Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

bidat sey bachain

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #31
    Re: bidat sey bachain

    Originally posted by tauruskhan View Post
    ager app history perain to wo fatiya pertay they, jo key bertay bertay first quran khani then fatiya bana
    then change hotey hoey quran khani for isaley swab ban gia and part of islam kaha janey laga
    Nah Bhai maine ajj tak aise koi baat nahi pari.
    :donno:
    Hum tu yeh jantay hain Isal-e-Sawab karna Buhat Acha tareeqa hai Islam main aur hum karte rahai gay kisi ko acha lagai ya nah. :dua

    Comment


    • #32
      Re: bidat sey bachain

      Originally posted by Revolution View Post
      Nah Bhai maine ajj tak aise koi baat nahi pari.
      :donno:
      Hum tu yeh jantay hain Isal-e-Sawab karna Buhat Acha tareeqa hai Islam main aur hum karte rahai gay kisi ko acha lagai ya nah. :dua
      do you know
      any thing will be called islamic or in islam
      if it have references from Quran o hadees

      ager koi kahee , tv dehkna aik islamic rasam hay and is sey swab milta hay and main yeh dehkoon ga and swab hasil karoon ga and kisi ko bora lagta hay to lagta rahey

      to app kia kaheen ga
      People should not be afraid of their governments. Governments should be afraid of their people

      Comment


      • #33
        Re: bidat sey bachain

        Originally posted by tauruskhan View Post
        do you know
        any thing will be called islamic or in islam
        if it have references from Quran o hadees

        ager koi kahee , tv dehkna aik islamic rasam hay and is sey swab milta hay and main yeh dehkoon ga and swab hasil karoon ga and kisi ko bora lagta hay to lagta rahey

        to app kia kaheen ga
        Woh tu uss ki marzi hai main kia kar sakta hoon per uss ko kahoon its not good.
        But ISAL-e-SAWAB IS GOOD

        Comment


        • #34
          Re: bidat sey bachain

          hmmmmmm

          Comment


          • #35
            Re: bidat sey bachain

            Closed
            ya Allah sab ko apney hifz-o-amaan main rakh

            Comment


            • #36
              Re: bidat sey bachain

              اسلام علیکم پیغام ۔
              ٹارس خان بھائی نے یہاں پر قرآن خوانی کو بدعت قرار دیتے ہوئے اس سے منع فرمایا جس پر میں نے ان سے عرض کی کہ بھائی دیکھیے اس مسئلہ کو نہ چھیڑیئے بحث ہوجائے گی اور پھر جس کا جو دل چاہے گا وہ کہتا رہے گا اور وہی ہوا جس کا مجھے ڈر تھا اب چونکہ اس مسئلہ نے ایک خاص صورت اختیار کرلی ہے لہذا یہاں کے اسلام سیکشن کا موڈ ہونے کے ناطے یہ میری زمہ داری ہے کہ اس پر وارد شبہات کا ازالہ کروں ۔
              سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ٹارس خان بھائی خود اس مسئلہ میں الجھن کا شکار ہیں اور ان کے زہن میں جوبھی شبہات ہیں وہ گڈ مڈ ہوگئے ہیں اس لیے وہ کسی بھی ایک اعتراض کی
              حقیقت کا ادراک ہی نہیں کرپارہے اس لیے کبھی وہ قرآن خوانی کو بدعت کہتے کبھی کہتے ہیں کہ اس طرح سے قرآن خوانی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں نہیں ہوئی کبھی ان کو مردوں کے ثواب پہنچنے کے حوالہ سے خدشہ لاحق ہوتا ہے کبھی کہتے ہیں کہ قرآن پڑھنا تو ٹھیک ہے لیکن اس کو لوگ ضروری سمجھ کر رسم بنا لیتے ہیں یہ غلط ہے وغیرہ وغیرہ چونکہ ان کا اصل اعتراض اس مسئلہ کے بدعت ہونے کے برے میں ہے لہذا میں سب سے پہلے تصور بدعت کی وضاحت قرآن و سنت اور پھر ائمہ امت کی تصریحات کے مطابق پیش کرنا چاہوں گا۔

