Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

ª!ª Quran Aur Hadeeth Ka Bahmi Rabatª!ª

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • ª!ª Quran Aur Hadeeth Ka Bahmi Rabatª!ª

    اسلام علیکم قارئین کرام درج زیل مقالہ ہم نے ایک فورم پر حجیت حدیث پر شبہات کے ازالہ کے طور پر ترتیب دیا اسکی افادیت کے پیش نظر اسے پیغام کے قارئین کے لیے بھی پیش کیا جاتا ہے ۔لیکن یہ یاد رہے کہ اس مقالہ کو ہم نے انتہائی اختصار کے ساتھ پیش کیا تھا جیسے جیسے وقت ملتا گیا اس میں مزید اضافہ جات بھی کرتے چلے جائیں گے ۔



    حدیث اور قرآن کا باہمی ربط


    حدیث کیا ہے ؟


    اتنی بات تو کم و بیش سب ہی جانتے ہیں کہ قرآن پاک میں اللہ پاک نے عوام الناس کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نہ صرف نبوت و رسالت سے روشناس کروایا ہے بلکہ منصب رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ مقام رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی توضیح فرمائی ہے بلاشبہ نبوت و رسالت صلی اللہ علیہ وسلم ایک عہدہ اور منصب ہونے کی وجہ سے ایمانیات سے متعلق ہیں یعنی ماننے اور باور کرنے کی چیزیں ہیں مگر قرآن کے نے منصب نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ مقام رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی تو واضح فرمایا ہے دیکھیئے درج زیل آیات اور پھر ہر آیت کہ ضمن حاصل ہونے والے فوائد ۔ ۔
    قُلْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَالرَّسُولَ فإِن تَوَلَّوْاْ فَإِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ الْكَافِرِينَO .
    ترجمہ:- آپ فرما دیں کہ اﷲ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو پھر اگر وہ روگردانی کریں تو اﷲ کافروں کو پسند نہیں کرتاo
    ( سورہ آل عمران 32عرفان القرآن)
    اسی طرح ایک جگہ ارشاد ہے کہ ۔ ۔ ۔
    لَقَدْ مَنَّ اللّهُ عَلَى الْمُؤمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُواْ عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُواْ مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍO
    ترجمہ :،بیشک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے (عظمت والا) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے، اگرچہ وہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے
    (سورہ آل عمران 164 عرفان القرآن)


    فوائد و ثمرات

    :
    مندرجہ بالا دونوں آیات سے ثابت ہوا کہ جس طرح اللہ کی اطاعت (قرآن کی صورت میں ) ضروری ہے اسی طرح رسول صلی اللہ کی اطاعت بھی( فرمان رسول سلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں) ضروری ہے
    اور مندرجہ بالا دونوں اطاعتوں کے درمیان واؤ عاطفہ ذکر کر کے (کہ واؤ عاطفہ ہمیشہ مغایرت کے لیے آتی ہے کہ عطف کا معطوف علیہ ہمیشہ اس کا غیر ہوتا ہے )
    اس امر کی طرف اشارہ کردیا کہ یہ دونوں اطاعتیں اپنے نفوس میں تو جدا جدا ہیں مگر حقیقتا ایک ہی ہیں جیسا کہ ایک مقام پر فرمایا من یطع الرسول فقد اطاع اللہ ۔ ۔
    اور درج بالا دوسری آیت قرآن پاک میں تو وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ کے صاف اور صریح الفاظ ہماری بات کی تصدیق کررہے ہیں کہ قرآن کو صرف قرآن سے سمجھنا ممکن نہیں جب تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ سے تزکیہ نہ حاصل کرلیا جائے اور پھر اسکے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے کتاب کی تعلیم لیتے ہوئے اس قرآن کی حکمتوں کو سمجھا جائے اور یاد رہے کہ مندرجہ بالا آیت میں تزکیہ ، تعلیم اور حکمت تینوں کی نسبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے نہ قرآن کی طرف اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ اس تزکیہ ، تعلیم اورحکمت تک رسائی کا واحد زریعہ احادیث مبارکہ ہیں جو کہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل میں بھی امت میں صدیوں سے رائج ہیں ۔ ۔ ۔
    دیکھیئے ایک اور مقام پر قرآن کس طرح مقام رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی وضاحت کرتا ہے دیکھیئے درج زیل آیت قرآن کا سیاق و سباق ۔ ۔ ۔
    بِالْبَيِّنَاتِ وَالزُّبُرِ وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَO
    ترجمہ:- (انہیں بھی) واضح دلائل اور کتابوں کے ساتھ (بھیجا تھا)، اور (اے نبیِ مکرّم!) ہم نے آپ کی طرف ذکرِ عظیم (قرآن) نازل فرمایا ہے تاکہ آپ لوگوں کے لئے وہ (پیغام اور احکام) خوب واضح کر دیں جو ان کی طرف اتارے گئے ہیں اور تاکہ وہ غور و فکر کریں
    (النحل 44 عرفان القرآن)

