Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

ª!ª حقیقت بدعت ª!ª

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #61
    Originally posted by aabi2cool View Post
    mohtaram aur kitna antizaar karwain gay aap :taubahameen aap to serf chand ikhtilafaat karnay aay thy magar ab to lagta hy poray munazray ka iltizaam kar rakha hy aap nay bus kareen ab kahan kahan se dalil dhoondh dhoondh kar larahy hain in sab ka jawab dena mery bus ki baat naheen bhai:khi:
    ab aap apni baat khatam akro to hum bhi khuch boleen na
    السلام علیکم
    بھائی۔ آپ کی پوسٹ نمبر 54 کا جواب باقی رہ گیا ہے۔

    اور دوسری بات یہ کہ ۔۔۔ جو آپ نے اتنی لمبی تحریر بڑی محنت سے لگائی ہے ، وہ بہت سی جگہوں پر کاپی پیسٹ بھی ہوتی ہے۔ لہذا ہماری کوشش یہ ہے کہ ایک بار آپ کے پیش کردہ مقالے کا مکمل جواب دے دیا جائے تو ہماری طرف سے بھی دوسروں کو کاپی / پیسٹ کرنے میں آسانی ہو جائے گی اور دونوں طرف کے احباب خواہ مخواہ کی لمبی اور غیر ضروری بحث کرنے سے بچ جائیں گے۔

    Comment


    • #62
      Originally posted by BaaZauq View Post
      السلام علیکم

      بھائی۔ آپ کی پوسٹ نمبر 54 کا جواب باقی رہ گیا ہے۔


      اور دوسری بات یہ کہ ۔۔۔ جو آپ نے اتنی لمبی تحریر بڑی محنت سے لگائی ہے ، وہ بہت سی جگہوں پر کاپی پیسٹ بھی ہوتی ہے۔ لہذا ہماری کوشش یہ ہے کہ ایک بار آپ کے پیش کردہ مقالے کا مکمل جواب دے دیا جائے تو ہماری طرف سے بھی دوسروں کو کاپی / پیسٹ کرنے میں آسانی ہو جائے گی اور دونوں طرف کے احباب خواہ مخواہ کی لمبی اور غیر ضروری بحث کرنے سے بچ جائیں گے۔
      mohtaram meri is tehreer ka ziyada tar hisa to dr tahir ul qadri ki kitab kitab ul bida se mashtaq hy .baqi main to is ka mratab hon musanaf naheen han kaheen kaheen main nay khuch kami aur ziyadti ki hy is tehreer main baqi mujhy naheen pata k ye kaha kahan copy paste hoti rahi hy han albata aik aur forum par main nay khud zaroor lagai hy ye.aur wahan aap ka bhi acount hy. khair mujhy aap ki tehreer k khatmay ka baycheeni se intizaar hy.
      ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

      Comment


      • #63
        mohtram bazauq sahab aap ka jawab kab compleat
        hoga aaaaaa
        :tauba
        :cc::cc::cc:
        Last edited by aabi2cool; 13 March 2008, 23:09.
        ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

        Comment


        • #64
          Originally posted by aabi2cool View Post
          mohtram bazauq sahab aap ka jawab kab compleat
          hoga aaaaaa
          :tauba
          :cc::cc::cc:
          السلام علیکم! بھائی ، فورم کی حالیة صورتحال دیکھ کر میں خاموش رہا ہوں۔
          اب آپ کہتے ہیں تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان شاءاللہ دو تین دن کے اندر اس تھریڈ میں اگلی پوسٹ کے ذریعے میں اپنی بات مکمل کر لوں گا۔

          Comment


          • #65
            Attached Files

            Comment


            • #66
              اسلام علیکم محترم قارئین کرام کچھ عرصہ قبل ہم نے حقیقت بدعت کے نام سے ایک مقالہ ترتیب دیا جس پر محترم باذوق صاحب نے چند اعتراضات وارد کیے تھے گو کہ ابھی انھوں نے اپنے اعتراضات مکمل نہیں کیے لیکن بہت عرصہ بیت چکا اب ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے لہذا جتنے اعتراضات اب تک وہ کر چکے ہیں ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ان کا جواب دے دیا جائے اور جو بعد میں کریں گے ان کا جواب بعد میں دے دیا جائے گا۔



              سب سے پہلے تو ہمارا یہ کہنا بجا ہے کہ اپنے مطلب کو بیان کرنے کی خاطر مکمل حدیث بیان نہیں کی گئی ہے۔






              حدثنا إسماعيل بن موسى الفزاري حدثنا سيف بن هارون البرجمي عن سليمان التيمي عن أبي عثمان عن سلمان قال سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن السمن والجبن والفراء فقال الحلال ما أحل الله في كتابه والحرام ما حرم الله في كتابه وما سكت عنه فهو مما عفا عنه


              اردو ترجمہ ‫:


              پوچھا گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سمن(مکھن) اور جبن (پنیر) اور الفراء (فر کے لباس) کے بارے میں تو فرمایا: حلال وہ ہے جس کو اللہ نے اپنی کتاب میں حلال کیا اور حرام وہ ہے جس کو اللہ نے اپنی کتاب میں حرام کیا اور جس چیز سے خاموشی ہے تو اس میں درگزر ہے۔
              محترم جناب باذوق صاحب آپ کا پوری حدیث نقل کرنا بھی ہمارے مدعا کے معارض نہیں ہے کیونکہ ہمارا دعوٰی ہے اشیاء میں اصل اباحت ہے اور ہم نے اسی دعوٰی کو بدعت کی وضاحت کے لیے بنیاد بنایا ہے اور اس حدیث میں وماسكت عنه فهو مما عفا عنه کے جو الفاظ ہیں ان میں ما اپنے عموم پر ہے اور اس میں ہر چیز داخل ہے لہذا آپکو چاہیے کہ اس ما کی عمومیت سے کسی بھی چیز کی تخصیص کے لیے اپنے دعوے کے ثبوت کے بطور کوئی دلیل نقل کریں وگرنہ آپکی بات میں کسی صاحب علم کے لیے کوئی وزن نہیں ہے ۔




              اس جملے میں دو الفاظ ، وضاحت کے متقاضی ہیں : مباح اور چیز۔


              لفظ "مباح" کی یہ تعریف تو ہر پڑھے لکھے کو معلوم ہے کہ : ایک ایسا کام جس کو کرنے پر کوئی ثواب نہ ملے اور نہ کرنے پر گناہ بھی نہ ہو۔






              ہمیں انتہائی افسوس ہوا کہ آپ جیسا صاحب علم شخص اتنا بھی نہیں جانتا کہ مباح کیا ہوتا ہے اور اس کے احکام کیا ہوتے ہیں ۔آیئے ہم سب سے پہلے آپکی خدمت میں مباح کی تعریف پیش کریں ۔
              مباح کی لغوی تعریف :
              مباح کا لفظ اباحت سے مشتق ہے ۔ عربی لغت میں اباحت کا اطلاق درج زیل معنوں میں ہوتا ہے ۔
              ظاہر ہونا ، جائز آزاد اور غیر ممنوع ، گھر کا صحن ۔
              ابن منظور ، زبیدی، فیروز آبادی، فیومی، جوہری۔ بحوالہ الحکم الشرعی ڈاکٹر طاہر القادری ص 214
              مباح کی اصطلاحی تعریف:
              ھو ما خیر الشارع المکلف فعلہ وترکہ
              شارع کا مکلف کو کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے دونوں کا اختیار دینا مباح کہلاتا ہے۔
              مالا یمدح علی فعلہ ولا علی ترکہ۔
              جس کے کرنے اور چھوڑنے پر کوئی مدح نہ کی گئی ہو
              مالا یتعلق بفعلہ ولا ترکہ مدح و لازم
              جس کے کرنے اور چھوڑنے پر مدح یا سزا کا کوئی تعلق نہ ہو
              آمدی ،غزالی،، السنوی، عبدالوھاب ،الشوکانی، بیضاوی،بحوالہ الحکم الشرعی ص215
              مباح کا حکم :

              مباح کا حکم یہ ہے کہ اس کے فعل پر یا ترک پر نہ ثواب ہوتا ہے اور نہ عتاب
              (الزحیلی بحوالہ الحکم الشرعی ص 215)
              اب ہم اس طرف آتے ہیں کہ مباح کا حکم بیان کرنے کے باوجود آپ کو اس عبارت سے جو دھوکا ہوا ہے وہ کیا ہے؟


              اب سوال یہ ہے کہ : اباحت کا یہ اصول کیا "عبادات" میں بھی لاگو ہوگا ؟
              میلاد النبی کو بطور عید منانا ، عرس برپا کرنا ، مخصوص ذکر کی محفلیں قائم کرنا ، وضو اور اذان کی بعض مخصوص دعاؤں کا ورد ۔۔۔




              میرے بھائی پہلی بات تو یہ ہے کہ مباح وہ شئے کہ جس کے کرنے اور نہ کرنے پر شرع نے کوئی پابندی نہیں لگائی بلکہ اس کو مطلق بندوں کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے اور اسی لیے اس کو مباح بھی کہتے ہیں کہ اس کرنے یا نہ کرنے میں اختیار ہر بندے کے پاس ذاتی ہوتا ہے۔ رہا یہ سوال کہ میلاد النبی کو بطور خوشی منانا اور عرس کرنا وغیرہ کیا یہ سب افعال و اعمال ہیں یا محض اشیاء تو اس کے لیے عرض ہے کہ اعمال و افعال اور اشیاء میں جو فرق ہے اس کو واضح کرنا اب آپ ہی کی ذمہ داری ہے نہ کے ہماری ۔ اب آپ ہی بتایئے کہ اشیاء اور افعال و اعمال کے درمیان کیا فرق ہے؟ جبکہ ہمارے نزدیک تو لفظ شیاء مطلق ہے اور اعمال و افعال وغیرہ یہ سب اسی کے اطلاقات ہیں اور دلیل ہماری قرآن پاک کی مشھور آیت ہے کہ جس میں رب قادر کریم فرماتا ہے کہ : اذا اراداللہ شیاء کن فیکون
              یہان بھی اللہ پاک مطلق لفظ شیاء فرمایا ہے اور اسی مطلق شیاء سے مراد اسکی ہر ہر مخلوق بھی ہے کہ جس میں انسان کی ذات سے لیکر اس کے اعمال تک سبھی آجاتے ہیں اللہ پاک ان سب کا خالق ہے جیسا کہ اللہ پاک ایک اور جگہ قرآن پاک میں فرماتا ہے ۔ ۔ ۔ واللہ خالقکم بما کنتم تفعلون ۔ ترجمہ اللہ تمہارا بھی خالق ہے اور جو کچھ کرتے ہو ہو (یعنی تمہارے افعال) ان کا بھی خالق ہے ۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جب اللہ پاک نے اپنی قدرت خلق کا مطلق ذکر کیا یعنی جب اپنی صفت قدرت کو مطلق رکھا تو لفظ شیاء کا استعمال کیا ۔ یہاں پر لفظ شیاء ہمارے مدعا کی بین دلیل ہے کہ شیاء سے تمام اشیاء مراد ہیں چاہے وہ کسی کی زات ہو یا اعمال و افعال ۔