              تصور بدعت از روئے قرآن و سنت و تصریحات ائمہ
              اسلام ایک آسان، واضح اور قابل عمل نظام حیات ہے۔ یہ چونکہ انسانی فطرت کے عین مطابق ہے لہذا اسکے دامن میں کسی قسم کی کوئی تنگی ، جبر یا محدودیت نہیں ہے۔ یہ قیامت تک پیش آنے والے علمی و عملی،مذہبی و روحانی اور معاشی و معاشرتی تمام مسائل کا حل پیش کرتا ہےاگر کسی مسئلے کا حل براہ راست قرآن و سنت میں نا ہو تو اس کا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ وہ بدعت گمراہی اور حرام و ناجائز ہے کیونکہ کہ کسی مسئلہ کا ترک زکر اسکی حرمت کی دلیل نہیں ہوا کرتا بلکہ یہ حلت و اباحت کی دلیل ہے۔
              کسی بھی نئے کام کی حلت و حرمت جاننے کا صائب طریقہ یہ ہے کہ اسے قرآن و سنت پر پیش کیا جائے اگر اس کا شریعت کے ساتھ تعارض یعنی ٹکراؤ ہوجائے تو بلا شبہ بدعت سئیہ اور حرام و ناجائز کہلائے گا لیکن اگر اسکا قرآن و سنت کے کسی بھی حکم سے کسی قسم کا کوئی تعارض یا تصادم لازم نہ آئے تو محض عدم زکر یا ترک زکر کی وجہ سے اسے بدعت سئیہ اور ناجائز اور حرام قرار دینا قرار دینا ہرگز مناسب نہیں بلکہ یہ بذات خود دین میں ایک احداث اور بدعت سئیہ کی ایک شکل ہے اور یہ گمراہی ہے جو کہ تصور اسلام اور حکمت دین کے عین منافی اور اسلام کے اصول حلال و حرام سے انحراف برتنے اور حد سے تجاوز کرنے کے مترادف ہےایک بار جب اسی قسم کا سوال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔۔۔
              حلال وہ ہے جسے اللہ نے قرآن میں حلال ٹھرایا اور حرام وہ ہے جسے اللہ نے قرآن میں حرام ٹھرایا رہیں وہ اشیا ء کہ جن کے بارے میں کوئی حکم نہیں ملتا تو وہ تمہارے لیے معاف ہیں۔ جامع ترمزی جلد 1 ص 206
              مذکورہ بالا حدیث میں وما سکت عنہ فھو مما عفا عنہ کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ شارع نے جن کا زکر نہیں کیا وہ مباح اور جائز ہیں لہذا محض ترک زکر سے کسی چیز پر حرمت کا فتوٰی نہیں لگایا جاسکتا ۔ اللہ پاک نے قرآن مجید میں ایسے لوگوں کی مذمت بیان کی ہے جو اپنی طرف سے چیزوں پر حلت و حرمت کے فتوےصادر کرتے رہتے ہیں لہذا ارشاد باری تعالی ہے۔۔
              اور وہ جھوٹ مت کہا جو تمہاری زبانیں بیان کرتیں ہیں کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام اس طرح کے تم اللہ پر بہتان باندھو بے شچک وہ لوگ جو اللہ پر بہتان باندھتے ہیں کبھی فلاح نہیں پاسکتے۔ النحل 116۔
              کتنے افسوس کی بات ہے کہ دین دینے والا لااکراہ فی الدین اور یریداللہ بکم الیسر فرما کر دین میں آسانی اور وسعت فرمائے اور دین لینے والا نبی صلی اللہ علیہ وسلم وما سکت عنہ فھو مما عنہ فرما کر ہمارے دائرہ عمل کو کشادگی دے مگر دین پر عمل کرنے والے اپنی کوتاہ فہمی اور کج فہمی کے باعٹ چھوٹے چھوٹے نزاعی معاملات پر بدعت و شرک کے فتوے صادر کرتے رہیں۔ ہماری آج کی اس گفتگو میں ہم اسلام کے تصور بدعت اور اسکی شرعی حیثیت کا خود قرآن و سنتاور ائمہ کرام کے اقوال سے جائز پیش کریں گے کیونکہ میںسمجھتا ہوں کہ اگر تصور بدعت لوگوں کو سمجھ میں آجائے تو بہت سے باہمی نزاعات کا حل خود بخود واضح ہوجاتا ہے لہذا میں نے اس موضوع پر قلم اٹھانے کا فیصلہ کیا لیکن مجھے اپنی کم علمی اور بے بضاعتی کا انتہائی حد تک احساس ہے لہذا میں ائمہ دین کی کتب سے ہی اس تصور کو واضح کرنے کی کوشش کروں گا تو آئیے سب سے پہلے دیکھتے ہیں کے لفظ بدعت عربی لغت میں کن معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔
              بدعت کا لغوی مفہوم
              بدعت عربی زبان کا لفظ ہے جو بدع سے مشتق ہے اس کا معنی ہے .اختر عہ وصنعہ لا علی مثال ۔ المنجد
              یعنی نئی چیز ایجاد کرنا ، نیا بنانا ، یا جس چیز کا پہلے وجود نہ ہو اسے معرض وجود میں لانا۔
              جس طرح یہ کائنات نیست اور عدم تھی اور اس کو اللہ پاک نے غیر مثال سابق عدم سے وجود بخشا تو لغوی اعتبار سے یہ کائنات بھی بدعت کہلائی اور اللہ پاک بدیع جو کہ اللہ پاک کا صفاتی نام بھی ہے ۔اللہ پاک خود اپنی شان بدیع کی وضاحت یوں بیان کرتا ہے کہ۔
              بدیع السموات والارض۔۔۔الانعام 101
              یعنی وہ اللہ ہی زمین و آسمان کا موجد ہے اس آیت سے واضح
              ہو ا کہ وہ ہستی جو کسی ایسی چیز کو وجود عطا کرے جو کہ پہلے سے موجود نہ ہو بدیع کہلاتی ہے بدعت کے اس لغوی مفہوم کی وضاحت قرآن پاک کے اس ارشاد سے بھی ہوتی ہے کہ۔۔
              قل ماکنت بدعا من الرسل۔الاحقاف 46
              یعنی آپ فرمادیجیے کہ میں کوئی نیا یا انوکھا رسول تو نہیں ۔
              مندرجہ بالا قرآنی شہادتوں کی بنا پر یہ بات عیاں ہوگئی کہ کائنات کی تخلیق کا ہر نیا مرحلہ اللہ پاک کے ارشاد کے مطابق بدعت کہلاتا ہے جیسا کہ فتح المبین شرح اربعین نووی میں علامہ ابن حجر مکی بدعت کے لغوی مفہوم کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ بدعت لغت میں اس نئے کام کو کہتے ہیں جس کی مثال پہلے موجود نا ہو جس طرح قرآن میں شان خداوندی کے بارے میں کہا گیا کہ آسمان اور زمین کا بغیر کسی مثال کے پہلی بار پید اکرنے والا اللہ ہے۔بیان المولود والقیام 20۔
              بدعت کا اصطلاحی مفہوم
              اصطلاح شرع میں بدعت کا مفہوم واضح کرنے کے لیے ائمہ فقہ و حدیث نے اس کی تعریف یوں کی ہے کہ۔
              ہر وہ نیا کام جس کی کوئی اصل بالواسطہ یا بلاواسطہ نہ قرآن میں ہو نہ حدیث میں ہو اور اسے ضروریات دین سمجھ کر شامل دین کرلیا جائے یاد رہے کہ ضروریات دین سے مراد وہ امور ہیں کہ جس میں سے کسی ایک چیز کا بھی انکار کرنے سے بندہ کافر ہوجاتا ہے۔
              ایسی بدعت کو بدعت سئیہ کہتے ہیں اور بدعت ضلالہ کہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پاک کل بدعة ضلالة سے بھی یہی مراد ہے ۔
              کیا ہر نیا کام ناجائز ہے ؟
              ایسے نئے کام کہ جن کی اصل قرآن و سنت میں نہ ہو وہ اپنی اصل کے اعتبار سے تو بدعت ہی کہلائیں گےمگر یہاں سوال یہ پیداہوتا کہ آیا از روئے شریعت ہر نئے کام کو محض اس لیے ناجائز و حرام قرار دیا جائے کہ وہ نیا ہے ؟