    دیکھیے اس آیت نے تو ہماری بات کو کھول کر رکھ دیا اور اتنے شفاف طریقہ سے بیان کردیا کہ اب دیگر کسی بھی بیان کی احتیاج نہیں ۔ دیکھیئے
    وَأَنزَلْنَا :- اور ہم نے نازل کیا
    إِلَيْكَ :- آپ کی طرف
    الذِّكْرَ :- اس ذکر کو
    لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ :- تاکہ آپ اسے لوگوں پر کھول کھول کر بیان کردیں

    سوال پیدا ہوا کسے کھول کھول کر بیان کردیں؟
    جواب اسی آیت کے اگلے حصے میں کہ
    مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ جو آپکی طرف نازل کیا گیا
    یعنی قرآن ۔
    آپ نے دیکھا کہ خود نے قرآن نے اس قرآن کے تبیان یعنی کھلے بیان کے لیے بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہی رجوع کے لیے کہا کیونکہ قرآن (یعنی قرآن کلام اللہ ہے) الگ شئے ہے اور اسکا بیان (یعنی حدیث رسول اللہ ہے)الگ شئے ہے اور اسکا بیان ،بیان رسول صلی اللہ علیہ وسلم (یعنی احادیث و سنت ) کے سوا ممکن نہیں ۔
    ان آیات اور ان کے علاوہ سینکڑوں آیات سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ قرآن اپنے مفھوم اور مدعا کو واضح کرنے میں بیان رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کا محتاج ہے اور یہی وہ مقصد اور حکمت بھی ہے کہ جس کے تحت رسولوں کو مبعوث کیا گیا وگرنہ اگر صرف کتاب ہی کافی ہوتی تو رسولوں کی بعثت کا کوئی مقصد نہ تھا ۔ ۔ ۔
    جیسا کہ ہم پہلے بھی واضح کرچکے اور یہاں بھی ہم نے انتہائی اختصار کے ساتھ مقام نبوت کو سمجھانے کی کوشش کی اور اس کی دلیل کے بطور ہم نے ایک تو قرآن کا وقائع کے تحت نازل ہونا پیش کیا اور دوسرا یہ عرض کرتے ہیں کہ قرآن پاک میں اللہ پاک نے انسانی معیشت کے اصول اور مبادی اجمالا بیان فرمائے ہیں جن کی تعبیر و تشریح بغیر احادیث مبارکہ کہ ممکن ہی نہیں نیز اسی طرح احکامات کی عملی صورتوں سے کما حقہ واقفیت کے لیے اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہایت ضروری ہے اور یہ احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں کہ جو ہمیں احکامات کی اصل تصویر مہیا کرتی ہیں وگرنہ صلوٰۃ، زکوٰۃ ، تیمم حج اور عمرہ یہ محض الفاظ ہیں اور لغت عرب انکے وہ معانی بتانے سے قاصر ہیے جو کہ مدعا قرآن ہیں ۔ آپ ہی سوچیے اگر حضور نہ بتلاتے تو ہمیں کیسے پتا چلتا کہ لفظ صلوٰۃ سے یہ مخصوص ہیئت کذائیہ مراد ہے ۔ اسی طرح حج و عمرہ اور عشر و زکوٰۃ کی بھی تفصیل ہمیں قرآن میں نہیں ملتی حد تو یہ ہے کہ حج کی بابت اس کے دیگر احکام یعنی وقوف عرفہ طواف زیارت و وداع کی تفصیل تو ایک طرف قرآن ہمیں یہ بھی نہیں بتاتا کہ حج کے لیے کونسا دن یا تاریخ مقرر ہے اسی طرح زکوٰۃ کا صرف لفظ قرآن میں مزکور ہے مگر عشر اور زکوٰۃ کی تفصیل اور ان جیسے دیگر تمام امور کی وہ شرعی ہیئت کذائیہ کہ جس سے فرائض ، واجبات اور آداب کی تمیز ہوسکے ہمیں قرآن میں کہیں نہیں ملتی بلکہ اس کے مقابلے میں قرآن کریم کے ان تمام بیان کردہ الفاظ کی تعبیر و تشریح اور احکام کی تفصیل و تعیین ہمیں اقوال رسول صلی اللہ علیہ وسلم (جو کہ بصورت احادیث منقول ہیں) سے ملتی ہے جو شخص ان احادیث کو معتبر نہیں مانتا اس کے پاس قرآن کے مجمل اور مبہم احکام کی تفصیل کے لیے اور کوئی ذریعہ نہ ہوگا ۔ ۔ ۔
    Last edited by aabi2cool; 21 July 2008, 16:16.
    ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

