رہا جس میں صدیوں کا عرصہ درکار ہوتا ہے ۔
بقول باباۓ اردو مولوی عبدالحق ۔
جس اصول پر بیج سے کونپل پھوٹتی ہے ۔ پتے نکلتے ،شاخیں پھیلتی ،پھل پھول لگتے ہیں اور ایک دن وہی ننھا سا پودا ایک تناور درخت ہو جاتا ہے اسی اصول کے مطابق زبان پیدا ہوتی ہے ۔ بڑھتی اور پھیلتی ہے ۔
اسی اصول پر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس زبان کو ہر قسم کے خیالات کے اظہار کا وسیلہ بنایا جانے لگا اور یوں یہ بہتری کے ساتھ ترقی کی منازل طے کرنے لگی اور آج یہ اکثر ممالک میں بولی اور سمجھی جاتی ہے جن میں پاکستان ،بھارت ،بنگلہ دیش ،نیپال شامل ہیں ۔اور جہاں تک آپ کا یہ سوال ہے کہ اردو وزبان آج کہاں اسٹینڈ کرتی ہے تو اس ضمن مجھے انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ دنیا کی کسی بھی قوم کی ترقی میں اُسکی تہذیب و ثقافت اور زبان و ادب کا بڑا بنیادی اور اہم کردار ہوتا ہے ۔ کیونکہ قوم اپنے رہن سہن، طور طریقہ، بول چال اور علم سے پہچانی جاتی ہے۔ یہ سب چیزیں قوم کی تہذیب و ثقافت میں شامل ہوتی ہیں ۔ اور تاریخ گواہ ہے مختلف تہذیب و ثقافتیں ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتی رہتی ہیں۔ کبھی کوئی تہذیب غالب آ جاتی ہے تو کبھی کوئی۔ ہمیشہ اُن علاقوں کی تہذیب دوسری پر غالب آتی ہے جہاں کے رہنے والے یعنی اُس تہذیب کے والی وارث مضبوط لوگ ہوتے ہیں جو اپنی تہذیب و ثقافت سے بے شمار محبت کرتے ہے۔ہمارے اجداد کو اپنی تہذیب وثقافت سے بڑا پیار تھا اور یہ انکی محبت ہی تھی کہ انھوں نے اپنی الگ پہچان کی خاطر ڈھیروں قربانیاں دیکر ہمارے لیے ہمارا یہ پیارا وطن پاکستان حاصل کیا تاکہ ہم یہاں آزادی کے ساتھ اپنے دین کے اصولوں کے مطابق اس کے نظام کو نافذ کرسکیں اور اپنی زبان و تہذیب کے ساتھ اپنی اپنی زندگیاں گزار سکیں ۔
اُن کا خیال تھا کہ وہ پاکستان حاصل کر کے وہاں اسلامی اصولوں کے مطابق اپنی تہذیب و ثقافت کو پروان چڑھائیں گے۔ لیکن انہیں نہیں پتہ تھا کہ اُن کے جانشین اُن کی قربانیوں کو ضائع کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔افسوس کہ ہم نہ تو اس ملک میں اسلامی نظام کو نافذ کرسکے اور نہ ہی اپنی تہذیب و ثقافت کے لیے کوئی اہم اقدامات کرسکےحد تو یہ ہے کہ اردو کو اس ملک کی قومی زبان کا درجہ حاصل ہونے کہ باوجود سرکاری سطح پر آج تک رائج نہ کیا جاسکا اور حالت ہماری یہ ہے کہ ہمارے ملک کا سب سے بڑا عہدے دار یعنی صدر جب پارلیمنٹ کے مشترکہ ایوانوں سے خطاب کرتا ہے تو وہ خطاب بھی انگریزی میں کرتا ہے اور اس میں بھی اتنی غلطیاں کرتا ہے کہ میڈیا اس کو جگ ہنسائی کا باعث بنا لیتا ہے اور انفرادی طور پر اگر اس فورم پیغام کو ہی لیں تو یہاں جب بھی میں نے اردو لکھی تو یار لوگوں کو یہی شکایت رہی کہ ہمیں سمجھ نہیں آتا کہ آپ کیا لکھتے ہو اور دوسری طرف انگریزی کا یہ عالم ہے کہ ہمارے فاضل رکن جناب منڈا سیالکوٹی صاحب یہ کہتے ہیں کہ ان کو بحث کرنے لیے انگریزی سے زیادہ مؤثر دوسری کوئی زبان میسر نہیں اور اگر اردو کی بات کریں تو وہ بھی یہی شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ اردو میں میں اپنے جزبات و احساسات وخیالات کا مؤثر طریقے سے اظہار نہیں کرسکتا انا للہ وانا الیہ راجعون اور اگر قوم کی پور مجموعی حالت پر نظر ڈالیں تو آج جدھر دیکھو ایسا لگتا ہے کہ ہماری نہ تو کوئی تہذیب ہے نہ کوئی ثقافت ہے اور نہ ہی کوئی اپنی زبان اور نہ ہی کوئی اپنی الگ سے پہچان ہے۔ دوستوں نے بالکل بجا فرمایا کہ یہاں پر جو کوئی بھی انگریزی کو دوچار ٹوٹے پھوٹے الفاظ اپنی گفتگو میں استعمال کرے اس کو پڑھا لکھا گردانا جاتا ہے اور ہم میں سے ہر ایک کو تب تک مکمل آرام نہیں آتا جب تک وہ اپنی گفتگو میں انگریزی کا تڑکا لگا کر اس کا صواد خود نہ چکھ لے یا پھر اپنی فراٹے دار انگریزی سے دوسروں کومزہ
نہ چکھا لے کیوں کہ ہر چیز دوسروں کی اپنانے میں اور دن بدن دوسروں جیسا ہوجانے میں ہمیں کبھی کوئی عار محسوس ہی نہیں ہوتی۔ زبان سے لے کر لباس تک اور کھانے سے لےکر رسم و رواج تک سب کے سب بیگانے ہیں۔ آج کے ایک پاکستانی کا حلیہ دیکھو تو صاف پتہ چلے گا کہ اس کا کچھ بھی اپنا نہیں نہ زبان، نہ لباس، نہ خوراک اور نہ ہی رہن سہن۔ جب تک ہم اپنی قومی زبان میں انگریزی کا تڑکہ نہ لگائیں ہم سمجھتے ہیں شاید ہم کوئی جنگلی زبان بول رہے ہیں کسی دوسری زبان میں تحریر لکھنا اور بولنا اپنے لیے فخر محسوس کرتے ہیں۔ علم کی حد تک تو کئی دوسری زبان سیکھنا بہت اچھی بات ہے لیکن اپنی زبان پر کسی دوسری زبان کو فوقیت دینا اور اپنی زبان کو کم تر سمجھنا۔ یہ کہاں کا انصاف ہے؟آپ تاریخ کھول کر دیکھ لیجئے جن قوموں نے بھی ترقی کی اپنی زبان میں کی۔ کوئی بھی انسان اپنی زبان میں کوئی بھی علم اچھا سیکھ سکتا ہے نہ کہ کسی دوسری زبان میں۔ اس بات کی تاریخ گواہ ہے جس کی مثال آج دنیا کے کئی ترقی یافتہ ملک ہیں جیسے چین اور جاپان وغیرہ وغیرہ۔
ہمارے صدر کے حالیہ دورہ چین میں میں نے واضح طور پر دیکھا کہ چینی رہنما دوسروں کے ساتھ اپنی زبان میں ہی گفتگو کرتے ہیں اور دوسروں تک اپنی بات پہنچانے کے لیے مترجم کا سہارا لیتے ہیں چین نے کس شعبے میں ترقی نہیں کی کیا ان کے رہنما انگریزی نہیں سیکھ سکتے تھے ؟تھے مگر اپنی ابان و ادب کے ساتھ انکی محبت کا تقاضہ ہے کہ وہ جہان کہیں بھی جائیں ابلاغ کے لیے اپنی بولی ہی بولتے ہیں چاہے اپنے ملک میں کسی کو بلائیں یا اقوام متحدہ میں جاکر ساری قومون کو مخاطب کریں ۔ ۔ اور ایک ہم ہیں! اپنی زبان کو باعثِ شرم محسوس کرتے ہیں اور کسی دوسری زبان کو اعلٰی شخصیت کی پہچان سمجھتے ہیں۔ ترقی یافتہ قوموں کی اپنی زبان کے ساتھ محبت کا شدید اندازہ مجھے یورپ آکر ہوا کہ یہ لوگ کس طرح اپنی زبان سے محبت کرتے ہیں اور دوسروں کی زبان سے تعصب برتتے ہیں اگرچہ تعصب کا لفظ اپنے عمومی استعمال میں اچھا نہیں مگر میری ذاتی رائے میں زبان کے معاملے میں اس کا برتاؤ جائز ہے لیکن پتہ نہیں ہمیں کیا ہو گیا ہے کہ بڑے فخر سے دوسروں کی زبان بولتے ہیں اور دوسروں کا لباس پہنتے ہیں کھانے کھاتے ہیں اور اُنہیں اعلٰی شخصیت کی پہچان سمجھتے ہیں جسے پوچھ لو کھانے میں* کیا پسند ہے؟ فورا جواب دے کا اٹالین فوڈ یا چاینیز وغیرہ بھلے اس نے کبھی اٹالین کی شکل بھی نہ دیکھی ہو کہ کیسا ہوتا ہے؟ اور بیرونی کھانوں کو اپنی پسند اس طرح سےبتاتے ہیں کہ جیسے معاشرے میں شخصیت کی قدرو منزلت کا معیار بیرونی کھانوں کی حرمت پر ہو ۔
