Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

راز و نیاز 3

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • راز و نیاز 3

    اسلام علیکم
    کیسے ہیں آپ سب دعا ہے خیریت سے ہونگیں دو تھریڈ بنانے کے بعد جس میں ایک تھریڈ کو میں نے فزکس کے لئے اور ایک کو کیمسٹری اور بائیلوجی کے لئے مختص کیا آپ کی دلچسپی خاص طور پر اطہر بھائی کی دلی خوشی ہوئی ۔ امید ہے اس تیسری تھریڈ جسے میں نے فلسفہ کے لئے چنا ہے کچھ آپ سے بھی سیکھنے کو بھی ملے گا ۔۔ آپ کا بھائی جمیل اختر


    لفظ فلسفہ یونانی لفظ فلوسوفی یعنی حکمت سے نکلا ہے۔ فلسفہ کو تعریف کے کوزے میں بند کرنا ممکن نہیں،لہذا زمانہ قدیم سے اس کی تعریف متعین نہ ہوسکی۔
    فلسفہ علم و آگہی کا علم ہے، یہ ایک ہمہ گیر علم ہے جو وجود کے اعراض اور مقصد دریافت کرنے کی سعی کرتاہے۔ افلاطون کے مطابق فلسفہ اشیا کی ماہیت کے لازمی اور ابدی علم کا نام ہے۔ جبکہ ارسطوکے نزدیک فلسفہ کا مقصد یہ دریافت کرنا ہے کہ وجود بذات اپنی فطرت میں کیا ہیں
    جبکہ اب ہم جان چکے ہیں فلسفہ لفظ فلوسفی سے نکلا ہے اس کا مقصد وجود کے اعراض اور مقاصد دریافت کرنا ہےتو ہم ابتداء کریں گئے زبانوں پہ کیونکہ یہ زبان ہی ہے جس سے ہم بات دوسرے کو کہ سکتے ہیں سمجھا سکتے ہیں


    زبانیں


    سوال یہ ہے کہ جب حضرت آدم علیہ السلام روئے زمین پر پہلے انسان ہیں۔ ہمارے اور تمام انسانیت کے باپ حضرت آدم علیہ السلام ہیں تو دُنیا میں بولی جانے والی مختلف زبانیں الگ الگ کیوں ہیں؟

    جاری ہے
    ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
    سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

  • #2
    Re: راز و نیاز 3

    وعلیکم السلام
    جمیل بھائی مزید ایک عمدہ سلسلہ شروع کرنے پر آپ مبارکباد کے مستحق ہیں لیکن ایک عرض تھی "ضروری نہیں کہ آپ اس پر عمل کریں۔
    وہ یہ کہ کوئی ایک سلسلہ ختم ہونے کے بعد دوسرا سلسلہ شروع کرتے تو شائد زیادہ مناسب ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیونکہ اس طرح کے موضوعات پر اگر بہت کچھ اکھٹا پڑھ لیا جائے تو سب کچھ گڈ مڈ ہونے کا احتمال رہتا ہے :(۔


    البتہ آپ کی کاوش دیکھ کر افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ
    یہاں پر "اس فورم پر"بکھیرے جانے والے موتیوں کو دیکھ دیکھ کر دلی دکھ ہوتا ہے کہ اس فورم پر ان گوہر نابابوں کو دیکھنے والے پڑھنے والے زیادہ افراد کیوں نہیں

    یہ افراد "جمیل اختر،ڈاکٹر فوسٹس یا بانیاز"جو کبھی کبھار ہی سہی لیکن کسی نہ کسی موضوع پر عمدہ تحریر شئیر کر دیتا ہے ، اور جو جا چکے اس فورم پر وہ کس فیاض دلی سے خزانے لٹاتے رہے اور لٹا رہے ہیں لیکن افسوس در افسوس ان خزانوں سے فیض یاب ہونے والا کوئی نہیں :(۔
    :star1:

