پشاورچرچ میں خود کش دھماکے، 81 افراد ہلاک
پشاور: پشاور میں ایک چرچ کے قریب مبینہ خود کش حملے میں خواتین اور بچوں سمیت 81 افراد ہلاک جبکہ 130 کے قریب زخمی ہو گئے۔
اتوار کو کوہائی گیٹ میں ایک چرچ کی حدود میں یکے بعد دیگرے دو زور دار دھماکا ہوئے، جن کی شدت سے اطراف کی عمارتوں کو بھی جزوی نقصان پہنچا۔
بم ڈسپوزل اسکواڈ کے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل شفقت ملک نے میڈیا کو بتایا کہ واقعہ میں دو خود کش بمبار ملوث تھے۔
ملک کے مطابق، دونوں حملہ آوروں کے اعضاء ملنے کے بعد ان کی فرانزک جانچ کے لیے بھیج دیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ خود کش بمباروں نے دھماکوں میں چھ کلوگرام بارودی مواد استعمال کیا۔
پشاور سٹی کے ایس پی اسماعیل طارق نے بھی واقعہ میں دو خود کش بمباروں کے ملوث ہونے کی تصدیق کی۔
انہوں نے بتایا کہ حملہ آوروں نے چرچ کی حدود میں داخل ہونے سے پہلے وہاں کے محافظوں پر فائرنگ کی جس سے ایک محافظ ہلاک اور ایک زخمی ہوا۔
دونوں حملہ آوروں نے چرچ کی حدود میں داخل ہونے کے بعد کچھ سیکنڈوں کے وقفے سے خود کو دھماکے سے اڑایا۔
خیال رہے کہ کوہاٹی گیٹ کا علاقہ پشاور کے حساس علاقوں میں شمار ہوتا ہے کیونکہ یہاں تین چرچ اور متعدد اما بارگاہیں موجود ہیں۔
ہلاک ہونے والوں میں 34 خواتین اور سات بچے بھی شامل ہیں، جبکہ 17 زخمیوں کی حالت تشیوشناک بتائی جارہی ہے۔
عالمی خبررساں اداروں کے مطابق اس واقعہ کی ذمہ داری طالبان نے قبول کرلی ہے اور ان کا کہنا کہ انہوں نے ایک نیا گروہ تشکیل دیا ہے جس کا نام جنودالحفصہ ہے ۔
اس گروپ کے ترجمان احمد مروت نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو ٹیلی فون کے ذریعے بتایا کہ پشاور میں چرچ پر حملہ انہوں نے کیا غیر مسلم اور غیرملکیوں کو نشانہ بنائں گے۔
ایک اور عالمی خبررساں ادارے رائٹرز نے احمد مروت کو پاکستانی طالبان کے ایک گروپ جنداللہ سے منسلک بتایا، اور بتایا کہ ان کے بقول مسیحی برادری اسلام کے دشمن ہیں، لہٰذا ہم پاکستان کی سرزمین پر موجود غیر مسلموں کو مستقبل میں بھی نشانہ بنائیں گے۔
1. پشاورچرچ پر حملہ، ہلاکتوں کی تعداد 81 ہو گئی | Dawn Urduپشاور: پشاور میں ایک چرچ کے قریب مبینہ خود کش حملے میں خواتین اور بچوں سمیت 81 افراد ہلاک جبکہ 130 کے قریب زخمی ہو گئے۔
اتوار کو کوہائی گیٹ میں ایک چرچ کی حدود میں یکے بعد دیگرے دو زور دار دھماکا ہوئے، جن کی شدت سے اطراف کی عمارتوں کو بھی جزوی نقصان پہنچا۔
بم ڈسپوزل اسکواڈ کے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل شفقت ملک نے میڈیا کو بتایا کہ واقعہ میں دو خود کش بمبار ملوث تھے۔
ملک کے مطابق، دونوں حملہ آوروں کے اعضاء ملنے کے بعد ان کی فرانزک جانچ کے لیے بھیج دیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ خود کش بمباروں نے دھماکوں میں چھ کلوگرام بارودی مواد استعمال کیا۔
پشاور سٹی کے ایس پی اسماعیل طارق نے بھی واقعہ میں دو خود کش بمباروں کے ملوث ہونے کی تصدیق کی۔
انہوں نے بتایا کہ حملہ آوروں نے چرچ کی حدود میں داخل ہونے سے پہلے وہاں کے محافظوں پر فائرنگ کی جس سے ایک محافظ ہلاک اور ایک زخمی ہوا۔