              اب رہا آپکا یہ شبہ کہ میلاد النبی اور عرس وغیرہ کو ثواب سمجھ کر منایا جاتا ہے اس لیے یہ مباح کی تعریف میں نہیں آتے یہ بھی محض آپ کو دھوکا ہوا ہے اور اصل میں آپ بات کی حقیقت کو سمجھ نہیں پا رہے دیکھیئے میلاد منانا اپنے حکم کی اصل کے اعتبار سے مباح ہی ہے لیکن میلاد منانے کے پیچھے جو نظریہ کارفرما ہے وہ ہے تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قرآن پاک حکم بھی ہے اور قرآن پاک کے اس حکم کا یہ تقاضا بھی ہے کہ جو بھی مسلمان تعظیم مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم بجا لائے اس کو اس کا اجر و ثواب ضرور ملنا چاہیے ۔ کہنا یہ چاہتا ہوں کہ کسی بھی کام کہ کرنے یا نہ کرنے کا اختیار ہونا ایک الگ امر ہے اور اسی اختیار کو یہاں مباح کہہ دیا گیا ہے اب ظاہر ہے انسان کوئی بھی کام کرئے گا یا تو وہ شریعت کے مزاج کے خلاف ہوگا یا پھر شریعت کے مزاج کے عین مطابق ۔ اب یہی مطابقت فاعل کو یا تو جزا کی طرف لے جائے گی یا پھر سزا کی طرف ۔ اوپر اعتراض میں جتنی بھی اشیاء کا آپ نے ذکر کیا وہ سب اپنے حکم اصلی کے اعتبار سے مباح ہی کہلائیں گی کیونکہ شارع کا ان پر کوئی واضح حکم موجود نہیں اسی لیے وہ مباح ٹھریں گی ۔کیونکہ اگر شارع نے ان کو کرنے کا حکم دیا ہوتا تو وہ یا تو فرض یا پھر واجب یا پھر سنت شمار ہوتیں اور اگر شارع نے ان سے منع کیا ہوتا تو وہ پھر حرام یا مکروہ تحریمی یا پھر تنزیہی قرار پاتیں لیکن شارع خاموش ہے اس لیے وہ اپنے کرنے یا نہ کرنے کے اعتبار سے تو مباح ہیں لیکن اگر ان میں کوئی علت ایسی پائی جائے جو کہ شریعت کے خلاف ہوتو پھر ایسی اشیاء کبھی ناجائز اور کبھی مکروہ (تحریمی یا تنزیہی) بھی قرار پائیں گی اور اگر ان میں کوئی ایسی علت نہ پائی جائے جوکہ شریعت کے خلاف ہو بلکہ اس کے برعکس ان میں کوئی ایسی بات پائی جائے جو کہ عین منشاء شریعت ہو تو ایسی تمام اشیاء اپنی اصل کے اعتبار سے مباح اور اپنے وقوع میں شریعت کے منشاء کےا عتبار سے کبھی مستحب اور کبھی سنت اور کبھی کبھی واجب بھی قرار پاتیں ہیں ۔ اسی لیے فقہاء اور محدثین نے اباحت کے اس اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے اور اسی کو بنیاد بناتے ہوئے بدعت کی بھی پانچ اقسام بیان کی ہیں جو کہ آگے چل کر ہم نقل کریں گے مستند حوالہ جات سے سر دست تو مباح کی وضاحت پیش نظر تھی اور میں امید کرتا ہوں کہ میں اپنے قارئین سمیت باذوق صاحب کی ا لجھن بھی دور کرنے میں کامیاب ہوچکا ہوں گا۔



              کیونکہ ظاہر ہے ، کوئی بھی عبادت ، بغیر ثواب کے ، ہو ہی نہیں سکتی۔

              سب سے پہلے تو ہمارا اس عبارت پر یہ سوال ہے کہ یہاں عبادت سے کیا مراد ہے ؟
              علامہ غلام رسول سعیدی اسی بات کی وضاحت میں جناب سرفراز خاں صفدر صاحب سے اپنی کتاب توضیح البیان میں پوچھتے ہیں کہ اگر امور دینیہ سے زکر اذکار اور خالص عبادات مثلا نماز روزہ مراد ہیں تو ظاہر ہے کوئی بھی مسلمان عید میلاد پر اظہار خوشی کو اس قسم سے نہیں جانتا پس اس کا بدعت اور حرام ہونا کیسے ٹھرے گا۔
              (توضیح البیان ص267)

              جس مکتبِ فکر کے محترم عالم دین کا مقالہ یہاں لگایا گیا ہے ، اسی مکتب کے معروف عالمِ دین ، مولوی غلام رسول سعیدی بھی علامہ شاطبی کے اصول کی تائید کرتے ہوئے فرماتے ہیں ‫:
              اپنی عقل سے عبادت کے طور طریقے وضع کرنا جائز نہیں ہے ، لوگ اپنی عقل سے عبادت کے طریقے وضع کر لیتے ہیں ، پھر اس کی تائید میں دلائلِ شرعیہ تلاش کرتے ہیں اور جو ان کے بنائے ہوئے طریقے کے مطابق عبادت نہ کریں اس کو لعنت ملامت کرتے ہیں ، اسی کا نام احداث فی الدین اور بدعتِ سیئہ ہے ۔ عبادت صرف اسی طریقہ سے کرنی چاہئے جس طریقہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبادت کی ہے اور جس طرح آپ نے ہدایت دی ہے اور جماعت صحابہ کا اس پر عمل

              علامہ غلام رسول سعیدی کی یہ عبارت عبادات منصوصہ کے بارے میں ہے یعنی پنج وقت نماز ،روزہ اور اسی طرح وہ تمام عبادات کہ جن کے بارے میں شارع نے واضح احکام اُنکی ترتیب ، ترکیب ،اور اوقات وغیرہ مقرر فرمادیئے ہیں اب شارع کی عائد کردہ پابندی کے بعد کوئی شخص اگر کسی ایک فرض نماز کو کسی دوسری فرض نماز کے وقت میں یا پھر پانچ کی جگہ چھٹی فرض نماز ایجاد کرئے گا تو وہ اس عبارت کا مستحق ٹھرے گا نہ کہ کوئی ایسا شخص جو کہ کوئی بھی نفل نماز اپنی مرضی سے ان تمام اوقات میں کہ جن میں نفل پڑھنا منع نہیں ہے جتنے چاہے نفل پڑھے اور ثواب کی نیت سے پڑھے تو اس میں کوئی حرج نہ ہوگا کیونکہ نفل نماز تو ہے ہی وہ نماز کہ جس کو جس قدر بھی پڑھنے پر شارع نے بندے کو اختیار دیا ہے اب متنفل یہ نہیں دیکھے گا کہ آیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فلاں وقت میں فلاں جگہ اتنی اتنی تعداد میں نفل پڑھے ہیں کہ نہیں؟ امید کرتا ہوں بات آپ کی سمجھ میں آگئی ہوگی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جاری ہے
              Last edited by aabi2cool; 10 April 2008, 22:35.
              ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

              Comment


              • #67
                جو کوئی درسِ نظامی کو اختیار کرتا ہے ، کیا وہ اسے دین سمجھتا ہے؟ ایسا تو کوئی بھی باشعور مسلمان نہیں کہتا۔
                اس کا دوسرا مطلب تو یہ ہوا کہ جو کوئی درسِ نظامی اختیار نہیں کرتا وہ دین پر نہیں چلتا؟؟
                کیا یہ غیرعقلی بات نہیں ہے۔ برصغیر کے کسی بھی عالم سے پوچھ لیں۔ کوئی بھی یہ نہیں کہے گا کہ "درسِ نظامی" درحقیقت "دینِ اسلام" ہے۔ بلکہ یہی کہے گا کہ "درسِ نظامی" ، دینِ اسلام کو سمجھنے کا وسیلہ یا ذریعہ ہے۔ دین تو قرآن و حدیث میں محفوظ ہے۔
                میں ایک بار پھر دہراؤں گا کہ "دین" ایک الگ چیز ہے اور دین کو سمجھنے کے لیے جو ذرائع یا وسائل اختیار کئے جاتے ہیں وہ ایک علیحدہ معاملہ ہے۔ ان ذرائع یا وسائل کو "دین" کا نام دنیا کا کوئی بھی عالم نہیں دیتا اور نہ دے ہی سکتا ہے۔




                آپکے اس عجیب و غریب مقولے کی مضحکہ خیزی پر کوئی بھی صاحب فھم آدمی آپ کو داد دیئے بغیر نہ رہ سکے گا کہ عجب مضحکہ خیزی ہے کہ ایک چیز جو کہ دین ہو اور اس کو حاصل کرنے کے لیے یا اس تک پہنچنے کے لیے جو زریعہ استعمال کیا جائے وہ دین نہ ہو بلکہ اس کا غیر ہو پہلی بات تو یہ ہے
                کہ دینی اور دنیاوی کی یہ تفریق بذات خود تعریف کی محتاج ہے کہ کن کن امور کو دینی اور کن کن امور کو دنیاوی کہا گیا ہے اور اگر کہا بھی گیا ہے تو کن معنوں میں کہا گیا ہے ۔ عجیب بات ہے کہ ایک طرف تو جب ہم دین اسلام کی تبلیغ کرتے ہیں تو یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ دین اسلام ایک عالمگیر اور ہمہ جہت دین ہے کہ جس میں قیامت تک کہ *آنے والے تمام مسائل کا حل ہے چاہے وہ کسی بھی عنوان کے تحت ہوں اور یہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور دوسری طرف جب ہمیں آپس کے مسائل میں کہیں ایک دوسرے سے اختلاف ہوجائے تو ہم دین اور دنیا کو الگ الگ گرداننے لگتے ہیں ایں چہ بوالعجبی است؟
                مجھے آپ یہ بتائیں کہ آخر وہ کون سے امور ہیں کہ جن کے بارے میں دین ہماری رہنمائی نہیں کرتا یہاں تو سوئی سے لیکر کپڑا کی تیاری تک جوتا پہننے سے لیکر مرنے تک بلکہ اس سے بھی بعد قبر میں دفنانے اور پھر خود قبر کے بارے میں بھی آداب و احکامات موجود ہیں آپ کس کس چیز کو دین اور دنیا کی تقسیم قرار دے کر اپنی جان چھڑائیں گے ۔
                آپ کہتے ہیں کہ جو کوئی بھی درس نظامی کو اختیار کرتا ہے تو کیا وہ اسے دین سمجھتا ہے ؟ میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا درس نظامی کرنا آپکے نزدیک بے دینی ہے؟ تو گویا آپکے نزدیک مدرسوں میں درس نظامی کی تعلیم حاصل کرنا بھی

