اگر یورینئم کے ایک نیوکلیئس میں مقید توانائی کو دیکھا جائے یا کروڑوں سالوں سے سورج سے ابلتی توانائی پر نظر ڈالی جائے یا اس حقیقت کو مدِ نظر رکھا جائے کہ ہماری قابلِ مشاہدہ کائنات میں کوئی 10^80 پارٹیکل موجود ہیں تو ایسا لگتا ہے گویا کائنات کی مجموعی توانائی ناقابلِ بیان حد تک زیادہ ہوگی، مگر در حقیقت ایسا نہیں ہے، یہ صفر ہے.
روشنی، مادہ اور ضد مادہ وہ چیزیں ہیں جنہیں طبیعات دان “مثبت توانائی” کہتے ہیں اور یقیناً یہ کافی مقدار میں موجود ہیں تاہم بہت سے طبیعات دانوں کا خیال ہے کہ اسی تناسب میں “منفی توانائی” بھی موجود ہے جو کہ اس تجاذبی کشش میں پنہاں ہے جو کہ تمام مثبت توانائی کے پارٹیکلوں کے درمیان پائی جاتی ہے، یوں مثبت اور منفی متوازن ہوجاتے ہیں چنانچہ کائنات میں سرے سے کوئی توانائی دراصل ہے ہی نہیں.
سٹیفن ہاکنگ اپنی دستاویزی فلم “ہر چیز کا نظریہ” میں مثبت اور منفی توانائی کے تصور کو کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں: “ایک دوسرے کے قریب مادے کے دو ٹکڑوں میں ایک دوسرے سے دور ایسے ہی مادے کے دو ٹکڑوں کے مقابلے میں کم توانائی ہوتی ہے، کیونکہ آپ کو انہیں الگ کرنے کے لیے اس تجاذبی قوت کے خلاف جو انہیں ایک دوسرے کی طرف کھینچ رہی ہے توانائی صرف کرنی پڑے گی، اس طرح سے تجاذبی میدان منفی توانائی رکھتا ہے، کائنات کی صورت میں جو کہ مکان میں تقریباً ہموار ہے، یہ دکھایا جاسکتا ہے کہ یہ منفی تجاذبی توانائی مادے کی نمائندہ مثبت توانائی کی مکمل طور پر نفی کردیتی ہے، چنانچہ کائنات کی مجموعی توانائی صفر ہے”.
یونیورسٹی آف کیلی فورنیا برکلے کے طبیعات دان الیکسی فلیپینکو اور ویلیم کالج کے طبیعات دان جے پاساچوف اپنے مشترکہ مقالے “کائنات لا شئے سے” میں تجاذب کی منفی توانائی کو یوں بیان کرتے ہیں: “اگر ہم کوئی بال گرائیں (جو کہ ساکن ہونے کی وجہ سے صفر توانائی کی حالت پر ہے) تو گرتے وقت یہ حرکت کی توانائی حاصل کر لے گی (حرکی توانائی – مگر جیسے جیسے یہ زمین کے مرکز کے قریب ہوتی جائے گی یہ حصول مکمل طور پر (زمین کی) بڑی منفی تجاذبی توانائی سے متوازن ہوجائے گا اور اس طرح دونوں توانائیوں کا مجموع صفر رہے گا”.
دوسرے لفظوں میں بال کی مثبت تونائی بڑھی، مگر عین اسی وقت منفی توانائی بھی زمین کے تجاذبی میدان میں شامل ہوگئی، وہ بال جو خلاء میں سکون کی حالت میں صفر توانائی پر تھی وہ بعد میں خلاء میں گرتی صفر توانائی کی حامل بال میں بدل گئی.
کائنات کو مجموعی طور پر اس بال سے تشبیہ دی جاسکتی ہے، بگ بینگ سے پہلے کائناتی بال حالتِ سکون میں تھی اور اب بگ بینگ کے بعد یہ گر رہی ہے، روشنی اور مادہ وجود میں آیا اور حرکت بھی کر رہا ہے مگر منفی توانائی کی وجہ سے جو پارٹیکلوں کے ذریعے تجاذبی میدان میں بنی، کائنات کی مجموعی توانائی صفر رہ جاتی ہے.
