میں محفوظ میرا گھر بار و اقتدار محفوظ باقی جاؤ بھاڑ میں
چند برس پہلے تک مشہور تھا کہ پاکستان سے بیس کیلومیٹر کے فاصلے پر آباد اسلام آباد رقبے میں واشنگٹن کے آرلنگٹن قبرستان سے آدھا ہے مگر خاموشی آرلنگٹن سے دوگنی ہے۔
اخباری اطلاعات کے مطابق میریئٹ بم دھماکے کے بعد اسی اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے پارلیمنٹ ہاؤس، ایوانِ صدر و وزیرِ اعظم، سپریم کورٹ، سیکرٹیریٹ بلاک، منسٹرز کالونی، ججز کالونی اور ڈپلومیٹک انکلیو کے تحفظ کے لیے آٹھ ارب روپے مالیت سے کنکریٹ کی تین فٹ اونچی پندرہ کیلومیٹر طویل چار دیواری بنانے کا منصوبہ بنایا ہے۔ تاکہ اسلام آباد کے حکومتی قلب کو بغداد کے گرین زون کی طرح خودکش حملوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ اس چار دیواری میں آمدورفت کے آٹھ دروازے بنائے جائیں گے۔ یہ چاردیواری وہ بنوا رہے ہیں جو گزشتہ دنوں بین الاقوامی ریڈ کراس کے اس بیان پر لال بھبوکے ہو گئے تھے کہ ریڈ کراس نے پاکستان (بالخصوص صوبہ سرحد) کو 'وار زون' کی کیٹیگری میں کیوں ڈال دیا۔
عرض صرف یہ ہے کہ سن دو ہزار سے اب تک اسلام آباد کے 'ریڈ زون' میں صرف دو بم حملے ہوئے ہیں اور وہ بھی میریئٹ ہوٹل پر۔ باقی ایک سو پندرہ خودکش دھماکوں میں جو سولہ سو افراد ہلاک اور چار ہزار کے لگ بھگ زخمی ہوئے ہیں وہ سب کے سب اس مجوزہ کنکریٹی فصیل کے دائرے سے باہر ہوئے ہیں۔
اگر بیسیوں بُلٹ پروف گاڑیوں، سگنل جامرز، نقل و حرکت کے خفیہ شیڈول، تین حفاظتی دائروں اور پندرہ سے زائد فوجی و نیم فوجی و سراغرساں ادارے ہوتے ہوئے بھی پندرہ کیلومیٹر کے علاقے کا تحفظ کنکریٹ چار دیواری کے بغیر ممکن نہیں تو پھر ساڑھے تین لاکھ مربع میل علاقے میں پھیلے ہوئے سولہ کروڑ افراد اپنی چادر اور چار دیواری کے تحفظ کے لیے کیا کریں۔۔۔ کس کے پاس جائیں۔۔۔ کس سے کہیں اور کیا کہیں؟
جو سوچ فصیلِ اسلام آباد اٹھوا رہی ہے کیا بالکل یہی سوچ نہیں تھی جس نے فصیلِ بابل و بغداد و دمشق و یروشلم و دہلی و آگرہ و ملتان و پشاور اور دیوارِ چین، دیوارِ برلن، دیوارِ غربِ اردن بنوائی۔
وہ سوچ تھی کیا اور ہے؟ میں، میری جان، میرا مال، میرا اقتدار محفوظ رہے۔ باقی اپنا انتظام خود کریں۔۔۔
مگر اس سوچ کے نتیجے میں ہوا کیا۔۔۔ یہ ناں کہ ان سب دیواروں اور فصیلوں کے آثار آج انتہائی مقبول ٹورسٹ اٹریکشنز ہیں!
عرض صرف یہ ہے کہ سن دو ہزار سے اب تک اسلام آباد کے 'ریڈ زون' میں صرف دو بم حملے ہوئے ہیں اور وہ بھی میریئٹ ہوٹل پر۔ باقی ایک سو پندرہ خودکش دھماکوں میں جو سولہ سو افراد ہلاک اور چار ہزار کے لگ بھگ زخمی ہوئے ہیں وہ سب کے سب اس مجوزہ کنکریٹی فصیل کے دائرے سے باہر ہوئے ہیں۔
اگر بیسیوں بُلٹ پروف گاڑیوں، سگنل جامرز، نقل و حرکت کے خفیہ شیڈول، تین حفاظتی دائروں اور پندرہ سے زائد فوجی و نیم فوجی و سراغرساں ادارے ہوتے ہوئے بھی پندرہ کیلومیٹر کے علاقے کا تحفظ کنکریٹ چار دیواری کے بغیر ممکن نہیں تو پھر ساڑھے تین لاکھ مربع میل علاقے میں پھیلے ہوئے سولہ کروڑ افراد اپنی چادر اور چار دیواری کے تحفظ کے لیے کیا کریں۔۔۔ کس کے پاس جائیں۔۔۔ کس سے کہیں اور کیا کہیں؟
جو سوچ فصیلِ اسلام آباد اٹھوا رہی ہے کیا بالکل یہی سوچ نہیں تھی جس نے فصیلِ بابل و بغداد و دمشق و یروشلم و دہلی و آگرہ و ملتان و پشاور اور دیوارِ چین، دیوارِ برلن، دیوارِ غربِ اردن بنوائی۔
وہ سوچ تھی کیا اور ہے؟ میں، میری جان، میرا مال، میرا اقتدار محفوظ رہے۔ باقی اپنا انتظام خود کریں۔۔۔
مگر اس سوچ کے نتیجے میں ہوا کیا۔۔۔ یہ ناں کہ ان سب دیواروں اور فصیلوں کے آثار آج انتہائی مقبول ٹورسٹ اٹریکشنز ہیں!
Comment