اسلام علکیم
امید کرتا ہوں سب بخیریت ہونگے۔۔۔لوگ چاہے ہماری بات پہ ہنسیں ہمیں بےکار اور عجیب و غریب عقائد کے طنعے دیں لیکن میرا یہ دعویٰ ہے کہ نیٹ پہ اج تک ادب تاریخ فلسفے منطق اور ذہن و زبان و ثقافت پہ اتنا سائنٹیفک کسی نے نہیں لکھا جتنا میں لکھ چکا ہوں۔ابھی ابتدا ہے دیکھے گا کیسے کیسے اسرار ہیں جن کو پڑھ کر اپ انگشت بدنداں رہ جائے گے اور اگر کوئی علم کا طالب ہے ہے تو وہ میری پوسٹس بغور پڑھے تو وہ اس امر سے اگاہ ہوگا کہ میں نے کبھی اپنی رائے کسی موضؤع پہ بھی نہیں دی بلکہ یہ تحریر مختلف مکاتیب فکر کے زعما کی آرا اور تشریحات اور توجیات پہ مشتمل ہوتی ہے۔۔ جو میری وسیع المطالعہ ہونے اور اپنی ذات میں ایک سماں ہونے پہ دلیل کرتی ہے۔ایک ایسے ہی متنازعہ اور دبنگ موضوع علم نجوم کے ساتھ حاضر ہوں امید کروں گا اپ کو پسند ائے گی۔۔ہمیشہ خوش رہیں۔۔
عامر احمد خان۔۔ھاجی شاہ اٹک
علم نجوم
اس علہم سے انسان کی دلچسپی اتنی ہی پرانی ہے جتنی انسان کی تاریخ۔۔۔ تاریخی ریکارڈ سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ قبل از تاریخ عہد کے لوگوں کو جنہیں ‘“ نیم انسان ’’ کہا جاتا ہے اجرام فلکی میں دلچسپی موجود تھی۔
شاید اس علم کی ابتدا میسو پوٹیما میں ہوئی تھی۔پانچ ہزار سال ہوئے انہوں نے ستاروں کو نام دئے پروہتوں نے ستاروں کی گردش پر نظر رکھنے کا فریضہ سنبھالا۔۔700 قبل از مسیح تک وہ اسمان کو بارہ بروج میں تقسیم کر کے مختلف ناموں سے شناخت کرنے لگ گئے تھے،،بابل سے یہ علم مصر اور یونان پہنچا فرعون سے قبل مصر میں اس کی خاص پذیرائی نہ ہوئی مگر یونان نے خوب قدر کی۔بابلی نجوم میں تھوڑ سی تبدیلی لائی گئی۔
تقریبا 200 قبل از مسیح کے بعد یونانی نجوم پر کئی کتابیں ضبط تحریر میں لائی گئیں مگر اسکندریہ کے ایک شخص بطلیموس ( ٹالمی ) کی کتاب ٹیٹرابائبوس سب پہ سبقت لے گئی اس شخص کے نظریات سترہوں صدی عیسوی تک جوں کے توں علم نجوم کی اساس بنے رہے۔اس نے اپنی کتاب مین نجوم کے بارے میں اپنے دور تک کی معلومہ تمام تر معلومات کو یکجا کر کے زائچہ نکالنے کے اصول بھی وضع کئے۔
رومیوں کو نجوم سے دلچسپی یونانیوں سے ملی ۔پہلے رومی شہنشاہ آگسٹس نے تو اپنے پئدائیشی برج کی علامت کو سکوں پر ڈھلوایا