                بے دینی ہے اور اس کے لیے وسائل اختیار کرنا بھی دین نہیں ہے وہ چاہے کہیں سے بھی اختیار کرلیں اور جو مرضی اختیار کرلیں ان کا دین سے کوئی تعلق نہ ہوگا اس طرح تو جس کو جو چیز چاہے گا وہ کرتا پھرے گا اور کہے گا یہ چیز میں دین سمجھ کر تو نہیں کررہا اس لیے مجھ پر کوئی جز ا اور سزا نہیں میں نے تو فلاں کا حق دنیا سمجھ کر مارا ہے اور میں نے فلاں کے ساتھ دنیا سمجھ کر زیادتی کی ہے وغیرہ وغیرہ ارے باذوق صاحب کیا ہوگیا ہے آپ کو ؟
                میرے ساتھ اس مسئلہ میں اختلاف کرنے میں آپ یوں الجھے کہ دین کو دنیا اور دین دو علیحدہ علیحدہ شقوں میں تقسیم کردیا اور اس پر مستزاد یہ کے آپ کا قلم یوں بہکا کہ درس نظامی کو بھی بے دینی سے تعبیر کردیا حالانکہ اس میں خالص قرآن و سنت کی تعلیم دی جاتی ہے ۔
                اور اوپر مسلم شریف کی جس حدیث کو آپ نے دین اور دنیا کی تقسیم وضع کرنے کے لیے تختہ مشق بنایا ہے اس میں دنیا کے لفظ سے مراد دین اور دنیا کی الگ الگ تقسیم نہیں ہے بلکہ وہاں دنیا کا لفظ اپنے عمومی اطلاق کے اعتبار سے آیا ہے نا کہ دین کے مقابلے میں آیا ہے ۔۔ ۔ ۔ ۔ جیسے ہمارے ہاں پنجابی اور اردو میں ایک لفظ دنیا داری بولا جاتا ہے اب سے جاہل لوگ تو دین اور دنیا کا الگ الگ ہونا مراد لے سکتے ہیں لیکن کسی بھی صاحب فھم آدمی پر یہ اچھی طرح روشن ہے کہ دنیا داری کو کوئی بھی ایسا معاملہ نہیں ہے کہ جس کے بارے میں دین ہماری رہنمائی نہ فرماتا ہو ۔
                کائنات میں جتنی چیزیں ہیں انکے استعمال یا عدم استعمال اور جتنے عقیدے ہیں انکے ماننے یا نہ ماننے اور جتنے امور ہیں انکے کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں ہمیں کوئی نہ کوئی حکم شرعی ضرور ملتا ہے چاہے وہ دلائل اربعہ کے خصوص سے ثابت ہو یا پھر عموم سے مسلم شریف کی یہ حدیث ہمارے مدعا پر واضح دلیل ہے کہ جس کا مفھوم یہ ہے کہ ۔ ۔
                حضرت سلمان فارسی سے روایت ہے کہ کفار نے آپ سے کہا کہ تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں ہر چیز بتاتے ہیں یہاں تک کے رفع حاجت کا طریقہ بھی بتاتے ہیں آپ نے جواب دیا ہاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
                اس حدیث میں کل شئی کہ لفظ سے پتا چلا کہ دین کل کو محیط ہے کوئی بھی شئے دین سے باہر نہیں اور اگر آپ کو اب بھی اصرار ہے دین اور دنیا کی تقسیم پر اور اسی اصرار کی بنیاد پر آپ درس نظامی کو بھی دنیا سے تعبیر کرنے پر مصر ہیں تو پھر آپ کو آپ کے مدارس کی بے دینی مبارک ہو خدا کا شکر ہے کہ آپکو آپکے مقام کا بذات خود احساس ہوگیا ۔ ا سکے علاوہ بھی آپ نے مساجد میں لاوڈ اسپیکر اور لائٹیں وغیرہ لگوانا اور یوں پنکھوں اور گرمیوں میں اے سی اور سردیوں میں ہیٹر وغیرہ کا ھدیہ کرنا یہ سب بے دینی اور دنیاوی امور لگتے ہیں میرا ان سب پر آپ سے صرف ایک سوال ہے کہ اگر کوئی شخص ان میں سے کسی بھی چیز کا ھدیہ مسجد کو دیتا ہے تو کیا اس کو اس کا ثواب ملے گا یا نہیں اور اگر ملے گا تو یہ آپ کے قاعدے کے مطابق تو دنیاوی امور میں سے ہے پھر کیون ملے گا اور اگر نہیں ملے گا تو کیون نہیں ملے گا جب کے لوگ ثواب کی خاطر ایسا کرتے ہیں؟
                اس کے علاوہ آپ نے جتنے بھی علماء کی عبارات بدعت کو دینی امور میں کسی نئی چیز کے داخل کرنے پر وارد کیں ان میں سے کوئی بھی ہمارے خلاف نہیں کیونکہ ہمارے نزدیک دین اور دنیا کی الگ الگ تقسیم ان معنوں میں جائز نہیں کہ جن معنوں میں آپ فرمارہے ہیں رہا فاضل بریلوی کا حوالہ تو سردست جو حوالہ نمبر آپ نے دیا ہے میں نے انٹر نیٹ پر وہ تلاش کیا ہے جلد نمبر 11 میں صفحہ نمبر 41 پر ایسا کو ئی مسئلہ نہیں ہے فتاوٰی رضویہ میں لہذا آپ سے گذارش ہے کہ آپ اس حوالہ کی یا تو پوری عبارت اسکین کر کے لگائین یا پھر نیٹ سے ہی اس عبارت کا مکمل حوالہ بطور لنک پیش کریں۔
                تب تک ہمارے نزدیک فاضل بریلوی علیہ رحمہ کی اس عبارت سے یہی مقصود ہے کہ تمباکو نوشی ایک ایسا دنیاوی فعل ہے کہ جس پر شریعت نے کوئی ممانعت نہیں فرمائی اور چونکہ اپنی اصل کے اعتبار سے یہ ایک دنیاوی فعل ہے اس لیے اس کو اپنے عموم پر ہی برقرار رکھتے ہوئے فاضل بریلوی نے امور دنیا میں سے ایک امر قرار دیا ہے نہ کہ یہاں پر انکی مراد دین اور دنیا کی تقسیم ہے ۔




                قرآن پر جو اعراب ہیں ، اس کو اگر شرعی بدعت کہہ دیا جائے (جو کوئی بھی مسلمان قطعاً نہیں کہتا) تو اس کا لازمی مطلب یہ ہوا کہ قرآن محفوظ نہیں ہے اور اس میں اعراب کے ذریعے اضافہ کر دیا گیا ہے (نعوذباللہ)۔
                یہ کام سن 86ھ میں حجاج بن یوسف نے سرانجام دیا۔
                تنزیل قرآن کے وقت عربی زبان ایسے کوفی رسم الخط میں لکھی جاتی تھی جو زیر زبر وغیرہ حرکات کے بغیر لکھا جاتا اور اس میں نقطے بھی کم ہوتے تھے۔ اس طرح کی تحریر کو اہل عرب تو بآسانی پڑھ لیتے لیکن غیر عرب پڑھنے میں اکثر غلطیاں کر جاتے تھے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ہی حجاج جیسے ظالم شخص سے اتنا اہم کام لیا۔
                کیا اللہ کی ایسی "مدد" کو بقرآن پاک کا موجودہ شکل میں جمع کیا جانا اس پر اعراب اور نقاط پھر پاروں میں اس کی تقسیم اور منازل میں تقسیم اور رکوعات اور آیات کی نمبرنگ
                قرآن پر جو اعراب ہیں ، اس کو اگر شرعی بدعت کہہ دیا جائے (جو کوئی بھی مسلمان قطعاً نہیں کہتا) تو اس کا لازمی مطلب یہ ہوا کہ قرآن محفوظ نہیں ہے اور اس میں اعراب کے ذریعے اضافہ کر دیا گیا ہے (نعوذباللہ)۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ ‫:
                إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ
                ہم نے ہی اس قرآن کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔
                ( سورة الحجر : 15 ، آیت : 9 )

                اعراب لگانے کا ھی بدعت کہا جائے گا ؟؟ نعوذباللہ۔




                اپنے اس اقتباس میں آپ نے لفظ بدعت کو شرعی بدعت کے ساتھ خاص کیا ہے میں پوچھ سکتا ہوں کہ یہ تخصیص آپ نے کس امر کی بنیاد پر فرمائی ہے ؟
                دیگر آپ کا یہ کہنا کہ یہ کوئی شرعی بدعت نہیں بلکہ اللہ کی مدد ہے تو عرض ہے کہ اللہ کی یہ مدد دین کے مکمل ہوجانے کے بعد کیوں وقوع پذیر ہوئی کیا وجہ تھی کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایسا نہیں کیا گیا حالانکہ صحابہ کرام آپ کے دور میں بھی دور دراز کے علاقوں تک پہنچ گئے تھے اور پھر خلفائے راشدین کے دور میں ایسا کیوں نہیں کیا گیا؟ حالانکہ اس وقت تک دین کا عجم میں پھیل جانا کوئی اختلافی امر نہیں ہے؟ رہا وہ مغالطہ جو کہ آپ کی اس عبارت سے آپکو درپیش ہے تو اس کا جواب خود ہی آپ کی عبارت کے اگلے حصے میں موجود ہے کہ قرآن پاک بلاشبہ مکمل تھا لیکن عجمی کیوں کے قرآن پاک بغیر زیر زبر کے صحیح طریقے سے پڑھ نہیں سکتے تھے ا سلیے قرآن پاک پر اعراب کا اضافہ کیا گیا اور یہ اضافہ بظاہر تو اضافہ ہی تھا مگر اس سے قرآن کی تلاوت جوں کی توں ہی رہی اس کے معنٰی اور مفھوم میں کوئی فرق نہ پڑا اس لیے اس کو قرآن میں اضافہ نہیں کہہ سکتے کہ ان اعراب کی وجہ سے عجمی لوگ بھی بالکل اسی طرح قرآن تلاوت کرنے لگے کہ جیسا قرآن کریم تھا یا جیسے عربی تلاوت کیا کرتے تھے فرق صرف اتنا رہ گیا کہ عرب لوگ آج بھی بغیر اعراب کے قرآن کی تلاوت بالکل ٹھیک ٹھیک اسی طرح کرتے ہیں جیسا کہ ہم لوگ اعراب کے ساتھ تلاوت کرتے ہیں امید کرتا ہوں آپکی الجھن دور ہوگئی ہوگی۔



                علامہ ابن حزم
                والبدعة كل ما قيل أو فعل مما ليس له أصل فيما نسب إليه صلى الله عليه وسلم وهو في الدين كل ما لم يأت في القرآن ولا عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
                بدعت اسے کہتے ہیں جس کی اصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہ ہو اور دین میں قرآن و سنت سے اس پر کوئی دلیل نہ ہو
                الاحکام فی اصول الاحکام
                ج:1 ، ص:22

                علامہ شاطبی
                طريقة في الدين مخترعة تضاهي الشرعية يقصد بالسلوك عليها المبالغة في التعبد لله سبحانه
                دین کے اندر ایسا نوایجاد طریقہ جو شریعتِ اسلامیہ کے مشابہ ہو اور اس پر عمل کرنے سے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مبالغہ کرنا مقصود ہو
                الاعتصام
                ج:1 ، ص:16

                علامہ ابن الاثیر
                کل محدثۃ بدعۃ انما یرید ماخالف اصول الشریعۃ ولم یوافق السنۃ
                کل محدثۃ بدعۃ (کی حدیث) کا معنی یہ ہے کہ جو چیز اصولِ شریعت کے خلاف ہو اور سنتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے موافق نہ ہو
                النهاية في غريب الحديث والأثر
                ج:1 ، ص:89

                علامہ ابن منظور
                والبدعۃ : الحدث وما ابتدع من الدین بعد الاکمال
                بدعت نئی چیز کو کہتے ہیں جو دین میں اس کی تکمیل کے بعد نکالی گئی ہو
                لسان العرب
                ج:"ب" ، ص:276

                آپکے پیش کردہ ان تمام حوالاجات پر ہماری طرف سے عرض ہے کہ اول تو یہ تمام حوالاجات ہماری ہی تائید میں ہیں نہ کہ آپکی تائید میں اور اگر بالفرض محال آپکو ہماری بات منظور نہیں تو آپکو چاہیے تھا کہ ان تمام حوالاجات کی مکمل عبارات نقل فرماتے تاکہ آپ پر عمارا مدعا کھل واضح ہوجاتا اور بات نکھر کر سامنے آجاتی کہ جو ہم کہہ رہیں تمام فقہاء اور محدثین کی بھی وہی رائے ہے لیکن آپ نے نہ جانے کیوں تمام عبارات مکمل نقل نہیں کیں اب اسے ہم کیا کہہ سکتے ہیں کہ علمی میدان اور خاص طور پر استدلالی میدان میں اس قسم کی حرکت کو اچھے نظریے سے نہیں دیکھا جاتا مگر تاہم ہم آپ پر حسن ظن ہی رکھتے ہیں اور ان تمام عبارات کو مکمل نقل نہ کرنے کو آپکی چُوک سے ہی تعبیر کرتے ہیں۔ اب ترتیب وار آپکی نقل کردہ عبارات کا مکمل متن ڈاکٹر طاہر القادری کی کتاب البدعۃ عند الائمہ والمحدثین سے حاضر ہے صرف امام ابن کثیر اور ابن رجب حنبلی کا حوالہ چھوڑ کر کہ اس پر ہم نے آپ سے پہلے ہی سوال کیا ہے کہ بدعت کی تقسیم شرعی اور لغوی کرنے کی کیا دلیل ہے؟نیز یہ کہ ان کی عبارات بھی در اصل ہمارے ہی حق میں ہیں کہ وہ بدعت کو شرعی اور لغوی اعتبار سے تقسیم کرنے کے قائل ہیں اور ہم حسنہ اور سئیہ کے اعتبار سے۔

                اِمام علی بن اَحمد ابن حزم الاندلسی رحمۃ اللہ علیہ (456 ھ)


