Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

توہینِ مذہب کی ملزمہ نابالغ ہے: میڈیکل رپورٹ

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • توہینِ مذہب کی ملزمہ نابالغ ہے: میڈیکل رپورٹ


    اسلام آباد کے قریبی گائوں میں کچھ عرصہ قبل ایک عیسائی لڑکی پر قرآن کے جلانے کا الزام لگا گیا تھا




    توہین مذہب کے الزام میں گرفتار عیسائی لڑکی رمشا کے وکیل کا کہنا ہے کہ طبی معائنے سے ثابت ہوگیا ہے کہ ان کی موکلہ کی عمر چودہ سال ہے تاہم ان کی ذہنی عمر ان کی طبعی عمر سے کہیں کم ہے۔
    پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے نواحی گاؤں سے تعلق رکھنے والی رمشا کو تقریباً دو ہفتے قبل مبینہ طور پر قرآنی آیات پر مبنی کاغذ جلانے پر توہینِ مذہب کے الزام میں حراست میں لیا گیا تھا اور انہیں راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں رکھا گیا ہے۔


    پیر کو پولی کلینک ہسپتال کے جوائنٹ ایگزیکٹو ڈائریکٹر محمد زاہد کی سربراہی میں قائم کیے گئے چار رکنی بورڈ نے ملزمہ کا طبی معائنہ کرنے کے علاوہ اُس کے مختلف ٹیسٹ بھی کیے تھے۔




    رمشا کے وکیل طاہر نوید چوہدری نے بی بی سی کو بتایا کہ طبی معائنے اور تجزیوں کے بعد ڈاکٹر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ رمشا نہ صرف نابالغ بچی ہے بلکہ اس کی ذہنی عمر اس کی اصل عمر سے کم ہے۔
    ادھر اسلام آباد کی مقامی عدالت نے رمشا کی ضمانت کی درخواست کی سماعت تیس اگست تک کے لیے ملتوی کر دی ہے۔
    منگل کو ہونے والی سماعت کے دوران عدالت نے ملزمہ کے وکیل سے استفسار کیا کہ اُنہوں نے اس درخواست میں اپنی موکلہ کی کمسنی کا ذکر کیا ہے اور اُنہیں کمسن بچوں کے لیے بنائے گئے عدالتی عمل سے گُزارنا چاہیے لیکن اُنہوں نے اس ضمن میں کوئی درخواست دائر نہیں کی۔
    ملزمہ کے وکیل نے اس ضمن میں ایک درخواست بھی عدالت میں جمع کروا دی ہے جس کی سماعت تیس اگست کو ہوگی۔ ملزمہ کے وکیل کا کہنا ہے کہ انہیں امید ہے کہ آئندہ سماعت پر رمشا کو رہا کر دیا جائے گا۔
    خیال رہے کہ پاکستان کی وزارت داخلہ نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی پولیس سے کہا ہے کہ وہ قرآنی قاعدہ جلانے کے مقدمے میں گرفتار ہونے والی عیسائی لڑکی رمشا کی ضمانت کی درخواست کی مخالفت کریں۔
    وزارت داخلہ کے ایک اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا تھا کہ انٹیلیجنس بیورو اور اسلام آباد پولیس کے ادارے سپیشل برانچ کی جانب سے بھیجی جانے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رمشا کی ضمانت ہونے کی صورت میں اُس کی اور اُس کے اہلخانہ کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہوں گے۔
    اہلکار کے مطابق رپورٹ میں اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ رمشا جیل میں زیادہ محفوظ ہے اس لیے جب تک یہ معاملہ مکمل طور پر حل نہیں ہوجاتا اور لوگوں کے جذبات ٹھنڈے نہیں پڑتے اُس وقت تک ملزمہ کو جیل میں ہی رکھا جائے۔


