مذہبی افتراق کے اسباب سے پرہیز کی ضرورت
ڈاکٹر علی اکبر قادری
ڈاکٹر علی اکبر قادری
چنانچہ اسلامی تاریخ کے چمکتے دمکتے چہرے پر بادشاہت کی قباحتوں کے ساتھ ساتھ اگر کوئی بدنما داغ ہے تو وہ یہی خوارج اور روافض کی طویل اور خون آشام کشمکش ہے۔ اسی دور میں چونکہ تفسیر اور حدیث کی تدوین ہو رہی تھی۔ تاریخ اور دیگر علوم عقلیہ و نقلیہ خصوصاً علم الکلام وجود میں آرہا تھا۔ اس لئے اس دور کے علماء کی طرف سے وجو د میں آنے والا قابل قدر علمی ذخیرہ بھی ایسی روایات سے محفوظ نہ رہ سکا جن میں فریقین نے ایک دوسرے کے نظریات کو غلط ثابت کرنے کی کوششیں کی تھیں۔ بہت کم لوگوں پر یہ حقیقت منکشف ہوسکی ہے کہ اس خطرے کے سبب روایت حدیث کے مقدس سلسلے کو فلٹر کرنے کے لیے ائمہ نے جتنی کڑی شرائط متعین کیں ان کی مثال انسانی تاریخ کے کسی شعبے میں موجود نہیں۔ قبولیت و اخذِ حدیث کے باب میں اس قدر کڑے معیارات مقرر کیے گئے کہ کذب و افتراء کے سرچشمے خاصی حد تک خود بخود خشک ہوگئے۔ اسی احتیاط کے باعث امام بخاری نے پوری زندگی لگا کر حاصل کیے گئے 3 لاکھ احادیث کے ذخیرے میں سے صرف چند ہزار احادیث مبارکہ صحیح بخاری میں درج کیں اور یہی حالت دوسرے ائمہ حدیث کی بھی ہے۔ اسی احتیاط کی بناء پر علم جرح و تعدیل اور اسماء الرجال کی درجنوں ضخیم کتب معرض وجود میں آئیں۔ مدعائے کلام یہ ہے کہ اس اعتقادی تعصب نے علمی میدان اور تاریخی ادوار میں بھی مضر اثرات مرتب کیے اور باہمی قوت کو بھی منتشر کیے رکھا۔ یہ افتراق و انتشار مسلمانوں کی ایسی کمزوری رہا جس کے ذریعے عالم کفر کوجارحیت اور مداخلت کیلئے ہمیشہ آسانی اور سہولت میسر رہی۔
تیرھویں صدی عیسوی میں جب چین کے شمالی علاقوں سے خانہ بدوش تاتاری قبیلہ دنیا کی ہیبت ناک قوت کی شکل میں چین، روس، ہنگری پولینڈ اور جرمن قوم کو روندتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا مگر اسلامی سلطنت پر چڑھائی کی ہمت اسے بھی نہیں ہو رہی تھی لیکن یہ ایک تلخ تاریخی حقیقت ہے کہ تاتاری سردار ہلاکو خان کو بغداد پر حملہ کرنے کی ترغیب اور ترکیب بھی ایک معروف مذہبی فرقہ کی طرف سے دی گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے 7 سو سالہ اسلامی سلطنت شاندار علمی تہذیبی اور انسانی امتیازات کے باوجود تاخت و تاراج ہو گئی۔ دارالخلافہ بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی، گلیاں مسلمانوں کے خون سے نہا گئیں اور دجلہ و فرات کے دریا مایہ ناز علمی ذخائر کی سیاہی سے بھرگئے۔ سقوط غرناطہ کی طرح خلافت عثمانیہ کا خاتمہ بھی اگرچہ سیاسی اور عسکری کمزوریوں کے باعث ممکن ہوا مگر اس سیاسی کمزوری کے پیچھے بھی مسلمانوں کا افتراق اصل سبب تھا جس سے دشمنان اسلام نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔
تہذیبوں کے درمیان تصادم کا نظریہ اور چرچا صرف اسلام کے خلاف عام کیا جا رہا ہے کیونکہ اس وقت روئے زمین پر کوئی دوسری تہذیب ایسی نہیں جو اتنے مضبوط اور مربوط نظام الوہیت کے تحت مزاحمتوں اور مخالفتوں کو چیرتی ہوئی آگے بڑھ رہی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ہزاروں سالہ اختلافات کے باوجود دنیا کی بیشتر اقوام اور مذاہب اسلام کے مقابلے میں متحد اور یکجا دکھائی دے رہے ہیں۔ اس کے برعکس یہ کتنی عجیب اور حیران کن حقیقت ہے کہ اپنی آنکھوں کے سامنے آگ اور خون کے بہتے دریا دیکھ کر بھی اسلامی دنیا سبق سیکھنے کے لئے تیار نہیں۔ آپ غور کریں تو اس گہری خاموشی اور تاریخی سرد مزاجی کے کئی اسباب ہیں۔ کچھ سیاسی و معاشی ہیں کچھ سماجی و ثقافتی ہیں کچھ فکری و علمی ہیں اور کچھ مذہبی مسلکی ہیں۔ یہ مسائل صرف مسلمانوں کا ورثہ نہیں بلکہ تقریباً ہر قوم کو ہر دور میں درپیش رہتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ان میں سے بعض کے اثرات ختم بھی ہوجاتے ہیں لیکن مسلمانوں کے درمیان موجود مذہبی و مسلکی مسائل اس لیے مسلسل اور طویل تاریخ کے حامل ہیں کہ اسے اچھالنے والا طبقہ مذہبی پیشوائیت کے منصب پر فائز رہا۔ اس کو حاصل تقدس اور احترام ان کے نظریات کو تقویت دیتا رہا جس کی وجہ سے ان نظریات کو ماننے اور اپنانے والوں کا کوئی نہ کوئی حلقہ بھی موجود رہا۔ یہ الگ بات ہے کہ ان گروہوں اور حلقہ ہائے اثر میں سے بعض دائرہ اسلام سے بھی خارج ہوگئے۔ اس سارے پس منظر کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ دین و مذہب کی دعوت دینے والوں پر سب سے زیادہ نازک اور حساس ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ وہ چاہیں توسادہ لوح عوام کو متحد رکھ سکتے ہیں اور چاہیں تو پورا ماحول آپس میں دست و گریباں ہوسکتا ہے۔
Comment