اول اول نجوم کی مخالف عیسائیوں کی جانب سے ہوئی۔مگر نجوم پہ زوال کی ابتدا اس وقت ہوئ جب چوتھی صدی عیسوئی میں مذہب عیسائیت روما کا سرکاری مذہب ٹھہرا اور وہاں نجوم کو ممنوع قرار دے دیا گیا۔روما پہ وحشی قبائل کے قبضے کے بعد مغرب سے نجوم بالکل ہی مٹ گیا،تاہم مشرقی بازنطینی سلطنت میں تھوڑا بہت رائج رہا وہاں سے عربوں کو منتقل ہوا جنہوں نے اس میں گراں قدر اضافے کئے۔ بارہوں صدی عیسوی میں یورپ کو دوسری مرتبہ نجوم سے شناسائی اس وقت ہوئی جب عرب نجومیوں کا کام کا لاطینی ترجمہ کیا گیا۔سولہوں صدی عیسوئی تک نجوم کو دوبارہ معتبر مقام ھاصل ہوگیا۔بادشہوں نے درباروں میں شاہی نجومیوں کی تقرری کی ابتدا ہوئی اور نجومیت کو خاصی قبولیت عامہ ھاصل ہو گئی۔۔مگر سیاسی داو پیچ کے دوران بعض نجومیوں نے الٹی سیدھی پیشنگوئیوں سے لوگوں کو ہہ باور کرانے کا سلسہ شروع کر دیا کہ ستارے انہی کے پسندیدہ سیاسی ادارے کے ھق میں ہیں۔۔مثلا انگلستان میں پارلیمانی یا بادشاہی طرز سیاست کے سلسے میں دونوں جانب سے نجومیوں کی متضاد پیش گوئیوں نے لوگوں کا نجوم سے اعتماد اٹھانا شروع کر دیا۔
مگر ایسے میں بعض نجمومیوں کی پیش گوئیاں حیرت انگیز طور پر درست ثابت ہوئیں مثلا انگلستانی نجومی ولیم للی جس نے پارلیمانی طرئقہ حکومت کے رائج ہونے کی کامیاب پیش گوئی کی تھی اور لندن کی عظیم آتش زدگی اور طاعون پھیلنے کی اطلاع دس برس پہلے دے دی تھی۔۔
جاری ہے
امید کرتا ہوں سب بخیریت ہونگے۔۔۔لوگ چاہے ہماری بات پہ ہنسیں ہمیں بےکار اور عجیب و غریب عقائد کے طنعے دیں لیکن میرا یہ دعویٰ ہے کہ نیٹ پہ اج تک ادب تاریخ فلسفے منطق اور ذہن و زبان و ثقافت پہ اتنا سائنٹیفک کسی نے نہیں لکھا جتنا میں لکھ چکا ہوں۔ابھی ابتدا ہے دیکھے گا کیسے کیسے اسرار ہیں جن کو پڑھ کر اپ انگشت بدنداں رہ جائے گے اور اگر کوئی علم کا طالب ہے ہے تو وہ میری پوسٹس بغور پڑھے تو وہ اس امر سے اگاہ ہوگا کہ میں نے کبھی اپنی رائے کسی موضؤع پہ بھی نہیں دی بلکہ یہ تحریر مختلف مکاتیب فکر کے زعما کی آرا اور تشریحات اور توجیات پہ مشتمل ہوتی ہے۔۔ جو میری وسیع المطالعہ ہونے اور اپنی ذات میں ایک سماں ہونے پہ دلیل کرتی ہے۔ایک ایسے ہی متنازعہ اور دبنگ موضوع علم نجوم کے ساتھ حاضر ہوں امید کروں گا اپ کو پسند ائے گی۔۔ہمیشہ خوش رہیں۔۔
عامر احمد خان۔۔ھاجی شاہ اٹک
علم نجوم
اس علہم سے انسان کی دلچسپی اتنی ہی پرانی ہے جتنی انسان کی تاریخ۔۔۔ تاریخی ریکارڈ سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ قبل از تاریخ عہد کے لوگوں کو جنہیں ‘“ نیم انسان ’’ کہا جاتا ہے اجرام فلکی میں دلچسپی موجود تھی۔