    دریں اثناء پاکستانی علماء اور مشائخ کے نمائندہ گروپ آل پاکستان علماء کونسل نے ملزمہ مسیحی لڑکی کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ معاملہ پاکستان کے لیے ایک ’ٹیسٹ کیس‘ ہے اور اس میں کسی قسم کی ناانصافی نہیں ہونی چاہیے۔
    کونسل کے سربراہ طاہر اشرفی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں ’جنگل کا قانون حاوی ہوتا جا رہا ہے اور کسی پر بھی کوئی بھی الزام لگا دیا جاتا ہے۔ اگر اس(رمشا) پر غلط الزام لگایا گیا ہے تو الزام لگانے والوں کو حراست میں لے کر سزا دی جانی چاہیے‘۔
    انہوں نے کہا ’میڈیکل رپورٹ یہ کہہ رہی ہے کہ کہیں نہ کہیں تو زیادتی ہوئی ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ عدالت بغیر کسی خوف کے، بغیر کسی دباؤ کے عدالت فیصلہ کرے۔‘
    انہوں نے مزید کہا ’اگر یہ بچی بے گناہ ہے اور یہ کام چند شرپسند عناصر نے اپنے مذموم مقاصد کے لیے کیا ہے تو پھر ہم پوری پاکستانی قوم سے یہ کہیں گے کہ اس پر کھڑی ہو جائے تاکہ یہاں کوئی شخص توہینِ رسالت کے قانون کو، توہینِ قرآن کے قانون کو، مقدسات کے احترام کی قانون کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال نہ کر سکے۔‘
    اسلام آباد سے ہمارے نامہ نگار شہزاد ملک نے بتایا کہ میڈیکل بورڈ نے رمشا کی عمر اور زہنی حالت سے متعلق رپورٹ اسلام آباد پولیس اور اڈیالہ جیل کی انتظامیہ کے حوالے کر دی ہے جسے اس مقدمے کی سماعت کرنے والی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔
    اڈیالہ جیل کے اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ اس رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ رمشا کی ذہنی حالت اُس کی عمر سے دو سے تین سال تک کم ہے۔
    یہ رپورٹ پولی کلینک کے میڈیکل بورڈ کی جانب سے سفارشات مرتب کرنے کے بعد تیار کی گئی ہے۔ پولی کلینک کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈاکٹر شوکت کیانی کے مطابق منگل کے روز یہ رپورٹ اڈیالہ جیل اور دیگر متعلقہ حکام کے حوالے کی گئی ہے۔


    رمشا کیس میں نیا موڑ آگیا، مدعی مولوی عدالت میں پیش ، فیصلہ محفو

    اسلام آباد،کراچی (مانیٹرنگ ڈیسک) توہین قرآن کیس میں نیا موڑ آگیاہے اور مبینہ طور پر شواہد تبدیل کرنے والے امام مسجد خالدجدون کو پولیس نے حراست میں لے کر ڈیوٹی مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کردیاجہاں سے پولیس نے ملزم کو جیل بھیجنے اور رمشا کے وکیل نے الگ ایف آئی آر کے اندراج کا مطالبہ کردیاجس پر عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیاہے جو کچھ دیر میں سنائے جانے کا امکان ہے جبکہ شواہد تبدیل کرنے کی اطلاعات کے بعد چیئرمین آل پاکستان کونسل علامہ طاہر اشرفی نے ملزم کو سخت سزادینے اور مبینہ ملزمہ رمشا مسیح کی حفاظت یقینی بنانے کا مطالبہ کردیا۔ کم عمر مسیحی لڑکی رمشا پر مقدس اوراق جلانے کا الزام ہے تاہم واقعے کے عینی شاہد حافظ زبیر نے اپنے بیان میں انکشاف کیاکہ امام مسجد نے بعض جلائے گئے اوراق میں قرآنی اوراق جان بوجھ کر شامل کئے جس کے بعد کیس کو ایک نیا رخ مل گیا اور کیس کے بعد لاپتہ ہونے والے امام مسجد خالد جدون چشتی کو گرفتار کرلیا اور چھٹی کے باعث اسلام آبادمیں ڈیوٹی مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کردیاگیاجہاں سے پولیس نے ملزم کو جیل بھجوانے کی سفارش کردی ۔ چیئرمین آل پاکستان علماءکونسل علامہ طاہر اشرفی نے ملک بھر کے علماءسے اس معاملے میں ملوث امام مسجد خالد جدون کو سزا دلانے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ اُنہوں نے صدر پاکستان آصف علی زرداری سے بھی مطالبہ کیا کہ رمشا مسیح کی فوری رہائی کے ساتھ اسکی حفاظت کے بھی احکامات جاری کئے جائیں۔اُنہوں نے چیف جسٹس سے کیس کا از خود نوٹس لینے کا مطالبہ بھی کیا۔
















  • #2
    Re: توہینِ مذہب کی ملزمہ نابالغ ہے: میڈیکل رپورٹ

    کل جو خبر ٹی وی پر چل رہی تھی اُس میں تو کہا جا رہا تھا کہ جو فرد شاپر میں راکھ لے کر آیا وہ صرف کاغزوں کی راکھ تھی جن سے پتہ نہیں چل سکتا تھا کہ یہ راکھ کن کاغزوں کی ہے بعد میں اس میں کچھ قرآنی اوراق شامل کئے گئے۔

    جو ایمان نہ رکھتے ہوئے توہین کرے وہ سزا کا حقدار جو ایمان رکھتے ہوئے توہین کرے وہ زیادہ سزا کا حق دار لیکن جو مزہب کے چوہدری بنتے ہوئے توہین کرے وہ؟؟؟؟؟
    :star1:

