ان دی لائن آف فائر
السلام علیکم!.... طلحہ السیف
ان بدترین ،مکروہ ترین افعال کا حق الخدمت وصول کرنا کسی زمانے میں ایسا عمل نہیں رہا جس کا اعتراف کیا جاسکے کہ !
میں سب کچھ یہی ہے عشق کی داستانیں ، طبلہ و سارنگی سے قدیم شناسائی اور خاندانی تعلق، کتوں سے محبت، دین سے نفرت اور غالب حصہ میں ترقی یافتہ روشن خیال دور کا یہی تاریک فخر
بدلتا ہے رنگ آسمان کیسے کیسے
کل تک جو باتیں صرف چھپانے کے قابل سمجھی جاتی تھیں راز کہہ کر انکی حفاظت کی جاتی تھی اور دلوں میں یہ خوف جاگزیں ہوتا تھا کہ لوگوں کو پتا چل گیا تو کیا ہوگا؟ ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا آج چشم فلک حیرانی سے دیکھ رہی ہے کہ ان باتوں کو کتنے اہتمام سے شائع کیا جاتا ہے اور کیسے ان پر فخر کیا جاتا ہے ۔
بہر حال کچھ بھی ہو چند چیزیں خصوصیت کے ساتھ قابل توجہ ہیں
(۱) کتاب کا نام....کتاب کا نام رکھا گیا ہے یعنی آگ کے بیچوں بیچ، بے شک اس میں جو کچھ لکھا گیا اکثر یاتو آگ کے بیچوں بیچ لے جانے والا ہی ہے یا کم از کم اس کے کنارے پر ضرور کھڑا کرنے والا ہے ہم تفصیل کیا بتائیں آپ کتاب لے کر پڑھ لیں اور قرآن پاک کا ترجمہ بھی، سمجھ میں آجائے گا کہ کتاب کا یہ نام کیوں رکھا گیا ہے، لگتا ہے کہ فاضل مصنف کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ جن باتوں کا اس کتاب میں اعتراف کیا جارہا ہے اور جن اعمال کو اجاگر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ان کا انجام قرآن و حدیث کی روشنی میں کیا ہے اس لیے انہوں نے کافی سوچ سمجھ کر یہ بلیغ نام منتخب کیا ہے، اللہ تعالی ان کی حفاظت فرمائے اور ہدایت نصیب فرمائے اور سے ہٹ کر پر آنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ وہ خود یا کوئی اور ان کے ایسے کارناموں پر بھی ایک بیسٹ سیلر کتاب لکھ سکیں۔
(۲)(۳) اس کتاب میں ایک بڑی عجیب سی کشش ثقل پائی جاتی ہے جو ان تمام یا اکثر لوگوں کو کھینچ کر میڈیا کی طرف لے آئی جن کا اس کتاب میں ذکر ہے اور ان سب لوگوں کی زبان صرف ایک ہی لفظ تھا، جھوٹ جھوٹ جھوٹ
امریکی نائب وزیرخارجہ رچرڈ آر مٹیچ بے نظیر بھٹو مسلم لیگ ن ایم ایم اے واجپائی محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب ہم نے امریکہ کی مدد کا فیصلہ خوف کی وجہ سے کیا تھا قومی مفاد کی بات وقتی بہانہ تھی
میں پہلے مغرب کی نظر میں بہت غیر مقبول تھا نائن الیون کے بعد کے فیصلوں نے میرا امیج تبدیل کیا(یعنی ذاتی خوبیوں کا کوئی دخل نہیں میری مقبولیت میں)
(پتہ نہیں کیوں ہم نے اس کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا)
طالبان ایک بڑی طاقت ہیں دنیا کو جلد یا بدیر انہیں تسلیم کرنا ہوگا
والدہ اچھی ڈانسر اور والد اچھے سارنگی نواز تھے
عمر شیخ نے ڈینیل پرل کو قتل نہیں کیا بلکہ اپنے ساتھیوں کو بھی منع کیا تھا (اسے سزائے موت ذاتی دلچسپی کی وجہ سے سنائی گئی ہے....)
آئی ایس آئی مجاہدین کے ساتھ اس وقت تک تعاون کرتی تھی جب تک امریکہ کی خواہش تھی اب اسے الٹے رخ چلنے کا کہا گیا ہے (جس پروہ تیزی سے گامزن ہے ۔مجاہدین پر آج تک ایجنسیوں کا ٹاﺅٹ ہونے کا طعنہ لگانے والے حضرات خصوصیت کے ساتھ اس بات پر توجہ فرمائیں اور اپنی بات سے رجوع کرکے ایمان بچائیں)
کتاب میں اور بھی بہت کچھ قابل تبصرہ ہے لیکن جگہ کی تنگی کی وجہ سے اس سے صرف نظر لازمی ہے،
کتاب اپنے مواد اور اثر پذیری کی بناءپر نوبل پرائز کی توقطعًا حقدار نہیں ہوسکتی لیکن اگر الفریڈ نوبل جیسے ہی ایک لیچنڈشخص گوئبلز کے نام کا کوئی ایوارڈ نکالا جائے تو وہ سب سے پہلے اس کتاب کو دیئے جانے کی پر زور سفارش کی جاتی ہے
(نوٹ)اس تبصرے اور ابتدائی تمہید پر ہمیں کچھ نہ کہا جائے یہ باتیں ہماری اکیلے کی نہیں ہیں بلکہ بزرگ کالم نویس حضرات بھی اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو کررہے ہیں پہلے ان سو پوچھا جائے (جزا کم اللہ خیرا)
٭٭٭
Comment