                4. والبدعة کل ما قيل أو فعل مما ليس له أصل فيما نسب إليه صلي الله عليه وآله وسلم و هو في الدين کل مالم يأت في القرآن ولا عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم إلا أن منها ما يؤجر عليه صاحبه و يعذر بما قصد إليه من الخير و منها ما يؤجر عليه صاحبه و يکون حسنا و هو ماکان أصله الإباحة کما روي عن عمر رضي الله عنه نعمت البدعة هذه(1) و هو ما کان فعل خير جاء النص بعموم استحبابه و إن لم يقرر عمله في النص و منها ما يکون مذموما ولا يعذر صاحبه و هو ما قامت به الحجة علي فساده فتمادي عليه القائل به. (2)

                مگر جس نئے کام کی بنیاد خیر پر ہو تو اس کے کرنے والے کو اس کے اِرادئہ خیر کی وجہ سے اَجر دیا جاتا ہے اور یہ بدعتِ حسنہ ہوتی ہے اور یہ ایسی بدعت ہے جس کی اصل اباحت ہے

                1. مالک، المؤطا، باب ما جاء في قيام رمضان، 1 / 114، رقم : 250
                2. بيهقي، شعب الايمان، 3 / 177، رقم : 3269
                3. سيوطي، تنوير الحوالک شرح مؤطا مالک، 1 / 105، رقم : 250
                4. ابن رجب حنبلي، جامع العلوم والحکم، 1 / 266


                ابن حزم الاندلسي، الاحکام في اُصول الاحکام، 1 : 47

                آپ نے دیکھا قارئین درج بالا عبارت میں بولڈ کیئے گئے الفاظ کس طرح ہمارا مدعا ثابت کررہے ہیں۔



                13) اِمام ابو اسحاق ابراہیم بن موسيٰ الشاطبی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 790ھ)


                16.
                هذا الباب يُضْطَرُّ إِلي الکلام فيه عند النظر فيما هو بدعة وما ليس ببدعة فإن کثيرًا من الناس عدوا اکثر المصالح المرسلة بدعاً و نسبوها إلي الصحابة و التابعين و جعلوها حجة فيما ذهبوا إليه من اختراع العبادات وقوم جعلوا البدع تنقسم بأقسام أحکام الشرعية، فقالوا : إن منها ما هو واجب و مندوب، وعدوا من الواجب کتب المصحف وغيره، ومن المندوب الإجتماع في قيام رمضان علي قارئ واحد. و أيضا فإن المصالح المرسلة يرجع معناها إلي إعتبار المناسب الذي لا يشهد له أصل معين فليس له علي هذا شاهد شرعيّ علي الخصوص، ولا کونه قياساً بحيث إذا عرض علي العقول تلقته بالقبول. وهذا بعينه موجود في البدع المستحسنة، فإنها راجعة إلي أمور في الدين مصلحية. في زعم واضعيها. في الشرع علي الخصوص. وإذا ثبت هذا فإن کان إعتبار المصالح المرسلة حقا فإعتبار البدع المستحسنه حق لأنهما يجريان من واد واحد. وإن لم يکن إعتبار البدع حقا، لم يصح إعتبار المصالح المرسلة.

                بدعات واجب ہیں اور بعض مستحب ہیں، انہوں نے بدعات واجبہ میں قرآن کریم کی کتابت کو شمار کیا ہے اور بدعات مستحبہ میں ایک امام کے ساتھ تراویح کے اجتماع کو شامل کیا ہے۔

                شاطبی، الإعتصام، 2 : 111

                :

                : فواﷲ لو کلفوني نقل جبل من الجبال ما کان أثقل عليّ من ذلک. فقلت : کيف تفعلون شيئًا لم يفعله رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ؟ فقال أبوبکر : هو واﷲ خير، فلم يزل يراجعني في ذلک أبوبک. أن أصحاب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم اتفقوا علي جمع المصحف وليس تَمَّ نص علي جمعه وکتبه أيضا. . بل قد قال بعضهم : کيف نفعل شيئاً لم يفعله رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم؟ فروي عن زيد بن ثابت رضي الله عنه قال : أرسل إِليّ أبوبکر رضي الله عنه مقتلَ (أهل) اليمامة، و إِذا عنده عمر رضي الله عنه، قال أبوبکر : (إن عمر أتاني فقال) : إِن القتل قد استحرّ بقراءِ القرآن يوم اليمامة، و إِني أخشي أن يستحرّ القتل بالقراءِ في المواطن کلها فيذهب قرآن کثير، و إِني أري أن تأمر بجمع القرآن. (قال) : فقلت له : کيف أفعل شيئًا لم يفعله رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ؟ فقال لي : هو واﷲ خير. فلم يزل عمر يراجعني في ذلک حتي شرح اﷲ صدري له، ورأيت فيه الذي رأي عمر. قال زيد : فقال أبوبکر : إنک رجل شاب عاقل لا نتهمک، قد کنت تکتب الوحي لرسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، فتتبع القرآن فاجمعه. قال زيد ر حتي شرح اﷲ صدي للذي شرح له صدورهما فتتبعت القرآن أجمعه من الرقاع والعسب واللخاف، ومن صدور الرجال، فهذا عمل لم ينقل فيه خلاف عن أحد من الصحابة. (1). . . . حتي اذا نسخوا الصحف في المصاحف، بعث عثمان في کل افق بمصحف من تلک المصاحف التي نسخوها، ثم امر بما سوي ذٰلک من القراء ة في کل صحيفة أو مصحف أن يحرق. . . . ولم يرد نص عن النبي صلي الله عليه وآله وسلم بما صنعوا من ذلک، ولکنهم رأوه مصلحة تناسب تصرفات الشرع قطعا فإن ذلک راجع إلي حفظ الشريعة، والأمر بحفظها معلوم، وإلي منع الذريعة للاختلاف في أصلها الذي هوالقرآن، وقد علم النهي عن الإختلاف في ذلک بما لا مزيد عليه. واذا استقام هذا الأصل فاحمل عليه کتب العلم من السنن و غيرها إذا خيف عليها الإندراس، زيادة علي ما جاء في الأحاديث من الأمر بکتب العلم. (2)

                رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ قرآن کریم کو ایک مصحف میں جمع کرنے پر متفق ہو گئے حالانکہ قرآن کریم کو جمع کرنے اور لکھنے کے بارے میں ان کے پاس کوئی صریح حکم نہیں تھا۔ ۔ ۔ لیکن بعض نے کہا کہ ہم اس کام کو کس طرح کریں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیا حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے بلایا جبکہ یمامہ والوں سے لڑائی ہو رہی تھی اور اس و قت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی ان کے پاس تھے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اور کہا کہ جنگ یمامہ میں قرآن کے کتنے ہی قاری شہید ہوگئے ہیں اور مجھے ڈر ہے کہ قراء کے مختلف جگہوں پر شہید ہونے کی وجہ سے قرآن مجید کا اکثر حصہ جاتا رہے گا۔ میری رائے یہ ہے کہ آپ قرآن مجید کے جمع کرنے کا حکم دیں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں وہ کام کس طرح کرسکتا ہوں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیا تو انہوں نے مجھے کہا خدا کی قسم یہ اچھا ہے پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس بارے میں مجھ سے بحث کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعاليٰ نے اس معاملے میں میرا سینہ کھول دیا۔ میں نے بھی وہ کچھ دیکھ لیا جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا تھا حضرت زید کا بیان ہے کہ حضرت ابوبکر نے مجھے فرمایا آپ نوجوان آدمی اور صاحب عقل و دانش ہو اور آپ کی قرآن فہمی پر کسی کو اعتراض بھی نہیں اور آپ آقا علیہ السلام کو وحی بھی لکھ کر دیا کرتے تھے۔ آپ قرآن مجید کو تلاش کرکے جمع کردیں تو حضرت زید رضی اللہ عنہ نے کہا خدا کی قسم اگر آپ مجھے پہاڑوں میں کسی پہاڑ کو منتقل کرنے کا حکم دیں تو وہ میرے لیے اس کام سے زیادہ مشکل نہیں ہے۔ میں نے کہا کہ آپ رضی اللہ عنہ اس کام کو کیوں کر رہے ہو جسے آقا علیہ السلام نے نہیں کیا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا خدا کی قسم اس میں بہتری ہے۔ تو میں برابر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بحث کرتا رہا یہاں تک کہ اللہ تعاليٰ نے میرا سینہ کھول دیا جس طرح اللہ تعاليٰ نے حضرت ابوبکر و عمر رضی اﷲ عنہما کا سینہ کھولا تھا۔ پھر میں نے قرآن مجید کو کھجور کے پتوں، کپڑے کے ٹکڑوں، پتھر کے ٹکڑوں اور لوگوں کے سینوں سے تلاش کرکے جمع کردیا۔ یہ وہ عمل ہے جس پر صحابہ رضی اللہ عنہ میں سے کسی کا اختلاف نقل نہیں کیا گیا۔ ۔ ۔ حتی کہ جب انہوں نے (لغت قریش پر) صحائف لکھ لیے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تمام شہروں میں ان مصاحف کو بھیجا اور یہ حکم دیا کہ اس لغت کے سوا باقی تمام لغات پر لکھے ہوئے مصاحف کو جلا دیا جائے۔ ۔ ۔ حالانکہ اس معاملہ میں ان کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی حکم نہیں تھا لیکن انہوں نے اس اقدام میں ایسی مصلحت دیکھی جو تصرفات شرعیہ کے بالکل مناسب تھی کیونکہ قرآن کریم کو مصحف واحد میں جمع کرنا شریعت کے تحفظ کی خاطر تھا اور یہ بات مسلّم اور طے شدہ ہے کہ ہمیں شریعت کی حفاظت کا حکم دیا گیا ہے
                1. بخاري، الصحيح، 4 : 1720، کتاب التفسير، باب قوله لقد جاء کم رسول، رقم : 4402
                2. بخاري، الصحيح، 6 : 2629، کتاب الاًحکام، باب يستحب للکاتب أن يکون اميناً عاقلاً، رقم : 6768
                3. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 283، کتاب التفسير، باب من سورة التوبة رقم : 3103
                4. نسائي، السنن الکبريٰ، 5 : 7، رقم : 2202
                5. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 13، رقم : 76
                6. ابن حبان، الصحيح، 10 : 360، رقم : 4506


                شاطبي، الاعتصام، 2 : 115
                آپ نے دیکھا قارئین کرام کے علامہ شاطبی کی مکمل عبارت کس طرح ہماری ایک ایک بات کی مضبوط دلیل ہے ۔اور یہی کچھ ہم نے بھی اپنی بات کے آغاز میں فرمایا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جاری ہے
                ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

                Comment


                • #68
                  اِمام مبارک بن محمد ابن اثیر الجزری رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 606ھ) البدعة بدعتان : بدعة هدًي، و بدعة ضلال، فما کان في خلاف ما أمر اﷲ به و رسوله صلي الله عليه وآله وسلم فهو في حيز الذّم والإنکار، وما کان واقعا تحت عموم ما ندب اﷲ إليه و حضَّ عليه اﷲ أو رسوله فهو في حيز المدح، وما لم يکن له مثال موجود کنوع من الجود والسخاء و فعل المعروف فهو من الأفعال المحمودة، ولا يجوز أن يکون ذلک في خلاف ما ورد الشرع به؛ لأن النبي صلي الله عليه وآله وسلم قد جعل له في ذلک ثوابا فقال من سنّ سُنة حسنة کان له أجرها و أجر من عمل بها وقال في ضِدّه ومن سنّ سنة سيّئة کان عليه وزرُها ووِزرُ من عمل بها(1) وذلک إذا کان في خلاف ما أمر اﷲ به ورسوله صلي الله عليه وآله وسلم ومن هذا النوع قول عمر رضی الله عنه : نِعمت البدعة هذه(2). لمَّا کانت من أفعال الخير وداخلة في حيز المدح سماها بدعة ومدحها؛ لأن النبي صلي الله عليه وآله وسلم لم يسُنَّها لهم، و إنما صلّاها ليالي ثم ترکها ولم يحافظ عليها، ولا جمع الناس لها، ولا کانت في زمن أبي بکر، وإنما عمر رضی الله عنه جمع الناس عليها و ندبهم إليها، فبهذا سمّاها بدعة، وهي علي الحقيقة سُنَّة، لقوله صلي الله عليه وآله وسلم (عليکم بِسُنَّتي و سنَّة الخلفاء الراشدين من بعدي(3) وقوله (اقتدوا باللذين من بعدي أبي بکر و عمر)(4) و علي هذا التأويل يحمل الحديث الآخر (کل مُحْدَثة بدعة) إنما يريد ما خالف أصول الشريعة ولم يوافق السُّنَّة(5). 1. مسلم، الصحيح، 2 : 705، کتاب الزکوٰة، باب الحث علي الصدقه، رقم : 1017
                  2. نسائي، السنن، 5 : 55، 56، کتاب الزکاة، باب التحريض علي الصدقه، رقم : 2554
                  3. ابن ماجه، السنن، 1 : 74، مقدمة، باب سن سنة حسنة أو سيئة، رقم : 203
                  4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 357. 359
                  5. دارمي، السنن، 1 : 141، رقم : 514