دونوں حملہ آوروں نے چرچ کی حدود میں داخل ہونے کے بعد کچھ سیکنڈوں کے وقفے سے خود کو دھماکے سے اڑایا۔
خیال رہے کہ کوہاٹی گیٹ کا علاقہ پشاور کے حساس علاقوں میں شمار ہوتا ہے کیونکہ یہاں تین چرچ اور متعدد اما بارگاہیں موجود ہیں۔
ہلاک ہونے والوں میں 34 خواتین اور سات بچے بھی شامل ہیں، جبکہ 17 زخمیوں کی حالت تشیوشناک بتائی جارہی ہے۔
عالمی خبررساں اداروں کے مطابق اس واقعہ کی ذمہ داری طالبان نے قبول کرلی ہے اور ان کا کہنا کہ انہوں نے ایک نیا گروہ تشکیل دیا ہے جس کا نام جنودالحفصہ ہے ۔
اس گروپ کے ترجمان احمد مروت نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو ٹیلی فون کے ذریعے بتایا کہ پشاور میں چرچ پر حملہ انہوں نے کیا غیر مسلم اور غیرملکیوں کو نشانہ بنائں گے۔
ایک اور عالمی خبررساں ادارے رائٹرز نے احمد مروت کو پاکستانی طالبان کے ایک گروپ جنداللہ سے منسلک بتایا، اور بتایا کہ ان کے بقول مسیحی برادری اسلام کے دشمن ہیں، لہٰذا ہم پاکستان کی سرزمین پر موجود غیر مسلموں کو مستقبل میں بھی نشانہ بنائیں گے۔
2. Death toll from Peshawar church bombing rises to 81 - DAWN.COM
دہشت گردی مسلمہ طور پر ایک لعنت و ناسور ہے نیز دہشت گرد نہ تو مسلمان ہیں اور نہ ہی انسان۔ دہشت گردی اس وقت ہمارے ملک کا سب سے بڑا اور سنگین مسئلہ ہے اور یہ ملک کی معاشی ترقی کی سب سے بڑی رکاوٹ بھی ہے۔ گذشتہ دس سالوں سے پاکستان دہشت گردی کے ایک گرداب میں بری طرح پھنس کر رہ گیا ہے اور قتل و غارت گری روزانہ کا معمول بن کر رہ گئی ہےاور ہر طرف خوف و ہراس کے گہرے سائے ہیں۔
دہشتگرد ملک کو اقتصادی اور دفاعی طور پر غیر مستحکم اور تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور ملک اور قوم کی دشمنی میں اندہے ہو گئے ہیں ۔ خودکش حملے اور بم دھماکے اسلام میں جائز نہیں یہ اقدام کفر ہے.اسلام ایک بے گناہ فرد کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے اور سینکڑوں ہزاروں بار پوری انسانیت کاقتل کرنے والے اسلام کو ماننے والے کیسے ہو سکتے ہیں؟عورتوں اور بچوں کا قتل حالت جنگ میں بھی جائز نہ ہے۔
“ہمارا مذہب اسلام امن کا درس دیتا ہے، نفرت اور دہشت کا نہیں۔ پاکستانی طالبان اور فرقہ وارانہ قتل و غارت میں ملوث مسلح گروہ خونریزی، قتل و غارت، عسکریت پسندی اور شدت پسندی چھوڑ کر اور ہتھیار پھینک کر امن و سلامتی کی راہ اختیار کریں اور بے گناہ انسانوں کا خون بہانا بند کر دیں کیونکہ ان کا دہشت گردانہ طرزعمل اسلام کے بدنامی، پاکستان کی کمزوری اور ہزاروں گھرانوں کی بربادی کا باعث بن رہا ہے۔ پاکستانی طالبان جان لیں کہ وہ اللہ کی بے گناہ مخلوق کا قتل عام کر کے اللہ کے عذاب کو دعوت دے رہے ہیں اور اللہ اور اس کے پیارے رسول(صلعم) کی ناراضگی کا سبب بن رہے ہیں.کسی بھی عبادت گاہ پر حملہ اسلامی شریعہ کی خلاف ورزی ہے۔ﺍﻗﻠﯿﺘﻮﮞﮐﺎﺍﺣﺘﺮﺍﻡﺍﻭﺭﺍﻧﮩﯿﮟﺗﺤﻔﻆﻓﺮﺍﮨﻢﮐﺮﻧﺎﺍﺳﻼﻡﮐﯽﺭﻭﺡﮐﮯﻣطابق ﮨﮯ۔"رسول اللہ نے غيرمسلموں کی جان، مال عزت اور آبرو کی مکمل حفاظت کرنے کا حکم ديا ہے۔ اسلامی معاشرے ميں اقليتوں کو مکمل تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ قرآن ميں بھی کسی ايک انسان کا قتل پوری انسانيت کے قتل کے مترادف قرار ديا گيا ہے۔
