اسلام پیغام ساتھیوں کیسے مزاج ہیں خوب انجوائے ہورہا ہے چلیں خوش باش رہیں اور اس تحریر کے جواب ڈھونڈیں جبکہ یہ مشکل ہوگا بحثیت پاکستانی
ہم پاکستانی بھی عجب قوم ہیں۔ حماقت کو جذباتیت کا نام دیتے ہیں۔ جو لوگ امریکی حکومت کے رحجانات سے واقفیت رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ امریکہ کو اپنے ایک شہری کی زندگی بچانے کے لئے اگر تمام دنیا کو ملیا میٹ کرنا پڑے تو اس کی حکومت اور معاشرہ اس کی پرواہ نہیں کرتے۔ دنیا کے تمام ممالک کا جاسوس اگر پکڑا جائے تو وہ اس سے لاتعلقی کا اعلان کردیتے ہیں ماسوائے امریکہ کے کہ ان کے لئے سب سے زیادہ اہم چیز امریکی عوام کی زندگی، خوشی اور خوشحالی ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کے واقعہ میں بھی یہی سوچ پہلے دن سے حاوی تھی۔ کم از کم میرے دل و دماغ میں کوئی شک نہ تھا کہ امریکہ کو چاہے جو کچھ کرنا پڑے وہ ریمنڈ کو پاکستان میں گلنے اور مرنے نہیں دے گا۔ بات صرف اتنی تھی کہ سودا کس بات پر ہوتا ہے۔ اور سودا کرنے والوں نے بہت اچھا سودا کیا۔ بیس کروڑ روپے اور تین امریکی فیملی ویزے۔
میں تو سوچتا ہوں کہ اگر بارہ مئی کو مرنے والے، کراچی کے لسانی فسادات میں مرنے والے، سیالکوٹ میں مرنے والے دو بھائی اور ان جیسے سینکڑوں غریب جو وطن عزیز میں اپنی غربت کے ہاتھوں مار دیئے جاتے ہیں وہ بھی ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں مرے ہوتے تو ان کے ورثاء کو کچھ تو مل جاتا۔ جو کچھ ہوا، اس سے کچھ بہتر کیا جاسکتا تھا ان مرنے والوں کے لواحقین کے لئے؟ ریمنڈ کی جان لے کر کیا مل جانا تھا انہیں؟ وہی دھکے اس معاشرہ کے؟ دس روز بعد رونے کو کاندھا بھی نہیں ملنا تھا کسی کا۔ اب کم از کم زندگی کو آرام سے گزارنے کی کوئی سبیل تو پیدا ہوئی ۔ جس ملک میں سڑکوں پر دنیا میں سب سے زیادہ لوگ حادثات میں مرتے ہیں وہاں ایک بندہ کا کچلا جانا تو ویسے بھی کوئی خبر نہیں اور جہاں آئے دن درجنوں لوگ بم دھماکوں میں مرتے ہیں وہاں دو بندوں کا مارے جانا کیسا اچھنبا۔ ان تین کے ورثاء کے ہاتھ پیسہ آنے پر اور ان کے امریکی پاسپورٹ لینے پر کیوں ہر "پاکستانی" کو دُکھ ہورہا ہے؟ سمجھائیے ذرا؟ ریمنڈ ڈیوس کی جان لینے کے لئے بیتاب خواتین و حضرات پہلے ان ہزاروں کی موت کے ساتھ تو انصاف کرلیں جو ہر برس لاقانونیت کی کسی ایک یا دوجی شکل کا شکار ہوکر پاکستانیوں کے ہاتھوں زندگی ہار جاتے ہیں؟ جس ملک میں غریب وکیل اور امیر جج کو خریدتا ہو، وہاں انصاف کی دُہائی ایک زوردار تھپڑ کی صورت میں لوٹانی چاہئے۔ آخر پاکستانیوں کو انصاف صرف امریکہ اور بھارت کے لئے ہی کیوں یاد آتا ہے؟ مزے کی بات ہے کہ آئے روز جو نا انصافیاں ہوتی ہیں انہیں تو ہم معمول سمجھ کر پی جاتے ہیں اور جب انصاف ہوا تو پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگے۔ ایسا کیوں؟ شائد خالص دودھ کی طرح انصاف بھی ہمارے نازک ہاضموں کے بس سے باہر ہے۔
ایک بات سمجھاؤں؟ جس روز پاکستان اپنے شہریوں کے لئے اس قدر بے قرار ہوگا جیسے امریکہ جیسی سپر پاور ریمنڈ ڈیوس کے لئے ہوئی ہے، اس روز پاکستان بھی ایک عالمی طاقت بننے کی راہ پر گامزن ہوجائے گا۔ یہ فرق ہے امریکہ میں اور پاکستان میں اور یہی ایک سبق ہے اس سارے قصہ میں۔ لیکن سمجھے گا کون؟