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کار یہ (کائناتی) بال گرنا ہی کیوں شروع ہوئی… مساوی مثبت اور منفی حصوں سمیت کوئی چیز لا شئے سے کیسے آسکتی ہے؟
طبیعات دان کہتے ہیں کہ مساوی کمیتوں پر مشتمل یہ مثبت اور منفی توانائی اتفاقی طور پر فلکچویٹ کرتی ہوئی وجود میں آگئی، فلیپینکو اور پاساچوف کہتے ہیں کہ: “کوانٹم نظریہ خاص طور سے ہائیزن برگ کا اصولِ غیر یقینی طبعی وضاحت فراہم کرتا ہے کہ توانائی کس طرح لا شئے سے وجود میں آسکتی ہے، تمام کائنات کے پارٹیکل اور اینٹی پارٹیکل بے ساختہ حالت میں اور تیزی سے قانون بقائے توانائی کو توڑے بغیر ایک دوسرے کو باطل کردیتے ہیں، ورچوئل پارٹیکلوں کی اس بے ساختہ پیدائش اور موت کو “قدری تموج” یا “کوانٹم فلکچویشن” کہا جاتا ہے، لیبارٹری میں کئے گئے تجربات سے یہ ثابت ہوا ہے کہ در حقیقت کوانٹم فلکچویشن ہر جگہ اور ہر وقت ہوتی رہتی ہے”.
کائنات دانوں نے “پھلاؤ” کا ایک نظریہ وضع کیا ہے جس میں بیان کیا جاتا ہے کہ کس طرح خلاء کے کسی از حد دقیق حصے میں ورچوئل پارٹیکل کے جوڑے پھول کر ایک ایسی ضخیم کائنات بناتے ہیں جیسی کہ آج ہم دیکھتے ہیں، ایلن گتھ ) جو انفلیشن کاسمالوجی کے مرکزی دماغ ہیں کائنات کو کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں: ” انتہائی مفت لنچ
ایک لیکچر میں کونیات دان سین کیرول نے کائنات کے لیے توانائی کی ضرورت کو یوں بیان کیا کہ: “آپ کسی قسم کی توانائی کے بغیر ایک مضبوط اور خود پر منحصر کائنات بنا سکتے ہیں”.
روشنی، مادہ اور ضد مادہ وہ چیزیں ہیں جنہیں طبیعات دان “مثبت توانائی” کہتے ہیں اور یقیناً یہ کافی مقدار میں موجود ہیں تاہم بہت سے طبیعات دانوں کا خیال ہے کہ اسی تناسب میں “منفی توانائی” بھی موجود ہے جو کہ اس تجاذبی کشش میں پنہاں ہے جو کہ تمام مثبت توانائی کے پارٹیکلوں کے درمیان پائی جاتی ہے، یوں مثبت اور منفی متوازن ہوجاتے ہیں چنانچہ کائنات میں سرے سے کوئی توانائی دراصل ہے ہی نہیں.
سٹیفن ہاکنگ اپنی دستاویزی فلم “ہر چیز کا نظریہ” میں مثبت اور منفی توانائی کے تصور کو کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں: “ایک دوسرے کے قریب مادے کے دو ٹکڑوں میں ایک دوسرے سے دور ایسے ہی مادے کے دو ٹکڑوں کے مقابلے میں کم توانائی ہوتی ہے، کیونکہ آپ کو انہیں الگ کرنے کے لیے اس تجاذبی قوت کے خلاف جو انہیں ایک دوسرے کی طرف کھینچ رہی ہے توانائی صرف کرنی پڑے گی، اس طرح سے تجاذبی میدان منفی توانائی رکھتا ہے، کائنات کی صورت میں جو کہ مکان میں تقریباً ہموار ہے، یہ دکھایا جاسکتا ہے کہ یہ منفی تجاذبی توانائی مادے کی نمائندہ مثبت توانائی کی مکمل طور پر نفی کردیتی ہے، چنانچہ کائنات کی مجموعی توانائی صفر ہے”.