  • #2
    Jazak Allah Aabi Bhai Mash Allah Se Bohot Ache Se Samjhaya Hai Per Mujhe Thori Thori Urdu Samaj Nahi Aayi.....
    ور مندرجہ بالا دونوں اطاعتوں کے درمیان واؤ عاطفہ ذکر کر کے (کہ واؤ عاطفہ ہمیشہ مغایرت کے لیے آتی ہے کہ عطف کا معطوف علیہ ہمیشہ اس کا غیر ہوتا ہے )
    ہیئت کذائیہ
    Aabhi Bhai iska kya matlab isse thora assan urdu mein bata dein

    Last edited by Ainy Guriya; 19 July 2008, 18:48.

    Comment


    • #3
      Originally posted by ainy Guriya View Post
      jazak Allah Aabi Bhai Mash Allah Se Bohot Ache Se Samjhaya Hai Per Mujhe Thori Thori Urdu Samaj Nahi Aayi.....
      ور مندرجہ بالا دونوں اطاعتوں کے درمیان واؤ عاطفہ ذکر کر کے (کہ واؤ عاطفہ ہمیشہ مغایرت کے لیے آتی ہے کہ عطف کا معطوف علیہ ہمیشہ اس کا غیر ہوتا ہے )
      ہیئت کذائیہ
      aabhi Bhai Iska Kya Matlab Isse Thora Assan Urdu Mein Bata Dein


      اسلام علیکم جی ضرور کوشش کرتا ہوں ۔ ۔ ۔


      عَطْف
      عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔


      اردو میں بھی بطور اسم ہی استعمال ہوتا ہے
      اسم نکرہ واحد مذکر معنٰی اس کے پھیرنا، موڑنا۔
      مڑنا، پھرنا، گھوم جانا۔ کے ہیں ۔
      قاعدہ اس کا درج زیل ہے ۔ ۔
      "و" اور "اور" وغیرہ کے ذریعے ایک کلمے یا جملے کو دوسرے کے ساتھ ملانا یا ایک حکم میں شامل کرنا۔
      "جس پر عطف کیا جاتا ہے اس معطوف علیہ کہتے ہیں، جس کا عطف کرتے ہیں وہ معطوف کہلاتا ہے، معطوف حرف عطف کے بعد آتا ہے اور معطوف علیہ پہلے۔
      یہ تو تھی عطف کی تعریف اور قاعدہ اب اس کو مزید آسان کرکے اسطرح کہہ سکتے ہیں کہ عربی میں کچھ حروف ہوتے ہیں کہ جنھیں حروف عطف کہا جاتا ہے یہ حروف دو جملوں یا دو کلموں (یعنی لفظوں) کو آپس میں ملانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں اس کی کئی مثالیں اردو میں بھی ہیں جیسے عمر اور حسن آئے اب یہاں عمر اور حسن کے درمیان لفظ اور ہے جو کہ دونوں کی زات کے الگ الگ ہونے پر دلالت کررہا ہے اسی طرح اسکی کئی مثالیں قرآن پاک میں بھی ہیں کہ جیسے


      الا الذین اٰمنو و عملوالصٰلحٰت اور اس سے قبل ہماری پہلے پیش کردہ آیت میں ہے کہ ۔۔
      قُلْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَالرَّسُولَ فإِن تَوَلَّوْاْ فَإِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ الْكَافِرِينَo
      اب ان مندرجہ بالا دونوں آیات میں سے پہلی آیت یعنی


