اسلام علیکم
کیسے ہیں سب دوست ؟ امید کرتا ہوں سب بخیر و عافیت ہونگے قدیم فلکیات پہ ایک پوسٹ کے ساتھ
ھاضر ہوں امید ہے آپ کے ذوق تجسس کی تسکین کا باعث بنے گی
ھاضر ہوں امید ہے آپ کے ذوق تجسس کی تسکین کا باعث بنے گی
شمسی طوفان کو بھی کنفرم کیا اور اس بارے میں مختلف لوگ رائے دیتے کہ یہ زمین کی پولیرٹی بدل دے گا آسان الفاظ میں
زمیں کی گردش کا رخ بدل جائے گا اس سلسے میں یو ٹیوب کے کچھ لنکز بھی شئیر کروں گا اس کے بعد آصل پوسٹ
قدیم فلکیات کی طرٍ بڑھوں گا۔۔
http://www.youtube.com/watch?v=hTLyli2ctZM...feature=related
http://www.youtube.com/watch?v=uZIfyXc8RWk...feature=related
http://www.youtube.com/watch?v=uZIfyXc8RWk...feature=related
ڈومزڈے سے تاہم میں متفق نہیں ابھی سورج کے غروب ہونے میں صدیاں باقی لیکن نیبرو کے حوالے سے
اس طرح کے باتیں اور حوالے سن کر مجھے لگا کہ قدیم فلکیات کے بارے میں اگاہ کرو نیبرو یا دسواں سیارہ
جس کے مطلق ماہرین فلکیات کو ا ب اکر پتہ چلا قدیم تہذیبیں اس سے ہزاروں سال پہلے واقف تھیں
اس طرح کے باتیں اور حوالے سن کر مجھے لگا کہ قدیم فلکیات کے بارے میں اگاہ کرو نیبرو یا دسواں سیارہ
جس کے مطلق ماہرین فلکیات کو ا ب اکر پتہ چلا قدیم تہذیبیں اس سے ہزاروں سال پہلے واقف تھیں
قدیم فلکیات
ماضی کے بارے میں ہماری رائے کہ یہ جہلا کا دور تھا ماضی کی اقوام ہم سے عقل و دانش میں بہت پیچھے تھیں لیکن
جو شواہد ملے وہ جدید انسان کے خود ساختہ تصوارت کی نفی کرتے ہیں
جو شواہد ملے وہ جدید انسان کے خود ساختہ تصوارت کی نفی کرتے ہیں
ساڑھے چھے ہزار سال پہلے کرہ عرض سومیری تہذیب پھیلی ہوئی تھی۔۔سمیری تہذیب کا مطالعہ کرنے والے ماہرین
نے جو انکشاف کئے ہیں عقل کع دنگ کر دیتے ہیں۔۔اپنی قدامت کے لہاظ سے سمیری بڑی حیرت انگیز صلاحیتوں کے
مالک تھے اور خاصے ترقی یافتہ لوگ تھے اور یہ بات آج تک راز ہے کہ سمیری کہاں سے آئے تھے ؟؟
نے جو انکشاف کئے ہیں عقل کع دنگ کر دیتے ہیں۔۔اپنی قدامت کے لہاظ سے سمیری بڑی حیرت انگیز صلاحیتوں کے
مالک تھے اور خاصے ترقی یافتہ لوگ تھے اور یہ بات آج تک راز ہے کہ سمیری کہاں سے آئے تھے ؟؟
کہا جاتا ہے کہ سمیروں کا بیان تھا کہ وہ خلا میں نظام شمسی کے ایک دور دراز سیارے سے آئے ہیں اس سیارے کو
سمیری قوم فلکیات میں غیر معمولی علم رکھتی تھی وہ نظام شمسی کے بارہ اجسام گنواتے ہیں محقیقین پہلے گیارہ اجسام
کے بارے میں یہی خیال کرتے ہیں کہ یہ سورچ چاند اور نظام شمسی کے 9 معلوم سیارے ہیں جب کہ بارھواں