              اگر شرعی اصولوں کا معیار یہی قرار دیا جائے تو پھر دین اسلام کی تعلیمات اور ہدایات میں سے کم و بیش ستر فیصد حصہ ناجائز و حرام ٹھرتا ہےکیونکہ اجتہاد کی ساری صورتیں اور قیاس ، استحسان،استنباط اور استدلال وغیرہ کی جملہ شکلیں سب ناجائز و حرام کہلائیں گی کیونکہ بعینہ ان سب کا وجود زمانہ نبوت تو درکنار زمانہ صحابہ میں بھی نہیں تھا اسی طرح دینی علوم و فنون مثلا اصول، تفسیر ، حدیث ،فقہ و اصول فقہ اور انکی تدوین و تدریس اور پھر ان سب کوسمجھنے کے لیے صرف و نحو ، معانی ، منطق وفلسفہ اور دیگر معاشرتی و معاشی علوم جو تفہیم دین کے لیے ضروری اور عصر ی تقاضوں کے عین مطابق ابدی حیثیت رکھتے ہیں ان کا سیکھنا حرام قرار پائے گا کیونکہ اپنی ہیت کے اعتبار سے ان سب علوم و فنون کی اصل نہ تو زمانہ نبوی میں ملتی ہے اور نہ ہی زمانہ صحابہ میں انھیں تو بعد میں ضروریات کے پیش نظر علماء مجتہدین اسلام نے وضع کرلیا تھا ۔اور اگر آپ کو اسی ضابطے پر اصرار ہوتو پھر درس نظامی کی موجودہ شکل بھی حرام ٹھرتی ہے جو کہ بحرحال دین کو سمجھنے کی ایک اہم شکل ہے اوراسے اختیار بھی دین ہی سمجھ کر کیا جاتا ہے کیونکہ موجودہ شکل میں درس نظامی کی تدریس ، تدوین اور تفہیم نہ تو زمانہ نبوی میں ہوئی اور نہ ہی صحابہ نے اپنے زمانے میں کبھی اس طرح سے دین کو سیکھا اور سکھایا لہذا جب ہر نیا کام بدعت ٹھرا اور ہر بدعت ہی گمراہی ٹھری تو پھر لازما درس نظامی اور دیگر تمام امور جو ہم نے اوپربیان کیئے وہ سب ضلالت و گمراہی کہلائیں گے اسی طرح قرآن پاک کا موجودہ شکل میں جمع کیا جانا اس پر اعراب اور نقاط پھر پاروں میں اس کی تقسیم اور منازل میں تقسیم اور رکوعات اور آیات کی نمبرنگ اسی طرح مساجد مین لاوڈ اسپیکر کا استعمال مساجد کو پختہ کرنا اور انکی تزیئن و آرائش مختلف زبانوں میں خطبات اور اسی قسم کے جملہ انتظامات سب اسی زمرے میں آئیں گے۔
              غلط فہمی کے نتائج
              بدعت کا مندرجہ بالا تصور یعنی اس کے مفہوم سے ہر نئی چیز کو گمراہی پر محمول کرنا نہ صرف ایک شدید غلط فہمی بلکہ مغالطہ ہے اور علمی اور فکری اعتبار سے باعث ندامت ہے ا ور خود دین اسلام کی کشادہ راہوں کو مسدود کردینے کے مترادف ہے بلکہ اپنی اصل میں یہ نقطہ نظر قابل صد افسوس ہے کیونکہ اگر اسی تصور کو حق سمجھ لیا جائے تویہ عصر حاضر اور اسکے بعد ہونے والی تمام تر علمی سائنسی ترقی سے آنکھیں بند کر کے ملت اسلامیہ کو دوسری تمام اقوام کے مقابلے میں عاجز محض کردینے کی گھناونی سازش قرارپائے گی اور اس طریق پر عمل کرتے ہوئے بھلا ہم کیسے دین اسلام کو تمام ادیان باطلہ پر غالب کرنے اور اسلامی تہذیب وثقافت اور تمدن اور مذہبی اقدار اور نظام حیات میں بالا تری کی تمام کوششوں کو بار آور کرسکیں گے اس لیے ضروری ہے کہ اس مغالطے کو زہنوں سے دور کیا جائے اور بدعت کا حقیقی اور صحیح اسلامی تصور امت مسلمہ کی نئی نسل پر واضح کیا جائے ۔
              بدعت کا حقیقی تصوراحادیث کی روشنی میں
              حضرت عائشہ فرماتیں ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
              من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد ۔ البخاری والمسلم
              یعنی جو ہمارے اس دین میں کوئی ایسی بات پیدا کرے جو اس میں﴿یعنی دین میں سے ﴾ نہ ہو تو وہ رد ہے ۔
              اس حدیث میں لفظ احدث اور ما لیس منہ قابل غور ہیں عرف عام میں احدث کا معنی دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کرنا ہے اور لفظ ما لیس منہ احدث کے مفہوم کی وضاحت کر رہا ہے کہ احدث سے مراد ایسی نئی چیز ہوگی جو اس دین میں سے نہ ہو حدیث کے اس مفہوم سے زہن میں ایک سوال ابھرتا ہے کہ
              اگر احدث سے مراد دین میں کوئی نئی چیز پید اکرنا ہے تو پھر جب ایک چیز نئی ہی پیدا ہورہی ہے تو پھر یہ کہنے کی ضرورت کیوں پہش آئی کہ ما لیس منہ کیونکہ اگر وہ اس میں ہی تھی﴿یعنی دین کا حصہ تھی پہلے سے ہی ﴾تو اسے نیا کہنے کی ضرورت ہی نہ تھی اور جس کو نئی چیز کہہ دیا تو لفظ احدث زکر کرنے کے بعد ما لیس منہ کے اضافے کی ضرورت نہیں رہتی ۔ مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی بھی چیز ما لیس منہ میں﴿یعنی دین ہی میں سے ﴾ ہے تو وہ نئی یعنی محدثہ نہ رہی ۔ کیونکہ دین تو وہ ہے جو کمپلیٹ ہوچکا جیسا کے اکثر احباب اس موقع پر الیوم اکملت لکم دینکم کی آیت کا حوالہ دیتے ہیں اور اگر کوئی چیز فی الحقیقت نئی ہے تو پھر ما لیس منہ کی قید لگانے کی کیا ضرورت ہے کیونکہ نئی چیز تو کہتے ہی اسے ہیں کہ جس کا وجود پہلے سے نہ ہو اور جو پہلے سے دین میں ہو تو پھر لفظ احدث چہ معنی دارد؟
              مغالطے کا ازالہ اور فھو رد کا صحیح مفھہوم
              صحیح مسلم کی روایت ہے من عمل عملا لیس علیہ امرنا فھو رد مسلم شریف۔
              یعنی جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا کوئی امر موجود نہیں تو وہ مردود ہے ۔
              اس حدیث میں لیس علیہ امرنا سے عام طور پر یہ مراد لیا جاتا ہےکہ کو ئی بھی کام خواہ نیک یا احسن ہی کیوں نہ ہو مثلا میلاد النبی ،ایصال ثواب،وغیرہ اگر ان پر قرآن و حدیث سے کوئی نص موجود نہ و تو تو یہ بدعت او مردود ہیں ۔ یہ مفہوم سرا سر باطل ہے کیونکہ اگر یہ معنی لے لیا جائے کہ جس کام کہ کرنے کا حکم قرآن اور سنت میں نہ ہو وہ حرام ہے تو پھر مباحات کا کیا تصور اسلام میں باقی رہ گیا ؟ کیونکہ مباح تو کہتے ہی ا سے ہیں کہ جس کہ کرنے کا شریعت میں حکم نہ ہو ام المومنین کی پہلی روایت یعنی من احدث فی امرنا ھذا مالیس منہ فھو رد میں فھو رد کا اطلاق نہ صرف مالیس منہ پر ہوتا ہے اور نہ فقط احدث پر بلکہ اس کا صحیح اطلاق اس صورت میں ہوگا جب یہ دونوں چیزیں جمع ہوں گی یعنی احدث اور مالیس منہ یعنی مردود فقط وہی عمل ہوگا جو نیا بھی ہو اور اسکی کوئی سابق مثال بھی شریعت میں نہ ملتی ہو یا پھر اس کی دین میں کسی جہت سے بھی کوئی دلیل نہ بنتی ہو اور کسی جہت سے دین کا اس سے کوئی تعلق نظر نہ آتا ہو پس ثابت ہوا کہ کسی بھی محدثہ کے بدعت ضلالة ہونے کا ضابطہ دو شرائط کے ساتھ خاص ہے ایک یہ کہ دین میں اس کی کوئی اصل ، مثال یا دلیل موجود نہ ہو اور دوسرا یہ کہ وہ محدثہ نہ صرف دین کے مخالف ہو اور متضاد ہو بلکہ دین کی نفی کرنے والی ہو
              پہلی نشست میں فی الحال اتنا ہی ملتے ہیں بریک کے بعد..
              ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