                  1. مالک، المؤطا، باب ما جاء في قيام رمضان، 1 / 114، رقم : 250
                  2. بيهقي، شعب الايمان، 3 / 177، رقم : 3269
                  3. سيوطي، تنوير الحوالک شرح مؤطا مالک، 1 / 105، رقم : 250


                  1. ابوداؤد، السنن، 4 : 200، کتاب السنة، باب في لزوم السنة، رقم : 4607
                  2. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 44، کتاب العلم، باب ما جاء في الأخذ بالسنة، رقم : 2676
                  3. ابن ماجه، السنن، مقدمه، باب اتباع السنة الخلفاء الراشدين، 1 : 15، رقم : 42
                  4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 126


                  1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب المناقب عن الرسول صلي الله عليه وآله وسلم ، باب مناقب ابي بکر و عمر، 5 / 609، رقم : 3662
                  2. ابن ماجه، السنن، باب في فضل اصحاب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 / 37، رقم : 97
                  3. حاکم، المستدرک، 3 / 79، رقم : 4451


                  ابن أثير جزري، النهاية في غريب الحديث والأثر1 :
                  106
                  آپ نے دیکھا قارئین کرام کے امام ابن اثیر کی مکمل عبارت کا ایک ایک لفظ کس طرح ہمارے مؤقف کو واضح کرکے بیان کررہا ہے ۔ ۔ ۔ ۔


                  علامہ جمال الدین محمد بن مکرم ابن منظور الافریقی رحمۃ اللہ علیہ المتوفی 711ھ
                  مالک، المؤطا، باب ما جاء في قيام رمضان، 1 / 114، رقم : 250
                  2. بيهقي، شعب الايمان، 3 / 177، رقم : 3269
                  3. سيوطي، تنوير الحوالک شرح مؤطا مالک، 1 / 105، رقم : 250


                  1. مسلم، الصحيح، 2 : 705، کتاب الزکوٰة، باب الحث علي الصدقه، رقم : 1017
                  2. نسائي، السنن، 5 : 55، 56، کتاب الزکاة، باب التحريض علي الصدقه، رقم : 2554
                  3. ابن ماجه، السنن، 1 : 74، مقدمة، باب سن سنة حسنة أو سيئة، رقم : 203
                  4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 357. 359


                  1. ابوداؤد، السنن، 4 : 200، کتاب السنة، باب في لزوم السنة، رقم : 4607
                  2. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 44، کتاب العلم، باب ما جاء في الأخذ بالسنة، رقم : 2676
                  3. ابن ماجه، السنن، مقدمه، باب اتباع السنة الخلفاء الراشدين، 1 : 15، رقم : 42
                  4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 126


                  1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب المناقب عن الرسول صلي الله عليه وآله وسلم ، باب مناقب ابي بکر و عمر، 5 / 609، رقم : 3662
                  2. ابن ماجه، السنن، باب في فضل اصحاب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 / 37، رقم : 97
                  3. حاکم، المستدرک، 3 / 79، رقم : 4451
                  4. بيهقي، السنن الکبريٰ، 5 / 212، رقم : 9836


                  ابن منظور افريقي، لسان العرب، 8 : 6

                  آپ نے دیکھا قارئین کرام ان تمام محدثین اور فقہاء نے ہمارے بیان کردہ بدعت کے مفھوم کی بعینہ تصریح کردی جو کہ ہم نے حقیقت بدعت کے عنوان کے تحت ترتیب دیا تھا تمام فقہاء اور محدثین کی مکمل عبارات پڑھنے کے بعد آپ اسی نتیجے پر پہنچیں گے کہ بالکل ہمارے مقالے کی طرح ان تمام عبارات میں بھی اسی طرح اسدلال و استشھاد کیا گیا ہے اور انھی احادیث سے کیا گیا ہیے کہ جن سے ہم نے بیان کیا تھا یہ ائمہ کرام کا اہل سنت والجماعت پر بالخصوص اور عالم اسلام پر بالعموم احسان ہے کہ انھوں نے اتنی وضاحت اور عمدگی کے ساتھ بدعت کے مفھوم کو اس باریک بینی سے واضح فرمادیا ہے کہ اب اس میں رتی بھر بھی شک کی کوئی گنجائش نہیں ۔ اب
                  *آخر میں ہم امام شافعی کا بدعت کے حوالے مؤقف لکھ کر اصل کتاب کا ربط بھی مہیا کردیتے ہیں تاکہ نیٹ پر اس کتاب سے آپ سب لوگ بھی مستفید ہوسکیں ۔ ۔ ۔ ۔

                  امام محمد بن اِدریس بن عباس الشافعی رحمۃ اللہ علیہ المتوفی 204ھ


                  . المحدثات من الأمور ضربان : أحدهما ما أحدث مما يخالف کتاباً أوسنة أو اثرًا أو إجماعاً فهذه البدعة ضلالة، و الثانية ما أحدث من الخير لا خلاف فيه لواحد من هذا فهذه محدثة غير مذمومة، قد قال عمر رضي الله عنه في قيام رمضان نعمت البدعة هذه(1) يعني إِنَّها محدثة لم تکن و إِذا کانت ليس فيها ردُّ لما مضي. (2) 1. مالک، المؤطا، باب ما جاء في قيام رمضان، 1 / 114، رقم : 250
                  2. بيهقي، شعب الايمان، 3 / 177، رقم : 3269
                  3. سيوطي، تنوير الحوالک شرح مؤطا مالک، 1 / 105، رقم : 250
                  4. ابن رجب حنبلي، جامع العلوم والحکم، 1 / 266
                  5. زرقاني، شرح الزرقاني علي موطا الامام مالک، 1 / 340


                  1. بيهقي، المدخل الي السنن الکبريٰ، 1 : 206
                  2. ذهبي، سير أعلام النبلاء، 8 : 408
                  3. نووي، تهذيب الاسماء واللغات، 3 : 21

                  اِمام شافعی کے حوالے سے مزید لکھتے ہیں :

                  . وقد روي الحافظ أبو نعيم بإسناد عن إبراهيم ابن الجنيد قال : سمعت الشافعي يقول : البدعة بدعتان : بدعة محمودة و بدعة مذمومة، فما وافق السنة فهو محمود، وما خالف السنة فهو مذموم. واحتجّ بقول عمر رضي الله عنه : نعمت البدعة هي. (1) و مراد الشافعي رضي الله عنه ما ذکرناه من قبل أن أصل البدعة المذمومة ما ليس لها أصل في الشريعة ترجع إليه و هي البدعة في إطلاق الشرع. وأما البدعة المحمودة فما وافق السنة : يعني ما کان لها أصل من السنة ترجع إليه، و إنما هي بدعة لغة لا شرعا لموافقتها السنة. وقد روي عن الشافعي کلام آخر يفسر هذا و أنه قال : المحدثات ضربان : ما أحدث مما يخالف کتابا أو سنة أو أثرا أو إجماعا فهذه البدعة الضلالة، وما أحدث فيه من الخير لا خلاف فيه لواحد من هذا و هذه محدثة غير مذمومة، و کثير من الأمور التي أحدثت ولم يکن قد اختلف العلماء في أنها بدعة حسنة حتي ترجع إلي السنة أم لا. فمنها کتابة الحديث نهي عنه عمر وطائفة من الصحابة و رخص فيها الأکثرون واستدلوا له بأحاديث من السنة. ومنها کتابة تفسير الحديث والقرآن کرهه قوم من العلماء و رخص فيه کثير منهم. وکذلک اختلافهم في کتابة الرأي في الحلال والحرام و نحوه. و في توسعة الکلام في المعاملات و أعمال القلوب التي لم تنقل عن الصحابة والتابعين. (2)

                  1. مالک، المؤطا، باب ما جاء في قيام رمضان، 1 / 114، رقم : 250
                  2. بيهقي، شعب الايمان، 3 / 177، رقم : 3269
                  3. سيوطي، تنوير الحوالک شرح موطا مالک، 1 / 105، رقم : 250
                  4. ابن رجب حنبلي، جامع العلوم والحکم، 1 / 266
                  5. زرقاني، شرح الزرقاني علي موطا الامام مالک، 1 / 340


                  ابن رجب حنبلي، جامع العلوم والحکم : 4 - 253
                  بدعت محمودہ
                  بدعت مذمومۃ


                  جو بدعت سنت کے مطابق و موافق ہو وہ محمودہ ہے اور جو سنت کے مخالف و متناقض ہو وہ مذموم ہے اور انہوں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے قول (نعمت البدعۃ ھذہ) کو دلیل بنایا ہے اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی مراد بھی یہی ہے جو ہم نے اس سے پہلے بیان کی ہے بے شک بدعت مذمومہ وہ ہے جس کی کوئی اصل اور دلیل شریعت میں نہ ہو جس کی طرف یہ لوٹتی ہے اور اسی پر بدعت شرعی کا اطلاق ہوتا ہے اور بدعت محمودہ وہ بدعت ہے جو سنت کے موافق ہے یعنی اس کی شریعت میں اصل ہو جس کی طرف یہ لوٹتی ہو اور یہی بدعت لغوی ہے شرعی نہیں ہے اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے دوسری دلیل اس کی وضاحت پر یہ ہے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ محدثات کی دو اقسام ہیں پہلی وہ بدعت جو کتاب و سنت، اثر صحابہ اور اجماع اُمت کے خلاف ہو یہ بدعت ضلالہ ہے اور ایسی ایجاد جس میں خیر ہو اور وہ ان چیزوں (یعنی قرآن و سنت، اثر اور اجماع) میں سے کسی کے خلاف نہ ہو تو یہ بدعتِ غیر مذمومہ ہے اور بہت سارے امور ایسے ہیں جو ایجاد ہوئے جو کہ پہلے نہ تھے جن میں علماء نے اختلاف کیا کہ کیا یہ بدعت حسنہ ہے۔ یہاں تک کہ وہ سنت کی طرف لوٹے یا نہ لوٹے اور ان میں سے کتابت حدیث ہے جس سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور صحابہ کے ایک گروہ نے منع کیا ہے اور اکثر نے اس کی اجازت دی اور استدلال کے لیے انہوں نے کچھ احادیث سنت سے پیش کی ہیں اور اسی میں سے قرآن اور حدیث کی تفسیر کرنا جس کو قوم کے کچھ علماء نے ناپسند کیا ہے اور ان میں سے کثیر علماء نے اس کی اجازت دی ہے۔ اور اسی طرح حلال و حرام اور اس جیسے معاملات میں اپنی رائے سے لکھنے میں علماء کا اختلاف ہے اور اسی طرح معاملات اور دل کی باتیں جو کہ صحابہ اور تابعین سے صادر نہ ہوئی ہوں ان کے بارے میں گفتگو کرنے میں بھی علماء کا اختلاف ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اصل کتاب کا ربط درج زیل ہے جس میں بیسیوں دیگر ائمہ محدثین اور فقہائ کے حوالہ سے بدعت کی وضاحت کی گئی ہے ۔

                  http://www.minhajbooks.com/books/index.php?mod=btext&cid=4&bid=62&btid=150&read=txt &lang=ur

