دو ھفتہ پہلے ، فاٹا كی ضلع ھنگو میں ، لشكر جھنگوی كا ایك خودكش حملہ آور ابراہیم زی گاوں كا سكول جس میں دو ھزار سے زیادہ بچے موجود تہے ، اڑانا چاہتا تھا . جب وہ سكول كے قریب پہنچا تو سكول كی نوین كلاس كا طالب علم ، اعتزاز حسن نے اسے دیكھا اور اس كو روكنے كے كوشش كی . ان كی كشمكش كی وقت خودكش حملہ آور كا بم پھٹ گیا اور دونوں مارے گئے . اس میں اعتزاز حسن تو شھید ہوا ، مگر سكول كے باقی بچے بچ گئے
اسی وقت افغانستان كی صوبہ ہلمند میں سپوژمی نام كی ایك دس سالہ لڑكی جس كا بھای طالبان كا ایك كمانڈر تہا ، اس كو ایك خودكش جیكٹ پہنا كر ، ایك پولیس چیك پواینٹ كو اڑہانے كے لئے بھیجا . اللہ كی فضل سے ، یہ حملہ بہی ناكام ہوا كیوں كہ سرد موسم كے وجہ سے یہ بیچاری رو رہی تہی اور پولیسوالوں نے اس كی رونے كی آواز سن كر اس كو روك دیا
ہمارے معاشرے میں بچوں كے لئے خاص جگہ ہے كیوں كہ كسی بہی ملك میں بچے سب سے زیادہ معصوم ہوتے ہیں . بچے برائی اور بھلائی كے در میاں تفریق نہیں كر سكتے اور یہ بروں پر ہے كہ بچوں كو صحیح رستہ دھكائیں اور غلط رستے سے دور ركہیں . مگر اگر برے صحیح اور غلط كی در میاں تفریق نہ كریں تو بات بگڑ جاتی ہے
طالبان كا كچھ ایسا ہے مسئلہ ہے . وہ خود برا اور بھلا كے در میاں فرق نہیں كر سكتے . اندھوں كے طرح اپنے شدت پسند مولویوں كے باتوں پر عمل كر كے اسلام كے نام میں ، ایسی حركتوں كی مرتكب ہو جاتے ہیں جس كا جواز اسلام میں نہیں . جو واقعے میں نے ذكر كیا ، ان كی بیشمار حركتوں سے صرف دو ہیں اور ان حركتوں كا نشانہ براہ راست بچوں پر ہے . دونوں اعمال میں بچی بلاوجہ مارے جاتے ہیں اور ان دو واقعوں سے سوال پیدا ہوتا ہے كہ طالبان كے دماغ میں كیا چل رہا ہے اور وہ كہاں سے ان سب كا جواز لے رہے ہیں . مگر حقیقت تو یہ ہے كہ ان دونوں كو اسلام میں كوئی جواز نہیں ہے . بچوں كی مارنے كے بارے میں اللہ صبحان و تعالی سورة الاسرہ ، آیة مباركہ ۳۱ میں بچوں كی مارنے كے بارے میں فرماتے ہیں
«وَلَا تَقۡتُلُوٓاْ أَوۡلَـٰدَكُمۡ خَشۡيَةَ إِمۡلَـٰقٍ۬*ۖ نَّحۡنُ نَرۡزُقُهُمۡ وَإِيَّاكُمۡ*ۚ إِنَّ قَتۡلَهُمۡ ڪَانَ خِطۡـًٔ۬ا كَبِيرً۬ا »
«اور اپنی اولاد کو تنگدستی کے ڈر سے قتل نہ کرو ہم انہیں بھی رزق دیتے ہیں اور تمہیں بھی بے شک ان کا قتل کرنا بڑا گناہ ہے»
اور سورة التكویر ؛ آیات ۸ اور ۹ اللہ صبحان و تعالی فرماتے ہیں
«( وَإِذَا ٱلۡمَوۡءُ ۥدَةُ سُٮِٕلَتۡ ( ٨) بِأَىِّ ذَنۢبٍ۬ قُتِلَتۡ (٩
«( اور جب زندہ درگور لڑکی سے پوچھا جائے (۸) کہ کس گناہ پر ماری گئی تھی(۹»
یہ آیات اس ان اعراب كے بارے میں ہیں جو جاھلیہ كے وقت میں اپنے بیتیوں كو زندہ بگور كرتے تہیں اور جو سپوژمی كے ساتھ ھلمند میں ہوا كچھ ایسا ہی تہا
