السلامُ علیکم ورحمتہ اللہ
ان دنوں میڈیا ایک ہی مسلے کی جانب توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے کہ
نگران سیٹ اپ کیسے بنے گا؟
کون وزیر اعظم ہوگا؟
الیکشن ہونگے کہ نہیں ہونگے؟
وغیرہ وغیرہ
لیکن کچھ ایسے معاملات بھی ہیں جن پر توجہ مرکوز کرنا میڈیا کا فرض بنتا ہے اور اگر ان معاملات کے لئے بھی قادری صاحب مطالبہ کرتے تو شائد اُن کی نیک نامی اور نیک نیتی کو چار چاند لگ جاتے
ایسے کچھ معاملات درج زیل ہیں جن پر یا تو قوانین بننے چاہیں یا کم از کم رضاکارانہ طور پر میڈیا کو علم آگہی بلند کرنا چاہئے۔
نمبر1:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کوئی بھی حکومت اپنی مدت ختم ہونے سے کم از کم تین ماہ قبل کسی قسم کی ملازمتوں پر بھرتیاں نہ کرے چاہے ہو وقافی حکومت ہو یا کہ صوبائی۔
کیونکہ اس طرح من چاہے افراد کو گروہوں کو یا برادریوں کو ایک طرح کی رشوت دی جاتی ہے اور ایسی ملازمتیں دیر پا بھی نہیں ہوتیں اور آنے والی کوئی بھی حکومت ان سیاسی بھرتیوں کو ختم کردیتی ہے لیکن چونکہ اس دوران کم از کم ایک سال کی تنخواہیں جا چکی ہوتی ہیں جس کی وجہ سے قومی خزانے کو نقصان پہنچتا ہے۔
نمبر 2:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کوئی بھی حکومت اپنی مدت ختم ہونے کے کم از کم تین ماہ قبل کسی بھی قسم کا نیا ترقیاتی منصوبہ شروع نہ کرے
کیونکہ یہ پورے محلے اور علاقے کو رشوت دینے جیسا کام ہے لیکن چونکہ جاتی ہوئی حکومت کے دور میں یہ منصوبے پایا تکمیل کو نہیں پہنچتے اور آنے والے حکومت اگر ایسے حلقوں میں جہاں یہ کام شروع کئے گئے ہوں وہاں نہ چیت پائی ہو یا بہت کم تناسب سے جیتی ہو تب وہ ان منصوبوں کو مکمل کرنے میں دلچسپی نہیں لیتی اور اس طرح ان منصوبوں پر لگایا گیا سرمایہ ضایع ہوجانے کا خدشہ رہتا ہے۔
نمبر 3۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حکومت اپنے آخری ادوار میں ترقیوں تبادلوں کا سلسلہ ترک کرےکیونکہ اس طرح من چاہے افراد کو ترقیاں دے کر زیر بار کیا جاتا ہے اور خاص طور پر تبادلوں کے زریعے من چاہے افراد کو ایسے علاقوں میں تعینات کیا جاتا ہے جہاں پر موجودہ حکومت کمزور ہو اور پھر ان لوگوں سے الیکشن کے دوران فوائد حاصل کئے جاتے ہیں ۔
ترقی و تبادلوں کا یہ سیلاب خاص طور پر انتظامی اداروں،بلدیاتی اداروں اور تعلیمی اداروں میں شدو مد کے ساتھ جاری و ساری ہوتا ہے کیونکہ دوران الیکشن یہی ادارے ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتے ہیں ۔
نمبر4:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حکومت وقت کو پابند کیا جائے کہ کم از کم اپنی مدت مکمل ہونے سے ایک ماہ قبل زر مبادلہ کے زخائر، بیرونی قرضوں کی مالیت،بڑے بڑے محکموں جیسے ریلوے،پی آئی اے،سٹیل مل وغیرہ کے نفع و نقصان کی رپوٹ شائع کروائے اور اسی طرح نگران حکومت کا جب وقت ختم ہوتو وہ بھی ایسے اداروں کی تین ماہ کی کارکردگی پر وضاحت کر کے نئی حکومت کے حوالے کرے تاکہ نئی حکومت سابقہ حکومت کے اچھے کاموں کا کریڈٹ نہ لے اور برے کاموں پر اس حکومت کو مورد الزام نہ ٹھہرایا جاسکے۔یا دوسری آنے والی حکومت یہی راگ نہ الاپتی رہے کہ جی ہمیں تو ملا ہی کچھ نہیں ۔
نمبر5:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسی طرح موجودہ حکومت گندم، چاول،چینی اور دوسری ضروریات زندگی کے بارے میں آگاہ کرے کہ حکومتی گوداموں میں کون کون سی چیز کتنی تعداد میں ،کتنے عرصے کے لئے موجود ہے۔
نمبر 6:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔موجودہ صاحب اقتدار اور ممبران اسمبلی کے گوشوارے شائع کئے جائیں کہ وہ جب ایوانوں کی زینت بنے تھے اُس وقت ان کے اثاثے کیا تھے اور اب جاتے وقت ان کے اثاثوں کی مالیت کیا ہے۔
یہ چند باتیں میں کئی دنوں سے سوچ رہا تھا جو آپ دوستوں کے ساتھ شئیر کی ہیں یقینی طور پر اور بھی کئی باتیں ہونگی جو فلحال میرے زہن کی محدود سوچ کے دائرہ کار میں نہیں آسکیں
