اسلام علیکم قارئین کرام درج زیل مقالہ ہم نے ایک فورم پر حجیت حدیث پر شبہات کے ازالہ کے طور پر ترتیب دیا اسکی افادیت کے پیش نظر اسے پیغام کے قارئین کے لیے بھی پیش کیا جاتا ہے ۔لیکن یہ یاد رہے کہ اس مقالہ کو ہم نے انتہائی اختصار کے ساتھ پیش کیا تھا جیسے جیسے وقت ملتا گیا اس میں مزید اضافہ جات بھی کرتے چلے جائیں گے ۔
حدیث اور قرآن کا باہمی ربط
حدیث کیا ہے ؟
اتنی بات تو کم و بیش سب ہی جانتے ہیں کہ قرآن پاک میں اللہ پاک نے عوام الناس کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نہ صرف نبوت و رسالت سے روشناس کروایا ہے بلکہ منصب رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ مقام رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی توضیح فرمائی ہے بلاشبہ نبوت و رسالت صلی اللہ علیہ وسلم ایک عہدہ اور منصب ہونے کی وجہ سے ایمانیات سے متعلق ہیں یعنی ماننے اور باور کرنے کی چیزیں ہیں مگر قرآن کے نے منصب نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ مقام رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی تو واضح فرمایا ہے دیکھیئے درج زیل آیات اور پھر ہر آیت کہ ضمن حاصل ہونے والے فوائد ۔ ۔
قُلْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَالرَّسُولَ فإِن تَوَلَّوْاْ فَإِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ الْكَافِرِينَO .
ترجمہ:- آپ فرما دیں کہ اﷲ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو پھر اگر وہ روگردانی کریں تو اﷲ کافروں کو پسند نہیں کرتاo
( سورہ آل عمران 32عرفان القرآن)
اسی طرح ایک جگہ ارشاد ہے کہ ۔ ۔ ۔
لَقَدْ مَنَّ اللّهُ عَلَى الْمُؤمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُواْ عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُواْ مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍO
ترجمہ :،بیشک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے (عظمت والا) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے، اگرچہ وہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے
(سورہ آل عمران 164 عرفان القرآن)
قُلْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَالرَّسُولَ فإِن تَوَلَّوْاْ فَإِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ الْكَافِرِينَO .
ترجمہ:- آپ فرما دیں کہ اﷲ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو پھر اگر وہ روگردانی کریں تو اﷲ کافروں کو پسند نہیں کرتاo
( سورہ آل عمران 32عرفان القرآن)
اسی طرح ایک جگہ ارشاد ہے کہ ۔ ۔ ۔
لَقَدْ مَنَّ اللّهُ عَلَى الْمُؤمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُواْ عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُواْ مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍO
ترجمہ :،بیشک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے (عظمت والا) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے، اگرچہ وہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے
(سورہ آل عمران 164 عرفان القرآن)
فوائد و ثمرات
:
مندرجہ بالا دونوں آیات سے ثابت ہوا کہ جس طرح اللہ کی اطاعت (قرآن کی صورت میں ) ضروری ہے اسی طرح رسول صلی اللہ کی اطاعت بھی( فرمان رسول سلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں) ضروری ہے