ایسے ہی بیگناہوں كے مارنے كے بارے میں اللہ صبحان و تعالی سورة المائدہ ، آیة ۳۲ میں فرماتے ہیں
مِنۡ أَجۡلِ ذَٲلِكَ ڪَتَبۡنَا عَلَىٰ بَنِىٓ إِسۡرَٲٓءِيلَ أَنَّهُ ۥ مَن قَتَلَ نَفۡسَۢا بِغَيۡرِ نَفۡسٍ أَوۡ فَسَادٍ۬ فِى ٱلۡأَرۡضِ فَڪَأَنَّمَا قَتَلَ ٱلنَّاسَ جَمِيعً۬ا وَمَنۡ أَحۡيَاهَا فَڪَأَنَّمَآ أَحۡيَا ٱلنَّاسَ جَمِيعً۬ا*ۚ وَلَقَدۡ جَآءَتۡهُمۡ رُسُلُنَا بِٱلۡبَيِّنَـٰتِ ثُمَّ إِنَّ كَثِيرً۬ا مِّنۡهُم بَعۡدَ ذَٲلِكَ فِى ٱلۡأَرۡضِ لَمُسۡرِفُونَ
اسی سبب سے ہم نے بنی اسرائیل پر لکھا کہ جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا اورجس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کی زندگی بخشی اورہمارے رسول ان کے پاس کھلے حکم لا چکے ہیں پھر بھی ان میں سے بہت لوگ زمین میں زیادتیاں کرنے والے ہیں
اسی حالات كے بارے میں بہت سی احادیث بھی ہے . صحیح بخاری شریف (۵۲ ۔ ۲۵۷) اور صحیح مسلم (۱۹ ۔ ۴۳۱۹) میں روایت ہے كہ رسول صلی اللہ و علیہ وسلم كے غزوات كے وقت ایك عورت ماری گئی اور آپ صلی اللہ و علیہ وسلم نے عورتوں اور بچوں كی مارنے سے منع كیا . بچوں كو جہاد میں حصہ لینے كے بارے میں حدیث مباركہ ہے كہ ایك نوجوان جہاد كی خواہش لیكر رسول صلی اللہ علیہ وسلم كے پاس آیا لیكن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے لوٹا دیا كہ اپنے بوڑھے ماں پاب كی خدمت كرو ، یہ ہی جہاد ہے
ان سب كو دیكھ كر ایك بچہ بھی سمجھ سكتا ہے كہ جو كچھ طالبان كر رہے ہیں وہ اسلام كی خلاف ہے اور وہ ایسے حركتیں كر كے اسلام كی نام كو بلند نہیں بلكہ اسلام كو بدنام كر رہے ہیں . آج اگر دنیا میں كوئی اسلام كی خلاف كچھ بول رہا ہے یا كچھ لكھ رہا ہے یا كوئی فلم بنا رہا ہے تو سب ایسے ہی حركتوں كے وجہ سے ہیں . آج اگر اسلامی ملكوں كے باہر كوئی مسلمانوں كو چھیڑ رہا ہے ، یا ان كی خلاف تشدد كر رہا ہے ، یا ان كر مار رہا ہے ؛ وہ بھی انہیں اعمال كے وجہ سے ہیں . ان دو پیش كئے ہوے واقعات میں اگر كوئی درس عبرت ہے تو وہ طالبان كے لئے ہے . طالبان كو اعتزاز حسن سے كچھ سیكھنا چاہیئے . وہ اپنی جان قربان كركے دو ھزار جانیں بچالیا كیوں كہ ایك بچہ ہو كر وہ جانتا تہا كہ اسلام میں كسی كا جان لینا حرام ہے خاص طور پر معصوم بچوں كا . طالبان كو سپوژمی سے بھی كچھ سیكھنا چاہیئے . وہ بھی دس سال كی بچی ہو كر اتنا جانتی تہی كہ اسلام میں انسانوں كو ناحق مارنا حرام ہے . بچوں كے بارے میں علامہ اقبال نے ارشاد فرمایا ہے
میرے اللہ ! برائی سے بچانا مجھ کو
نیک جو راہ ہو اس راہ پہ چلانا مجھ کو