سمیری تہذیب کے باتوں کی تصدیق ہو گئی گویا سمیری نظام شمسی کے بارے میں ہزاروں سال پہلے اتنی معلومات
رکھتے تھے جتنی ہمارے موجودہ سائیس دان بھی نہیں رکھتے۔۔
کے بارے میں یہی خیال کرتے ہیں کہ یہ سورچ چاند اور نظام شمسی کے 9 معلوم سیارے ہیں جب کہ بارھواں
سمیری تہذیب کے باتوں کی تصدیق ہو گئی گویا سمیری نظام شمسی کے بارے میں ہزاروں سال پہلے اتنی معلومات
رکھتے تھے جتنی ہمارے موجودہ سائیس دان بھی نہیں رکھتے۔۔
سمیریوں کے بتائے ہوئے بارہ اجسام اور ان کا معلومہ اس طرح بنتا ہے
اپ سو 1 ( سورج) مم مو 2 ( عطارد ) لابامو 3 ( زہرہ )
کی 4 ( زمین ) کن گو 5( چاند ) لہتو 6 ( مریخ )
کشا 7 ( مشتری) انشر 8( زحل ) انو 9 ( یورنیس )
ایئے 10 ( نیپچون ) گاگا 11 ( پلوٹو ) نیبرو 12 ( ؟ )
اپ سو 1 ( سورج) مم مو 2 ( عطارد ) لابامو 3 ( زہرہ )
کی 4 ( زمین ) کن گو 5( چاند ) لہتو 6 ( مریخ )
کشا 7 ( مشتری) انشر 8( زحل ) انو 9 ( یورنیس )
ایئے 10 ( نیپچون ) گاگا 11 ( پلوٹو ) نیبرو 12 ( ؟ )
قدیم سومیری کیلنڈروں میں سورج کے گرد گیارہ اجسام کو گردش کرتے دکھایا گیا ہے گیارواں جسم نیبرو ہے
سمیریوں کا بیان غیر معمولی ہے وہ زمین کی سورج سے پیدائش کے نظرئے کو نہیں مانتے بلکہ ان کا کہنا ہے کہ زمین
ایک سیارے تیامت کی باقیات ہیں اس کا قصہ وہ یوں بیان کرتے ہیں کہ دسواں سیارہ نیبرو کروڑوں سال پہلے
اس نظام شمسی کا حصہ نہیں تھا بلکہ اک دمدار ستارے کی مانند بیضوی مدار میں گھوما کرتا تھا اس زمانے میں
ہے
نیبرو سیارہ اپنے مدار پر گھومتے گھومتے ایک بار نظام شمسی میں داخل ہو گیا اور کی کشش کے باعث زحل سیارے کے ذیلی چاند
الگ ہو کر نیبرو کے ساتھ ہو لئے اور آگے بڑھتے ہوئے نیبرو سیارہ تیامت سے اس قدر زور سے ٹکرایا کہ سیارہ تیامت کے
دو ٹکرے ہو گئےبالائی ٹکرا مریخ سے اس طرف جا پڑا اور اپنے مدار میں گردش کرنے لگا اور یہی ٹکرا موجودہ کرہ ارض ہے
لیکن تیامت کے دوسرے زیرین ٹکرے کا کیا حشر ہوا ؟
سمیریوں کا کہنا ہے کہ نیبرو اپنے گردش کو جاری رکھے ہوئے بہت عرصہ بعد جب دوبارہ نظام شمسی میں داخل ہوا تو وہ ایک
بار پھر اسی جگی سے گزارا جہاں پہ پہلے تصادم ہوا تھا اور تیامت کے دو ٹکرے ہوئے تھے۔ اس بار اس کے سامنے تیامت کا زیریں
ٹکرا سامنے آگیا اس بار جو تصادم ہوا تو یہ ٹکرا ٹوٹ کر چھوٹے چھوٹے لاتعداد ٹکروں میں تقسیم ہو گیا ( فی الحقیقت مریخ اور مشتری
کے درمیان پتھریلی چٹانوں کے ٹکروں کا ایک مکمل ہالہ سا موجود ہے جو ایک فلکیاتی معمہ کی سی حیثیت رکھتا )۔۔