      الا الذین اٰمنو وعملو الصٰلحٰت میں
      اٰمنو و عملوا کے درمیان واؤ ہے جو کہ حرف عطف ہے ۔
      ترجمہ اس کا یہ بنے گا جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے نیک اعمال کیئے
      اب آپ ہی دیکھیئے کہ یہاں پر دو طرح کے کام بیان ہورہے ہیں ایک ایمان لانا اور دوسرا نیک اعمال کرنا اور ان دونوں کاموں کو حرف عطف واؤ کے زریعے ایک ہی جملے میں بیان کیا جارہا ہے اب قاعدہ یہ ہے کہ واؤ جو کہ حرف عطف ہے وہ یہاں اٰمنو پر عطف ہے اور اسکا معطوف علیہ عملوالصٰلحٰت لہزا واؤ ان دونوں کے درمیان وارد ہوکر ان دونوں کی آپس میں غیریت( یعنی ذاتا, جنسا یا نوعا الگ الگ ہونا) ثابت کررہی ہے یعنی ایمان لانا ایک الگ شئے ہے اور نیک اعمال کرنا ایک الگ شئے ہے اب چونکہ یہاں پر ایمان اور نیک اعمال کے درمیان واؤ عاطفہ آئی ہے تو اس کا تقاضہ یہ ہے کہ ان دنوں یعنی ایمان اور نیک اعمال کو الگ الگ شئے سمجھا جائے ۔ ۔ ۔
      اسی طرح دوسری آیت میں بھی اطیعواللہ والرسول کے درمیان واؤ عاطفہ آئی ہے یعنی یہاں اللہ اور رسول دونوں کی اطاعت مراد ہیں اور واؤ عاطفہ کو بیچ میں ذکر کرکے ان دونوں یعنی اللہ اور رسول کی اطاعت کو فی نفسہ الگ الگ بتلانا مقصود ہے کہ یہ نفسا جدا جدا ہیں مگر حقیقتا ایک ہی ہیـں کیونکہ اصل میں یہاں واؤ کے بعد لفظ اطیعو محذوف ہے (یعنی حذف شدہ ہے جو کہ پڑھنے میں نہیں آتا لیکن معنٰی و وہی مراد ہیں یعنی رسول کی اطاعت) کیونکہ مراد یہاں رسول کی اطاعت ہی ہے جیسا کہ دیگر کئی مقامات پر قرآن پاک میں


      اطیعواللہ واطیعوالرسول کے الفاظ آئے ہیں

      رہ گئی ہیئت کذائیہ کی بات تو ہیئت اسم نکرہ( مؤنث - واحد ) ہے اور معنٰی اس کے ۔ ۔ ۔ صورت، شکل، چہرہ مہرہ، ڈول، ساخت، بناوٹ، دھج کے ہیں ۔اور کذائیہ سے مراد کسی شکل کو جوں کا توں بیان کرنا ہوتا ہے کہ جیسی وہ ہو اور یہاں ہماری اس جملے سے مراد تھی کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں لفظ صلوٰۃ کے معنٰی اپنے نماز پڑھنے کی شکل میں کرکے نہ بتاتے تو ہمیں کیسے پتا چلتا کہ لفظ صلوٰۃ سے یہ مخصوص معنٰی (ہیئت کذایئہ ) مراد ہیں
      Last edited by aabi2cool; 20 July 2008, 10:27.
      ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