اور مندرجہ بالا دونوں اطاعتوں کے درمیان واؤ عاطفہ ذکر کر کے (کہ واؤ عاطفہ ہمیشہ مغایرت کے لیے آتی ہے کہ عطف کا معطوف علیہ ہمیشہ اس کا غیر ہوتا ہے )
اس امر کی طرف اشارہ کردیا کہ یہ دونوں اطاعتیں اپنے نفوس میں تو جدا جدا ہیں مگر حقیقتا ایک ہی ہیں جیسا کہ ایک مقام پر فرمایا من یطع الرسول فقد اطاع اللہ ۔ ۔
اور درج بالا دوسری آیت قرآن پاک میں تو وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ کے صاف اور صریح الفاظ ہماری بات کی تصدیق کررہے ہیں کہ قرآن کو صرف قرآن سے سمجھنا ممکن نہیں جب تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ سے تزکیہ نہ حاصل کرلیا جائے اور پھر اسکے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے کتاب کی تعلیم لیتے ہوئے اس قرآن کی حکمتوں کو سمجھا جائے اور یاد رہے کہ مندرجہ بالا آیت میں تزکیہ ، تعلیم اور حکمت تینوں کی نسبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے نہ قرآن کی طرف اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ اس تزکیہ ، تعلیم اورحکمت تک رسائی کا واحد زریعہ احادیث مبارکہ ہیں جو کہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل میں بھی امت میں صدیوں سے رائج ہیں ۔ ۔ ۔
دیکھیئے ایک اور مقام پر قرآن کس طرح مقام رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی وضاحت کرتا ہے دیکھیئے درج زیل آیت قرآن کا سیاق و سباق ۔ ۔ ۔
بِالْبَيِّنَاتِ وَالزُّبُرِ وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَO
ترجمہ:- (انہیں بھی) واضح دلائل اور کتابوں کے ساتھ (بھیجا تھا)، اور (اے نبیِ مکرّم!) ہم نے آپ کی طرف ذکرِ عظیم (قرآن) نازل فرمایا ہے تاکہ آپ لوگوں کے لئے وہ (پیغام اور احکام) خوب واضح کر دیں جو ان کی طرف اتارے گئے ہیں اور تاکہ وہ غور و فکر کریں
(النحل 44 عرفان القرآن)
مندرجہ بالا دونوں آیات سے ثابت ہوا کہ جس طرح اللہ کی اطاعت (قرآن کی صورت میں ) ضروری ہے اسی طرح رسول صلی اللہ کی اطاعت بھی( فرمان رسول سلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں) ضروری ہے
اور مندرجہ بالا دونوں اطاعتوں کے درمیان واؤ عاطفہ ذکر کر کے (کہ واؤ عاطفہ ہمیشہ مغایرت کے لیے آتی ہے کہ عطف کا معطوف علیہ ہمیشہ اس کا غیر ہوتا ہے )
اس امر کی طرف اشارہ کردیا کہ یہ دونوں اطاعتیں اپنے نفوس میں تو جدا جدا ہیں مگر حقیقتا ایک ہی ہیں جیسا کہ ایک مقام پر فرمایا من یطع الرسول فقد اطاع اللہ ۔ ۔
اور درج بالا دوسری آیت قرآن پاک میں تو وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ کے صاف اور صریح الفاظ ہماری بات کی تصدیق کررہے ہیں کہ قرآن کو صرف قرآن سے سمجھنا ممکن نہیں جب تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ سے تزکیہ نہ حاصل کرلیا جائے اور پھر اسکے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے کتاب کی تعلیم لیتے ہوئے اس قرآن کی حکمتوں کو سمجھا جائے اور یاد رہے کہ مندرجہ بالا آیت میں تزکیہ ، تعلیم اور حکمت تینوں کی نسبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے نہ قرآن کی طرف اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ اس تزکیہ ، تعلیم اورحکمت تک رسائی کا واحد زریعہ احادیث مبارکہ ہیں جو کہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل میں بھی امت میں صدیوں سے رائج ہیں ۔ ۔ ۔