ایک سیارے تیامت کی باقیات ہیں اس کا قصہ وہ یوں بیان کرتے ہیں کہ دسواں سیارہ نیبرو کروڑوں سال پہلے
اس نظام شمسی کا حصہ نہیں تھا بلکہ اک دمدار ستارے کی مانند بیضوی مدار میں گھوما کرتا تھا اس زمانے میں
ہے
نیبرو سیارہ اپنے مدار پر گھومتے گھومتے ایک بار نظام شمسی میں داخل ہو گیا اور کی کشش کے باعث زحل سیارے کے ذیلی چاند
الگ ہو کر نیبرو کے ساتھ ہو لئے اور آگے بڑھتے ہوئے نیبرو سیارہ تیامت سے اس قدر زور سے ٹکرایا کہ سیارہ تیامت کے
دو ٹکرے ہو گئےبالائی ٹکرا مریخ سے اس طرف جا پڑا اور اپنے مدار میں گردش کرنے لگا اور یہی ٹکرا موجودہ کرہ ارض ہے
لیکن تیامت کے دوسرے زیرین ٹکرے کا کیا حشر ہوا ؟
سمیریوں کا کہنا ہے کہ نیبرو اپنے گردش کو جاری رکھے ہوئے بہت عرصہ بعد جب دوبارہ نظام شمسی میں داخل ہوا تو وہ ایک
بار پھر اسی جگی سے گزارا جہاں پہ پہلے تصادم ہوا تھا اور تیامت کے دو ٹکرے ہوئے تھے۔ اس بار اس کے سامنے تیامت کا زیریں
ٹکرا سامنے آگیا اس بار جو تصادم ہوا تو یہ ٹکرا ٹوٹ کر چھوٹے چھوٹے لاتعداد ٹکروں میں تقسیم ہو گیا ( فی الحقیقت مریخ اور مشتری
کے درمیان پتھریلی چٹانوں کے ٹکروں کا ایک مکمل ہالہ سا موجود ہے جو ایک فلکیاتی معمہ کی سی حیثیت رکھتا )۔۔
سمیریوں کی کہانی کے مطابق پہلے تصادم کے بعد نیبرو بذات خود ، انو ، ایہا، اور گاگا ( یورنیس، نیپچون، پلوٹو ) سے ٹکراتا ہوا اگے نکل
گیا اسی تصادم کے نتیجے میں یہ تینوں سیارے اپنے محوروں پر ایک جانب جھک گئے۔
گیا اسی تصادم کے نتیجے میں یہ تینوں سیارے اپنے محوروں پر ایک جانب جھک گئے۔
بغیر دوربین کے قدیم سومیرون نے ایسے عجیب و غریب انکشاف کیسے کر لیے ؟ ساڑھے چھ ہزار سال پرانی سمیری تہذیب
کا علم الا فلال ان کی عظمت لیاقت اور ذہنی زرخیزی کی دلیل ہے
کا علم الا فلال ان کی عظمت لیاقت اور ذہنی زرخیزی کی دلیل ہے
سمیری فلکیات سے استفادہ کر کے اسے سائنس دانوں کے سامنے پیش کرنے والی سب سے متنازع شخصیت
عمانویل ولکاوسکی کی ہے
عمانویل ولکاوسکی کی ہے
عمانویل ولکاوسکی روس میں پیدا ہوا 1939 میں امریکہ چلا گیا۔گیارہ برد بعد اس نے اپنے قدیم تواریخ کے مطالعے
کو ایک کتاب world in collision کی صورت میں پیش کیا کتاب کا شائع ہونا تھا کہ تہلکہ مچ گیا مصنف کے نظریات
تھے ہی اتنے عجیب وغریب۔۔سائنس دانوں نے اسے خوب لعنت ملامت کی ایک برطانوی ماہر فلکیات نے کہا یہ کتاب
جھوٹ کا پلندہ ہے میں نے اسے کبھی پڑا ہے نہ اسے پڑھوں گا ایک اور ماہر فلکیات نے کہا یہ متحرک کرادوروں
کی ایجاد کے بہترین دور کی بد ترین کتاب ہے