جب زبان بھی دوسروں کی اعلٰی لباس بھی اوروں کا بہترین ہو کھانے اور باقی سب کچھ بھی غیروں کے بڑیا ہوں تو پھر تہزیب کے لیے باقی بچتا ہی کیا ہے کہ جس کے لیے ہم لفظ اپنا استعمال کریں ۔ ۔ یاد رہےجو قومیں اپنی تہذیب و ثقافت بھلا دیتی ہیں تاریخ بھی انھیں کبھی یاد نہیں رکھتی
ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا
Comment
-
Re: Lissan Urdu
governement ka ek department hai jis ka naam hai "urdu adbi board" jo sunna tu yeh k yeh edara urdu ki tarweej ka kaam kar raha hai..... aur iss edaray kay baray adbi log chairman rah chukay hain.... ahmed fraz un mein eik hain jo urdu adbi board kay chairman bhi rah chukay hain.......:alhamd::SubhanAllhaa::alhamd::jazak::insha:
Comment
-
Re: Lissan Urdu
Originally posted by aabi2cool View Postاسلام علیکم سب سے پہلے تو ایک انتہائی ضروی اور اہم موضوع کو شروع کرنے پر داد قبول کیجیئے۔ اسکے بعد اگر ہم اردو زبان کی تاریخ و ارتقاء پر غور کریں تو اس سلسلے میں ہمیں اتنی متضاد آراء کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ انسانی دماغ چکرا کر رہ جاتا ہے مگر ایک بات تو طے ہے کہ جس پر تمام ماہر لسانیات متفق ہیں کہ برصغیر میں اردو زبان کی پیدائش یہاں پر اسلام یعنی مسلمانوں کی آمد سے ہوئی کہ مسلمان لشکر جب اس خطے میں داخل ہوئے تو مقامی لوگوں کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے انھے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جس کے نتیجے میں اردو زبان کا وجود عمل میں آیا اسی لیے اس کو لشکری زبان بھی کہا جاتا ہے جو کہ بنیادی طور پر عربی فارسی ترکی اور سنسکرت زبانوں کا مرکب ہے بعد میں اس میں دیگر علاقائی زبانوں کا دخول بھی ہوا جیسے پنجابی و سندھی وغیرہ دنیا کی کسی بھی زبان کی ترقی کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس میں ارتقاء کا عمل جاری رہے اور اردو میں یہ خوبی بکثرت موجود ہے اردو بے بہت سی زبانوں کے اثرات کو قبول کیا ہے یہی وجہ ہے کہ اردو زبان کو مختلف اوقات و ادوار میں مختلف ناموں مثلا ہندوی، ہندوستانی ، ریختہ، دکنی اور گجراتی کے ناموں سے یاد کیا جاتا رہا ۔ اس زبان نے ارتقا کی جتنی بھی منزلیں طے کیں اتنے ہی اس کے نام پڑتے چلے گۓ ۔ ناموں کی اس تبدیلی کے پس پردہ مختلف ادوار کی مخصوص تہذیبی و سیاسی روایات کی کارفرمائی نظر آتی ہے ۔ ماہرین لسانیات کے مطابق زبان کسی فرد کی تخلیق نہیں ہوتی بلکہ زبان کو معاشرتی ضرورت نے پیدا کیا اور اس کا ارتقاء زمانہ کی ضرورت اور حالات و افکار کے تابع رہا جس میں صدیوں کا عرصہ درکار ہوتا ہے ۔
بقول باباۓ اردو مولوی عبدالحق ۔
جس اصول پر بیج سے کونپل پھوٹتی ہے ۔ پتے نکلتے ،شاخیں پھیلتی ،پھل پھول لگتے ہیں اور ایک دن وہی ننھا سا پودا ایک تناور درخت ہو جاتا ہے اسی اصول کے مطابق زبان پیدا ہوتی ہے ۔ بڑھتی اور پھیلتی ہے ۔
