اسے کہنا
محبت ہر ادا میں دھوپ ہے لیکن نا جانے کیوں
محبت کے زمانوں میں دسمبر ٹھہر جاتا ہے
وہ میرے ذکر کی شمعیں بجھا دیتا ہے جس لمحے
تو اس کی خنک سانسوں میں دسمبر ٹھہر جاتا ہے
ہمارے ہاتھ کی خوشبو ذرا سا رخ بدلتی ہے
تو اس کی گرم سانسوں میں دسمبر ٹھہر جاتا ہے
کبھی سنسان رستے پہ میرے ہمراہ وہ ہوتا ہے
تو اس کی سرد آہوں میں دسمبر ٹھہر جاتا ہے
میں اپنی شال کے پلو میں جاڑا باندھ لیتی ہوں
تو ان آوارہ آنکھوں میں دسمبر ٹھہر جاتا ہے
محبت ہر ادا میں دھوپ ہے لیکن نا جانے کیوں
محبت کے زمانوں میں دسمبر ٹھہر جاتا ہے
وہ میرے ذکر کی شمعیں بجھا دیتا ہے جس لمحے
تو اس کی خنک سانسوں میں دسمبر ٹھہر جاتا ہے
ہمارے ہاتھ کی خوشبو ذرا سا رخ بدلتی ہے
تو اس کی گرم سانسوں میں دسمبر ٹھہر جاتا ہے
کبھی سنسان رستے پہ میرے ہمراہ وہ ہوتا ہے
تو اس کی سرد آہوں میں دسمبر ٹھہر جاتا ہے
میں اپنی شال کے پلو میں جاڑا باندھ لیتی ہوں
تو ان آوارہ آنکھوں میں دسمبر ٹھہر جاتا ہے
Comment