مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
بھارتی بری فوج کے سربراہ جنرل وی کے سنگھ کی اصل عمر کے تنازعے کے تعلق سے یہ ایک بات پتہ چلی ہے کہ بھارت میں حکومت چیف آف آرمی سٹاف کی عمر کا تعین کرتی ہے جبکہ پاکستان میں چیف آف آرمی سٹاف حکومت کی عمر کا تعین کرتا ہے۔
پاکستانی سیاست دان چونکہ عمر کا زیادہ حصہ بوجوہ اپوزیشن میں گزار دیتے ہیں لہذا وہ حکمران بننے کے بعد بھی ذہنی طور پر حزبِ اختلاف کی طرح ہی سوچتے اور عمل کرتے ہیں۔ لیکن اس میں سیاستدانوں کا اتنا قصور نہیں کیونکہ جیسے ہی وہ رموزِ حکمرانی کے حروفِ تہجی رٹنا شروع کرتے ہیں تو اے بی سی ڈی کے بعد اچانک جی ایچ کیو آجاتا ہے اور سیاستداں پھر کنفیوز ہو کر پٹڑی سے اتر جاتے ہیں۔
وہ دن گئے جب اسٹیبلشمنٹ ( پاکستان میں فوجی فیصلہ سازوں کو احتیاطاً پیار سے اسٹیبلشمنٹ پکاراجاتا ہے ) سیاسی و سماجی نظام کے گھوڑے کو قابو میں لانے کے لیے چابک یا چھانٹے سے کام لیا کرتی تھی۔
اب سیاست اور سماج سدھار کے لیے نا تو ایوب خانی ایبڈو قوانین اور چھاپوں کی ضرورت ہے نہ کسی یحیٰی خان کو نظریۂ پاکستان ایجاد کرنے کے لیے کوئی نوابزادہ شیر علی خان درکار ہے اور نہ ہی ضیا الحق کی کوڑے مار فنکاری چاہیے۔ آرٹ آف کنٹرول اتنا آگے جا چکا ہے کہ ہر شے ڈرون ٹیکنولوجی پر شفٹ ہوگئی ہے۔
اے بی سی ڈی کے بعد جی ایچ کیو
سیاستدانوں کا اتنا قصور نہیں کیونکہ جیسے ہی وہ رموزِ حکمرانی کے حروفِ تہجی رٹنا شروع کرتے ہیں تو اے بی سی ڈی کے بعد اچانک جی ایچ کیو آجاتا ہے اور سیاستداں پھر کنفیوز ہو کر پٹڑی سے اتر جاتے ہیں۔
کہیں کسی زیرِ زمین بنکر میں کنٹرول پینل پر بیٹھے چند ماہرین ایل سی ڈی سکرینز پر مختلف مناظر دیکھ رہے ہیں۔ کسی سکرین پر کوئی سیاستداں تنے ہوئے رسے پر ڈنڈے کی مدد سے توازن قائم رکھتے ہوئے ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے جھول رہا ہے۔ کسی سکرین پر دفترِ خارجہ کے ٹائپسٹ بیٹھے انگلیاں چلا رہے ہیں۔ ایک سکرین پر باریش اور کلین شیو علماء جلوس کی قیادت کر رہے ہیں۔ ایک اور سکرین پر ٹی وی چینلز کی درجنوں کھڑکیاں کھلی ہوئی ہیں۔
کنٹرول پینل پر جوائے سٹک ہلتی ہے اور تنا ہوا رسہ ٹوٹ جاتا ہے یا سیاستدان کے ہاتھ سے توازنی ڈنڈہ گر جاتا ہے۔ پھر جوائے سٹک ہلتی ہے اور علماء کا جلوس یکایک دفاعِ پاکستان کے صف شکن جلسے میں بدل جاتا ہے۔ پھر جوائے سٹک ہلتی ہے اور بھانت بھانت کی بولیاں بولتے چینل بیک آواز سا ، رے ،گا ، ما ، پا ، دھا ، نی ، سا کا کورس شروع کردیتے ہیں۔
پھر جوائے سٹک ہلتی ہے اور چینلز پر دوبارہ ہڑ بونگ مچ جاتی ہے۔ علماء کے منہ سے شعلے نکلنے لگتے ہیں۔ دفترِ خارجہ کے ٹائپسٹ منجمد ہوجاتے ہیں اور تنے ہوئے رسے سے لٹکا سیاستداں ریورس ہو کر دوبارہ توازنی ڈنڈے کی مدد سے پھونک پھونک کر آگے بڑھنا شروع کر دیتا ہے۔