اسی اصول پر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس زبان کو ہر قسم کے خیالات کے اظہار کا وسیلہ بنایا جانے لگا اور یوں یہ بہتری کے ساتھ ترقی کی منازل طے کرنے لگی اور آج یہ اکثر ممالک میں بولی اور سمجھی جاتی ہے جن میں پاکستان ،بھارت ،بنگلہ دیش ،نیپال شامل ہیں ۔اور جہاں تک آپ کا یہ سوال ہے کہ اردو وزبان آج کہاں اسٹینڈ کرتی ہے تو اس ضمن مجھے انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ دنیا کی کسی بھی قوم کی ترقی میں اُسکی تہذیب و ثقافت اور زبان و ادب کا بڑا بنیادی اور اہم کردار ہوتا ہے ۔ کیونکہ قوم اپنے رہن سہن، طور طریقہ، بول چال اور علم سے پہچانی جاتی ہے۔ یہ سب چیزیں قوم کی تہذیب و ثقافت میں شامل ہوتی ہیں ۔ اور تاریخ گواہ ہے مختلف تہذیب و ثقافتیں ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتی رہتی ہیں۔ کبھی کوئی تہذیب غالب آ جاتی ہے تو کبھی کوئی۔ ہمیشہ اُن علاقوں کی تہذیب دوسری پر غالب آتی ہے جہاں کے رہنے والے یعنی اُس تہذیب کے والی وارث مضبوط لوگ ہوتے ہیں جو اپنی تہذیب و ثقافت سے بے شمار محبت کرتے ہے۔ہمارے اجداد کو اپنی تہذیب وثقافت سے بڑا پیار تھا اور یہ انکی محبت ہی تھی کہ انھوں نے اپنی الگ پہچان کی خاطر ڈھیروں قربانیاں دیکر ہمارے لیے ہمارا یہ پیارا وطن پاکستان حاصل کیا تاکہ ہم یہاں آزادی کے ساتھ اپنے دین کے اصولوں کے مطابق اس کے نظام کو نافذ کرسکیں اور اپنی زبان و تہذیب کے ساتھ اپنی اپنی زندگیاں گزار سکیں ۔
اُن کا خیال تھا کہ وہ پاکستان حاصل کر کے وہاں اسلامی اصولوں کے مطابق اپنی تہذیب و ثقافت کو پروان چڑھائیں گے۔ لیکن انہیں نہیں پتہ تھا کہ اُن کے جانشین اُن کی قربانیوں کو ضائع کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔افسوس کہ ہم نہ تو اس ملک میں اسلامی نظام کو نافذ کرسکے اور نہ ہی اپنی تہذیب و ثقافت کے لیے کوئی اہم اقدامات کرسکےحد تو یہ ہے کہ اردو کو اس ملک کی قومی زبان کا درجہ حاصل ہونے کہ باوجود سرکاری سطح پر آج تک رائج نہ کیا جاسکا اور حالت ہماری یہ ہے کہ ہمارے ملک کا سب سے بڑا عہدے دار یعنی صدر جب پارلیمنٹ کے مشترکہ ایوانوں سے خطاب کرتا ہے تو وہ خطاب بھی انگریزی میں کرتا ہے اور اس میں بھی اتنی غلطیاں کرتا ہے کہ میڈیا اس کو جگ ہنسائی کا باعث بنا لیتا ہے اور انفرادی طور پر اگر اس فورم پیغام کو ہی لیں تو یہاں جب بھی میں نے اردو لکھی تو یار لوگوں کو یہی شکایت رہی کہ ہمیں سمجھ نہیں آتا کہ آپ کیا لکھتے ہو اور دوسری طرف انگریزی کا یہ عالم ہے کہ ہمارے فاضل رکن جناب منڈا سیالکوٹی صاحب یہ کہتے ہیں کہ ان کو بحث کرنے لیے انگریزی سے زیادہ مؤثر دوسری کوئی زبان میسر نہیں اور اگر اردو کی بات کریں تو وہ بھی یہی شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ اردو میں میں اپنے جزبات و احساسات وخیالات کا مؤثر طریقے سے اظہار نہیں کرسکتا انا للہ وانا الیہ راجعون اور اگر قوم کی پور مجموعی حالت پر نظر ڈالیں تو آج جدھر دیکھو ایسا لگتا ہے کہ ہماری نہ تو کوئی تہذیب ہے نہ کوئی ثقافت ہے اور نہ ہی کوئی اپنی زبان اور نہ ہی کوئی اپنی الگ سے پہچان ہے۔ دوستوں نے بالکل بجا فرمایا کہ یہاں پر جو کوئی بھی انگریزی کو دوچار ٹوٹے پھوٹے الفاظ اپنی گفتگو میں استعمال کرے اس کو پڑھا لکھا گردانا جاتا ہے اور ہم میں سے ہر ایک کو تب تک مکمل آرام نہیں آتا جب تک وہ اپنی گفتگو میں انگریزی کا تڑکا لگا کر اس کا صواد خود نہ چکھ لے یا پھر اپنی فراٹے دار انگریزی سے دوسروں کومزہ