دیکھیئے ایک اور مقام پر قرآن کس طرح مقام رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی وضاحت کرتا ہے دیکھیئے درج زیل آیت قرآن کا سیاق و سباق ۔ ۔ ۔
بِالْبَيِّنَاتِ وَالزُّبُرِ وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَO
ترجمہ:- (انہیں بھی) واضح دلائل اور کتابوں کے ساتھ (بھیجا تھا)، اور (اے نبیِ مکرّم!) ہم نے آپ کی طرف ذکرِ عظیم (قرآن) نازل فرمایا ہے تاکہ آپ لوگوں کے لئے وہ (پیغام اور احکام) خوب واضح کر دیں جو ان کی طرف اتارے گئے ہیں اور تاکہ وہ غور و فکر کریں
(النحل 44 عرفان القرآن)
دیکھیے اس آیت نے تو ہماری بات کو کھول کر رکھ دیا اور اتنے شفاف طریقہ سے بیان کردیا کہ اب دیگر کسی بھی بیان کی احتیاج نہیں ۔ دیکھیئے
وَأَنزَلْنَا :- اور ہم نے نازل کیا
إِلَيْكَ :- آپ کی طرف
الذِّكْرَ :- اس ذکر کو
لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ :- تاکہ آپ اسے لوگوں پر کھول کھول کر بیان کردیں
وَأَنزَلْنَا :- اور ہم نے نازل کیا
إِلَيْكَ :- آپ کی طرف
الذِّكْرَ :- اس ذکر کو
لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ :- تاکہ آپ اسے لوگوں پر کھول کھول کر بیان کردیں
سوال پیدا ہوا کسے کھول کھول کر بیان کردیں؟
جواب اسی آیت کے اگلے حصے میں کہ
جواب اسی آیت کے اگلے حصے میں کہ
مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ جو آپکی طرف نازل کیا گیا
یعنی قرآن ۔
یعنی قرآن ۔
آپ نے دیکھا کہ خود نے قرآن نے اس قرآن کے تبیان یعنی کھلے بیان کے لیے بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہی رجوع کے لیے کہا کیونکہ قرآن (یعنی قرآن کلام اللہ ہے) الگ شئے ہے اور اسکا بیان (یعنی حدیث رسول اللہ ہے)الگ شئے ہے اور اسکا بیان ،بیان رسول صلی اللہ علیہ وسلم (یعنی احادیث و سنت ) کے سوا ممکن نہیں ۔
ان آیات اور ان کے علاوہ سینکڑوں آیات سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ قرآن اپنے مفھوم اور مدعا کو واضح کرنے میں بیان رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کا محتاج ہے اور یہی وہ مقصد اور حکمت بھی ہے کہ جس کے تحت رسولوں کو مبعوث کیا گیا وگرنہ اگر صرف کتاب ہی کافی ہوتی تو رسولوں کی بعثت کا کوئی مقصد نہ تھا ۔ ۔ ۔
جیسا کہ ہم پہلے بھی واضح کرچکے اور یہاں بھی ہم نے انتہائی اختصار کے ساتھ مقام نبوت کو سمجھانے کی کوشش کی اور اس کی دلیل کے بطور ہم نے ایک تو قرآن کا وقائع کے تحت نازل ہونا پیش کیا اور دوسرا یہ عرض کرتے ہیں کہ قرآن پاک میں اللہ پاک نے انسانی معیشت کے اصول اور مبادی اجمالا بیان فرمائے ہیں جن کی تعبیر و تشریح بغیر احادیث مبارکہ کہ ممکن ہی نہیں نیز اسی طرح احکامات کی عملی صورتوں سے کما حقہ واقفیت کے لیے اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہایت ضروری ہے اور یہ احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں کہ جو ہمیں احکامات کی اصل تصویر مہیا کرتی ہیں وگرنہ صلوٰۃ، زکوٰۃ ، تیمم حج اور عمرہ یہ محض الفاظ ہیں اور لغت عرب انکے وہ معانی بتانے سے قاصر ہیے جو کہ مدعا قرآن ہیں ۔ آپ ہی سوچیے اگر حضور نہ بتلاتے تو ہمیں کیسے پتا چلتا کہ لفظ صلوٰۃ سے یہ مخصوص ہیئت کذائیہ مراد ہے ۔ اسی طرح حج و عمرہ اور عشر و زکوٰۃ کی بھی تفصیل ہمیں قرآن میں نہیں ملتی حد تو یہ ہے کہ حج کی بابت اس کے دیگر احکام یعنی وقوف عرفہ طواف زیارت و وداع کی تفصیل تو ایک طرف قرآن ہمیں یہ بھی نہیں بتاتا کہ حج کے لیے کونسا دن یا تاریخ مقرر ہے اسی طرح زکوٰۃ کا صرف لفظ قرآن میں مزکور ہے مگر عشر اور زکوٰۃ کی تفصیل اور ان جیسے دیگر تمام امور کی وہ شرعی ہیئت کذائیہ کہ جس سے فرائض ، واجبات اور آداب کی تمیز ہوسکے ہمیں قرآن میں کہیں نہیں ملتی بلکہ اس کے مقابلے میں قرآن کریم کے ان تمام بیان کردہ الفاظ کی تعبیر و تشریح اور احکام کی تفصیل و تعیین ہمیں اقوال رسول صلی اللہ علیہ وسلم (جو کہ بصورت احادیث منقول ہیں) سے ملتی ہے جو شخص ان احادیث کو معتبر نہیں مانتا اس کے پاس قرآن کے مجمل اور مبہم احکام کی تفصیل کے لیے اور کوئی ذریعہ نہ ہوگا ۔ ۔ ۔
ان آیات اور ان کے علاوہ سینکڑوں آیات سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ قرآن اپنے مفھوم اور مدعا کو واضح کرنے میں بیان رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کا محتاج ہے اور یہی وہ مقصد اور حکمت بھی ہے کہ جس کے تحت رسولوں کو مبعوث کیا گیا وگرنہ اگر صرف کتاب ہی کافی ہوتی تو رسولوں کی بعثت کا کوئی مقصد نہ تھا ۔ ۔ ۔
جیسا کہ ہم پہلے بھی واضح کرچکے اور یہاں بھی ہم نے انتہائی اختصار کے ساتھ مقام نبوت کو سمجھانے کی کوشش کی اور اس کی دلیل کے بطور ہم نے ایک تو قرآن کا وقائع کے تحت نازل ہونا پیش کیا اور دوسرا یہ عرض کرتے ہیں کہ قرآن پاک میں اللہ پاک نے انسانی معیشت کے اصول اور مبادی اجمالا بیان فرمائے ہیں جن کی تعبیر و تشریح بغیر احادیث مبارکہ کہ ممکن ہی نہیں نیز اسی طرح احکامات کی عملی صورتوں سے کما حقہ واقفیت کے لیے اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہایت ضروری ہے اور یہ احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں کہ جو ہمیں احکامات کی اصل تصویر مہیا کرتی ہیں وگرنہ صلوٰۃ، زکوٰۃ ، تیمم حج اور عمرہ یہ محض الفاظ ہیں اور لغت عرب انکے وہ معانی بتانے سے قاصر ہیے جو کہ مدعا قرآن ہیں ۔ آپ ہی سوچیے اگر حضور نہ بتلاتے تو ہمیں کیسے پتا چلتا کہ لفظ صلوٰۃ سے یہ مخصوص ہیئت کذائیہ مراد ہے ۔ اسی طرح حج و عمرہ اور عشر و زکوٰۃ کی بھی تفصیل ہمیں قرآن میں نہیں ملتی حد تو یہ ہے کہ حج کی بابت اس کے دیگر احکام یعنی وقوف عرفہ طواف زیارت و وداع کی تفصیل تو ایک طرف قرآن ہمیں یہ بھی نہیں بتاتا کہ حج کے لیے کونسا دن یا تاریخ مقرر ہے اسی طرح زکوٰۃ کا صرف لفظ قرآن میں مزکور ہے مگر عشر اور زکوٰۃ کی تفصیل اور ان جیسے دیگر تمام امور کی وہ شرعی ہیئت کذائیہ کہ جس سے فرائض ، واجبات اور آداب کی تمیز ہوسکے ہمیں قرآن میں کہیں نہیں ملتی بلکہ اس کے مقابلے میں قرآن کریم کے ان تمام بیان کردہ الفاظ کی تعبیر و تشریح اور احکام کی تفصیل و تعیین ہمیں اقوال رسول صلی اللہ علیہ وسلم (جو کہ بصورت احادیث منقول ہیں) سے ملتی ہے جو شخص ان احادیث کو معتبر نہیں مانتا اس کے پاس قرآن کے مجمل اور مبہم احکام کی تفصیل کے لیے اور کوئی ذریعہ نہ ہوگا ۔ ۔ ۔
Comment