یونیورسٹی آف کیلی فورنیا برکلے کے طبیعات دان الیکسی فلیپینکو اور ویلیم کالج کے طبیعات دان جے پاساچوف اپنے مشترکہ مقالے “کائنات لا شئے سے” میں تجاذب کی منفی توانائی کو یوں بیان کرتے ہیں: “اگر ہم کوئی بال گرائیں (جو کہ ساکن ہونے کی وجہ سے صفر توانائی کی حالت پر ہے) تو گرتے وقت یہ حرکت کی توانائی حاصل کر لے گی (حرکی توانائی – مگر جیسے جیسے یہ زمین کے مرکز کے قریب ہوتی جائے گی یہ حصول مکمل طور پر (زمین کی) بڑی منفی تجاذبی توانائی سے متوازن ہوجائے گا اور اس طرح دونوں توانائیوں کا مجموع صفر رہے گا”.
دوسرے لفظوں میں بال کی مثبت تونائی بڑھی، مگر عین اسی وقت منفی توانائی بھی زمین کے تجاذبی میدان میں شامل ہوگئی، وہ بال جو خلاء میں سکون کی حالت میں صفر توانائی پر تھی وہ بعد میں خلاء میں گرتی صفر توانائی کی حامل بال میں بدل گئی.
کائنات کو مجموعی طور پر اس بال سے تشبیہ دی جاسکتی ہے، بگ بینگ سے پہلے کائناتی بال حالتِ سکون میں تھی اور اب بگ بینگ کے بعد یہ گر رہی ہے، روشنی اور مادہ وجود میں آیا اور حرکت بھی کر رہا ہے مگر منفی توانائی کی وجہ سے جو پارٹیکلوں کے ذریعے تجاذبی میدان میں بنی، کائنات کی مجموعی توانائی صفر رہ جاتی ہے.
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کار یہ (کائناتی) بال گرنا ہی کیوں شروع ہوئی… مساوی مثبت اور منفی حصوں سمیت کوئی چیز لا شئے سے کیسے آسکتی ہے؟
طبیعات دان کہتے ہیں کہ مساوی کمیتوں پر مشتمل یہ مثبت اور منفی توانائی اتفاقی طور پر فلکچویٹ کرتی ہوئی وجود میں آگئی، فلیپینکو اور پاساچوف کہتے ہیں کہ: “کوانٹم نظریہ خاص طور سے ہائیزن برگ کا اصولِ غیر یقینی طبعی وضاحت فراہم کرتا ہے کہ توانائی کس طرح لا شئے سے وجود میں آسکتی ہے، تمام کائنات کے پارٹیکل اور اینٹی پارٹیکل بے ساختہ حالت میں اور تیزی سے قانون بقائے توانائی کو توڑے بغیر ایک دوسرے کو باطل کردیتے ہیں، ورچوئل پارٹیکلوں کی اس بے ساختہ پیدائش اور موت کو “قدری تموج” یا “کوانٹم فلکچویشن” کہا جاتا ہے، لیبارٹری میں کئے گئے تجربات سے یہ ثابت ہوا ہے کہ در حقیقت کوانٹم فلکچویشن ہر جگہ اور ہر وقت ہوتی رہتی ہے”.
کائنات دانوں نے “پھلاؤ” کا ایک نظریہ وضع کیا ہے جس میں بیان کیا جاتا ہے کہ کس طرح خلاء کے کسی از حد دقیق حصے میں ورچوئل پارٹیکل کے جوڑے پھول کر ایک ایسی ضخیم کائنات بناتے ہیں جیسی کہ آج ہم دیکھتے ہیں، ایلن گتھ ) جو انفلیشن کاسمالوجی کے مرکزی دماغ ہیں کائنات کو کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں: ” انتہائی مفت لنچ
ایک لیکچر میں کونیات دان سین کیرول نے کائنات کے لیے توانائی کی ضرورت کو یوں بیان کیا کہ: “آپ کسی قسم کی توانائی کے بغیر ایک مضبوط اور خود پر منحصر کائنات بنا سکتے ہیں”.