’’خبردار! جس کسی نے کسی معاہد (اقلیتی فرد) پر ظلم کیا یا اس کا حق غصب کیا یا اُس کو اس کی استطاعت سے زیادہ تکلیف دی یا اس کی رضا کے بغیر اس سے کوئی چیز لی تو بروز قیامت میں اس کی طرف سے (مسلمان کے خلاف) جھگڑوں گا۔‘‘
ابوداؤد، السنن، کتاب الخراج، باب في تعشير، 3 : 170، رقم : 3052
جو حقوق مسلمانوں کو حاصل ہیں وہی حقوق ذمیوں کو بھی حاصل ہوں گے، نیز جو واجبات مسلمانوں پر ہیں وہی واجبات ذمی پر بھی ہیں۔ ذمیوں کا خون مسلمانوں کے خون کی طرح محفوظ ہے اور ان کے مال ہمارے مال کی طرح محفوظ ہے۔(درمختار کتاب الجہاد)
امام ابو یوسف اپنی شہرۂ آفاق تصنیف ’’کتاب الخراج‘‘ میں لکھتے ہیں کہ عہدِ نبوی اور خلافتِ راشدہ میں تعزیرات اور دیوانی قانون دونوں میں مسلمان اور غیر مسلم اقلیت کا درجہ مساوی تھا۔
ابو يوسف، کتاب الخراج : 187
’’غیر مسلموں کے حقوق کی حفاظت میرا سب سے اہم فرض ہے۔‘‘
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شام کے گورنر حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کو جو فرمان لکھا تھا اس میں منجملہ اور احکام کے ایک یہ بھی تھا کہ :
وامنع المسلمين من ظلمهم والإضراربهم واکل اموالهم إلا بحلها.
’’مسلمانوں کو ان پر ظلم کرنے اور انہیں ضرر پہنچانے اور ناجائز طریقہ سے ان کے مال کھانے سے منع کرنا۔‘‘
ابويوسف، کتاب الخراج : 152
ذمیوں کے اموال اور املاک کی حفاظت بھی اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ جوغیر مسلم اسلامی ریاست میں قیام پذیر ہوں اسلام نے ان کی جان، مال، عزت وآبرو اور مذہبی آزادی کے تحفظ کی ضمانت دی ہے۔اور حکمرانوں کو پابند کیا ہے کہ ان کے ساتھ مسلمانوں کے مساوی سلوک کیا جائے۔ ان غیر مسلم رعایا(ذمیوں) کے بارے میں اسلامی تصوریہ ہے کہ وہ اللہ اور رسول کی پناہ میں ہیں۔ا س بناء پر اسلامی قانون ہے کہ جو غیر مسلم، مسلمانوں کی ذمہ داری میں ہیں ان پر کوئی ظلم ہوتو اس کی مدافعت مسلمانوں پر ایسی ہی لازم ہے جیسی خود مسلمانوں پر ظلم ہوتو اس کا دفع کرنا ضروری ہے۔(مبسوط سرخسی:۱/۸۵(
آئین پاکستان بھی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ اقلیتوں کا قتل کر کے اور ان کی عبادت گاہوں پر حملے کر کے ہم دنیا بھر میں پاکستان کی رسوائی و بدنامی اور جگ ہنسائی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
دہشتگرد ملک کو اقتصادی اور دفاعی طور پر غیر مستحکم اور تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور ملک اور قوم کی دشمنی میں اندہے ہو گئے ہیں ۔ خودکش حملے اور بم دھماکے اسلام میں جائز نہیں یہ اقدام کفر ہے.اسلام ایک بے گناہ فرد کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے اور سینکڑوں ہزاروں بار پوری انسانیت کاقتل کرنے والے اسلام کو ماننے والے کیسے ہو سکتے ہیں؟عورتوں اور بچوں کا قتل حالت جنگ میں بھی جائز نہ ہے۔