    Comment


    • #3
      Re: راز و نیاز 3

      اطہر بھائی بہترین لوگ ہمیشہ کم ہوتے ہیں آپ کبھی بورڈ آف ڈائیرکٹرز کی میٹنگ میں شریک ہوئے نہیں تو جان لیجئے سقراط بقراط اور افلاطون بہت خاص تھے اور یہ علم ردی بازار میں نہیں باٹنتے تھے ان کا علم نایاب تھا اور بہت خاص لوگوں کے لئے تھا اب ہم جتنے بھی ہیں ڈائریکٹرز کی طرح ہیں جیسے عامر خان ، بانیاز آپ اور کرسٹل ان میں بیکار لوگوں کی بکواس مزہ خراب کرتی ہے میں چاہتا تو بہت سارے فورمز میرے پاس ہیں لیکن مزہ اور لطف اپنے ہم پلہ شخصیات کے ساتھ ہے ۔۔ یہاں سکون ہے بہترین ماحول ہے کچ کچ نہیں
      ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
      سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

      Comment


      • #4
        Re: راز و نیاز 3

        کہا جاتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام اور اُن کی قوم ایک ہی زبان بولتی تھی تاہم کچھ عرصے بعد انسان نے ایک مینار بنا کر آسمان تک پہنچنے کی کوشش کی جسے مینارِ بابل کہا جاتا ہے۔ یہ سمیری تہذیب کی قدیم ترین یادگاروں میں سب سے اونچی عمارت تھی۔ اس عمارت کو شینار (موجودہ عراق) کے میدانی علاقہ میں تعمیر کیا گیا تھا اور پتھر کی بجائے پختہ اینٹیں لگائی گئی تھیں۔ مخروطی شکل کی یہ سات منزلہ عمارت تین سو یا تین ہزار فٹ اونچی تھی۔ اس مینار کی بنیادیں سب سے پہلے ایک یورپین نے 1914ء میں دریافت کیں لیکن مدت تعمیر کا اندازہ پھر بھی نہ ہو سکا۔ بعض روایات کے مطابق یہ برج یا مینار حضرت نوح علیہ السلام کے بعد کی نسلوں نے بنایا تھا اور اس زمانے کا بادشاہ اس کے ذریعے آسمان تک پہنچنا چاہتا تھا۔ خدا نے اس گستاخی کی سزا یہ دی کہ مینار کی مختلف منزلوں پر رہنے والوں کی زبانیں مختلف کر دیں تاکہ وہ ایک دوسرے کی بات نہ سمجھ سکیں جبکہ ایک روایت یہ بھی ہے کہ چونکہ اس برج یا مینار کی منزلیں سات تھیں اور دُنیا کے براعظم بھی سات ہیں یوں ہر منزل پر رہنے والوں کی زبانیں مختلف کرکے انہیں ایک طوفان کے ذریعے دُنیا کے سات مختلف براعظموں میں اُٹھا کر پھینک دیا گیا ورنہ ذرائع آمدورفت کی ایجاد سے قبل ہی ان براعظموں میں انسانی زندگی کے آثار ہرگز نہ ملتے کیونکہ زمین کا جو ٹکڑا براعظم کہلاتا ہے وہ چاروں طرف سے سمندر میں ڈوبا ہوتا ہے اور زمین کے اس خطہ میں انسانی زندگی کا وجود تبھی ممکن ہو سکتا ہے جب سمندری اور فضائی ذرائع آمدورفت موجود ہوں۔
        ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
        سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

        Comment


        • #5
          Re: راز و نیاز 3

          Originally posted by Sub-Zero View Post
          اطہر بھائی بہترین لوگ ہمیشہ کم ہوتے ہیں آپ کبھی بورڈ آف ڈائیرکٹرز کی میٹنگ میں شریک ہوئے نہیں تو جان لیجئے سقراط بقراط اور افلاطون بہت خاص تھے اور یہ علم ردی بازار میں نہیں باٹنتے تھے ان کا علم نایاب تھا اور بہت خاص لوگوں کے لئے تھا اب ہم جتنے بھی ہیں ڈائریکٹرز کی طرح ہیں جیسے عامر خان ، بانیاز آپ اور کرسٹل ان میں بیکار لوگوں کی بکواس مزہ خراب کرتی ہے میں چاہتا تو بہت سارے فورمز میرے پاس ہیں لیکن مزہ اور لطف اپنے ہم پلہ شخصیات کے ساتھ ہے ۔۔ یہاں سکون ہے بہترین ماحول ہے کچ کچ نہیں


