یورپ کی کل سالانہ برآمدات 3742/ارب ڈالر ہیں۔امریکہ کی سات سو چوالیس 744/ارب ڈالر،جرمنی کی/748ارب ڈالر،جاپان کی 1545/ارب ڈالر ہیں……اس کے مقابلہ میں پاکستان، سعودیہ ،ایران سمیت 55 اسلامی ممالک کی کل برآمدات صرف 610/ارب ڈالر ہیں……دنیا کی 13 بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے 82 فیصد عالمی خوراک پر اپنی اجارہ داری قائم کر رکھی ہے۔یہ تیرہ کمپنیاں یہودیوں کی ملکیت ہیں۔ ان کمپنیوں کی مصنوعات استعمال کر کے مسلمان روزانہ کروڑوں ڈالراسرائیل کو ’’گفٹ‘‘کردیتے ہیں،ترقی یافتہ (غیر مسلم)ممالک کے چند باشندے پوری دنیا کی کل آمدنی کا 83فیصد حاصل کرلیتے ہیں، جبکہ دنیا کے4/ارب انسان غریب جبکہ ایک ارب افراد غربت کی لکیر سے بھی آخری حد سے نچلی سطح پر زندہ ہیں…… عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی حکمت عملی طے کرنے والے مغربی معاشی ماہرین کے پاس غربت دور کرنے کے لئے ’’چھٹک جانے والی معیشت‘‘(ٹرکل ڈاؤن اکانومی) کا لائحہ عمل ہے۔یعنی امیروں کی امارت کے برتن اس حد تک بھردئیے جائیں کہ وہ چھلکنے لگیں اور ان کے چھلکنے سے غریبوں کا بھی کچھ بھلا ہو جائے……سوچنے کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی اس زبوں حالی کو خوشحالی میں بدلنے کا آخر کوئی طریقہ تو ہوگا؟……؟……؟
مختلف قوموں کے عروج وزوال کی تاریخ کا مطالعہ کر کے اس حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے کہ ریسرچ کا مقابلہ ریسرچ ہی سے ممکن ہے۔ جس قوم نے بھی ترقی کی ہے تحقیق، غور و فکر ،ریسرچ اور ایجادات کے ذریعے ہی کی ہے۔اس لئے کہ ’’تفکر، غور وفکر اور ریسرچ، قرآنی طرزِ فکر ہے۔
ایجادات کا قانون:……انسان کی فکر دورخوں میں کام کرتی ہے، پہلا رخ کسی بھی شے کے ظاہر کو دیکھتا ہے، لیکن جب تخیل کو کسی بھی ایک نقطے پر مرکوز کر کے اس شے کی گہرائی یعنی باطن یا لاشعور میں جھانکا جاتا ہے، تو تفکر، تجسس اور ریسرچ کی فکر اس شے کے باطن یا لاشعور میں پہنچ کر اس شے کے اندر گہرائی سے خفیہ صلاحیتوں اور علوم کو شعورکی سطح پر کھینچ لاتی ہے اور نتیجہ میں کوئی نہ کوئی ایجاد معرضِ وجود میں آجاتی ہے۔ اس لئے کہ ذہن انسانی کی فکر یا تخیل یا تفکر یا ریسرچ ’’نقطۂ ذات‘‘(تحتِ لاشعور) کی گہرائی میں جاکر ان علوم اور صلاحیتوں تک رسائی کی صلاحیت رکھتا ہے کہ جہاں ازل تا ابد تمام علوم کئی لاکھ سال سے موجود تھے، ہیں اور رہیں گے……
مختلف قوموں کے عروج وزوال کی تاریخ کا مطالعہ کر کے اس حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے کہ ریسرچ کا مقابلہ ریسرچ ہی سے ممکن ہے۔ جس قوم نے بھی ترقی کی ہے تحقیق، غور و فکر ،ریسرچ اور ایجادات کے ذریعے ہی کی ہے۔اس لئے کہ ’’تفکر، غور وفکر اور ریسرچ، قرآنی طرزِ فکر ہے۔
ایجادات کا قانون:……انسان کی فکر دورخوں میں کام کرتی ہے، پہلا رخ کسی بھی شے کے ظاہر کو دیکھتا ہے، لیکن جب تخیل کو کسی بھی ایک نقطے پر مرکوز کر کے اس شے کی گہرائی یعنی باطن یا لاشعور میں جھانکا جاتا ہے، تو تفکر، تجسس اور ریسرچ کی فکر اس شے کے باطن یا لاشعور میں پہنچ کر اس شے کے اندر گہرائی سے خفیہ صلاحیتوں اور علوم کو شعورکی سطح پر کھینچ لاتی ہے اور نتیجہ میں کوئی نہ کوئی ایجاد معرضِ وجود میں آجاتی ہے۔ اس لئے کہ ذہن انسانی کی فکر یا تخیل یا تفکر یا ریسرچ ’’نقطۂ ذات‘‘(تحتِ لاشعور) کی گہرائی میں جاکر ان علوم اور صلاحیتوں تک رسائی کی صلاحیت رکھتا ہے کہ جہاں ازل تا ابد تمام علوم کئی لاکھ سال سے موجود تھے، ہیں اور رہیں گے……
Comment