Originally posted by Fawad
View Post
محترم
امريکہ کے پاکستان ميں اثر و رسوخ کے حوالے سے آپ کے جذبات پڑھ کر مجھے اپنے کالج کے زمانے کا ايک واقعہ ياد آ گيا جب ايک مذہبی نما سياسی جماعت کے ليڈر نے ہمارے کالج کا دورہ کيا تھا اور ہمارے کالج کی طلبہ تنظيم نے ان کے اعزاز ميں ايک تقريب کا اہتمام کيآ تھا۔ ميں چونکہ پاکستان ميں نووارد تھا اور کسی پاکستانی ليڈر کی تقریر براہراست سننے کا يہ ميرے ليے پہلا موقع تھا اس ليے ميں بھی اس تقريب ميں چلا گيا۔
اس واقعے کا سب سے دلچسپ پہلو يہ ہے کہ جس وقت يہ مذکورہ ليڈر امريکہ سے نفرت کے حوالے سے زمين آسمان ايک کر رہے تھے اس وقت ان کے اپنے دونوں بيٹے امريکہ کی يونيورسٹيوں ميں اعلی تعليم حاصل کر رہے تھے اور اپنے تابناک مستقبل کے لیے بنياديں مضبوط کر رہے تھے۔
يہاں يہ بھی بتاتا چلوں کہ ان ليڈر صاحب کے دونوں بيٹے آج بھی اپنی فيمليز کے ساتھ امريکہ ميں مقيم ہيں اور تعليم مکمل کرنے کے بعد اعلی اداروں ميں ملازمتيں کر رہے ہيں۔
يہ واقعہ پاکستان کے کسی ايک سياسی ليڈر کی زندگی تک محدود نہيں ہے۔آپ کسی بھی سياسی جماعت کی اعلی قيادت کا جائزہ لےليں وہ ہر پبلک فورم اور ہر عوامی اجتماع ميں "امريکہ سے نفرت" کا ٹکٹ ضرور استعمال کرتے ہيں ليکن اس کے باوجود اپنے اور اپنے خاندان کے ليۓ وہ تمام آسائشيں ضرور سميٹتے ہيں جو امريکی معاشرہ اپنے ہر شہری کو ديتا ہے۔ امريکہ سے نفرت کے يہ نعرے محض عوام کی توجہ اپنی ناکاميوں سے ہٹانے کے ليے تخليق کيے جاتے ہيں۔ کسی بھی قوم کی معاشی اور سياسی پاليسيوں کی کاميابی يا ناکامی کے ذمہ دار "بيرونی ہاتھ" نہيں بلکہ اس ملک کے سياستدان ہوتے ہيں جو اسمبليوں ميں جا کر قآنون سازی کے ذريعے اس ملک کی تقدير بناتے ہيں۔
يہی وجہ ہے کہ 1985 سے لے کر اب تک آپ کوئ بھی اسمبلی اٹھا کر ديکھ ليں، کوئ بھی سياسی جماعت اپنے کسی منشور، پروگرام اور عوامی بہبود کے کسی منصوبے کے ليے عوام کے سامنے جوابدہ نہيں کيونکہ تمام تر مسائل کا ذمہ دار تو امريکہ ہے
Comment