ہم پاکستانی بھی عجب قوم ہیں۔ حماقت کو جذباتیت کا نام دیتے ہیں۔ جو لوگ امریکی حکومت کے رحجانات سے واقفیت رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ امریکہ کو اپنے ایک شہری کی زندگی بچانے کے لئے اگر تمام دنیا کو ملیا میٹ کرنا پڑے تو اس کی حکومت اور معاشرہ اس کی پرواہ نہیں کرتے۔ دنیا کے تمام ممالک کا جاسوس اگر پکڑا جائے تو وہ اس سے لاتعلقی کا اعلان کردیتے ہیں ماسوائے امریکہ کے کہ ان کے لئے سب سے زیادہ اہم چیز امریکی عوام کی زندگی، خوشی اور خوشحالی ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کے واقعہ میں بھی یہی سوچ پہلے دن سے حاوی تھی۔ کم از کم میرے دل و دماغ میں کوئی شک نہ تھا کہ امریکہ کو چاہے جو کچھ کرنا پڑے وہ ریمنڈ کو پاکستان میں گلنے اور مرنے نہیں دے گا۔ بات صرف اتنی تھی کہ سودا کس بات پر ہوتا ہے۔ اور سودا کرنے والوں نے بہت اچھا سودا کیا۔ بیس کروڑ روپے اور تین امریکی فیملی ویزے۔
میں تو سوچتا ہوں کہ اگر بارہ مئی کو مرنے والے، کراچی کے لسانی فسادات میں مرنے والے، سیالکوٹ میں مرنے والے دو بھائی اور ان جیسے سینکڑوں غریب جو وطن عزیز میں اپنی غربت کے ہاتھوں مار دیئے جاتے ہیں وہ بھی ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں مرے ہوتے تو ان کے ورثاء کو کچھ تو مل جاتا۔ جو کچھ ہوا، اس سے کچھ بہتر کیا جاسکتا تھا ان مرنے والوں کے لواحقین کے لئے؟ ریمنڈ کی جان لے کر کیا مل جانا تھا انہیں؟ وہی دھکے اس معاشرہ کے؟ دس روز بعد رونے کو کاندھا بھی نہیں ملنا تھا کسی کا۔ اب کم از کم زندگی کو آرام سے گزارنے کی کوئی سبیل تو پیدا ہوئی ۔ جس ملک میں سڑکوں پر دنیا میں سب سے زیادہ لوگ حادثات میں مرتے ہیں وہاں ایک بندہ کا کچلا جانا تو ویسے بھی کوئی خبر نہیں اور جہاں آئے دن درجنوں لوگ بم دھماکوں میں مرتے ہیں وہاں دو بندوں کا مارے جانا کیسا اچھنبا۔ ان تین کے ورثاء کے ہاتھ پیسہ آنے پر اور ان کے امریکی پاسپورٹ لینے پر کیوں ہر "پاکستانی" کو دُکھ ہورہا ہے؟ سمجھائیے ذرا؟ ریمنڈ ڈیوس کی جان لینے کے لئے بیتاب خواتین و حضرات پہلے ان ہزاروں کی موت کے ساتھ تو انصاف کرلیں جو ہر برس لاقانونیت کی کسی ایک یا دوجی شکل کا شکار ہوکر پاکستانیوں کے ہاتھوں زندگی ہار جاتے ہیں؟ جس ملک میں غریب وکیل اور امیر جج کو خریدتا ہو، وہاں انصاف کی دُہائی ایک زوردار تھپڑ کی صورت میں لوٹانی چاہئے۔ آخر پاکستانیوں کو انصاف صرف امریکہ اور بھارت کے لئے ہی کیوں یاد آتا ہے؟ مزے کی بات ہے کہ آئے روز جو نا انصافیاں ہوتی ہیں انہیں تو ہم معمول سمجھ کر پی جاتے ہیں اور جب انصاف ہوا تو پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگے۔ ایسا کیوں؟ شائد خالص دودھ کی طرح انصاف بھی ہمارے نازک ہاضموں کے بس سے باہر ہے۔
ایک بات سمجھاؤں؟ جس روز پاکستان اپنے شہریوں کے لئے اس قدر بے قرار ہوگا جیسے امریکہ جیسی سپر پاور ریمنڈ ڈیوس کے لئے ہوئی ہے، اس روز پاکستان بھی ایک عالمی طاقت بننے کی راہ پر گامزن ہوجائے گا۔ یہ فرق ہے امریکہ میں اور پاکستان میں اور یہی ایک سبق ہے اس سارے قصہ میں۔ لیکن سمجھے گا کون؟
Comment