ان دنوں میڈیا ایک ہی مسلے کی جانب توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے کہ
نگران سیٹ اپ کیسے بنے گا؟
کون وزیر اعظم ہوگا؟
الیکشن ہونگے کہ نہیں ہونگے؟
وغیرہ وغیرہ
لیکن کچھ ایسے معاملات بھی ہیں جن پر توجہ مرکوز کرنا میڈیا کا فرض بنتا ہے اور اگر ان معاملات کے لئے بھی قادری صاحب مطالبہ کرتے تو شائد اُن کی نیک نامی اور نیک نیتی کو چار چاند لگ جاتے
ایسے کچھ معاملات درج زیل ہیں جن پر یا تو قوانین بننے چاہیں یا کم از کم رضاکارانہ طور پر میڈیا کو علم آگہی بلند کرنا چاہئے۔
نمبر1:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کوئی بھی حکومت اپنی مدت ختم ہونے سے کم از کم تین ماہ قبل کسی قسم کی ملازمتوں پر بھرتیاں نہ کرے چاہے ہو وقافی حکومت ہو یا کہ صوبائی۔
کیونکہ اس طرح من چاہے افراد کو گروہوں کو یا برادریوں کو ایک طرح کی رشوت دی جاتی ہے اور ایسی ملازمتیں دیر پا بھی نہیں ہوتیں اور آنے والی کوئی بھی حکومت ان سیاسی بھرتیوں کو ختم کردیتی ہے لیکن چونکہ اس دوران کم از کم ایک سال کی تنخواہیں جا چکی ہوتی ہیں جس کی وجہ سے قومی خزانے کو نقصان پہنچتا ہے۔
نمبر 2:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کوئی بھی حکومت اپنی مدت ختم ہونے کے کم از کم تین ماہ قبل کسی بھی قسم کا نیا ترقیاتی منصوبہ شروع نہ کرے
کیونکہ یہ پورے محلے اور علاقے کو رشوت دینے جیسا کام ہے لیکن چونکہ جاتی ہوئی حکومت کے دور میں یہ منصوبے پایا تکمیل کو نہیں پہنچتے اور آنے والے حکومت اگر ایسے حلقوں میں جہاں یہ کام شروع کئے گئے ہوں وہاں نہ چیت پائی ہو یا بہت کم تناسب سے جیتی ہو تب وہ ان منصوبوں کو مکمل کرنے میں دلچسپی نہیں لیتی اور اس طرح ان منصوبوں پر لگایا گیا سرمایہ ضایع ہوجانے کا خدشہ رہتا ہے۔
نمبر 3۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حکومت اپنے آخری ادوار میں ترقیوں تبادلوں کا سلسلہ ترک کرےکیونکہ اس طرح من چاہے افراد کو ترقیاں دے کر زیر بار کیا جاتا ہے اور خاص طور پر تبادلوں کے زریعے من چاہے افراد کو ایسے علاقوں میں تعینات کیا جاتا ہے جہاں پر موجودہ حکومت کمزور ہو اور پھر ان لوگوں سے الیکشن کے دوران فوائد حاصل کئے جاتے ہیں ۔
ترقی و تبادلوں کا یہ سیلاب خاص طور پر انتظامی اداروں،بلدیاتی اداروں اور تعلیمی اداروں میں شدو مد کے ساتھ جاری و ساری ہوتا ہے کیونکہ دوران الیکشن یہی ادارے ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتے ہیں ۔
نمبر4:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حکومت وقت کو پابند کیا جائے کہ کم از کم اپنی مدت مکمل ہونے سے ایک ماہ قبل زر مبادلہ کے زخائر، بیرونی قرضوں کی مالیت،بڑے بڑے محکموں جیسے ریلوے،پی آئی اے،سٹیل مل وغیرہ کے نفع و نقصان کی رپوٹ شائع کروائے اور اسی طرح نگران حکومت کا جب وقت ختم ہوتو وہ بھی ایسے اداروں کی تین ماہ کی کارکردگی پر وضاحت کر کے نئی حکومت کے حوالے کرے تاکہ نئی حکومت سابقہ حکومت کے اچھے کاموں کا کریڈٹ نہ لے اور برے کاموں پر اس حکومت کو مورد الزام نہ ٹھہرایا جاسکے۔یا دوسری آنے والی حکومت یہی راگ نہ الاپتی رہے کہ جی ہمیں تو ملا ہی کچھ نہیں ۔
نمبر5:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسی طرح موجودہ حکومت گندم، چاول،چینی اور دوسری ضروریات زندگی کے بارے میں آگاہ کرے کہ حکومتی گوداموں میں کون کون سی چیز کتنی تعداد میں ،کتنے عرصے کے لئے موجود ہے۔
نمبر 6:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔موجودہ صاحب اقتدار اور ممبران اسمبلی کے گوشوارے شائع کئے جائیں کہ وہ جب ایوانوں کی زینت بنے تھے اُس وقت ان کے اثاثے کیا تھے اور اب جاتے وقت ان کے اثاثوں کی مالیت کیا ہے۔
یہ چند باتیں میں کئی دنوں سے سوچ رہا تھا جو آپ دوستوں کے ساتھ شئیر کی ہیں یقینی طور پر اور بھی کئی باتیں ہونگی جو فلحال میرے زہن کی محدود سوچ کے دائرہ کار میں نہیں آسکیں
لیکن
کاش انہی چند باتوں پر اگر میڈیا شور مچائے تو شائد ہم چند اچھے اقدامات کی شروعات کی وجہ بن جائیں ۔
Comment