شاید اس علم کی ابتدا میسو پوٹیما میں ہوئی تھی۔پانچ ہزار سال ہوئے انہوں نے ستاروں کو نام دئے پروہتوں نے ستاروں کی گردش پر نظر رکھنے کا فریضہ سنبھالا۔۔700 قبل از مسیح تک وہ اسمان کو بارہ بروج میں تقسیم کر کے مختلف ناموں سے شناخت کرنے لگ گئے تھے،،بابل سے یہ علم مصر اور یونان پہنچا فرعون سے قبل مصر میں اس کی خاص پذیرائی نہ ہوئی مگر یونان نے خوب قدر کی۔بابلی نجوم میں تھوڑ سی تبدیلی لائی گئی۔
تقریبا 200 قبل از مسیح کے بعد یونانی نجوم پر کئی کتابیں ضبط تحریر میں لائی گئیں مگر اسکندریہ کے ایک شخص بطلیموس ( ٹالمی ) کی کتاب ٹیٹرابائبوس سب پہ سبقت لے گئی اس شخص کے نظریات سترہوں صدی عیسوی تک جوں کے توں علم نجوم کی اساس بنے رہے۔اس نے اپنی کتاب مین نجوم کے بارے میں اپنے دور تک کی معلومہ تمام تر معلومات کو یکجا کر کے زائچہ نکالنے کے اصول بھی وضع کئے۔
رومیوں کو نجوم سے دلچسپی یونانیوں سے ملی ۔پہلے رومی شہنشاہ آگسٹس نے تو اپنے پئدائیشی برج کی علامت کو سکوں پر ڈھلوایا
اول اول نجوم کی مخالف عیسائیوں کی جانب سے ہوئی۔مگر نجوم پہ زوال کی ابتدا اس وقت ہوئ جب چوتھی صدی عیسوئی میں مذہب عیسائیت روما کا سرکاری مذہب ٹھہرا اور وہاں نجوم کو ممنوع قرار دے دیا گیا۔روما پہ وحشی قبائل کے قبضے کے بعد مغرب سے نجوم بالکل ہی مٹ گیا،تاہم مشرقی بازنطینی سلطنت میں تھوڑا بہت رائج رہا وہاں سے عربوں کو منتقل ہوا جنہوں نے اس میں گراں قدر اضافے کئے۔ بارہوں صدی عیسوی میں یورپ کو دوسری مرتبہ نجوم سے شناسائی اس وقت ہوئی جب عرب نجومیوں کا کام کا لاطینی ترجمہ کیا گیا۔سولہوں صدی عیسوئی تک نجوم کو دوبارہ معتبر مقام ھاصل ہوگیا۔بادشہوں نے درباروں میں شاہی نجومیوں کی تقرری کی ابتدا ہوئی اور نجومیت کو خاصی قبولیت عامہ ھاصل ہو گئی۔۔مگر سیاسی داو پیچ کے دوران بعض نجومیوں نے الٹی سیدھی پیشنگوئیوں سے لوگوں کو ہہ باور کرانے کا سلسہ شروع کر دیا کہ ستارے انہی کے پسندیدہ سیاسی ادارے کے ھق میں ہیں۔۔مثلا انگلستان میں پارلیمانی یا بادشاہی طرز سیاست کے سلسے میں دونوں جانب سے نجومیوں کی متضاد پیش گوئیوں نے لوگوں کا نجوم سے اعتماد اٹھانا شروع کر دیا۔
مگر ایسے میں بعض نجمومیوں کی پیش گوئیاں حیرت انگیز طور پر درست ثابت ہوئیں مثلا انگلستانی نجومی ولیم للی جس نے پارلیمانی طرئقہ حکومت کے رائج ہونے کی کامیاب پیش گوئی کی تھی اور لندن کی عظیم آتش زدگی اور طاعون پھیلنے کی اطلاع دس برس پہلے دے دی تھی۔۔
جاری ہے
Comment