جلد ہی وہ دن آئے گا جب گویائی سے محروم افراد اپنی سوچ کو آواز میں بدل سکیں گے۔
ہم بھی فکر میں آواز رکھتے ہیں
کچھ تو پوچھ کہ مدعا کیا ہے
امریکہ کی ریاست جیورجیا کے ماہر فلیپ کینیڈی کا خیال ہے کہ فالج میں مبتلا افراد جلد ہی اپنی سوچ کے دھاروں کو الفاظ میں بدل کر اپنی بات ہم تک پہنچا سکیں گے۔ کینیڈی ، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کی معاونت سے ایسے نظام پر سرگرمی سے کام کررہے ہیں۔
ہمارے دماغ میں ایک حصہ بروکا کے نام سے موجود ہے ۔ جب ہم گفتگو کرتے ہیں تو وہاں سرگرمی پیدا ہوتی ہے۔ اسی مفروضے کی بنا پر وہاں برقیرے ( الیکٹروڈ ) لگا کر اس سرگرمی کو نوٹ کیا جاسکتا ہے اور ایک حد تک قابل فہم اشاروں میں بدلا جا سکتا ہے۔ پہلے کسی مریض کو کسی آواز کے متعلق سوچنے کا کہا جائے گا اور برقیروں کی مدد سے ان کی اعصابی سرگرمیوں کا مکمل نقشہ بنایا جائے گا۔ جب اس نظام کی اچھی طرح تربیت ہو جائے گی تو وہ دماغ کے سگنلوں کو پڑھ کر مریض کی آواز بھی سن سکے گا۔
یہ کام ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے مگر کینیڈی پر امید ہیں کہ اس کے ذریعے سے مریض کے ذہن میں رونما ہونے والے الفاظ ، حتی کہ جملے بھی آواز کی صورت میں ہم تک پہنچ سکیں گے۔
ہم بھی فکر میں آواز رکھتے ہیں
کچھ تو پوچھ کہ مدعا کیا ہے
امریکہ کی ریاست جیورجیا کے ماہر فلیپ کینیڈی کا خیال ہے کہ فالج میں مبتلا افراد جلد ہی اپنی سوچ کے دھاروں کو الفاظ میں بدل کر اپنی بات ہم تک پہنچا سکیں گے۔ کینیڈی ، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کی معاونت سے ایسے نظام پر سرگرمی سے کام کررہے ہیں۔
ہمارے دماغ میں ایک حصہ بروکا کے نام سے موجود ہے ۔ جب ہم گفتگو کرتے ہیں تو وہاں سرگرمی پیدا ہوتی ہے۔ اسی مفروضے کی بنا پر وہاں برقیرے ( الیکٹروڈ ) لگا کر اس سرگرمی کو نوٹ کیا جاسکتا ہے اور ایک حد تک قابل فہم اشاروں میں بدلا جا سکتا ہے۔ پہلے کسی مریض کو کسی آواز کے متعلق سوچنے کا کہا جائے گا اور برقیروں کی مدد سے ان کی اعصابی سرگرمیوں کا مکمل نقشہ بنایا جائے گا۔ جب اس نظام کی اچھی طرح تربیت ہو جائے گی تو وہ دماغ کے سگنلوں کو پڑھ کر مریض کی آواز بھی سن سکے گا۔
یہ کام ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے مگر کینیڈی پر امید ہیں کہ اس کے ذریعے سے مریض کے ذہن میں رونما ہونے والے الفاظ ، حتی کہ جملے بھی آواز کی صورت میں ہم تک پہنچ سکیں گے۔
Comment