              Comment


              • #37
                Re: bidat sey bachain

                O bhai g jo ap ny likha hay k naik bakhat olad os k liy dua karian..


                to wo Quran khani he hay----osy dua hee to kehty hain..

                Comment


                • #38
                  Re: bidat sey bachain

                  Originally posted by aabi2cool View Post
                  اسلام علیکم پیغام ۔
                  ٹارس خان بھائی نے یہاں پر قرآن خوانی کو بدعت قرار دیتے ہوئے اس سے منع فرمایا جس پر میں نے ان سے عرض کی کہ بھائی دیکھیے اس مسئلہ کو نہ چھیڑیئے بحث ہوجائے گی اور پھر جس کا جو دل چاہے گا وہ کہتا رہے گا اور وہی ہوا جس کا مجھے ڈر تھا اب چونکہ اس مسئلہ نے ایک خاص صورت اختیار کرلی ہے لہذا یہاں کے اسلام سیکشن کا موڈ ہونے کے ناطے یہ میری زمہ داری ہے کہ اس پر وارد شبہات کا ازالہ کروں ۔
                  سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ٹارس خان بھائی خود اس مسئلہ میں الجھن کا شکار ہیں اور ان کے زہن میں جوبھی شبہات ہیں وہ گڈ مڈ ہوگئے ہیں اس لیے وہ کسی بھی ایک اعتراض کی
                  حقیقت کا ادراک ہی نہیں کرپارہے اس لیے کبھی وہ قرآن خوانی کو بدعت کہتے کبھی کہتے ہیں کہ اس طرح سے قرآن خوانی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں نہیں ہوئی کبھی ان کو مردوں کے ثواب پہنچنے کے حوالہ سے خدشہ لاحق ہوتا ہے کبھی کہتے ہیں کہ قرآن پڑھنا تو ٹھیک ہے لیکن اس کو لوگ ضروری سمجھ کر رسم بنا لیتے ہیں یہ غلط ہے وغیرہ وغیرہ چونکہ ان کا اصل اعتراض اس مسئلہ کے بدعت ہونے کے برے میں ہے لہذا میں سب سے پہلے تصور بدعت کی وضاحت قرآن و سنت اور پھر ائمہ امت کی تصریحات کے مطابق پیش کرنا چاہوں گا۔