کو ایک کتاب world in collision کی صورت میں پیش کیا کتاب کا شائع ہونا تھا کہ تہلکہ مچ گیا مصنف کے نظریات
تھے ہی اتنے عجیب وغریب۔۔سائنس دانوں نے اسے خوب لعنت ملامت کی ایک برطانوی ماہر فلکیات نے کہا یہ کتاب
جھوٹ کا پلندہ ہے میں نے اسے کبھی پڑا ہے نہ اسے پڑھوں گا ایک اور ماہر فلکیات نے کہا یہ متحرک کرادوروں
کی ایجاد کے بہترین دور کی بد ترین کتاب ہے
لیکن ۔۔۔ اس کتاب کو اب تک محض بیکار قرار نہیں دیا جا سکا وجہ ؟
عمانویل ولکاوسکی نے سائنس دانوں سے بہت پہلے کہہ دیا تھا کہ زہرہ نظام شمسی کا وہ واحد سیارہ ہے جس کی گردش
دوسرے سیاروں کی گرسش کے متضاد ہے اس نے یہ بھی بہت پہلے کہہ دیا تھا کہ سورج میں مثبت اور منفی بار موجود ہیں
آئن سٹائین نے کہا تھا زہرہ کا درجہ ھرارت منفی 25 فارن ہائیٹ ہے جبکہ عمانویل ولکاوسکی نے اس کے بر خلاف
زہرہ کا درجہ حرارت 800 فارن ہائیٹ بیان کیا ور بعد میں اس کی تصدیق بھی ہوگئی اس نے تو یہ بھی
بتا دیا تھا کہ مریخ کی سطع پر آتش فشاں موجود ہیں
دوسرے سیاروں کی گرسش کے متضاد ہے اس نے یہ بھی بہت پہلے کہہ دیا تھا کہ سورج میں مثبت اور منفی بار موجود ہیں
آئن سٹائین نے کہا تھا زہرہ کا درجہ ھرارت منفی 25 فارن ہائیٹ ہے جبکہ عمانویل ولکاوسکی نے اس کے بر خلاف
زہرہ کا درجہ حرارت 800 فارن ہائیٹ بیان کیا ور بعد میں اس کی تصدیق بھی ہوگئی اس نے تو یہ بھی
بتا دیا تھا کہ مریخ کی سطع پر آتش فشاں موجود ہیں
نامور ماہر آثار قدیمہ چارلس برلز نے عمانویل ولکاوسکی کی موت سے کچھ عرصہ پہلے اس سے ان امور کی واقفیت
کا راز معلوم کرنے کی کوشش کی اور اس امر پہ حیرت کا ظہار کیا کہ اس نے کس طرح فلکیاتی حقائق کی بابت
بابلی سومیری مٹی کی ایسی الواح پڑی ہیں جن کو تاحال شائع نہیں کیا گیا اور نہ ہی ان کا ترجمہ ہوا ہے جو انہیں
پڑھنے کی تکلیف کرتا ہے اس کو نظام شمسی کے متلعق دلچسپ معلومات حاصل ہو تی ہیں
کا راز معلوم کرنے کی کوشش کی اور اس امر پہ حیرت کا ظہار کیا کہ اس نے کس طرح فلکیاتی حقائق کی بابت
بابلی سومیری مٹی کی ایسی الواح پڑی ہیں جن کو تاحال شائع نہیں کیا گیا اور نہ ہی ان کا ترجمہ ہوا ہے جو انہیں
پڑھنے کی تکلیف کرتا ہے اس کو نظام شمسی کے متلعق دلچسپ معلومات حاصل ہو تی ہیں
مختلف حالتوں کے بارے میں بیان ہے
ایک مثال برج عقرب کی ہے ۔ ستاروں کے اس مجموعے کو بغیر دوربین کے دیکھیں تو یہ بچھو سے
کوئی مشاہبت نہیں رکھتا لیکن دوربین سے دیھنے پر یہ حیرے انگیز بات معلوم ہوتی ہے کہ سیاروں