بلوچستان ، سندھ اور جنوبی پنجاب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں علم اور ترقی کی روشنی کا راستہ وڈیروں ، سرداروں اور پیروں نے روک رکھا ہے۔ان کے بچے تو ایچی سن اور لندن سکول آف اکنامکس میں پڑھتے ہیں لیکن اپنی رعیت کے لیے انہیں ایک پرائمری سکول کی زمین عطیہ کرنا بھی گوارہ نہیں۔
اس ارضِ پاکستان کی بیشتر اہم اور مہنگی قیمتی زمینوں سے لے کر ریس کورس ، گالف کلبز اور اہم ترین پالیسی ساز اداروں اور سٹریٹیجک منصوبوں کی مالکی و انتظام اور اندرونی وسائل و آمدنی اور بیرونی امداد کی ترسیل و تقسیم بلاواسطہ یا بلواسطہ انداز میں ڈرون ٹیکنا لوجی سے لیس چند حاضر سروس اور ریٹائرڈ سرداروں اور ان کے منشیوں کے ریموٹ کنٹرول میں ہے۔
کہنے کو پاکستان ایک سویلین نے بنایا ۔اس ملک کا پہلا آئین بھی ایک سویلین نے بنایا ۔اس ملک کا ایٹمی پروگرام بھی ایک سویلین نے شروع کیا ۔لیکن جب دیگ پک جاتی ہے تو بانٹنے والا کوئی اور ہوتا ہے اور جب دیگ خالی ہوجاتی ہے تو پھر باورچی کو تھما دی جاتی ہے۔
اس پورے تماشے میں اگرستم ظریفی ہے تو بس یہ کہ سماج اور سیاست کی تانگہ ٹیکنالوجی کے مقابلے میں ڈرون ٹیکنالوجی سے لیس گالف کورس اسٹیبلشمنٹ آج بھی اس یقین سے سرشار ہے کہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی۔
بھارتی بری فوج کے سربراہ جنرل وی کے سنگھ کی اصل عمر کے تنازعے کے تعلق سے یہ ایک بات پتہ چلی ہے کہ بھارت میں حکومت چیف آف آرمی سٹاف کی عمر کا تعین کرتی ہے جبکہ پاکستان میں چیف آف آرمی سٹاف حکومت کی عمر کا تعین کرتا ہے۔
پاکستانی سیاست دان چونکہ عمر کا زیادہ حصہ بوجوہ اپوزیشن میں گزار دیتے ہیں لہذا وہ حکمران بننے کے بعد بھی ذہنی طور پر حزبِ اختلاف کی طرح ہی سوچتے اور عمل کرتے ہیں۔ لیکن اس میں سیاستدانوں کا اتنا قصور نہیں کیونکہ جیسے ہی وہ رموزِ حکمرانی کے حروفِ تہجی رٹنا شروع کرتے ہیں تو اے بی سی ڈی کے بعد اچانک جی ایچ کیو آجاتا ہے اور سیاستداں پھر کنفیوز ہو کر پٹڑی سے اتر جاتے ہیں۔
وہ دن گئے جب اسٹیبلشمنٹ ( پاکستان میں فوجی فیصلہ سازوں کو احتیاطاً پیار سے اسٹیبلشمنٹ پکاراجاتا ہے ) سیاسی و سماجی نظام کے گھوڑے کو قابو میں لانے کے لیے چابک یا چھانٹے سے کام لیا کرتی تھی۔
اب سیاست اور سماج سدھار کے لیے نا تو ایوب خانی ایبڈو قوانین اور چھاپوں کی ضرورت ہے نہ کسی یحیٰی خان کو نظریۂ پاکستان ایجاد کرنے کے لیے کوئی نوابزادہ شیر علی خان درکار ہے اور نہ ہی ضیا الحق کی کوڑے مار فنکاری چاہیے۔ آرٹ آف کنٹرول اتنا آگے جا چکا ہے کہ ہر شے ڈرون ٹیکنولوجی پر شفٹ ہوگئی ہے۔
اے بی سی ڈی کے بعد جی ایچ کیو