          372-haha


          :jhug: :jhug: :jhug: :jhug:
          :star1:

          Comment


          • #6
            Re: راز و نیاز 3

            اطہر بھائی ہر کسی کا اپنا مزاج ہوتا ہے وی وی آئی پی ہر ناکس و عام سے کیوں نہیں ملتے؟ یہ تو نصیب کی بات ہے
            ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
            سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

            Comment


            • #7
              Re: راز و نیاز 3

              تاہم جدید ماہرین لسانیت کا خیال ہے کہ زبانوں میں عقل کو چکرا دینے والا صوتی اور نحوی تنوع ہزاروں سال کے دوران رونما ہوا جبکہ چند ماہرین لسانیت ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ اس تمام تر رنگا رنگی یا انتشار کے باوجود ساری کی ساری زبانوں کے ڈانڈے ایک ہی زبان سے ملتے ہیں۔ 1859ء میں چارلس ڈارون نے ایک انتہائی خطرناک نظریہ پیش کیا جسے ’’نظریہ ارتقاء‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس نظریہ کے مطابق انسان بن مانس (بندر) کی نسل سے تھا جو اپنے ماحول کی وجہ سے تبدیل ہو کر ویسا ہو گیا جیسا کہ آج ہے۔ نظریہ ارتقاء کے حامی ابھی تک اس بات کا جواب نہیں دے سکے کہ حیات کی ابتداء کیسے ہوئی جبکہ اس کے برعکس ایک مسلمان کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بالکل اسی حلیئے سے بنایا ہے جس میں وہ آج موجود ہے۔قرآنی نظریہ کے مطابق بھی ابتداء میں تمام انسان ایک اُمت اور ایک زبان تھے پھر وہ مختلف ہو گئے یعنی اللہ نے اُمت واحدہ میں سے مختلف اُمتیں بنا کر انہیں جدا جدا کیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام سے انسان کی نسل کو آگے بڑھایا مگر تمام انسانوں کی شکلیں آدم علیہ السلام جیسی نہیں بنائیں۔
              انسانی ارتقاء اگر جدید انسانی ارتقاء جو آخری برفانی دور میں ہوا جب انسان نے غاروں کو چھوڑ کر قبیلوں میں رہنا شروع کیا تب بھی اتنی جلدی دس سے بارہ ہزار سالوں میں ہزاروں زبانیں؟

              بات جو بھی ہے اب اس زبانوں کو رہنے دیتے ہیں اور چلتے ہیں ایسی تہزیب کی طرف جو آج سے ہزاروں سال پہلے قریباّ آخری برفانی دور سے پہلے تک موجود تھی جس کی ترقی کا یہ عالم تھا جو نا صرف خلاؤں میں گھومتے تھے بلکہ پکا یقین ہے ان کا تعلق بیرونی سیارے سے تھا اور ان کی ترقی کا یہ عالم تھا احرام مصر کے بننے میں بھی ان کے بچے کچھے لوگ تھے زراعت کی ابتداء بھی انہوں نے شروع کرائی جلد اس پہ تفصیل پیش کرتا ہوں
              ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
              سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

              Comment


              • #8
                Re: راز و نیاز 3

                @

                فلسفہ نام ہے مدلل علم کا اور دانش دوستی کا۔۔اس کے مطالعہ سے اننسان کی فکری صلاحیتیں بروئے کار آتی ہیں۔۔فلسفہ انسانی ذہن کی انتہا درجہ کی دلیری ہیں۔۔عقل و خرد جسے فلاسفہ نے نفس ناطقہ کا نام دیا ہے انسان کو حیوانات سے ممتاز کرتی ہے۔ جان لیا جائے جو لوگ جذبات کے غلام ہیں اور ان کی جبلتوں پر عقل و خرد کا تصرف نہیں وہ حیوانات ہی کی زندگی گزار رہے ہیں۔۔شدید بھوک اورہوس کی ھالتوں میں وہ جامہ انسانیت کو تار تار کرنے میں کوئی باک محسوس نہیں کرتے۔۔ٹھیک ہےفلاسفہ کے لوگ بھی جلت کی تسکین کرتے لیکن بہرحال ان کا پیرایہ اظہار شائستہ اور لطیف ہوتا۔۔۔مطالعہ فلسفہ سے انسان نسلی قومی اور مذہبی تعصبات سے نجات پا کر انسان کو انسان کی حٰثیت سے دیکھنے لگتا ہے