نہ چکھا لے کیوں کہ ہر چیز دوسروں کی اپنانے میں اور دن بدن دوسروں جیسا ہوجانے میں ہمیں کبھی کوئی عار محسوس ہی نہیں ہوتی۔ زبان سے لے کر لباس تک اور کھانے سے لےکر رسم و رواج تک سب کے سب بیگانے ہیں۔ آج کے ایک پاکستانی کا حلیہ دیکھو تو صاف پتہ چلے گا کہ اس کا کچھ بھی اپنا نہیں نہ زبان، نہ لباس، نہ خوراک اور نہ ہی رہن سہن۔ جب تک ہم اپنی قومی زبان میں انگریزی کا تڑکہ نہ لگائیں ہم سمجھتے ہیں شاید ہم کوئی جنگلی زبان بول رہے ہیں کسی دوسری زبان میں تحریر لکھنا اور بولنا اپنے لیے فخر محسوس کرتے ہیں۔ علم کی حد تک تو کئی دوسری زبان سیکھنا بہت اچھی بات ہے لیکن اپنی زبان پر کسی دوسری زبان کو فوقیت دینا اور اپنی زبان کو کم تر سمجھنا۔ یہ کہاں کا انصاف ہے؟آپ تاریخ کھول کر دیکھ لیجئے جن قوموں نے بھی ترقی کی اپنی زبان میں کی۔ کوئی بھی انسان اپنی زبان میں کوئی بھی علم اچھا سیکھ سکتا ہے نہ کہ کسی دوسری زبان میں۔ اس بات کی تاریخ گواہ ہے جس کی مثال آج دنیا کے کئی ترقی یافتہ ملک ہیں جیسے چین اور جاپان وغیرہ وغیرہ۔
ہمارے صدر کے حالیہ دورہ چین میں میں نے واضح طور پر دیکھا کہ چینی رہنما دوسروں کے ساتھ اپنی زبان میں ہی گفتگو کرتے ہیں اور دوسروں تک اپنی بات پہنچانے کے لیے مترجم کا سہارا لیتے ہیں چین نے کس شعبے میں ترقی نہیں کی کیا ان کے رہنما انگریزی نہیں سیکھ سکتے تھے ؟تھے مگر اپنی ابان و ادب کے ساتھ انکی محبت کا تقاضہ ہے کہ وہ جہان کہیں بھی جائیں ابلاغ کے لیے اپنی بولی ہی بولتے ہیں چاہے اپنے ملک میں کسی کو بلائیں یا اقوام متحدہ میں جاکر ساری قومون کو مخاطب کریں ۔ ۔ اور ایک ہم ہیں! اپنی زبان کو باعثِ شرم محسوس کرتے ہیں اور کسی دوسری زبان کو اعلٰی شخصیت کی پہچان سمجھتے ہیں۔ ترقی یافتہ قوموں کی اپنی زبان کے ساتھ محبت کا شدید اندازہ مجھے یورپ آکر ہوا کہ یہ لوگ کس طرح اپنی زبان سے محبت کرتے ہیں اور دوسروں کی زبان سے تعصب برتتے ہیں اگرچہ تعصب کا لفظ اپنے عمومی استعمال میں اچھا نہیں مگر میری ذاتی رائے میں زبان کے معاملے میں اس کا برتاؤ جائز ہے لیکن پتہ نہیں ہمیں کیا ہو گیا ہے کہ بڑے فخر سے دوسروں کی زبان بولتے ہیں اور دوسروں کا لباس پہنتے ہیں کھانے کھاتے ہیں اور اُنہیں اعلٰی شخصیت کی پہچان سمجھتے ہیں جسے پوچھ لو کھانے میں* کیا پسند ہے؟ فورا جواب دے کا اٹالین فوڈ یا چاینیز وغیرہ بھلے اس نے کبھی اٹالین کی شکل بھی نہ دیکھی ہو کہ کیسا ہوتا ہے؟ اور بیرونی کھانوں کو اپنی پسند اس طرح سےبتاتے ہیں کہ جیسے معاشرے میں شخصیت کی قدرو منزلت کا معیار بیرونی کھانوں کی حرمت پر ہو ۔
جب زبان بھی دوسروں کی اعلٰی لباس بھی اوروں کا بہترین ہو کھانے اور باقی سب کچھ بھی غیروں کے بڑیا ہوں تو پھر تہزیب کے لیے باقی بچتا ہی کیا ہے کہ جس کے لیے ہم لفظ اپنا استعمال کریں ۔ ۔ یاد رہےجو قومیں اپنی تہذیب و ثقافت بھلا دیتی ہیں تاریخ بھی انھیں کبھی یاد نہیں رکھتی
:alhamd::SubhanAllhaa::alhamd::jazak::insha:
Comment
-
-
Re: Lissan Urdu