                  تصور بدعت از روئے قرآن و سنت و تصریحات ائمہ
                  اسلام ایک آسان، واضح اور قابل عمل نظام حیات ہے۔ یہ چونکہ انسانی فطرت کے عین مطابق ہے لہذا اسکے دامن میں کسی قسم کی کوئی تنگی ، جبر یا محدودیت نہیں ہے۔ یہ قیامت تک پیش آنے والے علمی و عملی،مذہبی و روحانی اور معاشی و معاشرتی تمام مسائل کا حل پیش کرتا ہےاگر کسی مسئلے کا حل براہ راست قرآن و سنت میں نا ہو تو اس کا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ وہ بدعت گمراہی اور حرام و ناجائز ہے کیونکہ کہ کسی مسئلہ کا ترک زکر اسکی حرمت کی دلیل نہیں ہوا کرتا بلکہ یہ حلت و اباحت کی دلیل ہے۔
                  کسی بھی نئے کام کی حلت و حرمت جاننے کا صائب طریقہ یہ ہے کہ اسے قرآن و سنت پر پیش کیا جائے اگر اس کا شریعت کے ساتھ تعارض یعنی ٹکراؤ ہوجائے تو بلا شبہ بدعت سئیہ اور حرام و ناجائز کہلائے گا لیکن اگر اسکا قرآن و سنت کے کسی بھی حکم سے کسی قسم کا کوئی تعارض یا تصادم لازم نہ آئے تو محض عدم زکر یا ترک زکر کی وجہ سے اسے بدعت سئیہ اور ناجائز اور حرام قرار دینا قرار دینا ہرگز مناسب نہیں بلکہ یہ بذات خود دین میں ایک احداث اور بدعت سئیہ کی ایک شکل ہے اور یہ گمراہی ہے جو کہ تصور اسلام اور حکمت دین کے عین منافی اور اسلام کے اصول حلال و حرام سے انحراف برتنے اور حد سے تجاوز کرنے کے مترادف ہےایک بار جب اسی قسم کا سوال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔۔۔
                  حلال وہ ہے جسے اللہ نے قرآن میں حلال ٹھرایا اور حرام وہ ہے جسے اللہ نے قرآن میں حرام ٹھرایا رہیں وہ اشیا ء کہ جن کے بارے میں کوئی حکم نہیں ملتا تو وہ تمہارے لیے معاف ہیں۔ جامع ترمزی جلد 1 ص 206
                  مذکورہ بالا حدیث میں وما سکت عنہ فھو مما عفا عنہ کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ شارع نے جن کا زکر نہیں کیا وہ مباح اور جائز ہیں لہذا محض ترک زکر سے کسی چیز پر حرمت کا فتوٰی نہیں لگایا جاسکتا ۔ اللہ پاک نے قرآن مجید میں ایسے لوگوں کی مذمت بیان کی ہے جو اپنی طرف سے چیزوں پر حلت و حرمت کے فتوےصادر کرتے رہتے ہیں لہذا ارشاد باری تعالی ہے۔۔
                  اور وہ جھوٹ مت کہا جو تمہاری زبانیں بیان کرتیں ہیں کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام اس طرح کے تم اللہ پر بہتان باندھو بے شچک وہ لوگ جو اللہ پر بہتان باندھتے ہیں کبھی فلاح نہیں پاسکتے۔ النحل 116۔
                  کتنے افسوس کی بات ہے کہ دین دینے والا لااکراہ فی الدین اور یریداللہ بکم الیسر فرما کر دین میں آسانی اور وسعت فرمائے اور دین لینے والا نبی صلی اللہ علیہ وسلم وما سکت عنہ فھو مما عنہ فرما کر ہمارے دائرہ عمل کو کشادگی دے مگر دین پر عمل کرنے والے اپنی کوتاہ فہمی اور کج فہمی کے باعٹ چھوٹے چھوٹے نزاعی معاملات پر بدعت و شرک کے فتوے صادر کرتے رہیں۔ ہماری آج کی اس گفتگو میں ہم اسلام کے تصور بدعت اور اسکی شرعی حیثیت کا خود قرآن و سنتاور ائمہ کرام کے اقوال سے جائز پیش کریں گے کیونکہ میںسمجھتا ہوں کہ اگر تصور بدعت لوگوں کو سمجھ میں آجائے تو بہت سے باہمی نزاعات کا حل خود بخود واضح ہوجاتا ہے لہذا میں نے اس موضوع پر قلم اٹھانے کا فیصلہ کیا لیکن مجھے اپنی کم علمی اور بے بضاعتی کا انتہائی حد تک احساس ہے لہذا میں ائمہ دین کی کتب سے ہی اس تصور کو واضح کرنے کی کوشش کروں گا تو آئیے سب سے پہلے دیکھتے ہیں کے لفظ بدعت عربی لغت میں کن معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔
                  بدعت کا لغوی مفہوم
                  بدعت عربی زبان کا لفظ ہے جو بدع سے مشتق ہے اس کا معنی ہے .اختر عہ وصنعہ لا علی مثال ۔ المنجد
                  یعنی نئی چیز ایجاد کرنا ، نیا بنانا ، یا جس چیز کا پہلے وجود نہ ہو اسے معرض وجود میں لانا۔
                  جس طرح یہ کائنات نیست اور عدم تھی اور اس کو اللہ پاک نے غیر مثال سابق عدم سے وجود بخشا تو لغوی اعتبار سے یہ کائنات بھی بدعت کہلائی اور اللہ پاک بدیع جو کہ اللہ پاک کا صفاتی نام بھی ہے ۔اللہ پاک خود اپنی شان بدیع کی وضاحت یوں بیان کرتا ہے کہ۔
                  بدیع السموات والارض۔۔۔الانعام 101
                  یعنی وہ اللہ ہی زمین و آسمان کا موجد ہے اس آیت سے واضح
                  ہو ا کہ وہ ہستی جو کسی ایسی چیز کو وجود عطا کرے جو کہ پہلے سے موجود نہ ہو بدیع کہلاتی ہے بدعت کے اس لغوی مفہوم کی وضاحت قرآن پاک کے اس ارشاد سے بھی ہوتی ہے کہ۔۔
                  قل ماکنت بدعا من الرسل۔الاحقاف 46
                  یعنی آپ فرمادیجیے کہ میں کوئی نیا یا انوکھا رسول تو نہیں ۔
                  مندرجہ بالا قرآنی شہادتوں کی بنا پر یہ بات عیاں ہوگئی کہ کائنات کی تخلیق کا ہر نیا مرحلہ اللہ پاک کے ارشاد کے مطابق بدعت کہلاتا ہے جیسا کہ فتح المبین شرح اربعین نووی میں علامہ ابن حجر مکی بدعت کے لغوی مفہوم کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ بدعت لغت میں اس نئے کام کو کہتے ہیں جس کی مثال پہلے موجود نا ہو جس طرح قرآن میں شان خداوندی کے بارے میں کہا گیا کہ آسمان اور زمین کا بغیر کسی مثال کے پہلی بار پید اکرنے والا اللہ ہے۔بیان المولود والقیام 20۔
                  بدعت کا اصطلاحی مفہوم
                  اصطلاح شرع میں بدعت کا مفہوم واضح کرنے کے لیے ائمہ فقہ و حدیث نے اس کی تعریف یوں کی ہے کہ۔
                  ہر وہ نیا کام جس کی کوئی اصل بالواسطہ یا بلاواسطہ نہ قرآن میں ہو نہ حدیث میں ہو اور اسے ضروریات دین سمجھ کر شامل دین کرلیا جائے یاد رہے کہ ضروریات دین سے مراد وہ امور ہیں کہ جس میں سے کسی ایک چیز کا بھی انکار کرنے سے بندہ کافر ہوجاتا ہے۔
                  ایسی بدعت کو بدعت سئیہ کہتے ہیں اور بدعت ضلالہ کہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پاک کل بدعة ضلالة سے بھی یہی مراد ہے ۔
                  کیا ہر نیا کام ناجائز ہے ؟
                  ایسے نئے کام کہ جن کی اصل قرآن و سنت میں نہ ہو وہ اپنی اصل کے اعتبار سے تو بدعت ہی کہلائیں گےمگر یہاں سوال یہ پیداہوتا کہ آیا از روئے شریعت ہر نئے کام کو محض اس لیے ناجائز و حرام قرار دیا جائے کہ وہ نیا ہے ؟