                فلسفہ ام العلوم ہے اکثر علوم یا تو فلسفے سے متفرع ہوتے ہیں اور یا اپنے ھقائق کی ترجمانی کے لیے فلسفے کے محتاج ہیںً÷÷۔۔فلسفہ روز اول سے ہی سائنس کی ترقی کی راہ ہموار کرتا رہا ہے فلسفہ عقلی استدلال پر زور دیتا ہے جس سے تفکرو تدبر کی صلاحیتیں پیدا ہوتی ہیں اور اوہام و خرافات کا طلسم شکست و ریخت ہوجاتا ہے۔۔جس ملک میں فلسفے کو غیر اہم سمجھا جاتا ہے اس میں سائنس کا پنپ سکنا امر محال ہے۔۔۔ اسلامی ممالک میں سائنس کے ترقی نہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان میں اہل علم فلسفے کو شروع سے ہی مذہب کی کنیز سمجھتے رہے ہیں اور اس کا مستقل بالذات حیثیت سے کبھی مطالعہ نہیں کیا گیا۔ اس متکلمانہ نقطہ نظر سے علمہ تحقیق کو شدید نقصان پہنچا اور اس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔۔۔سائنس کے انکشافات اہل مغرب کرتے ہیں اور ہم نصوص کی تاویل بے جا کر کے انہیں ان انکشافات پر منطبق کر دیت ہیں۔۔

                یونان کو اک دور میں وہ ثبات و استکام نصیب ہوا جس کی محراب عظمت و جلال میں صدیاں سر بہ سجود نطر اتی ہیں یونان کی اس عظمت کے صورت گر یونان کے حکام عدلہ اہل حرفہ اور دوسرے معاملہ دار افراد نہیں تھے بلکہ ایتھنز کی ہیکلوں کے وہ گلیم پوش فلاسفر تھے جو اپنے گرد و پیش سے بے خبر ہو کر خیر و جمال نہایت و لانہایت علت و معلول اور حیات کائنات کے بارے میں بحثیں کیا کرتے تھے جن کے بارے میں یونانی کے معاملہ داروں کا خیال تھا کہ یہ لوگ پاگل ہیں اور فضول میں اپنا وقت ضاائع کر رہے ہیں ہم اج بھی جب یونان کا ذکر رکتے ہیں تو دراصل وہ یونان کے فلاسفروں اور تخلیقی فن کاروں کا ذکر ہوتا ہے جن کے ذہنوں سے یونان کی ذہنی زندگی نے جنم لیا تھا۔ ہومر، تایسس ملٹی، سقراط، الفلاطون پروتاگورس اور ارسطو کے نام دراصل عظیم یونان کے عظیم ذہن کی علامتیں ہیں

                اسی طرح جب عرب اپنی ذہنی زندگی و فلاسفہ کی حرارت لے کر شاہراہ تمدن کی طرف نکلے تو نہ جانے کتنی ہی محرابوں پر چراغاں کر گئے۔۔بغداد، قاہرہ، قرطبہ، شیراز قصر تہذیب کی یہ شفق انگیز محرابیں اج تک تاریخ و تمدن کا عنوان جمیل ہیں ان محرابوں کے روشن گر محمود غزنوی، صلاح الدین ایوبی، اسمعاعیل سفوری اور سلطان عثمانیہ نہیں تھے بلکہ عظیم فلاسفر ابن مسکویہ، فارابی، قاضی ابن رشد، ناصر خسرو، ابولعلا، خیام اور سعدی ابن سینا طوسی تھے جن کا ذکر اس تفصیل کا اجمال ہے جو فخر و ناز فرو فروغ اور وقار و تمکنت کی فضائوں میں بازو پھیلاتی ہے۔۔۔