یہ دو بچے صرف یہیں چاہتے تہیں اور یہیں كیا . اگر یہ بچیں علامہ اقبال كی اس شعر كا مطلب جو «صراط المستقیم» كے بارے میں ہیں ، سمجھ سكتے ہیں تو طالبان كیوں نہیں سمجھتے كہ جس رستے پے چل رہے ہیں وہ غلط ہے
اسی وقت افغانستان كی صوبہ ہلمند میں سپوژمی نام كی ایك دس سالہ لڑكی جس كا بھای طالبان كا ایك كمانڈر تہا ، اس كو ایك خودكش جیكٹ پہنا كر ، ایك پولیس چیك پواینٹ كو اڑہانے كے لئے بھیجا . اللہ كی فضل سے ، یہ حملہ بہی ناكام ہوا كیوں كہ سرد موسم كے وجہ سے یہ بیچاری رو رہی تہی اور پولیسوالوں نے اس كی رونے كی آواز سن كر اس كو روك دیا
ہمارے معاشرے میں بچوں كے لئے خاص جگہ ہے كیوں كہ كسی بہی ملك میں بچے سب سے زیادہ معصوم ہوتے ہیں . بچے برائی اور بھلائی كے در میاں تفریق نہیں كر سكتے اور یہ بروں پر ہے كہ بچوں كو صحیح رستہ دھكائیں اور غلط رستے سے دور ركہیں . مگر اگر برے صحیح اور غلط كی در میاں تفریق نہ كریں تو بات بگڑ جاتی ہے
طالبان كا كچھ ایسا ہے مسئلہ ہے . وہ خود برا اور بھلا كے در میاں فرق نہیں كر سكتے . اندھوں كے طرح اپنے شدت پسند مولویوں كے باتوں پر عمل كر كے اسلام كے نام میں ، ایسی حركتوں كی مرتكب ہو جاتے ہیں جس كا جواز اسلام میں نہیں . جو واقعے میں نے ذكر كیا ، ان كی بیشمار حركتوں سے صرف دو ہیں اور ان حركتوں كا نشانہ براہ راست بچوں پر ہے . دونوں اعمال میں بچی بلاوجہ مارے جاتے ہیں اور ان دو واقعوں سے سوال پیدا ہوتا ہے كہ طالبان كے دماغ میں كیا چل رہا ہے اور وہ كہاں سے ان سب كا جواز لے رہے ہیں . مگر حقیقت تو یہ ہے كہ ان دونوں كو اسلام میں كوئی جواز نہیں ہے . بچوں كی مارنے كے بارے میں اللہ صبحان و تعالی سورة الاسرہ ، آیة مباركہ ۳۱ میں بچوں كی مارنے كے بارے میں فرماتے ہیں
«وَلَا تَقۡتُلُوٓاْ أَوۡلَـٰدَكُمۡ خَشۡيَةَ إِمۡلَـٰقٍ۬*ۖ نَّحۡنُ نَرۡزُقُهُمۡ وَإِيَّاكُمۡ*ۚ إِنَّ قَتۡلَهُمۡ ڪَانَ خِطۡـًٔ۬ا كَبِيرً۬ا »
«اور اپنی اولاد کو تنگدستی کے ڈر سے قتل نہ کرو ہم انہیں بھی رزق دیتے ہیں اور تمہیں بھی بے شک ان کا قتل کرنا بڑا گناہ ہے»
اور سورة التكویر ؛ آیات ۸ اور ۹ اللہ صبحان و تعالی فرماتے ہیں
«( وَإِذَا ٱلۡمَوۡءُ ۥدَةُ سُٮِٕلَتۡ ( ٨) بِأَىِّ ذَنۢبٍ۬ قُتِلَتۡ (٩
«( اور جب زندہ درگور لڑکی سے پوچھا جائے (۸) کہ کس گناہ پر ماری گئی تھی(۹»
یہ آیات اس ان اعراب كے بارے میں ہیں جو جاھلیہ كے وقت میں اپنے بیتیوں كو زندہ بگور كرتے تہیں اور جو سپوژمی كے ساتھ ھلمند میں ہوا كچھ ایسا ہی تہا
ایسے ہی بیگناہوں كے مارنے كے بارے میں اللہ صبحان و تعالی سورة المائدہ ، آیة ۳۲ میں فرماتے ہیں