    Comment


    • #3
      Re: توہینِ مذہب کی ملزمہ نابالغ ہے: میڈیکل رپورٹ

      Mai pehle se jaanta tha ke is bechari ki saath jo kuch hua hai, dushmani se hua hai. Is Imam ke baare main akhbaron main yeh bhee aaya hai ke is imam ne 3 maheene pehle ek khutba main logon ko kaha tha ke is muhale se saare saare Maseehion ko nikaalna chaahiye. Aise imamein jis ko Islam ke samaj hee nahin, hum kya karein. Agar yeh ek sacha Muslmaan hota to is ko pata hota ke Islam ke paydayesh main koi bhee Muslmaan kisi Maseehi ko be ghar nahain kiya tha. Hamara Hazrat Rasool (SAW) se le kar Sahaba-e Keraam tak aur Muslmaan heroes jaisa Salahuddin tak, koi bhee Muslmaan fatah ke waqt kisi ko bhee un ke muhala, ya gaon, ya sheher se nikaala nahin tha. Aise hee imamon ke wajah se jo jahilon se bhee bad tar hain, Islam ke naam ko daagh laga jaata hain. Hum ko aise imamon se hoshiyar rehna chaahiye kyon ke jab tak hum in ki baaton ko maan le, hum bhee jaahil kehlaane ke qabil hain.

      Comment


      • #4
        Re: توہینِ مذہب کی ملزمہ نابالغ ہے: میڈیکل رپورٹ

        Originally posted by RiyazA View Post
        Mai pehle se jaanta tha ke is bechari ki saath jo kuch hua hai, dushmani se hua hai. Is Imam ke baare main akhbaron main yeh bhee aaya hai ke is imam ne 3 maheene pehle ek khutba main logon ko kaha tha ke is muhale se saare saare Maseehion ko nikaalna chaahiye. Aise imamein jis ko Islam ke samaj hee nahin, hum kya karein. Agar yeh ek sacha Muslmaan hota to is ko pata hota ke Islam ke paydayesh main koi bhee Muslmaan kisi Maseehi ko be ghar nahain kiya tha. Hamara Hazrat Rasool (SAW) se le kar Sahaba-e Keraam tak aur Muslmaan heroes jaisa Salahuddin tak, koi bhee Muslmaan fatah ke waqt kisi ko bhee un ke muhala, ya gaon, ya sheher se nikaala nahin tha. Aise hee imamon ke wajah se jo jahilon se bhee bad tar hain, Islam ke naam ko daagh laga jaata hain. Hum ko aise imamon se hoshiyar rehna chaahiye kyon ke jab tak hum in ki baaton ko maan le, hum bhee jaahil kehlaane ke qabil hain.





        Comment


        • #5
          Re: توہینِ مذہب کی ملزمہ نابالغ ہے: میڈیکل رپورٹ

          پاکستان میں توہینِ مذہب کے الزام کا سامنا کرنے والی عیسائی لڑکی رمشا کے خاندان کا کہنا ہے کہ انہیں ان کے مسلمان ہمسائیوں نے زندہ جلا دینے کی دھمکی دی تھی۔

          دارالحکومت اسلام آباد سے کسی نامعلوم مقام سے بی بی سی کی نامہ نگار اورلا گورین سے بات کرتے ہوئے رمشا کے والد نے کہا کہ ان کے خاندان کو جان کا خطرہ ہے۔


          انہوں سے اس بات پر اسرار کیا کہ ان کی بیٹی بے قصور ہے۔ رمشا کو عدالت نے سنیچر کو ضمانت پر رہا کر دیا تھا تاہم ان پر توہینِ مذہب کا مقدمہ ابھی قائم ہے۔
          رمشا پر الزام ہے کہ اس نے مسلمانوں کی مذہبی کتاب قرآن کے اوراق نذرِ آتش کیے ہیں۔
          تاہم اسے مقدمے میں الزام عائد کرنے والوں میں شامل علاقے کی مسجد کے پیش امام کو بھی شواہد میں تبدیلی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
          اس مقدمے نے پاکستان میں توہینِ مذہب کے قانون کے غلط استعمال سے متعلق خدشات کو ایک مرتبہ پھر ہوا دی ہے۔
          رمشا کے والدین جنہوں نے اپنے تحفظ کے پیشِ نظر نام ظاہر نہیں کیے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی بیٹی رمشا گیارہ برس کی ہے اور وہ شرمیلی اور ان پڑھ ہے۔
          انہوں نے بتایا کہ رمشا اپنے گھر پر خاموش بیٹھی ہوئی تھی جس وقت لوگوں کا ہجوم ان کے گھر کے گرد اکھٹا ہو گیا اور یہ الزام عائد کیا کہ رمشا نے اسلامی کتب کے اوراق جلائے ہیں۔ رمشا کی والدہ نے بتایا کہ وہ ہجوم کو قابو کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔


          انہوں نے بتایا ’ایک عورت نے مجھے مارا اور میرے چہرے پر تھپڑ رسید کیا۔‘
          ’لوگ میرے گھر میں داخل ہو کر میری بیٹی کو پکڑنا چاہ رہے تھے۔ میں خوفزدہ ہو گئی کہ وہ ہمیں قتل کر دیں گے۔ ہم سب رو رہے تھے۔ میرے بیٹی بہت پریشان تھی۔‘
          رمشا کے خاندان نے بتایا کے رمشا نے خود کو غسل خانے میں بند کر کے جان بچائی۔
          رمشا کی چودہ سالہ بہن جو اس کے ہمراہ گھر میں بند ہوئی تھی وہ بھی ان واقعات سے خوفزدہ ہے۔
          رمشا کی بہن نے بتایا’ بہت سے لوگ جمع ہو گئے تھے۔ وہ کہہ رہے کہ جنہوں نے قرآن جلایا ہم ان کے ہاتھ کاٹ دیں گے۔ رمشا غسل خانے سے نہیں نکلی۔ بعد میں پولیس آئی اور اسے ساتھ لے گئی۔‘
          رمشا کے والد کا کہنا ہے کہ ان کے پورے خاندان کو خطرہ ہے۔ رمشا کے والد ایک دبلے پتلے شخص ہیں جو گھروں میں رنگ سازی کا کام کرکے اپنے خاندان کی کفالت کرتے ہیں۔ انہوں نے بی بی سی کی نامہ نگار کو بتایا کہ ان کے ہمسائیوں نے انہیں جلانے کی دھمکی دی ہے۔

          نہوں نے بتایا ’وہ کہہ رہے تھے ہم تمہیں تمہارے گھروں میں زندہ جلا دیں گے۔ ہم تمہیں اور تمہارے بچوں کو نہیں چھوڑیں گے۔ اس کے بعد دوسرے عیسائیوں کے گھروں کو بھی جلا دیں گے۔‘

          رمشا کے والد کا کہنا تھا کہ ’حتیٰ کے ہم نے وہ علاقہ چھوڑ دیا تب بھی وہ لوگ یہی کہہ رہے تھے کہ اس لڑکی اور اس کے خاندان کو ہمارے حوالے کرو ہم انہیں مارنا چاہتے ہیں۔‘
          رمشا کا خاندان کئی ہفتوں سے روپوش ہے اور اسے سخت سکیورٹی میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جا رہا ہے۔ حکومتِ پاکستان نے انہیں تحفظ فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے تاہم وہ خوفزدہ ہیں۔
          رمشا کے والد نے کہا’ ہم پریشان ہیں کہ ہم پر کسی بھی وقت حملہ ہو سکتا ہے اور قتل کیا جاسکتا ہے۔ اس سے پہلے بھی ایسے مقدمات میں جن لوگوں پر الزام لگا انہیں قتل کر دیا گیا۔‘
          رمشا کے خا ندان کا اسرار ہے کہ اس نے اسلامی کتب کے اوراق نہیں جلائے۔
          رمشا کے والد کا کہنا تھا کہ ’ہمارے گھروں میں مسلمانوں کی کتابیں نہیں ہیں۔ ہم انہیں استعمال نہیں کرتے ہم میں سے کوئی انہیں سمجھتا ہی نہیں۔‘
          رمشا کے عیسائی ہمسائیوں کا خیال ہے کہ رمشا بے قصور ہے اور اسے سوچے سمجھے منصوبے کا نشانہ بنایا گیا ہے تاکہ علاقے سے عیسائیوں کو نکالا جا سکے۔
          عیسائیوں کا کہنا ہے کہ ان کے مسلمان ہمسائیوں کو اتوار کے روز ہونے والی عبادت میں گائے جانے والے نغموں کے شور سے شکایت رہتی تھی۔
          توہینِ مذہب کے الزام کے تحت رمشا کی گرفتاری پر بین القوامی سطح پر مذمت اور پاکستان میں بعض علماء کی جانب سے شکایات سامنے آئی تھیں۔ پاکستان میں کسی توہینِ مذہب کے ملزم کے تئیں ایسی تشویش کم ہی سامنے آئی ہے۔
          بی بی سی کی نامہ نگار کے مطابق پاکستان میں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ رمشا کے خلاف مقدمہ شاید ختم کر دیا جائے۔ تاہم جیل سے باہر ہونے کی وجہ سے رمشا خطرے سے باہر نہیں ہے۔
          ر مشا کا خاندان سمجھتا ہے کہ وہ پاکستان میں کہیں بھی چلے جائیں توہینِ مذہب کا الزام ان کا پیچھا کرتا رہے گا۔













          Comment

          Working...
          X