                خوش رہیں
                :(

                Comment


                • #9
                  Re: راز و نیاز 3

                  بہت زبردست عامر آپ کی تحریریں ہمیشہ کچھ نیا کچھ الگ کچھ بہت خاص لئے ہوتی ہیں ۔ فلسفہ پہ اتنی پر اثر تحریر کے لئے بہت بہت شکریہ
                  ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
                  سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

                  Comment


                  • #10
                    Re: راز و نیاز 3

                    اٹلانٹس

                    کہتے ہیں برفانی دور کے بعد ایک تہزیب رہا کرتی تھی لگ بھگ آج سے دس ہزار سال پہلے ۔۔ چونکہ یہ تہزیب مکمل تباہ ہوگئی تھی اس کے ساتھ یہ تہزیب چونکہ بیچ سمندر میں جزیرے پہ رہا کرتی تھی
                    جیسے آج امریکہ ترقی یافتہ ہے اس سے بھی زیادہ یہ تہزیب ترقی یافتہ تھی ۔۔ ان کے محل وقوع کے بارے میں متضاد آراء ہیں
                    افلاطون نے 360 قبل مسیح میں اپنے شاگردوں سے ایک جزیرے کا ذکر کیا جو کہ تمویاز اور کرٹیاز تھے کہ آج سے 9000 ہزار پہلے اندازّ 9600 قبل مسیح ٹھیک وہی دور جب آخری برفانی دور آیا
                    بقول افلاطون یہ جزیرہ اور تہزیب ایک دن اور رات میں تباہ ہوگئی اس تہزیب کے جغرافیہ کے متعلق افلاطون کہتے ہیں یہ مغربی یورپ اور افریقہ کے درمیان کہیں تھی

                    جاری ہے
                    Attached Files
                    ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
                    سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

                    Comment


                    • #11
                      Re: راز و نیاز 3

                      معلوم نہیں قدرت کو کیا بیر ہے یا یہ نظام قدرت ہے ہر کچھ ہزار سال بعد دنیا پھر پیچھے چلی جاتی ہے وہی جہاں سے چلی تھی مگر مقام حیرت ہے جاندار بشمول انسان اپنے آپ کو بچانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں
                      مثال کے طور پر پچھتر ہزار سال پہلے آیا وہ بھانک سانحہ جس میں انڈونیشیا طوبہ میں ایسا بھیانک آتش فشاں پھٹا جس نے اٹھائیس سو میل پہ لاوا بکھیر کر تمام وہاں رہنے والی مخلوق کو جلا کر خاکستر کردیا
                      اس کے ساتھ تمام دنیا سب براعظموں میں گندھک کے بادل چھا گئے ایک مخلوق کے مرنے کا جو سبب بنے بلکہ آنے والے ہزار سال تک فضا کو زہریلا رکھنے کے ساتھ ٹمریچر نقطہ انجماد دو تین رکھا دنیا میں
                      ہزاروں نسل کے جانور ، پیڑ اور پودے صفحہ ہستی سے مٹ گئے
                      ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
                      سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

                      Comment


                      • #12
                        Re: راز و نیاز 3

                        اس بات کو کم و بیش ساٹھ ہزار سال بعد جب زندگی ایک پھر عروج پر تھی اتنے عروج پہ آپ کے خلائی جھاز ایسے ہیں جیسے سینتالیس کے فرسودہ جھاز اور آج کے سپر سانک یعنی کہ انٹلانٹس ٹیکنالوجی میں بے انتہا ماہر ہوچکے تھے مگر فطرت کسی کو نہیں بخشتی کیونکہ فطرت ایک نظام کا نام ہے اور نظام بدلتے نہیں بلکہ اس نظام میں رہنے والے بدل جاتے ہیں مٹ جاتے ہیں مگریہ ان پر کبھی رحم نہیں کھاتی کے اس بام عروج کو پانے میں ایک نسل یا نسلوں کی محنت کارفرما ہے
                        انٹلانٹس کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہوا کہ بڑی بڑی عمارتیں جدید روڑ بہترین مواصلات کے ساتھ تاریخ میں واحد قوم جو بڑے بڑے بحری جھاز تجارت کے لئے استعمال کرتی تھی
                        ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
                        سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

                        Comment

                        Working...
                        X