مِنۡ أَجۡلِ ذَٲلِكَ ڪَتَبۡنَا عَلَىٰ بَنِىٓ إِسۡرَٲٓءِيلَ أَنَّهُ ۥ مَن قَتَلَ نَفۡسَۢا بِغَيۡرِ نَفۡسٍ أَوۡ فَسَادٍ۬ فِى ٱلۡأَرۡضِ فَڪَأَنَّمَا قَتَلَ ٱلنَّاسَ جَمِيعً۬ا وَمَنۡ أَحۡيَاهَا فَڪَأَنَّمَآ أَحۡيَا ٱلنَّاسَ جَمِيعً۬ا*ۚ وَلَقَدۡ جَآءَتۡهُمۡ رُسُلُنَا بِٱلۡبَيِّنَـٰتِ ثُمَّ إِنَّ كَثِيرً۬ا مِّنۡهُم بَعۡدَ ذَٲلِكَ فِى ٱلۡأَرۡضِ لَمُسۡرِفُونَ
اسی سبب سے ہم نے بنی اسرائیل پر لکھا کہ جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا اورجس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کی زندگی بخشی اورہمارے رسول ان کے پاس کھلے حکم لا چکے ہیں پھر بھی ان میں سے بہت لوگ زمین میں زیادتیاں کرنے والے ہیں
اسی حالات كے بارے میں بہت سی احادیث بھی ہے . صحیح بخاری شریف (۵۲ ۔ ۲۵۷) اور صحیح مسلم (۱۹ ۔ ۴۳۱۹) میں روایت ہے كہ رسول صلی اللہ و علیہ وسلم كے غزوات كے وقت ایك عورت ماری گئی اور آپ صلی اللہ و علیہ وسلم نے عورتوں اور بچوں كی مارنے سے منع كیا . بچوں كو جہاد میں حصہ لینے كے بارے میں حدیث مباركہ ہے كہ ایك نوجوان جہاد كی خواہش لیكر رسول صلی اللہ علیہ وسلم كے پاس آیا لیكن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے لوٹا دیا كہ اپنے بوڑھے ماں پاب كی خدمت كرو ، یہ ہی جہاد ہے
ان سب كو دیكھ كر ایك بچہ بھی سمجھ سكتا ہے كہ جو كچھ طالبان كر رہے ہیں وہ اسلام كی خلاف ہے اور وہ ایسے حركتیں كر كے اسلام كی نام كو بلند نہیں بلكہ اسلام كو بدنام كر رہے ہیں . آج اگر دنیا میں كوئی اسلام كی خلاف كچھ بول رہا ہے یا كچھ لكھ رہا ہے یا كوئی فلم بنا رہا ہے تو سب ایسے ہی حركتوں كے وجہ سے ہیں . آج اگر اسلامی ملكوں كے باہر كوئی مسلمانوں كو چھیڑ رہا ہے ، یا ان كی خلاف تشدد كر رہا ہے ، یا ان كر مار رہا ہے ؛ وہ بھی انہیں اعمال كے وجہ سے ہیں . ان دو پیش كئے ہوے واقعات میں اگر كوئی درس عبرت ہے تو وہ طالبان كے لئے ہے . طالبان كو اعتزاز حسن سے كچھ سیكھنا چاہیئے . وہ اپنی جان قربان كركے دو ھزار جانیں بچالیا كیوں كہ ایك بچہ ہو كر وہ جانتا تہا كہ اسلام میں كسی كا جان لینا حرام ہے خاص طور پر معصوم بچوں كا . طالبان كو سپوژمی سے بھی كچھ سیكھنا چاہیئے . وہ بھی دس سال كی بچی ہو كر اتنا جانتی تہی كہ اسلام میں انسانوں كو ناحق مارنا حرام ہے . بچوں كے بارے میں علامہ اقبال نے ارشاد فرمایا ہے
میرے اللہ ! برائی سے بچانا مجھ کو
نیک جو راہ ہو اس راہ پہ چلانا مجھ کو
یہ دو بچے صرف یہیں چاہتے تہیں اور یہیں كیا . اگر یہ بچیں علامہ اقبال كی اس شعر كا مطلب جو «صراط المستقیم» كے بارے میں ہیں ، سمجھ سكتے ہیں تو طالبان كیوں نہیں سمجھتے كہ جس رستے پے چل رہے ہیں وہ غلط ہے
Comment