                  اگر شرعی اصولوں کا معیار یہی قرار دیا جائے تو پھر دین اسلام کی تعلیمات اور ہدایات میں سے کم و بیش ستر فیصد حصہ ناجائز و حرام ٹھرتا ہےکیونکہ اجتہاد کی ساری صورتیں اور قیاس ، استحسان،استنباط اور استدلال وغیرہ کی جملہ شکلیں سب ناجائز و حرام کہلائیں گی کیونکہ بعینہ ان سب کا وجود زمانہ نبوت تو درکنار زمانہ صحابہ میں بھی نہیں تھا اسی طرح دینی علوم و فنون مثلا اصول، تفسیر ، حدیث ،فقہ و اصول فقہ اور انکی تدوین و تدریس اور پھر ان سب کوسمجھنے کے لیے صرف و نحو ، معانی ، منطق وفلسفہ اور دیگر معاشرتی و معاشی علوم جو تفہیم دین کے لیے ضروری اور عصر ی تقاضوں کے عین مطابق ابدی حیثیت رکھتے ہیں ان کا سیکھنا حرام قرار پائے گا کیونکہ اپنی ہیت کے اعتبار سے ان سب علوم و فنون کی اصل نہ تو زمانہ نبوی میں ملتی ہے اور نہ ہی زمانہ صحابہ میں انھیں تو بعد میں ضروریات کے پیش نظر علماء مجتہدین اسلام نے وضع کرلیا تھا ۔اور اگر آپ کو اسی ضابطے پر اصرار ہوتو پھر درس نظامی کی موجودہ شکل بھی حرام ٹھرتی ہے جو کہ بحرحال دین کو سمجھنے کی ایک اہم شکل ہے اوراسے اختیار بھی دین ہی سمجھ کر کیا جاتا ہے کیونکہ موجودہ شکل میں درس نظامی کی تدریس ، تدوین اور تفہیم نہ تو زمانہ نبوی میں ہوئی اور نہ ہی صحابہ نے اپنے زمانے میں کبھی اس طرح سے دین کو سیکھا اور سکھایا لہذا جب ہر نیا کام بدعت ٹھرا اور ہر بدعت ہی گمراہی ٹھری تو پھر لازما درس نظامی اور دیگر تمام امور جو ہم نے اوپربیان کیئے وہ سب ضلالت و گمراہی کہلائیں گے اسی طرح قرآن پاک کا موجودہ شکل میں جمع کیا جانا اس پر اعراب اور نقاط پھر پاروں میں اس کی تقسیم اور منازل میں تقسیم اور رکوعات اور آیات کی نمبرنگ اسی طرح مساجد مین لاوڈ اسپیکر کا استعمال مساجد کو پختہ کرنا اور انکی تزیئن و آرائش مختلف زبانوں میں خطبات اور اسی قسم کے جملہ انتظامات سب اسی زمرے میں آئیں گے۔
                  غلط فہمی کے نتائج
                  بدعت کا مندرجہ بالا تصور یعنی اس کے مفہوم سے ہر نئی چیز کو گمراہی پر محمول کرنا نہ صرف ایک شدید غلط فہمی بلکہ مغالطہ ہے اور علمی اور فکری اعتبار سے باعث ندامت ہے ا ور خود دین اسلام کی کشادہ راہوں کو مسدود کردینے کے مترادف ہے بلکہ اپنی اصل میں یہ نقطہ نظر قابل صد افسوس ہے کیونکہ اگر اسی تصور کو حق سمجھ لیا جائے تویہ عصر حاضر اور اسکے بعد ہونے والی تمام تر علمی سائنسی ترقی سے آنکھیں بند کر کے ملت اسلامیہ کو دوسری تمام اقوام کے مقابلے میں عاجز محض کردینے کی گھناونی سازش قرارپائے گی اور اس طریق پر عمل کرتے ہوئے بھلا ہم کیسے دین اسلام کو تمام ادیان باطلہ پر غالب کرنے اور اسلامی تہذیب وثقافت اور تمدن اور مذہبی اقدار اور نظام حیات میں بالا تری کی تمام کوششوں کو بار آور کرسکیں گے اس لیے ضروری ہے کہ اس مغالطے کو زہنوں سے دور کیا جائے اور بدعت کا حقیقی اور صحیح اسلامی تصور امت مسلمہ کی نئی نسل پر واضح کیا جائے ۔
                  بدعت کا حقیقی تصوراحادیث کی روشنی میں
                  حضرت عائشہ فرماتیں ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
                  من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد ۔ البخاری والمسلم
                  یعنی جو ہمارے اس دین میں کوئی ایسی بات پیدا کرے جو اس میں﴿یعنی دین میں سے ﴾ نہ ہو تو وہ رد ہے ۔
                  اس حدیث میں لفظ احدث اور ما لیس منہ قابل غور ہیں عرف عام میں احدث کا معنی دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کرنا ہے اور لفظ ما لیس منہ احدث کے مفہوم کی وضاحت کر رہا ہے کہ احدث سے مراد ایسی نئی چیز ہوگی جو اس دین میں سے نہ ہو حدیث کے اس مفہوم سے زہن میں ایک سوال ابھرتا ہے کہ
                  اگر احدث سے مراد دین میں کوئی نئی چیز پید اکرنا ہے تو پھر جب ایک چیز نئی ہی پیدا ہورہی ہے تو پھر یہ کہنے کی ضرورت کیوں پہش آئی کہ ما لیس منہ کیونکہ اگر وہ اس میں ہی تھی﴿یعنی دین کا حصہ تھی پہلے سے ہی ﴾تو اسے نیا کہنے کی ضرورت ہی نہ تھی اور جس کو نئی چیز کہہ دیا تو لفظ احدث زکر کرنے کے بعد ما لیس منہ کے اضافے کی ضرورت نہیں رہتی ۔ مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی بھی چیز ما لیس منہ میں﴿یعنی دین ہی میں سے ﴾ ہے تو وہ نئی یعنی محدثہ نہ رہی ۔ کیونکہ دین تو وہ ہے جو کمپلیٹ ہوچکا جیسا کے اکثر احباب اس موقع پر الیوم اکملت لکم دینکم کی آیت کا حوالہ دیتے ہیں اور اگر کوئی چیز فی الحقیقت نئی ہے تو پھر ما لیس منہ کی قید لگانے کی کیا ضرورت ہے کیونکہ نئی چیز تو کہتے ہی اسے ہیں کہ جس کا وجود پہلے سے نہ ہو اور جو پہلے سے دین میں ہو تو پھر لفظ احدث چہ معنی دارد؟
                  مغالطے کا ازالہ اور فھو رد کا صحیح مفھہوم
                  صحیح مسلم کی روایت ہے من عمل عملا لیس علیہ امرنا فھو رد مسلم شریف۔
                  یعنی جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا کوئی امر موجود نہیں تو وہ مردود ہے ۔
                  اس حدیث میں لیس علیہ امرنا سے عام طور پر یہ مراد لیا جاتا ہےکہ کو ئی بھی کام خواہ نیک یا احسن ہی کیوں نہ ہو مثلا میلاد النبی ،ایصال ثواب،وغیرہ اگر ان پر قرآن و حدیث سے کوئی نص موجود نہ و تو تو یہ بدعت او مردود ہیں ۔ یہ مفہوم سرا سر باطل ہے کیونکہ اگر یہ معنی لے لیا جائے کہ جس کام کہ کرنے کا حکم قرآن اور سنت میں نہ ہو وہ حرام ہے تو پھر مباحات کا کیا تصور اسلام میں باقی رہ گیا ؟ کیونکہ مباح تو کہتے ہی ا سے ہیں کہ جس کہ کرنے کا شریعت میں حکم نہ ہو ام المومنین کی پہلی روایت یعنی من احدث فی امرنا ھذا مالیس منہ فھو رد میں فھو رد کا اطلاق نہ صرف مالیس منہ پر ہوتا ہے اور نہ فقط احدث پر بلکہ اس کا صحیح اطلاق اس صورت میں ہوگا جب یہ دونوں چیزیں جمع ہوں گی یعنی احدث اور مالیس منہ یعنی مردود فقط وہی عمل ہوگا جو نیا بھی ہو اور اسکی کوئی سابق مثال بھی شریعت میں نہ ملتی ہو یا پھر اس کی دین میں کسی جہت سے بھی کوئی دلیل نہ بنتی ہو اور کسی جہت سے دین کا اس سے کوئی تعلق نظر نہ آتا ہو پس ثابت ہوا کہ کسی بھی محدثہ کے بدعت ضلالة ہونے کا ضابطہ دو شرائط کے ساتھ خاص ہے ایک یہ کہ دین میں اس کی کوئی اصل ، مثال یا دلیل موجود نہ ہو اور دوسرا یہ کہ وہ محدثہ نہ صرف دین کے مخالف ہو اور متضاد ہو بلکہ دین کی نفی کرنے والی ہو
                  پہلی نشست میں فی الحال اتنا ہی ملتے ہیں بریک کے بعد..
                  app ney kaha key main gud mud ho raha hon , i have no objection
                  second yeh jo material app ney likha hay , dosray bohat sey forums per main bi kafi dafa paste ker chuka hoon
                  lakin yeh prove naeen kerti key Quran khawni for isaley swab bidat naeen hay