Originally posted by aabi2cool View Postاسلام علیکم سب سے پہلے تو ایک انتہائی ضروی اور اہم موضوع کو شروع کرنے پر داد قبول کیجیئے۔ اسکے بعد اگر ہم اردو زبان کی تاریخ و ارتقاء پر غور کریں تو اس سلسلے میں ہمیں اتنی متضاد آراء کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ انسانی دماغ چکرا کر رہ جاتا ہے مگر ایک بات تو طے ہے کہ جس پر تمام ماہر لسانیات متفق ہیں کہ برصغیر میں اردو زبان کی پیدائش یہاں پر اسلام یعنی مسلمانوں کی آمد سے ہوئی کہ مسلمان لشکر جب اس خطے میں داخل ہوئے تو مقامی لوگوں کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے انھے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جس کے نتیجے میں اردو زبان کا وجود عمل میں آیا اسی لیے اس کو لشکری زبان بھی کہا جاتا ہے جو کہ بنیادی طور پر عربی فارسی ترکی اور سنسکرت زبانوں کا مرکب ہے بعد میں اس میں دیگر علاقائی زبانوں کا دخول بھی ہوا جیسے پنجابی و سندھی وغیرہ دنیا کی کسی بھی زبان کی ترقی کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس میں ارتقاء کا عمل جاری رہے اور اردو میں یہ خوبی بکثرت موجود ہے اردو بے بہت سی زبانوں کے اثرات کو قبول کیا ہے یہی وجہ ہے کہ اردو زبان کو مختلف اوقات و ادوار میں مختلف ناموں مثلا ہندوی، ہندوستانی ، ریختہ، دکنی اور گجراتی کے ناموں سے یاد کیا جاتا رہا ۔ اس زبان نے ارتقا کی جتنی بھی منزلیں طے کیں اتنے ہی اس کے نام پڑتے چلے گۓ ۔ ناموں کی اس تبدیلی کے پس پردہ مختلف ادوار کی مخصوص تہذیبی و سیاسی روایات کی کارفرمائی نظر آتی ہے ۔ ماہرین لسانیات کے مطابق زبان کسی فرد کی تخلیق نہیں ہوتی بلکہ زبان کو معاشرتی ضرورت نے پیدا کیا اور اس کا ارتقاء زمانہ کی ضرورت اور حالات و افکار کے تابع رہا جس میں صدیوں کا عرصہ درکار ہوتا ہے ۔
بقول باباۓ اردو مولوی عبدالحق ۔
جس اصول پر بیج سے کونپل پھوٹتی ہے ۔ پتے نکلتے ،شاخیں پھیلتی ،پھل پھول لگتے ہیں اور ایک دن وہی ننھا سا پودا ایک تناور درخت ہو جاتا ہے اسی اصول کے مطابق زبان پیدا ہوتی ہے ۔ بڑھتی اور پھیلتی ہے ۔
اسی اصول پر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس زبان کو ہر قسم کے خیالات کے اظہار کا وسیلہ بنایا جانے لگا اور یوں یہ بہتری کے ساتھ ترقی کی منازل طے کرنے لگی اور آج یہ اکثر ممالک میں بولی اور سمجھی جاتی ہے جن میں پاکستان ،بھارت ،بنگلہ دیش ،نیپال شامل ہیں ۔اور جہاں تک آپ کا یہ سوال ہے کہ اردو وزبان آج کہاں اسٹینڈ کرتی ہے تو اس ضمن مجھے انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ دنیا کی کسی بھی قوم کی ترقی میں اُسکی تہذیب و ثقافت اور زبان و ادب کا بڑا بنیادی اور اہم کردار ہوتا ہے ۔ کیونکہ قوم اپنے رہن سہن، طور طریقہ، بول چال اور علم سے پہچانی جاتی ہے۔ یہ سب چیزیں قوم کی تہذیب و ثقافت میں شامل ہوتی ہیں ۔ اور تاریخ گواہ ہے مختلف تہذیب و ثقافتیں ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتی رہتی ہیں۔ کبھی کوئی تہذیب غالب آ جاتی ہے تو کبھی کوئی۔ ہمیشہ اُن علاقوں کی تہذیب دوسری پر غالب آتی ہے جہاں کے رہنے والے یعنی اُس تہذیب کے والی وارث مضبوط لوگ ہوتے ہیں جو اپنی تہذیب و ثقافت سے بے شمار محبت کرتے ہے۔ہمارے اجداد کو اپنی تہذیب وثقافت سے بڑا پیار تھا اور یہ انکی محبت ہی تھی کہ انھوں نے اپنی الگ پہچان کی خاطر ڈھیروں قربانیاں دیکر ہمارے لیے ہمارا یہ پیارا وطن پاکستان حاصل کیا تاکہ ہم یہاں آزادی کے ساتھ اپنے دین کے اصولوں کے مطابق اس کے نظام کو نافذ کرسکیں اور اپنی زبان و تہذیب کے ساتھ اپنی اپنی زندگیاں گزار سکیں ۔