      Comment


      • #4
        یہ ہمارا بھی ایمان ہے کہ قرآن پاک کی اولا تشریح خود قرآن پاک کی آیات سے ہی ہوگی اور اسی لیے اصول تفسیر میں بھی اسی اصول کو مقدم رکھا گیا ہے کہ اول درجہ تفسیر قرآن بالقرآن کا ہے کیونکہ قرآن کی بعض آیات بعض کی تفسیر کرتی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمارا یہ بھی ایمان کہ قرآن کا اصل مفھوم اسکے مجمل و مشترک الفاظ کی اصل اور حقیقی تفھیم تک رسائی صاحب قرآن صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ کی طرف رجوع کے بغیر ناممکن ہے اور یہی وجہ ہے کہ قرآن جو کہ عربوں پر نازل ہوا باوجود کہ عربی ان کی مادری زبان تھی وہ لوگ قرآن کی ایک ایک آیت کی تفھیم کے لیے بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں ہی رجوع کیا کرتے تھے لہذا اسی وجہ سے قرآن کی تفسیر کا دوسرا بڑا اصول اور زریعہ اصول تفسیر میں تفسیر قرآن باالحدیث کو قرار دیا گیا ہے ۔
        لہزا ہمارے نزدیک ہر وہ شخص جو صاحب قرآن صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر صرف قرآن سے ہی قرآن کو مکمل طور پر سمجھنے کا دعوٰی کرے وہ خود بھی گمراہ ہے اور دوسروں کو گمراہ کرنے والا ہے ۔
        رہ گئی وہ آیت کہ جس سےا ستدلال کرتے ہوئے آپ نے بالعموم سارے کے سارے قرآن کی تفھیم کو ہی آسان سمجھ لیا تو اس آیت کا سیاق و سباق صاف طور پر بتا رہا کہ قرآن کی جس تفھیم کی آسانی کی یہاں بات کی گئی ہے اس مراد وعظ و نصیحت کے امور ہیں جیسا کہ خود آیت اور آپکے پیش کردہ ترجمہ کہ الفاظ سے صاف ظاہر ہے کہ ۔ ۔ اور بیشک ہم نے قرآن کو نصیحت کے لئے آسان کر دیا ہے تو کیا کوئی نصیحت قبول کرنے والا ہے۔
        اور یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ قرآن صرف وعظ و نصیحت کے مجموعے ہی کا نام نہیں بلکہ کہ یہ کائنات کے تمام علوم و فنون کو محیط کتاب ہےجس میں رہتی دنیا تک کے تمام مسائل کا کہیں اجمالا اور کہیں تفصیلا بیان آگیا ہے لہزا اس میں (یعنی قرآن میں سے)ایسے مسائل کا استنباط کرنے کے لیے ایک ایسی خصوصی جماعت(مجتھدیں و مفسرین) کا ہونا ضروری ہے جو کہ قرآن کی تفھیم کا اس کے تمام تر پہلوؤں سے احاطہ کیئے ہوئے ہو ۔ہمارا دعوٰی ہے کہ قرآن کو صرف قرآن سے ہی مکمل طور پر نہیں سمجھا جاسکتا اور ہمارے اس دعوٰی کی ہمارے پاس متعدد دلیلیں ہیں جن میں سے سب سے پہلی یہ ہے کہ اگر قرآن کو صرف قرآن ہی سے سمجھا جاسکتا تھا تو پھر صاحب قرآن صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی ضرورت(معاذ اللہ) نہیں رہتی ۔
        دوسری بڑی دلیل یہ ہے کہ قرآن باقاعدہ وقائع کے تحت نازل ہوا اور نازل ہوتے ہوتے ہوا اور اسکے نزول کی تکمیل کو کم ازکم ساڑے تیئس برس کا عرصہ لگا ۔ ایسا نہیں تھا کہ اسے یکبارگی کے ساتھ نازل کردیا گیا ہو بلکہ اس کا یہ تدریجی نزول اصل میں مقام رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تادم قیامت تک اہمیت اور بے شمار حکمتوں کے پیش نظر ہوا ۔ ۔ ۔جیسا کہ اس کا نزول کبھی کبار کسی خاص واقعہ کے پس منظر سے متعلق ہوتا تھا بعض مرتبہ کسی خاص سوال کے جواب میں اور بعض مرتبہ مشرکین اور منافقین کے رد میں کوئی آیت نازل ہوتی تھی، کبھی کیس آیت میں عہد رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں ہونے والے کسی خاص واقعہ کی طرف توجہ دلانا مقصود ہوتا تھا اور کبھی کسی صحابی رضی اللہ عنہ کے کسی عمل پر بطور تنبیہ یا تائید کسی آیت کا نزول عمل میں اتا تھا ۔ لہزا جب تک کسی بھی انسان کو ان تمام وقائع اور انکے پس منظر میں وقوع ہونے والے تمام شرائع (یہاں شرائع سے ہماری مراد شرعی ضرورتیں ہیں)یعنی اسباب نزول کا علم نہ ہو ان کا کوئی بھی واضح معنٰی ہماری سمجھ میں نہیں آسکتا اسی لیے ان تمام وقائع کو جاننے کے لیے ہمیں احادیث مبارکہ کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے تاکہ قرآن کی صحیح اصل اور مکمل تفھیم پسے ہمارے فھم روشن ہوسکیں لہذا قرآن کو سمجھنے کے لیے احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حجت ماننا ایک لازمی امر ہے ۔ لہزا اگر فھم قرآن کے لیے احادیث مبارکہ کو ایک معتبر ماخذ اور حجت کی حیثیت سے نہ تسلیم کیا جائے تو قرآن مجید کی مکمل ،حقیقی اور اصلی تفھیم سے کوئی بھی ذی بشر مستفید نہیں ہوسکتا بلکہ قرآن کی بعض آیات تو بالکل معمہ اور چیستان بن کر رہ جائیں گی ۔ وما علینا الاالبلاغ
        ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