                  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جاری ہے
                  ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

                  Comment


                  • #69
                    پھر ہم نےان کےپیچھےاس راہ پر اپنےرسول بھیجےاور ان کےپیچھےعیسٰی ابن مریم کو بھیجا ، انھیں انجیل عطا کی اور ہم نے انکےصحیح پیروکاروں کےدلوں میں نرمی اور رحمت رکھی اور رھبانیت کی بدعت انھوں نےخود وضع کی ہم نےان پر فرض نہ کی تھی ہاں مگر انھوں نےیہ صرف اللہ پاک کی رضا چاہتے ہوئے وضع کی لیکن وہ اسکے جملہ تقاضوں کا خیال نہ رکھ سکے پس ان میں سےجو لوگ ایماندار تھےہم نےانھیں انکا اجر عطا کیا مگر ان میں سےا کثر نافرمان تھے۔
                    ہمارا مطالبہ ہے کہ "جملہ تقاضوں" کے الفاظ جس قرآنی الفاظ کا ترجمہ ہیں ان کی نشاندہی کی جائے ورنہ خطرہ ہے کہ اس فورم کا کوئی قاری قرآن کے ترجمے میں تحریفِ معنوی کا الزام عائد نہ کر جائے۔
                    ہم ذیل میں مختلف مکاتبِ فکر کے پانچ اردو ترجمے پیش کر رہے ہیں تاکہ قارئین کو بھی کچھ اندازہ ہو کہ کس طرح من مانے ترجمے کے ذریعے اپنے موقف کی تائید میں تحریفِ معنوی کا ارتکاب کیا گیا ہے۔

                    ثُمَّ قَفَّيْنَا عَلَى آثَارِهِم بِرُسُلِنَا وَقَفَّيْنَا بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَآتَيْنَاهُ الْإِنجِيلَ وَجَعَلْنَا فِي قُلُوبِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ رَأْفَةً وَرَحْمَةً وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا فَآتَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا مِنْهُمْ أَجْرَهُمْ وَكَثِيرٌ مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ
                    ( سورة الحديد : 57 ، آیت : 27 )

                    احمد رضا خان فاضل بریلوی
                    پھر ہم نے ان کے پیچھے اسی راہ پر اپنے اور رسول بھیجے اور ان کے پیچھے عیسیٰ بن مریم کو بھیجا اور اسے انجیل عطا فرمائی اور اس کے پیروؤں کے دل میں نرمی اور رحمت رکھی اور راہب بننا تو یہ بات انہوں نے دین میں اپنی طرف سے نکالی ہم نے ان پر مقرر نہ کی تھی ہاں یہ بدعت انہوں نے الله کی رضا چاہنے کو پیدا کی پھر اسے نہ نباہا جیسا اس کے نباہنے کا حق تھا تو ان کے ایمان والوں کو ہم نے ان کا ثواب عطا کیا، اور ان میں سے بہتیرے فاسق ہیں
                    محمود الحسن دیوبندی
                    پھر پیچھے بھیجے اُن کے قدموں پر اپنے رسول ، اور پیچھے بھیجا ہم نے عیسیٰ ، مریم کے بیٹے کو اور اس کو ہم نے دی انجیل ، اور رکھ دی اس کے ساتھ چلنے والوں کے دل میں نرمی اور مہربانی ، اور ایک ترک کرنا دنیا کا جو انہوں نے نئی بات نکالی تھی ، ہم نے نہیں لکھا تھا یہ اُن پر ، مگر کیا چاہنے کو اللہ کی رضامندی ، پھر نہ نباہا اس کو جیسا چاہئے تھا نباہنا ، پھر دیا ہم نے اُن لوگوں کو جو اُن میں ایماندار تھے اُن کا بدلہ اور بہت اُن میں نافرمان ہیں
                    فتح محمد جالندھری
                    پھر ان کے پیچھے انہی کے قدموں پر (اور) پیغمبر بھیجے اور ان کے پیچھے مریمؑ کے بیٹے عیسیٰ کو بھیجا اور ان کو انجیل عنایت کی۔ اور جن لوگوں نے ان کی پیروی کی ان کے دلوں میں شفقت اور مہربانی ڈال دی۔ اور لذات سے کنارہ کشی کی تو انہوں نے خود ایک نئی بات نکال لی ہم نے ان کو اس کا حکم نہیں دیا تھا مگر (انہوں نے اپنے خیال میں) خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے (آپ ہی ایسا کرلیا تھا) پھر جیسا اس کو نباہنا چاہیئے تھا نباہ بھی نہ سکے۔ پس جو لوگ ان میں سے ایمان لائے ان کو ہم نے ان کا اجر دیا اور ان میں بہت سے نافرمان ہیں
                    سید مودودی
                    ان کے بعد ہم نے پے در پے اپنے رسول بھیجے ، اور ان سب کے بعد عیسیٰ ابن مریم (ع) کو مبعوث کیا اور اس کو انجیل عطا کی ، اور جن لوگوں نے اس کی پیروی اختیار کی ان کے دلوں میں ہم نے ترس اور رحم ڈال دیا۔ اور رہبانیت انہوں نے خود ایجاد کر لی ، ہم نے اُسے ان پر فرض نہیں کیا تھا، مگر اللہ کی خوشنودی کی طلب میں انہوں نے آپ ہی یہ بدعت نکالی اور پھر اس کی پابندی کرنے کا جو حق تھا اسے ادا نہ کیا۔ اُن میں سے جو لوگ ایمان لائے ہوئے تھے اُن کا اجر ہم نے ان کو عطا کیا ، مگر ان میں سے اکثر لوگ فاسق ہیں۔
                    محمد جوناگڑھی
                    ان کے بعد پھر بھی ہم اپنے رسولوں کو پےدرپے بھیجتے رہے اور ان کے بعد عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کو بھیجا اور انہیں انجیل عطا فرمائی اور ان کے ماننے والوں کے دلوں میں شفقت اور رحم پیدا کر دیا ہاں رہبانیت (ترکِ دنیا) تو ان لوگوں نے ازخود ایجاد کر لی تھی ہم نے ان پر اسے واجب نہ کیا تھا سوائے اللہ کی رضا جوئی کے۔ سو انہوں نے اس کی پوری رعایت نہ کی ، پھر بھی ہم نے ان میں سے جو ایمان لائے تھے انہیں ان کا اجر دیا اور ان میں زیادہ تر لوگ نافرمان ہیں۔


                    سب سے پہلے تو اتنا عرض ہے کہ جو تراجم آپ نے پیش کیے ہیں اور جو ترجمہ ہم نے پیش کیا ہے ان سب میں اس خاص جملے کے ترجمے کو ہم نے نیلے رنگ سے نمایاں کردیا ہے اب آپ ہی بتایئے کہ ان سب تراجم میں باہم کیا فرق ہے صرف الفاظ کے چناؤ کا ہی توفرق ہے ۔نا کہ معنوی لحاظ سے کوئی فرق ہے پھر نہ جانے کیوں *آپ اتنا سیخ پا ہورہے ہیں اور فاضل مترجم کو نعوذباللہ تحریف معنوی کا مرتکب ٹھرا رہے ہیں ۔ اب آپ ہی مجھے بتائیے کہ ۔ ۔
                    پھر نا نبھاہا اس کو ایسا کہ جیسا اس کے نباہنے کا حق تھا اس جملے میں اور طاہر القادری صاحب کے اس جملے میں کیا معنوی فرق ہے کہ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر وہ اس کے جملہ تقاضوں کا خیال نہ رکھ سکے
                    متنازعہ جملہ عربی کی اس عبارت کا ترجمہ ہے ۔ ۔
                    فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا
                    پھر اسی فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا کا ترجمہ فاضل بریلوی علیہ رحمہ نے یوں فرمایا ہے کہ

                    نہ نباہا جیسا اس کے نباہنے کا حق تھا
                    پھر اسی فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا کا ترجمہ محمود الحسن دیو بندی نے یوں فرمایا ہے کہ ۔ ۔

                    پھر نہ نباہا اس کو جیسا چاہئے تھا نباہنا
                    پھر اسی فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا کا ترجمہ سید مودودی نے یون فرمایا ہے کہ۔

                    اور پھر اس کی پابندی کرنے کا جو حق تھا اسے ادا نہ کیا۔
                    اب کوئی آپ جیسا صاحب علم آدمی صرف اس وجہ سے سید مودودی پر تحریف معنوی کا رکیک الزام لگا دے کہ انھوں نے اپنے اس ترجمہ لفظ پابندی کہاں سے استعمال کرلیا جب کہ اوپر والے دونوں ترجموں میں نہیں ہے۔ تو اب ایسے شخص کے فھم پر سوائے انا للہ وانا علیہ راجعون پڑھنے کہ اور انسان کر بھی کیا سکتا ہے اور میرے لیے تو آپ کا اس ترجمہ پر اعتراض کرنا ہی باعث حیرت و استعجاب ہی ہے اور اس سے زیادہ کیا کہوں ۔ ۔ ۔ ۔اب آپ ہی بتایئے کہ ۔ ۔ ۔ ۔
                    کیا جملہ تقاضوں کےا لفاظ سے خود قرآن ہی کے الفاظ
                    حَقَّ رِعَايَتِهَا کا مفھوم بعینہ ادا نہیں ہورہا جو اسے آپ تحریف معنوی قرار دے رہے ہیں۔
                    امید ہے بات آپکی سمجھ میں آگئی ہوگی

                    حیرت کی بات تو یہ ہے کہ تقریباً تمام مفسرین نے اس آیت کو "بدعت" کے خلاف پیش کیا ہے ، مگر مقالہ نگار کی ہمت کی داد دینا پڑتی ہے کہ انہوں نے اجماع کو یکسر نظرانداز کر کے اجماع کے عین مخالف راہ کو منتخب کیا ہے۔



                    محترم باذوق صاحب آپ کو حیرت کے سمندر میں زیادہ غوطہ زن ہونے کی ضرورت نہیں ہے ہم ابھی آپ کو حیرت کے اس سمندر سے باہر نکال دیتے ہیں اسی آیت پر مختلف مفسرین کی آراء پیش کرکے ۔ ۔ ۔ ۔
                    سب سے پہلے سورہ حدید کی آیت نمبر 27 کی تفسیر کو ہم ام التفسیر الدر المنثور کے حوالہ سے نقل کریں گے ۔۔

                    امام جلال الدین سیوطی علیہ رحمہ اسی آیت کی تفسیر کے تحت رقم طراز ہیں ۔ ۔ ۔ امام سعید بن منصور ،عبد بن حمید ،ابن جریر ،ابن مردویہ اور ابن نصر سے ابو امامہ رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ بے شک اللہ پاک نے تم پر رمضان کے روزے فرض کیے ہیں اور اس کا قیام تم پر فرض نہیں کیا بے شک قیام وہ شئے ہے کہ جس کا آغاز تم لوگوں نے خود کیا پس اب اس پر ہمیشگی اختیار کرو اور اسے مت چھوڑو کیونکہ بنی اسرائیل میں سے کچھ لوگ تھے جنھوں نے
                    ایک بدعت یعنی نئے کام کا آغاز کیا ۔ پھر اسے چھوڑنے کے سبب اللہ پاک نے انھیں عیب دار قرار دیا اس کے بعد آپ نے یہی آیت تلاوت کی۔۔