                  apni tasali key liya to "chor" bi kehta hay , key meray pass koi kam naeen , bhoka hoon , is leya mera chori kerna , chori naeen kehlay ga , balkey acchi chori kehlay ga , keeon key is sey meray bachoon ka bhala ho raha hay etc etc

                  kisi cheeze ka accha hona and islamic hona main faraq hay
                  being a part of islam sirf usi wakat ho ga jab reference quran o hadees sey milay ga
                  People should not be afraid of their governments. Governments should be afraid of their people

                  Comment


                  • #39
                    Re: bidat sey bachain

                    Originally posted by tauruskhan View Post
                    app ney kaha key main gud mud ho raha hon , i have no objection
                    second yeh jo material app ney likha hay , dosray bohat sey forums per main bi kafi dafa paste ker chuka hoon
                    lakin yeh prove naeen kerti key Quran khawni for isaley swab bidat naeen hay

                    apni tasali key liya to "chor" bi kehta hay , key meray pass koi kam naeen , bhoka hoon , is leya mera chori kerna , chori naeen kehlay ga , balkey acchi chori kehlay ga , keeon key is sey meray bachoon ka bhala ho raha hay etc etc

                    kisi cheeze ka accha hona and islamic hona main faraq hay
                    being a part of islam sirf usi wakat ho ga jab reference quran o hadees sey milay ga
                    mash ALLAH khan sahab aap to farma rahay thy k aap ko is mozu par maloomat naheen is liye main koi ayat ya hadeeth bayan kar k aap k ilam main izafa farma don laikin ab aap farma rahay k aap ko ye dalail sab pehlay se maloom hain?
                    acha agar in dalil main quran o sunnat naheen hay to phir aur kaya bayan kiya gaya hy aur aap nay jo bidat bidat ki rat lagai hui hy aap nay kon sa aik bhi hadeeth peesh ki hy k quran khani bidat hy?
                    aur han abhi to dalail k aghaz hua hy aap abhi se ghbra gay abhi aagay aagay dekhiye hota hy kaya .
                    main naheen chahta tha k is mozu ko chera jay magar afsoos k aap baz naheen aay.
                    ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