        Comment


        • #5
          Originally posted by aabi2cool View Post
          اسلام علیکم جی ضرور کوشش کرتا ہوں ۔ ۔ ۔


          عَطْف
          عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے۔



          اردو میں بھی بطور اسم ہی استعمال ہوتا ہے
          اسم نکرہ واحد مذکر معنٰی اس کے پھیرنا، موڑنا۔
          مڑنا، پھرنا، گھوم جانا۔ کے ہیں ۔
          قاعدہ اس کا درج زیل ہے ۔ ۔
          "و" اور "اور" وغیرہ کے ذریعے ایک کلمے یا جملے کو دوسرے کے ساتھ ملانا یا ایک حکم میں شامل کرنا۔
          "جس پر عطف کیا جاتا ہے اس معطوف علیہ کہتے ہیں، جس کا عطف کرتے ہیں وہ معطوف کہلاتا ہے، معطوف حرف عطف کے بعد آتا ہے اور معطوف علیہ پہلے۔
          یہ تو تھی عطف کی تعریف اور قاعدہ اب اس کو مزید آسان کرکے اسطرح کہہ سکتے ہیں کہ عربی میں کچھ حروف ہوتے ہیں کہ جنھیں حروف عطف کہا جاتا ہے یہ حروف دو جملوں یا دو کلموں (یعنی لفظوں) کو آپس میں ملانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں اس کی کئی مثالیں اردو میں بھی ہیں جیسے عمر اور حسن آئے اب یہاں عمر اور حسن کے درمیان لفظ اور ہے جو کہ دونوں کی زات کے الگ الگ ہونے پر دلالت کررہا ہے اسی طرح اسکی کئی مثالیں قرآن پاک میں بھی ہیں کہ جیسے



          الا الذین اٰمنو و عملوالصٰلحٰت اور اس سے قبل ہماری پہلے پیش کردہ آیت میں ہے کہ ۔۔
          قُلْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَالرَّسُولَ فإِن تَوَلَّوْاْ فَإِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ الْكَافِرِينَo
          اب ان مندرجہ بالا دونوں آیات میں سے پہلی آیت یعنی



          الا الذین اٰمنو وعملو الصٰلحٰت میں
          اٰمنو و عملوا کے درمیان واؤ ہے جو کہ حرف عطف ہے ۔
          ترجمہ اس کا یہ بنے گا جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے نیک اعمال کیئے
          اب آپ ہی دیکھیئے کہ یہاں پر دو طرح کے کام بیان ہورہے ہیں ایک ایمان لانا اور دوسرا نیک اعمال کرنا اور ان دونوں کاموں کو حرف عطف واؤ کے زریعے ایک ہی جملے میں بیان کیا جارہا ہے اب قاعدہ یہ ہے کہ واؤ جو کہ حرف عطف ہے وہ یہاں اٰمنو پر عطف ہے اور اسکا معطوف علیہ عملوالصٰلحٰت لہزا واؤ ان دونوں کے درمیان وارد ہوکر ان دونوں کی آپس میں غیریت( یعنی ذاتا, جنسا یا نوعا الگ الگ ہونا) ثابت کررہی ہے یعنی ایمان لانا ایک الگ شئے ہے اور نیک اعمال کرنا ایک الگ شئے ہے اب چونکہ یہاں پر ایمان اور نیک اعمال کے درمیان واؤ عاطفہ آئی ہے تو اس کا تقاضہ یہ ہے کہ ان دنوں یعنی ایمان اور نیک اعمال کو الگ الگ شئے سمجھا جائے ۔ ۔ ۔
          اسی طرح دوسری آیت میں بھی اطیعواللہ والرسول کے درمیان واؤ عاطفہ آئی ہے یعنی یہاں اللہ اور رسول دونوں کی اطاعت مراد ہیں اور واؤ عاطفہ کو بیچ میں ذکر کرکے ان دونوں یعنی اللہ اور رسول کی اطاعت کو فی نفسہ الگ الگ بتلانا مقصود ہے کہ یہ نفسا جدا جدا ہیں مگر حقیقتا ایک ہی ہیـں کیونکہ اصل میں یہاں واؤ کے بعد لفظ اطیعو محذوف ہے (یعنی حذف شدہ ہے جو کہ پڑھنے میں نہیں آتا لیکن معنٰی و وہی مراد ہیں یعنی رسول کی اطاعت) کیونکہ مراد یہاں رسول کی اطاعت ہی ہے جیسا کہ دیگر کئی مقامات پر قرآن پاک میں