                    (الدر المنثور سورہ حدید آیت نمبر 27)
                    آپ دیکھ سکتے ہیں قارئین کرام کہ یہ تفسیر کس طرح کھل کر ہمارے مدعا کی دلیل بن رہی ہے ۔ کہ جس طرح بنی اسرائل نے رھبانیت کی بدعت خود ایجاد کی تھی اللہ پاک نے اس کا حکم نہیں دیا تھا بالکل اسی طرح اس آیت کی تفسیر میں یہ بتایا جارہا ہے کہ مومنون قیام رمضان اللہ پاک نے تم پر فرض نہیں کیا بلکہ تم نے خود اس کو اپنے اوپر لازم کیا ہوا ہے اب اس کو نہ چھوڑنا کیونکہ تم سے پہلے قوم بنی اسرائل بھی یہ کرچکی ہے کہ رھبانیت اپنا کر پھر اس کے تقاضوں کو بھول گئی جس پر اللہ پاک کی ناراضگی ہوئی ان لوگوں پر اور پھر تفسیر کرنے والے سورہ حدید کی مزکورہ آیت لوگوں پر تلاوت کی۔ قارئین کرام اب تو آپ پر کھل کر واضح ہوگیا ہوگا کہ ہم اس تفسیر کے بیان کرنے میں منفرد نہیں ہیں بلکہ امام جلال الدین سیوطی بھی ہمارے ساتھ ہیں لیکن اگر باذوق صاحب کی اب بھی تسلی نہ ہوئی ہو تو ہم تفسیر تبیان القرآن کے حوالہ سے چاروں مسالک کی نمائندہ تفاسیر کا حوالہ اپنی بات کی مزید تائید میں پیش کریں گے ۔ ۔ ۔




                    علامہ سمرقندی حنفی کی تفسیر

                    علامہ ابواللیث نصر بن محمد سمر قندی متوفی ۳۷۵ اپنی تفسیر بحر العلوم میں فرماتے ہیں کہ اس آیت میں یہ دلیل ہے اور مومنوں کو یہ تنبیہ ہے کہ جس شخص نے اپنے نفس پر کسی ایسے کام کو واجب کیا جو اس پر پہلے واجب نہ تھا تو اس پر لازم ہے کہ وہ اس کام کو کرے اور ترک نہ کرے ورنہ فاسق کہلائے گا اور بعض صحابہ نے یہ کہا کہ تم پر تراویح کا پورا کرنالازم ہے کیونکہ یہ پہلے تم پر واجب نہ تھی تم نے خود اس کو اپنے اوپر واجب کیا اگر تم نےاس کو ترک کیا تو تم فاسق ہوجاو گے پھر انھون نےا س آیت کی تلاوت کی۔

                    علامہ قرطبی مالکی متوفی ۶۶۸ کی تفسیر
                    علامہ قرطبی مالکی اپنی تفسیر الجامع الاحکام القرآن میں فرماتے ہیں کہ یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ہر نیا کام بدعت ہے اور جو شخص کسی بدعت حسنہ کو نکالے اس پر لازم ہے کہ وہ اس پر ہمیشہ برقرار رہے اور اس بدعت کی ضد کی طرف عدول نہ کرے ورنہ وہ اس آیت کی وعید میں داخل ہوجاے گا۔۔ اس کے بعد علامہ نے وہی سارا واقعہ جو کہ ہم نے اوپر تفسیر الدرالمنثور کے حوالے سے نقل کردیا ہے اسے ہی بیان کیا ہے طوالت کے خوف سے ہم اسے یہاں حذف کرتے ہیں ۔
                    علامہ رومی حنفی متوفی ۸۸۰

                    اسی آیت کی تفسیر کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ مخلوق جو بدعت کا ارتکاب کرتی ہے اگر وہ اللہ اور اس کے رسول کے احکام کے خلاف ہو تو وہ مذموم اور منکر ہے اور اگر وہ ان احکامات کے تحت ہو جنھیں اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مستحب قرار دیا ہے تو بدعت مستحبہ ہے خواہ اسکی مثال پہلے موجود نہ ہو اور یہ افعال محمودہ میں سے ہے کیونکہ رسول پاک نے فرمایا جس نے نیک طریقہ ایجا د کیا ا سکو اپنے طریقہ کا بھی اجر ملے گا اور اس پر عمل کرنے والوں کا بھی اجر ملے گا


                    علامہ سید محمود آلوسی حنفی متوفی ۱۲۷۰

                    اپنی تفسیر روح المعانی میں اسی آیت کے تحت رقم طراز ہیں کہ اس آیت میں یہ مذکور نہیں کہ مطلقا بدعت مذموم ہے بلکہ مذمت اس بات کی فر مائی گئی ہے کہ انھوں نے اللہ کی رضا کی طلب میں ایک بدعت کو اخیار کیا پھر اسکی رعایت نہیں کی ۔

                    علامہ ابن جوزی حنبلی
                    لکھتے ہیں کہ اللہ پاک نے جو یہ فرمایا کہ ہم نے رہبانیت کو ان پر فرض نہ کیا اس کے دومعنی ہیں
                    ایک یہ کہ جب لوگ نفلی طور پر رھبانیت میں داخل ہوئے تو ہم نے ان پر اس کو فرض نہ کیا مگر اللہ کی رضا کو طلب کرنے کے لیے حسن بصری نے کہا کہ انھوں نے نفلی طور پر اس بدعت کو اختیار کیا پھر اللہ پاک نے ان پر اس بدعت کو فرض کردیا الزجاج نے کہا کہ جب انھون نے نفلی طور پر اس بدعت کو اختیار کیا تو اللہ نے ان پر اس کو لازم کردیا جیسے کوئی شخص نفلی روزہ رکھے تو تو اس پر لازم ہے کہ وہ اس کو پورا کرے ۔ قاضی ابو یعلٰی نے کہا کہ کسی بدعت کو قول سے بھی اختیار کیا جاتا ہے جیسے کسی کا کسی نفلی عبادت کی نذر ماننا اور فعل سے بھی بدعت کو اختیار کیا جاتا ہے اور اس آیت کا عموم دونوں قسموں کو شامل ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ ہر وہ شخص جو کسی عبادت کی اپنے قول یا فعل سے بدعت نکالے اس پر اسکی رعایت کرنا اور اس کو پورا کرنا لازم ہے ۔
                    دوسرا قول یہ ہے کہ ہم نے ان کو صرف اس کا م کا مکلف کیا تھا کہ جس سے اللہ پاک راضی ہو۔۔۔۔۔

                    (بحوالہ تفسیر تبیان القرآن از علامہ غلام رسول سعیدی)

                    ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

                    Comment


                    • #70
                      یہ تھے محترم باذوق صاحب کے پیش کردہ اب تک کے اعتراضات ان میں سے ہم نے بعض کا تفصیلی اور بعض کا جزوی طور پر جواب دیا اور محترم باذوق صاحب کے اکثر اعتراضات کا جواب چونکہ ہمارے پیش کردہ دلائل کے عموم میں آگیا ہے اس لیے ہم نے بعض جگہوں کو صرف اس لیے نظر انداز کیا طوالت کی وجہ سے قارئین کہیں اُکتا نہ جائیں اس کے بعد بھی جو اعتراضات باذوق صاحب مزید فرمائیں گے ہم انکے جوابات کے لیے ہمہ وقت حاضر ہیں ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ والسلام آپ سب کا خیر اندیش عابد عنائت
                      ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

                      Comment


                      • #71
                        Originally posted by aabi2cool View Post


                        آپکے اس عجیب و غریب مقولے کی مضحکہ خیزی پر کوئی بھی صاحب فھم آدمی آپ کو داد دیئے بغیر نہ رہ سکے گا کہ عجب مضحکہ خیزی ہے کہ ایک چیز جو کہ دین ہو اور اس کو حاصل کرنے کے لیے یا اس تک پہنچنے کے لیے جو زریعہ استعمال کیا جائے وہ دین نہ ہو بلکہ اس کا غیر ہو
                        app ka bi jowab naeen, bacha bacha janta hay key jis tarah Quran key tarjumay ko Quran naeen kaha jata is tarah Deen ko samjnay walay asolon ko deen naeen kaha jata
                        پہلی بات تو یہ ہے
                        کہ دینی اور دنیاوی کی یہ تفریق بذات خود تعریف کی محتاج ہے
                        herat hay app ko yeh bi aj tak naeen pata key jis ka hukam Hazoor PBUH ney dia wo to deen main ata hay baki naeen , so simple
                        app ko islamiat kis nay perhai thee

                        کہ کن کن امور کو دینی اور کن کن امور کو دنیاوی کہا گیا ہے
                        اور اگر کہا بھی گیا ہے تو کن معنوں میں کہا گیا ہے ۔ عجیب بات ہے کہ ایک طرف تو جب ہم دین اسلام کی تبلیغ کرتے ہیں تو یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ دین اسلام ایک عالمگیر اور ہمہ جہت دین ہے کہ جس میں قیامت تک کہ *آنے والے تمام مسائل کا حل ہے چاہے وہ کسی بھی عنوان کے تحت ہوں اور یہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور دوسری طرف جب ہمیں آپس کے مسائل میں کہیں ایک دوسرے سے اختلاف ہوجائے تو ہم دین اور دنیا کو الگ الگ گرداننے لگتے ہیں ایں چہ بوالعجبی است؟
                        مجھے آپ یہ بتائیں کہ آخر وہ کون سے امور ہیں کہ جن کے بارے میں دین ہماری رہنمائی نہیں کرتا یہاں تو سوئی سے لیکر کپڑا کی تیاری تک جوتا پہننے سے لیکر مرنے تک بلکہ اس سے بھی بعد قبر میں دفنانے اور پھر خود قبر کے بارے میں بھی آداب و احکامات موجود ہیں آپ کس کس چیز کو دین اور دنیا کی
                        تقسیم قرار دے کر اپنی جان چھڑائیں گے ۔
                        pir wohi cheeze kisi baat sey koi mafhoom akhas kerna and baat ka khud honay main difference hay key naeen
                        Last edited by tauruskhan; 14 April 2008, 09:07.
                        People should not be afraid of their governments. Governments should be afraid of their people

                        Comment


                        • #72
                          app ka bi jowab naeen, bacha bacha janta hay key jis tarah Quran key tarjumay ko Quran naeen kaha jata is tarah Deen ko samjnay walay asolon ko deen naeen kaha jata

                          محترم جناب یہ تو ٹھیک ہے کہ قرآن کا ترجمہ قرآن نہیں ہے لیکن یہ درست نہیں ہے کہ قرآن کا ترجمہ کرنا بے دینی ہے اب آپ ہی بتائیے کہ آیا جن لوگوں نے قرآن پاک کا ترجمہ لکھا کیا انھوں نے بے دینی کاکام کیا؟


                          herat hay app ko yeh bi aj tak naeen pata key jis ka hukam Hazoor PBUH ney dia wo to deen main ata hay baki naeen , so simple
                          app ko islamiat kis nay perhai thee


                          pir wohi cheeze kisi baat sey koi mafhoom akhas kerna and baat ka khud honay main difference hay key naeen
                          ۔

                          بہت خوب جناب اور آپ کی دین کی تعریف کرنے پر بھی میں قربان جاؤں واہ کیا بات ہے کہ جس چیز کا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیں صرف وہ دین ہے آپ کے اس فتوٰی کی رو سے اول تو خود قرآن بھی دین سے نکل گیا(معاذاللہ) کیوں کہ وہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم بحر حال نہیں ہے بلکہ اللہ کاحکم ہے اور دوسرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کجے اعمال بھی آپ کے اس فتوٰی کی رو سے معاذاللہ ثم معاذ اللہ دین سے نکل گئے کیون کہ عمل بحر حال حکم سے علیحدہ شئے کا نام ہے کیا بات ہے آپ کی دین فہمی کی محترم جناب اللہ اسی فہم سے سب کو اپنی امان میں رکھے کہ دین کو صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے ساتھ مختص کردیا ۔ ۔ ۔ اب آپ کیا یہ بتا سکتے ہیں کہ خود قرآن پاک کو اور اعمال رسول پاک کو اور اس کے بعد صحابہ کرام اور جمیع امت کے ان انفرادی اعمال کو کہ جن پر کوئی حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نہیں ہے کیسے دین ثابت کیا جائے گا جواب مطلوب ہے جلد از جلد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
                          ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

                          Comment


                          • #73
                            Originally posted by aabi2cool View Post
                            محترم جناب یہ تو ٹھیک ہے کہ قرآن کا ترجمہ قرآن نہیں ہے لیکن یہ درست نہیں ہے کہ قرآن کا ترجمہ کرنا بے دینی ہے اب آپ ہی بتائیے کہ آیا جن لوگوں نے قرآن پاک کا ترجمہ لکھا کیا انھوں نے بے دینی کاکام کیا؟
                            just for an example
                            aap aik research paper likhtay haan and main us ka tarjuma kerta hoon
                            to kia main keh sakta hoon main ney research work kia