کے بیچوں بیچ ایک دمدار ستارہ موجود ہے جو بچھو کی سی شکل میں دم کا کام سرانجام دیتا ہے اور یوں
عقرب مکمل بچھو کی صورت اختیار کرلیتا ہے سوال یہ ہے ہے کہ قدیم ادوار میں بغیر دوربین کے
انسانوں کے بچھو کی شناخت کیسے کر لی ؟ لطف کی بات تو یہ کہ وسطی امریکہ کی قدیم مایا قوم کے ہاں
بھی برج عقرب مقامی زبان میں بچھو سے ہی معنون کیا جاتا ہے
کوئی مشاہبت نہیں رکھتا لیکن دوربین سے دیھنے پر یہ حیرے انگیز بات معلوم ہوتی ہے کہ سیاروں
کے بیچوں بیچ ایک دمدار ستارہ موجود ہے جو بچھو کی سی شکل میں دم کا کام سرانجام دیتا ہے اور یوں
عقرب مکمل بچھو کی صورت اختیار کرلیتا ہے سوال یہ ہے ہے کہ قدیم ادوار میں بغیر دوربین کے
انسانوں کے بچھو کی شناخت کیسے کر لی ؟ لطف کی بات تو یہ کہ وسطی امریکہ کی قدیم مایا قوم کے ہاں
بھی برج عقرب مقامی زبان میں بچھو سے ہی معنون کیا جاتا ہے
یونانی اصنامیات کے مطابق یورنیس اپنے بچوں کو نگل کر بعد ازاں اگل دیتا ہے کیا اس تمثل کے پیچھے
بھی کوئی فلکیاتی مشاہدہ ہے ؟؟؟ جدید دوربینوں کی مدد سے معلوم ہوا ہے کہ سیارہ یورنیس کے چاند گردش کے
ہوتے ہیں گویا سیارے نے انہیں گل دیا مگر یہ مشاہدہ بھی صرف طاقتور دوربین سے ہی ممکن ہے
بھی کوئی فلکیاتی مشاہدہ ہے ؟؟؟ جدید دوربینوں کی مدد سے معلوم ہوا ہے کہ سیارہ یورنیس کے چاند گردش کے
ہوتے ہیں گویا سیارے نے انہیں گل دیا مگر یہ مشاہدہ بھی صرف طاقتور دوربین سے ہی ممکن ہے
گلیلیو نے 1612 کے قریب زہرہ کی مختلف شکلیں دریافت کی اسی سال سوالٹر ریلے نے دنیا کی تاریخ
سیاح ہیروڈوٹس نے ایک یونانی ماہر فلکیات تھیلز کا ذکر کیا ہے جس نے 25 مئی 585 قبل از مسیح میں
سورج گرہن سے بہت پہلے اس کے وقوع کی بالکل درست پیش گوئی کی تھی۔( یاد رہنے پائے کہ سورج گرہن کی
پیش گوئی کے لیے کم از کم تین مقامات کو 120 طول بلد پر ایک دوسے سے کافی فاصلے پر واقع ہوں کا تعین
صروری ہوتا ہے **) یہ معلوم نہیں ہو سکا کے تھیلز نے اتنے پرانے وقتوں میں مقامات کا تعین کس طرح کیا تھا
اور پھر اتنی دوری پر واقع مقامات سے رابطے کا کیا ذریعہ مقرر کیا ہوگا
سورج گرہن سے بہت پہلے اس کے وقوع کی بالکل درست پیش گوئی کی تھی۔( یاد رہنے پائے کہ سورج گرہن کی
پیش گوئی کے لیے کم از کم تین مقامات کو 120 طول بلد پر ایک دوسے سے کافی فاصلے پر واقع ہوں کا تعین
صروری ہوتا ہے **) یہ معلوم نہیں ہو سکا کے تھیلز نے اتنے پرانے وقتوں میں مقامات کا تعین کس طرح کیا تھا
اور پھر اتنی دوری پر واقع مقامات سے رابطے کا کیا ذریعہ مقرر کیا ہوگا
جاری ہے
Comment