Originally posted by suffard
View Post
مسلمان تو امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ اور فوج سميت امريکی معاشرے کے ہر شعبہ زندگی ميں موجود ہيں۔ ايک مسلمان ہونے کی حيثيت سے ميں آپ کو اپنے ذاتی تجربے کی روشنی ميں يہ بتا سکتا ہوں کہ امريکی معاشرے بلکہ امريکی حکومتی اداروں ميں بھی مسلمانوں کو اپنی مذہبی رسومات کی ادائيگی ميں کسی پابندی يا رکاوٹ کا سامنا نہيں کرنا پڑتا۔ ہميں عيد اور رمضان سميت تمام اہم مذہبی مواقع پر صدر بش سميت تمام اہم حکومتی عہديداروں کی جانب سے ای ميل اور پيغامات موصول ہوتے ہيں۔ چند ہفتے قبل اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ ميں عيد کے موقع پر مسلمانوں نے دعوت کا اہتمام کيا جس ميں بے شمار سينير حکومتی عہديداروں نے شرکت کی۔
اسی ضمن ميں آپ کو ليفٹينينٹ کمانڈر ابن نول کا حوالہ دے سکتا ہوں جو کہ اس وقت امريکی نيوی ميں سب سے سينير مسلم امام ہيں۔ يہ اپنی ملازمت کے دوران مسلمان ہوۓ تھے اور اس وقت امريکی نيوی ميں باقاعدہ اسلام کی تبليغ اور مسلمان افسران کی دينی درس وتدريس کے فرائض انجام ديتے ہيں۔
اگر امريکی حکومت کو اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ اور امريکی نيوی ميں ان "داڑھی والے مسلم کرداروں" کی موجودگی اور انکے مذہبی عقائد سے کوئ خطرہ نہيں ہے تو يہ کيسے ممکن ہے کہ ہزاروں ميل دور کسی ملک ميں ان "کرداروں" کی مذہبی طرز زندگی امريکی حکومت کے ليے خطرہ بن جاۓ؟
افغانستان ميں فوجی کاروائ ان مسلم کرداروں کے خلاف نہيں کی گئ۔ يہ ان گروہوں اور تنظيموں کے خلاف کی گئ جو اپنے سياسی ايجنڈے کے ليے دانستہ بے گناہ لوگوں کا قتل عام کر کے مذہب کی آڑ ميں اپنے جرائم کو جائز قرار ديتے ہيں۔ چند روز قبل طالبان کی جانب سے ايک بس کے دو درجن سے زائد مسافروں کا قتل اور اس کے بعد ان کی گردنيں کاٹنے کا واقعہ اس کی تازہ مثال اور ثبوت ہے۔
Comment