                            بہت خوب جناب اور آپ کی دین کی تعریف کرنے پر بھی میں قربان جاؤں واہ کیا بات ہے کہ جس چیز کا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیں صرف وہ دین ہے آپ کے اس فتوٰی کی رو سے اول تو خود قرآن بھی دین سے نکل گیا(معاذاللہ) کیوں کہ وہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم بحر حال نہیں ہے بلکہ اللہ کاحکم ہے

                            quran app ko direct mila ya Hazoor PBUH key through
                            اور دوسرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کجے اعمال بھی آپ کے اس فتوٰی کی رو سے معاذاللہ ثم معاذ اللہ دین سے نکل گئے

                            ager sabit ho jaey key wakey wo Hazoor PBUH ney wo amal key they wo wo bi hukam main shumar hotay haan
                            کیون کہ عمل بحر حال حکم سے علیحدہ شئے کا نام ہے کیا بات ہے آپ کی دین فہمی کی محترم جناب اللہ اسی فہم سے سب کو اپنی امان میں رکھے کہ دین کو صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے ساتھ مختص کردیا ۔ ۔ ۔ اب آپ کیا یہ بتا سکتے ہیں کہ خود قرآن پاک کو اور اعمال رسول پاک کو اور اس کے بعد صحابہ کرام اور جمیع امت کے ان انفرادی اعمال کو کہ جن پر کوئی حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نہیں ہے کیسے دین ثابت کیا جائے گا جواب مطلوب ہے جلد از جلد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
                            jowab dia ja chuka hay oper
                            People should not be afraid of their governments. Governments should be afraid of their people

                            Comment


                            • #74
                              Originally posted by tauruskhan View Post
                              just for an example
                              aap aik research paper likhtay haan and main us ka tarjuma kerta hoon
                              to kia main keh sakta hoon main ney research work kia

                              [/color][/size][/color][/size]
                              quran app ko direct mila ya Hazoor PBUH key through
                              [/color][/size]
                              ager sabit ho jaey key wakey wo Hazoor PBUH ney wo amal key they wo wo bi hukam main shumar hotay haan
                              [size=5][color=#000000]
                              jowab dia ja chuka hay oper
                              انا للہ وانا علیہ راجعون
                              ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

                              Comment


                              • #75
                                اسلام علیکم معزز قارئین کرام آج سے ہم محترم باذوق صاحب کے مزید اعتراضات کا جواب دینا شروع کریں گے اور طریقہ کار وہی سابقہ ہوگا کہ بازوق صاحب کےا عتراضات کو کوٹ کرکے سرخ رنگ سے نمایان کردیا جائے گا اور پھر نیچے جواب دیا جائے گا۔



                                ذرا یہ بھی عرض فرما دیجئے کہ وہ کون سے فقہاء ہیں جنہوں نے کہا ہے کہ : اصل تمام اشیاءمیں اباحت ہے ۔

                                ممکن ہے احناف کے کچھ بزرگ ، اشیاء میں اباحت کے قائل ہوں ، لیکن ہم دعوے سے کہتے ہیں کہ جمھور فقہاء احناف کا موقف :

                                اشیاء میں توقف کا ہے




                                !





                                تو جی محترم باذوق صاحب صرف در مختار کے ایک قول کی بنا پر آپ کا جمہور فقہاء کی بابت اشیاء میں اصل تؤقف کا قول کرنا کیا امانت و دیانت کا گلہ دبانے کے مترادف نہیں ؟ چلیئے خیر چھوڑیے آئے ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ جمہور کا مسلک کیا ہے؟

                                اصلا تمام اشیاء میں اباحت ہے۔

                                جمہور حنفیہ ، شافعیہ ، ظاہریہ ،بعض حنابلہ اور معتزلہ میں سے ابو ھاشم اور جبائی کے نزدیک اصل تمام اشیاء میں اباحت ہے ۔
                                (بخاری کشف الاسرار بحوالہ الحکم الشرعی ڈاکٹر طاہر القادری)
                                امام ابن ہمام فرماتے ہیں کہ :المختار الاباحۃ عند جمھور الحنفیۃ والشافعیۃ ۔
                                کہ جمہور احناف اور شافعیہ کا مسلک مختار اباحت ہی ہے ۔
                                (ابن ہمام ۔ ابن عابدین بحوالہ الحکم الشرعی)
                                علامہ محب اللہ بہاری رقم طراز ہیں کہ یہاں افعال میں بھی اباحت اصلیہ کو فقہاء کی اکثریت کا قول اور مذہب مختار قرار دیا گیا ہے احناف اور شوافع کی اکثریت کے ہاں یہی قول مختار ہے ۔
                                (بہاری مسلم الثبوت بحوالہ الحکم الشرعی)


                                اباحت اصلیہ اور مفسرین

                                امام رازی متوفی 606ھ فرماتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چاہیے کہ تمام چیزوں کو ہر وقت اور ہر حال میں کھانا جائز ہو مگر جس کو کسی دلیل شرعی نے حرام کردیا ہو اور عقل بھی اسکی مؤید ہو کیونکہ اصل تمام منافع میں حلت و اباحت ہے
                                (تفسیر کبیر ج4 ص201)
                                علامہ بیضاوی سورہ الاعراف کی آیت نمبر32 کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس آیت یعنی ؛؛قل من حرم زینۃاللہ التی ؛؛ میں یہ دلیل ہے کہ کھانے پینے اور پہننے کی اچھی چیزوں میں اباحت اصل ہے ۔
                                (تفسیر بیضاوی ج3 ص17)
                                امید کرتا ہوں اتنے حوالاجات کافی ہونگے ورنہ متقدمین ، متاخرین اور معاصرین تمام فقہاء کرام نے اس مسئلہ پر بہت کچھ لکھا ہے جس نے دیکھنا ہو متعلقہ موضوع سے متعلق کتابوں سے رجوع کیا جاے ۔


                                اس دعوے کی دلیل بھی ملاحظہ فرما لیں :
                                ان الصیح من مذھب اھل السنة ان الاصل فی الاشیاء التوقف والاباحة رائی المعتزلة
                                بلاشبہ اہل سنت کا خالص اور صحیح مسلک یہ ہے کہ اشیاء میں اصل توقف ہے اور اباحت کا قول معتزلہ کی رائے ہے۔
                                بحوالہ:
                                الدر المختار مع الرد المختار ، ج:4 ، ص:


                                161



                                در مختار کی اس عبارت کو آپ سے پہلے علامہ سرفراز خان صفدر بھی پیش کر چکے ہیں جن کے جواب میں علامہ غلام رسول سعیدی صاحب نے تو ضیح البیان میں جو کچھ فرمایا وہ ہم یہان بھی ہدیہ قارئین کرتے ہیں ۔۔
                                در مختار کی یہ عبارت قطعا باطل اور مردود ہے علامہ شامی نے رد المحتار میں اس کا چار وجوہ سے رد کیا ہے اور پٹے ہوئے مہروں کو میدان استدلال میں پیش کرنا گھکھڑ کے غازیوں سے ہی متصور ہوسکتا ہے ہم ذیل میں اس عبارت کے بطلان کی صرف چوتھی وجہ پیش کرتے ہیں ۔
                                اباحت کی نسبت معتزلہ کی طرف کرنا کتب اصول کے مخالف ہے کیونکہ امام ابن ہمام تحریر فرماتے ہیں جمہور حنفیہ اور شافعیہ کا مسلک اباحت ہے اور علامہ اکمل نے شرح بزدوری میں فرمایا کہ ہمارے اکثر اصحاب (احناف)اور اکثر شوافع کا مذہب یہ ہے کہ اشیاء میں ورود شرع سے پہلے اباحت تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
                                باقی اس عبارت کو نقل کرکے آپ نے جو امام احمد رضا خان صاحب کا تبصرہ پیش کیا ہے وہ بھی سرا سر مغالطہ آفرینی کی ایک کوشش اور نفس مسئلہ سے توجہ ہٹانے کی ایک سازش کہلا سکتی ہے اور خلط مبحث ہے ۔
                                اول تو امام صاحب کا کسی کتاب کی تعریف کردینے سے یہ ہر گز نہیں ثابت ہوتا کہ اس فلاں کتاب کی ہر ہر عبارت پر ایمان لانا فرض عین ہوگیا ہے اور ثانیا ہمارے احناف کے ہاں در مختار پر حاشیہ رد المختار کو فوقیت حاصل ہے اور خود امام صاحب کا قول ہے کہ انھوں نے فرمایا تھا کہ در مختار پر کسی کا قول جائز نہیں بجز علامہ شامی کے ۔ ۔ (اصل عبارت فتاوی رضویہ کی جلد 17 صفحہ نمبر253 پر ہے )تو اوپر ہم ثابت کر آئے کہ علام شامی نے در مختار کی متذکرہ عبارت کا چار وجوہ سے رد کیا ہے ۔اور اگر ایسا نہ بھی ہو تو اکیلے در مختار اور ایک آدھ حوالہ سے جمہور کے مسلک کی نفی تو نہیں نا کی جاسکتی ۔۔۔۔


                                اور ۔۔۔۔۔۔
                                کیا آبی ٹو کول صاحب یہ تسلیم فرمانا پسند فرمائیں گے کہ : جو انہوں نے "اشیاء میں اباحت" کا قول یہاں پیش فرمایا ہے ، وہ بقول "درمختار" کیا انہوں نے گمراہ فرقہ "معتزلہ" سے ادھار مانگا ہے؟؟

                                محترم جناب باذوق صاحب یہ بھی آپ نے خوب کہی کیا آج ہم سچ بولنا صرف اسی وجہ سے چھوڑ دیں کہ فلاں فلاں مشرک قومیں بھی سچ بولنے لگی ہیں کیا ہم اللہ کو ایک ماننا اس لیے چھوڑ دیں کہ معتزلہ بھی اللہ کو ایک مانتے ہیں امید کرتا ہوں آپ کو آپ کے سوال کا جواب مل گیا ہوگا ۔





                                حقیقت تو یہ ہے کہ حلال و حرام میں اصل اباحت ہے !!


                                دلیل میں ابوداؤد کی حدیث ملاحظہ فرمائیں

                                :



                                محترم آپ سے آپ کے اس قول کی وضاحت مطلوب ہے کہ حلال و حرام میں اصل اباحت ہے سے آپکی کیا مراد ہے ۔ یعنی حلال تو وہ ہے جسے اللہ یا رسول نے حلال قرار دے دیا اور حرام وہ ہے جسے قرآن و سنت حرام قرار دیں باقی رہ گئی ایسی اشیاء کہ کہ جن کے بارے میں کوئی حکم نہیں تو ایسی اشیاء میں اباحت کے تو ہم بھی قائل ہیں تو پھر ہمارا اور آپکا اختلاف کیا رہ گیا لہذا آپ یہ واضح کریں کہ آپ یہاں کیا کہنا چاہ رہے ہیں حلال تو حلال ہوتا ہے اور حرام حرام ہوتا ہے حلال و حرام میں اباحت کیسی اباحت تو غیر منصوص احکامات میں ہوتی ہے بحر حال آپ خود ہی اپنے قول کی وضاحت فرمائیں۔
                                معزز قارئین کرام آپ نے دیکھ لیا کہ ہم نے مسئلہ بدعت کو بالکل نکھار کر پیش کردیا اور مخالفین کت قریبا تمام ایسے اعتراضات جو کہ علمی تھے ان کے جوابات بھی دے دیئے اور الٹا ہم نے قرآن و سنت سے استدلا ل کرکے اس مسئلہ کو پہلے خود قرآن سے پھر سنت سے پھر سنت صحابہ سے اور پھر اقوال سلف وصالحین سے مبرہن کردیا جب کے مخالفین سے ہماری کسی دلیل کا مستقل رد نہ ہوسکا۔ ھذا من فضل ربی ۔
                                ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

                                Comment

                                Working...
                                X