سیاستدانوں کا اتنا قصور نہیں کیونکہ جیسے ہی وہ رموزِ حکمرانی کے حروفِ تہجی رٹنا شروع کرتے ہیں تو اے بی سی ڈی کے بعد اچانک جی ایچ کیو آجاتا ہے اور سیاستداں پھر کنفیوز ہو کر پٹڑی سے اتر جاتے ہیں۔
کہیں کسی زیرِ زمین بنکر میں کنٹرول پینل پر بیٹھے چند ماہرین ایل سی ڈی سکرینز پر مختلف مناظر دیکھ رہے ہیں۔ کسی سکرین پر کوئی سیاستداں تنے ہوئے رسے پر ڈنڈے کی مدد سے توازن قائم رکھتے ہوئے ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے جھول رہا ہے۔ کسی سکرین پر دفترِ خارجہ کے ٹائپسٹ بیٹھے انگلیاں چلا رہے ہیں۔ ایک سکرین پر باریش اور کلین شیو علماء جلوس کی قیادت کر رہے ہیں۔ ایک اور سکرین پر ٹی وی چینلز کی درجنوں کھڑکیاں کھلی ہوئی ہیں۔
کنٹرول پینل پر جوائے سٹک ہلتی ہے اور تنا ہوا رسہ ٹوٹ جاتا ہے یا سیاستدان کے ہاتھ سے توازنی ڈنڈہ گر جاتا ہے۔ پھر جوائے سٹک ہلتی ہے اور علماء کا جلوس یکایک دفاعِ پاکستان کے صف شکن جلسے میں بدل جاتا ہے۔ پھر جوائے سٹک ہلتی ہے اور بھانت بھانت کی بولیاں بولتے چینل بیک آواز سا ، رے ،گا ، ما ، پا ، دھا ، نی ، سا کا کورس شروع کردیتے ہیں۔
پھر جوائے سٹک ہلتی ہے اور چینلز پر دوبارہ ہڑ بونگ مچ جاتی ہے۔ علماء کے منہ سے شعلے نکلنے لگتے ہیں۔ دفترِ خارجہ کے ٹائپسٹ منجمد ہوجاتے ہیں اور تنے ہوئے رسے سے لٹکا سیاستداں ریورس ہو کر دوبارہ توازنی ڈنڈے کی مدد سے پھونک پھونک کر آگے بڑھنا شروع کر دیتا ہے۔
بلوچستان ، سندھ اور جنوبی پنجاب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں علم اور ترقی کی روشنی کا راستہ وڈیروں ، سرداروں اور پیروں نے روک رکھا ہے۔ان کے بچے تو ایچی سن اور لندن سکول آف اکنامکس میں پڑھتے ہیں لیکن اپنی رعیت کے لیے انہیں ایک پرائمری سکول کی زمین عطیہ کرنا بھی گوارہ نہیں۔
اس ارضِ پاکستان کی بیشتر اہم اور مہنگی قیمتی زمینوں سے لے کر ریس کورس ، گالف کلبز اور اہم ترین پالیسی ساز اداروں اور سٹریٹیجک منصوبوں کی مالکی و انتظام اور اندرونی وسائل و آمدنی اور بیرونی امداد کی ترسیل و تقسیم بلاواسطہ یا بلواسطہ انداز میں ڈرون ٹیکنا لوجی سے لیس چند حاضر سروس اور ریٹائرڈ سرداروں اور ان کے منشیوں کے ریموٹ کنٹرول میں ہے۔
کہنے کو پاکستان ایک سویلین نے بنایا ۔اس ملک کا پہلا آئین بھی ایک سویلین نے بنایا ۔اس ملک کا ایٹمی پروگرام بھی ایک سویلین نے شروع کیا ۔لیکن جب دیگ پک جاتی ہے تو بانٹنے والا کوئی اور ہوتا ہے اور جب دیگ خالی ہوجاتی ہے تو پھر باورچی کو تھما دی جاتی ہے۔
اس پورے تماشے میں اگرستم ظریفی ہے تو بس یہ کہ سماج اور سیاست کی تانگہ ٹیکنالوجی کے مقابلے میں ڈرون ٹیکنالوجی سے لیس گالف کورس اسٹیبلشمنٹ آج بھی اس یقین سے سرشار ہے کہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی۔
Comment