“ہمارا مذہب اسلام امن کا درس دیتا ہے، نفرت اور دہشت کا نہیں۔ پاکستانی طالبان اور فرقہ وارانہ قتل و غارت میں ملوث مسلح گروہ خونریزی، قتل و غارت، عسکریت پسندی اور شدت پسندی چھوڑ کر اور ہتھیار پھینک کر امن و سلامتی کی راہ اختیار کریں اور بے گناہ انسانوں کا خون بہانا بند کر دیں کیونکہ ان کا دہشت گردانہ طرزعمل اسلام کے بدنامی، پاکستان کی کمزوری اور ہزاروں گھرانوں کی بربادی کا باعث بن رہا ہے۔ پاکستانی طالبان جان لیں کہ وہ اللہ کی بے گناہ مخلوق کا قتل عام کر کے اللہ کے عذاب کو دعوت دے رہے ہیں اور اللہ اور اس کے پیارے رسول(صلعم) کی ناراضگی کا سبب بن رہے ہیں.کسی بھی عبادت گاہ پر حملہ اسلامی شریعہ کی خلاف ورزی ہے۔ﺍﻗﻠﯿﺘﻮﮞﮐﺎﺍﺣﺘﺮﺍﻡﺍﻭﺭﺍﻧﮩﯿﮟﺗﺤﻔﻆﻓﺮﺍﮨﻢﮐﺮﻧﺎﺍﺳﻼﻡﮐﯽﺭﻭﺡﮐﮯﻣطابق ﮨﮯ۔"رسول اللہ نے غيرمسلموں کی جان، مال عزت اور آبرو کی مکمل حفاظت کرنے کا حکم ديا ہے۔ اسلامی معاشرے ميں اقليتوں کو مکمل تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ قرآن ميں بھی کسی ايک انسان کا قتل پوری انسانيت کے قتل کے مترادف قرار ديا گيا ہے۔
’’خبردار! جس کسی نے کسی معاہد (اقلیتی فرد) پر ظلم کیا یا اس کا حق غصب کیا یا اُس کو اس کی استطاعت سے زیادہ تکلیف دی یا اس کی رضا کے بغیر اس سے کوئی چیز لی تو بروز قیامت میں اس کی طرف سے (مسلمان کے خلاف) جھگڑوں گا۔‘‘
ابوداؤد، السنن، کتاب الخراج، باب في تعشير، 3 : 170، رقم : 3052
جو حقوق مسلمانوں کو حاصل ہیں وہی حقوق ذمیوں کو بھی حاصل ہوں گے، نیز جو واجبات مسلمانوں پر ہیں وہی واجبات ذمی پر بھی ہیں۔ ذمیوں کا خون مسلمانوں کے خون کی طرح محفوظ ہے اور ان کے مال ہمارے مال کی طرح محفوظ ہے۔(درمختار کتاب الجہاد)
امام ابو یوسف اپنی شہرۂ آفاق تصنیف ’’کتاب الخراج‘‘ میں لکھتے ہیں کہ عہدِ نبوی اور خلافتِ راشدہ میں تعزیرات اور دیوانی قانون دونوں میں مسلمان اور غیر مسلم اقلیت کا درجہ مساوی تھا۔
ابو يوسف، کتاب الخراج : 187
’’غیر مسلموں کے حقوق کی حفاظت میرا سب سے اہم فرض ہے۔‘‘
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شام کے گورنر حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کو جو فرمان لکھا تھا اس میں منجملہ اور احکام کے ایک یہ بھی تھا کہ :
وامنع المسلمين من ظلمهم والإضراربهم واکل اموالهم إلا بحلها.
’’مسلمانوں کو ان پر ظلم کرنے اور انہیں ضرر پہنچانے اور ناجائز طریقہ سے ان کے مال کھانے سے منع کرنا۔‘‘
ابويوسف، کتاب الخراج : 152
ذمیوں کے اموال اور املاک کی حفاظت بھی اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ جوغیر مسلم اسلامی ریاست میں قیام پذیر ہوں اسلام نے ان کی جان، مال، عزت وآبرو اور مذہبی آزادی کے تحفظ کی ضمانت دی ہے۔اور حکمرانوں کو پابند کیا ہے کہ ان کے ساتھ مسلمانوں کے مساوی سلوک کیا جائے۔ ان غیر مسلم رعایا(ذمیوں) کے بارے میں اسلامی تصوریہ ہے کہ وہ اللہ اور رسول کی پناہ میں ہیں۔ا س بناء پر اسلامی قانون ہے کہ جو غیر مسلم، مسلمانوں کی ذمہ داری میں ہیں ان پر کوئی ظلم ہوتو اس کی مدافعت مسلمانوں پر ایسی ہی لازم ہے جیسی خود مسلمانوں پر ظلم ہوتو اس کا دفع کرنا ضروری ہے۔(مبسوط سرخسی:۱/۸۵(
آئین پاکستان بھی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ اقلیتوں کا قتل کر کے اور ان کی عبادت گاہوں پر حملے کر کے ہم دنیا بھر میں پاکستان کی رسوائی و بدنامی اور جگ ہنسائی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
Comment