          اطیعواللہ واطیعوالرسول کے الفاظ آئے ہیں

          رہ گئی ہیئت کذائیہ کی بات تو ہیئت اسم نکرہ( مؤنث - واحد ) ہے اور معنٰی اس کے ۔ ۔ ۔ صورت، شکل، چہرہ مہرہ، ڈول، ساخت، بناوٹ، دھج کے ہیں ۔اور کذائیہ سے مراد کسی شکل کو جوں کا توں بیان کرنا ہوتا ہے کہ جیسی وہ ہو اور یہاں ہماری اس جملے سے مراد تھی کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں لفظ صلوٰۃ کے معنٰی اپنے نماز پڑھنے کی شکل میں کرکے نہ بتاتے تو ہمیں کیسے پتا چلتا کہ لفظ صلوٰۃ سے یہ مخصوص معنٰی (ہیئت کذایئہ ) مراد ہیں
          :jazak: bohot Shukriya Aabi bhai kafi samaj mein aa gaya hai...

          Comment


          • #6
            Originally posted by Ainy Guriya View Post
            :jazak: bohot Shukriya Aabi bhai kafi samaj mein aa gaya hai...
            yani abhi bhi sara samjh main nahene aya serf kafi aya acha ab jo jo samjh naheen aya wo wo bataiye ?
            ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

            Comment


            • #7
              ye Samaj Nahi Aya
              کیونکہ اصل میں یہاں واؤ کے بعد لفظ اطیعو محذوف ہے (یعنی حذف شدہ ہے جو کہ پڑھنے میں نہیں آتا لیکن معنٰی و وہی مراد ہیں یعنی رسول کی اطاعت)
              "جس پر عطف کیا جاتا ہے اس معطوف علیہ کہتے ہیں، جس کا عطف کرتے ہیں وہ معطوف کہلاتا ہے، معطوف حرف عطف کے بعد آتا ہے اور معطوف علیہ پہلے۔
              ثلاثی مجر

              Comment


              • #8
                Originally posted by ainy Guriya View Post
                ye Samaj Nahi Aya
                کیونکہ اصل میں یہاں واؤ کے بعد لفظ اطیعو محذوف ہے (یعنی حذف شدہ ہے جو کہ پڑھنے میں نہیں آتا لیکن معنٰی و وہی مراد ہیں یعنی رسول کی اطاعت)
                "جس پر عطف کیا جاتا ہے اس معطوف علیہ کہتے ہیں، جس کا عطف کرتے ہیں وہ معطوف کہلاتا ہے، معطوف حرف عطف کے بعد آتا ہے اور معطوف علیہ پہلے۔
                ثلاثی مجر
                اسلام علیکم جہاں تک تو بات ہے عطف اور معطوف کی تو یہ ایک اصطلاح کا نام ہے جو کہ عربی لغت میں
                قواعد لغت کے تحت رائج ہے یعنی یہ لغت کا ایک قاعدہ ہے یا آپ اسے تکنیکی زبان میں ماہرین لغت کی بنائی ہوئی ایک
                ٹرم بھی کہہ سکتی ہیں اور عربی میں حرف واؤ حرف عطف کہلاتا ہے اور اس کا مطب ہوتا ہے اور ۔ ۔ ۔
                قاعدہ میں بیان کرچکا کہ یہ دو جملوں یا کلموں کو آپس میں ملانے کے لیے استعمال ہوتا ہے اور جب یہ استعمال ہوتا ہے تو عطف کے قاعدے کے تحت جن دو جملوں یا کلموں کے درمیان میں حرف عطف آئے ان دونوں جملوں یا کلموں کی یہ آپس میں غیریت ثابت کرتا ہے اور وہ غیریت کئی اعتبارات سے ہوسکتی ہے ۔
                جیسے قرآن پاک میں بار بار اطعیواللہ واطیعو الرسول کا جملہ آیا ہے ۔ ۔ ۔ اب ان دونوں جملوں کے درمیان واؤ حرف عطف ہے جو کہ اللہ اور رسول دونوں کی اطاعت کی ایک اعتبار سے آپس میں غیریت بیان کرنے کے لیے آیا ہے یعنی اللہ کی جو اطاعت ہے وہ قرآن کی صورت میں ہوگی کہ قرآن اللہ کا کلام ہے اور رسول کی اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمان کی صورت میں ہوگی اور فرمان رسول کو حدیث کہتے ہیں اب یہ دونوں یعنی قرآن اور حدیث اصل میں دو علیحدہ علیحدہ چیزیں ہیں لیکن اطاعت دونوں کی ضروری ہے بس اسی فرق کو ہم نے لغت کے قاعدے کے تحت بیان کرکے احادیث کی حجت بیان کی ہے

                ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

                Comment


                • #9
                  Originally posted by aabi2cool View Post
                  اسلام علیکم جہاں تک تو بات ہے عطف اور معطوف کی تو یہ ایک اصطلاح کا نام ہے جو کہ عربی لغت میں
                  قواعد لغت کے تحت رائج ہے یعنی یہ لغت کا ایک قاعدہ ہے یا آپ اسے تکنیکی زبان میں ماہرین لغت کی بنائی ہوئی ایک
                  ٹرم بھی کہہ سکتی ہیں اور عربی میں حرف واؤ حرف عطف کہلاتا ہے اور اس کا مطب ہوتا ہے اور ۔ ۔ ۔
                  قاعدہ میں بیان کرچکا کہ یہ دو جملوں یا کلموں کو آپس میں ملانے کے لیے استعمال ہوتا ہے اور جب یہ استعمال ہوتا ہے تو عطف کے قاعدے کے تحت جن دو جملوں یا کلموں کے درمیان میں حرف عطف آئے ان دونوں جملوں یا کلموں کی یہ آپس میں غیریت ثابت کرتا ہے اور وہ غیریت کئی اعتبارات سے ہوسکتی ہے ۔
                  جیسے قرآن پاک میں بار بار اطعیواللہ واطیعو الرسول کا جملہ آیا ہے ۔ ۔ ۔ اب ان دونوں جملوں کے درمیان واؤ حرف عطف ہے جو کہ اللہ اور رسول دونوں کی اطاعت کی ایک اعتبار سے آپس میں غیریت بیان کرنے کے لیے آیا ہے یعنی اللہ کی جو اطاعت ہے وہ قرآن کی صورت میں ہوگی کہ قرآن اللہ کا کلام ہے اور رسول کی اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمان کی صورت میں ہوگی اور فرمان رسول کو حدیث کہتے ہیں اب یہ دونوں یعنی قرآن اور حدیث اصل میں دو علیحدہ علیحدہ چیزیں ہیں لیکن اطاعت دونوں کی ضروری ہے بس اسی فرق کو ہم نے لغت کے قاعدے کے تحت بیان کرکے احادیث کی حجت بیان کی ہے

                  Bohot Shukriya Aabi bhai Ab Bilkul Samaj Aa Gaya hai :phool:

                  Comment


                  • #10
                    السلام وعلیکم
                    عابد بھائی بہت خوب۔
                    :jazak:

                    اور اپ کی تحریر پڑھ کر مجھے ایک فتنے کا خیال آگیا جو کہ ایک نئے فرقے کی صورت میں سر اٹھانے کی کوشش کر چکا ہے اور غالباً اسکا نام ہے "پرویزی"۔
                    یہ فرقہ قرآنِ پاک کو تو تسلیم کرتا ہے، مگر احادیث سے اجتناب کرتا ہے
                    اور اس بات کا مطلب تو سب مسلمان خوب سمجھتے ہیں اسلیئے اس پر کوئی تقریر نہیں کروں گا۔

                    البتہ ایک درس کا بیان سنتے ہوئے ایسے ہی لوگوں کے بارے میں ایک حدیث سننے کو ملی جس میں نبی آخرزماں، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس فرقے کے فتنے سے آگاہ کیا تھا اور فرمایا تھا کہ اگر تم میں سے کسی کا اس فرقے کے لوگوں سے سامنا ہو، تو ان سے میری طرف سے پوچھنا کہ
                    گدھا حرام ہے کہ حلال، قرآن سے ثابت کریں

                    لیکن اس حدیث کا حوالہ نہیں دیا گیا تھا۔

                    بہرحال، جیسا کہ آپ نے بھی بہت سے اہم نکات کی نشاندہی کی جو قرآن میں نہیںبلکہ حدیث میں موجود ہیں۔

                    اللہ تعالٰی ہمیں دینِ اسلام کو صحیح طور پر سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور قرآن و سنت پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ امین
                    -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-

                    Comment

                    Working...
                    X