اُن کا خیال تھا کہ وہ پاکستان حاصل کر کے وہاں اسلامی اصولوں کے مطابق اپنی تہذیب و ثقافت کو پروان چڑھائیں گے۔ لیکن انہیں نہیں پتہ تھا کہ اُن کے جانشین اُن کی قربانیوں کو ضائع کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔افسوس کہ ہم نہ تو اس ملک میں اسلامی نظام کو نافذ کرسکے اور نہ ہی اپنی تہذیب و ثقافت کے لیے کوئی اہم اقدامات کرسکےحد تو یہ ہے کہ اردو کو اس ملک کی قومی زبان کا درجہ حاصل ہونے کہ باوجود سرکاری سطح پر آج تک رائج نہ کیا جاسکا اور حالت ہماری یہ ہے کہ ہمارے ملک کا سب سے بڑا عہدے دار یعنی صدر جب پارلیمنٹ کے مشترکہ ایوانوں سے خطاب کرتا ہے تو وہ خطاب بھی انگریزی میں کرتا ہے اور اس میں بھی اتنی غلطیاں کرتا ہے کہ میڈیا اس کو جگ ہنسائی کا باعث بنا لیتا ہے اور انفرادی طور پر اگر اس فورم پیغام کو ہی لیں تو یہاں جب بھی میں نے اردو لکھی تو یار لوگوں کو یہی شکایت رہی کہ ہمیں سمجھ نہیں آتا کہ آپ کیا لکھتے ہو اور دوسری طرف انگریزی کا یہ عالم ہے کہ ہمارے فاضل رکن جناب منڈا سیالکوٹی صاحب یہ کہتے ہیں کہ ان کو بحث کرنے لیے انگریزی سے زیادہ مؤثر دوسری کوئی زبان میسر نہیں اور اگر اردو کی بات کریں تو وہ بھی یہی شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ اردو میں میں اپنے جزبات و احساسات وخیالات کا مؤثر طریقے سے اظہار نہیں کرسکتا انا للہ وانا الیہ راجعون اور اگر قوم کی پور مجموعی حالت پر نظر ڈالیں تو آج جدھر دیکھو ایسا لگتا ہے کہ ہماری نہ تو کوئی تہذیب ہے نہ کوئی ثقافت ہے اور نہ ہی کوئی اپنی زبان اور نہ ہی کوئی اپنی الگ سے پہچان ہے۔ دوستوں نے بالکل بجا فرمایا کہ یہاں پر جو کوئی بھی انگریزی کو دوچار ٹوٹے پھوٹے الفاظ اپنی گفتگو میں استعمال کرے اس کو پڑھا لکھا گردانا جاتا ہے اور ہم میں سے ہر ایک کو تب تک مکمل آرام نہیں آتا جب تک وہ اپنی گفتگو میں انگریزی کا تڑکا لگا کر اس کا صواد خود نہ چکھ لے یا پھر اپنی فراٹے دار انگریزی سے دوسروں کومزہ
نہ چکھا لے کیوں کہ ہر چیز دوسروں کی اپنانے میں اور دن بدن دوسروں جیسا ہوجانے میں ہمیں کبھی کوئی عار محسوس ہی نہیں ہوتی۔ زبان سے لے کر لباس تک اور کھانے سے لےکر رسم و رواج تک سب کے سب بیگانے ہیں۔ آج کے ایک پاکستانی کا حلیہ دیکھو تو صاف پتہ چلے گا کہ اس کا کچھ بھی اپنا نہیں نہ زبان، نہ لباس، نہ خوراک اور نہ ہی رہن سہن۔ جب تک ہم اپنی قومی زبان میں انگریزی کا تڑکہ نہ لگائیں ہم سمجھتے ہیں شاید ہم کوئی جنگلی زبان بول رہے ہیں کسی دوسری زبان میں تحریر لکھنا اور بولنا اپنے لیے فخر محسوس کرتے ہیں۔ علم کی حد تک تو کئی دوسری زبان سیکھنا بہت اچھی بات ہے لیکن اپنی زبان پر کسی دوسری زبان کو فوقیت دینا اور اپنی زبان کو کم تر سمجھنا۔ یہ کہاں کا انصاف ہے؟آپ تاریخ کھول کر دیکھ لیجئے جن قوموں نے بھی ترقی کی اپنی زبان میں کی۔ کوئی بھی انسان اپنی زبان میں کوئی بھی علم اچھا سیکھ سکتا ہے نہ کہ کسی دوسری زبان میں۔ اس بات کی تاریخ گواہ ہے جس کی مثال آج دنیا کے کئی ترقی یافتہ ملک ہیں جیسے چین اور جاپان وغیرہ وغیرہ۔