                    Comment


                    • #40
                      Re: bidat sey bachain

                      Yar Ap Logon Ka Aor Koi Kaam Nahi Hai?
                      Kyon Aisa Kar Rahe Ho?
                      Is Dunya Main Kitne Ulmaa Mojood Hai Un Se Pooch Le Woh With Ahadees Aap Ko Samja Denge K Yeh Sawab Hai Ya Nahi.
                      Aap Sub Main Kon Aalim Hai?
                      Choro Yar Kyu Ghunayegar Ban Rahe Ho.
                      ~~~~~LOVE~IS~A~PART~OF~LIFE~NOT~LIFE~~~~~

                      Comment


                      • #41
                        Re: bidat sey bachain

                        Her Kisi Ko Sirf Aor Sirf Us Ke Kiye Huwe Aamal Ja Ajar Milta Hai.Ager Hum Lak Koshish Karein Aor Herat Kiya Kare Is Ka Us Ko Koi Ajar Nahi Milta.Hum Sirf Aor Sirf Us Ki Maghfirat K Liye Dua Ker Sakte Hai.Aor Kuch Nahi.
                        ~~~~~LOVE~IS~A~PART~OF~LIFE~NOT~LIFE~~~~~

                        Comment


                        • #42
                          Re: bidat sey bachain

                          Originally posted by Revolution
                          Jawab DOO!!!
                          100 persent agree to u janabbbbbbb
                          "Can you imagine what I would do if I could do all I can? "

                          Comment


                          • #43
                            Re: bidat sey bachain

                            Originally posted by Masood View Post
                            :) .... Dua karna sawab hai, to Quran parh ker dua karna kya double sawab nahin? Usman mazhab ko mushkil na bnao apney liyey keh kahin tum REFERENCE ko dhoondhtey dhoondhtey bhatak na jao... We both remember ZAALIM - he was (or is) a very clear example of such person! Apney qadmon ko bhatakney sey pehley rok lo aur jahan sawab milta hai, hasil kar lo :)
                            tum phir kin chak'karoN maiN paR gaiy jab 2 hadisoN aur 4 aayatoN par islam mukam'mal ho jaiy to phir aisi bataiN nahe kartay :)
                            That's Enough...!!

                            Comment


                            • #44
                              Re: bidat sey bachain

                              Originally posted by Pakiza View Post
                              taurus sahab....kia HAZUR PBUH....ke zamaney main Quran aik book ki shakal main tha?
                              agar nahi tha tu phir aaj ke dour main kiun hai?.....kia ye bhi ghalat hai
                              sis aik baat kahun gi ....plz take it as off topic inshAllah

                              kabhi kabhi sawal key jawab mey sawal massley ko mazeed uljha deyta hai....:rose

                              Originally posted by tauruskhan View Post
                              mujeh koi iteraz naeen is sey lakin "kehnay ka maqsad ap bi samj gay haan"
                              key quran perhnay ka swab transfer naeen ho ga, lakin kaboliat kay chances mazeed bar jaeen gay"

                              atleast mujeh to is explanation per koi iteraz naeen , but this should not be make compulsory key " islam ka part kaha jaey and bakida rasam bana di jaey"
                              walaikum salam taurus...
                              itni dher saari behass ho gai hai leykin as thread starter mey thi iss liye reply bhi ker deyti huN ...

                              first of all t hanks key aap ney iss sab key liye alag thread shuru kiya ..... and secondly Reading Quran and then making du'a(as mey ney uss thread starter mey mention kiya tha key ham aik ijtemai dua karein gey at the end inshAllah)bilkul wiasey hi jaisey namaz key baad hameiN kaha jata hai key Zikr kerney baad maangi jaaney wali du'a ki apni value hoti hai.......aur phir Quran to behtareen Zikr hai......i hope ab koi massla nahi ho ga inshAllah :rose
                              Originally posted by Masood View Post
                              :) .... Dua karna sawab hai, to Quran parh ker dua karna kya double sawab nahin? Usman mazhab ko mushkil na bnao apney liyey keh kahin tum REFERENCE ko dhoondhtey dhoondhtey bhatak na jao... We both remember ZAALIM - he was (or is) a very clear example of such person! Apney qadmon ko bhatakney sey pehley rok lo aur jahan sawab milta hai, hasil kar lo :)
                              thanks bro.
                              Originally posted by ScorpioN_RulzZ View Post
                              tum phir kin chak'karoN maiN paR gaiy jab 2 hadisoN aur 4 aayatoN par islam mukam'mal ho jaiy to phir aisi bataiN nahe kartay :)
                              :comfort:
                              " Obstacles are what you see when you take your eyes off your goals "

                              Comment


                              • #45
                                Re: bidat sey bachain

                                Wa Alaikum Aslam!

                                Doosto, bohat critical topic cheer diya he aap ne. Topic yeh he ke aaya Quran khawani ker ke merhoom ko aisaal-e-sawaab pohanchana bidat he ya nahi.

                                Taurus brother ne jo hadees pesh ki wo mein ne bhi perhi hui he. Is hadees se to yahi ayaan hota he ke Quran Khani ka marhoom ke aisaal-e-sawaab se kuch lena dena nahi.

                                Hum Quran Khani kyoon kerte hein, Hamein Quran Khawani kyoon kerni chahiye, ager hum in sawaalon per ghoor karein to humein pata chalta he ke Quran Allah ka pegham he, jo puri insaaniyat ke liye he. Is liye hamein Allah ka pegham samaj ker perhna chahiye. Aap saaari zindagi Quran ke paaray perhtay rahain aur us ka terjma-o-tafseer na perhein, usay samjein nahi to kia faida quran ka.

                                Aap sub loog meri is baat pe zaroor ghoor keejiye ga. Marhoom ke aisaal-e-sawaab ke liye Quran khawani bidat bhi samji jaati he aur aksriyat isay bidat nahi samajti. Mein yahan pe apni khatmi raye nahi doon ga...aur duaa karon ga ke Allah hum sub ki islaah fermaye, aur hamein bidatoon se bacha ker khalis islam per chalnay ki toufeeq ata fermaye...Aameen
                                :thmbup:

                                Comment

                                Working...
                                X