ہمارے صدر کے حالیہ دورہ چین میں میں نے واضح طور پر دیکھا کہ چینی رہنما دوسروں کے ساتھ اپنی زبان میں ہی گفتگو کرتے ہیں اور دوسروں تک اپنی بات پہنچانے کے لیے مترجم کا سہارا لیتے ہیں چین نے کس شعبے میں ترقی نہیں کی کیا ان کے رہنما انگریزی نہیں سیکھ سکتے تھے ؟تھے مگر اپنی ابان و ادب کے ساتھ انکی محبت کا تقاضہ ہے کہ وہ جہان کہیں بھی جائیں ابلاغ کے لیے اپنی بولی ہی بولتے ہیں چاہے اپنے ملک میں کسی کو بلائیں یا اقوام متحدہ میں جاکر ساری قومون کو مخاطب کریں ۔ ۔ اور ایک ہم ہیں! اپنی زبان کو باعثِ شرم محسوس کرتے ہیں اور کسی دوسری زبان کو اعلٰی شخصیت کی پہچان سمجھتے ہیں۔ ترقی یافتہ قوموں کی اپنی زبان کے ساتھ محبت کا شدید اندازہ مجھے یورپ آکر ہوا کہ یہ لوگ کس طرح اپنی زبان سے محبت کرتے ہیں اور دوسروں کی زبان سے تعصب برتتے ہیں اگرچہ تعصب کا لفظ اپنے عمومی استعمال میں اچھا نہیں مگر میری ذاتی رائے میں زبان کے معاملے میں اس کا برتاؤ جائز ہے لیکن پتہ نہیں ہمیں کیا ہو گیا ہے کہ بڑے فخر سے دوسروں کی زبان بولتے ہیں اور دوسروں کا لباس پہنتے ہیں کھانے کھاتے ہیں اور اُنہیں اعلٰی شخصیت کی پہچان سمجھتے ہیں جسے پوچھ لو کھانے میں* کیا پسند ہے؟ فورا جواب دے کا اٹالین فوڈ یا چاینیز وغیرہ بھلے اس نے کبھی اٹالین کی شکل بھی نہ دیکھی ہو کہ کیسا ہوتا ہے؟ اور بیرونی کھانوں کو اپنی پسند اس طرح سےبتاتے ہیں کہ جیسے معاشرے میں شخصیت کی قدرو منزلت کا معیار بیرونی کھانوں کی حرمت پر ہو ۔
جب زبان بھی دوسروں کی اعلٰی لباس بھی اوروں کا بہترین ہو کھانے اور باقی سب کچھ بھی غیروں کے بڑیا ہوں تو پھر تہزیب کے لیے باقی بچتا ہی کیا ہے کہ جس کے لیے ہم لفظ اپنا استعمال کریں ۔ ۔ یاد رہےجو قومیں اپنی تہذیب و ثقافت بھلا دیتی ہیں تاریخ بھی انھیں کبھی یاد نہیں رکھتی
japan ki misaal achi di,waqei doosri jang-e-azeem k baad se ab tak unho ne kitni taraqi ki hai magar woh apni tehzeeb aur apni zuban nahin bhoole na hi unho ne kisi aur mulk k rehan sehan aur zuban ko is tarah apnaya jaise hum kar rahe hain.
Comment
-
Re: Lissan Urdu
Originally posted by designer4u View PostWalaikum asalam
good thread Xenja!
khalis urdu too buss ab nam ki hi reh gie hay, aajkal Pakistan men agar kisi ko english bolni nahi aati too woh parha likha tasawur nahi kia jata, yeh bhi aik waja hay hamaray mulk ki taraqe naa karnay ki, humnay apni zabaan hi choor di hay, koi aesa institute nahi hay joo khalis urdu ki taleem deta ho, aur yeh roman urdu nay rahi sahi qasar bhi nikaal di hay, aik too wasay hi urdu sirf naam ki hay aur iss kay baad too urdu ka naam bhi nahi hay, urdu sirf inter tak hamaray school/colleges mein parhai jati hay, iss kay baad urdu ka naam-o-nishaan bhi nahi lia jata, aur 10saal say wohi purani urdu koi tabdeli nahi.
Originally posted by rehman View Postgovernement ka ek department hai jis ka naam hai "urdu adbi board" jo sunna tu yeh k yeh edara urdu ki tarweej ka kaam kar raha hai..... aur iss edaray kay baray adbi log chairman rah chukay hain.... ahmed fraz un mein eik hain jo urdu adbi board kay chairman bhi rah chukay hain......." Obstacles are what you see when you take your eyes off your goals "
Comment
Comment