بیکٹریا کمپیوٹر بنانے میں مدد دے سکتے ہیں
سائنسدانوں نے ایک ایسے مقناطیسی بیكٹيريا یا جراثیم تلاش کیے ہیں جو مستقبل میں بایولوجیکل یا حیاتیاتی کمپیوٹرز کی تیاری میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔
برطانیہ کی لیڈز یونیورسٹی اور جاپان کی ٹوکیو یونیورسٹی آف ایگریکلچر اینڈ ٹیکنالوجی کے سائنسدانوں نے ایسے بیكٹيرياز پر تحقیق کی ہے جو لوہا کھاتے ہیں۔
لوہا کھانے کے بعد ان بیکٹیریاز کے اندر ایسے چھوٹے مقناطیس بن جاتے ہیں جیسے کہ کمپیوٹرز کی ہارڈ ڈرائیو کے اندر ہوتے ہیں۔
سائنسدانوں کا دعوی ہے کہ اس تحقیق کی وجہ سے ایسا ممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں بہت تیز رفتار ہارڈ ڈرائیوز بنائی جا سکیں۔
یہ تحقیق سائنسی میگزین ’سمال‘ میں شائع کی گئی ہے۔
جیسے جیسے ٹیکنالوجی ترقی کرتی جا رہی ہے اور کمپیوٹرز چھوٹے ہوتے جا رہے ہیں، انتہائی چھوٹے یا باریک سطح کے الیکٹرانک آلات کو بنانا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اس لیے اب اس مسئلہ کو حل کرنے کی خاطر سائنسدان قدرت کا سہارا لے رہے ہیں۔
اس تحقیق کے لیے سائنس دانوں نے جس قدرتی طور پر مقناطیسیت رکھنے والے جس بیكٹيريا کا استعمال کیا ہے وہ پانی کے تالابوں میں ایسے مقامات پر پایا جاتا ہے جہاں آکسیجن کم ہوتی ہے۔ یہ بیكٹيريا زمین کے مقناطیسی میدان کا تعاقب کرتے ہوئے زیادہ آکسیجن والے حصوں کی تلاش میں تیرتے ہیں۔
جب یہ بیكٹيريا لوہا کھاتے ہیں تو ان کے جسم کے اندر کا پروٹین اس لوہے سے مل کر میگنیٹائٹ نامی وہ مقناطیسی مادہ پیدا کرتا ہے جو زمین پر پایا جانے والا سب سے طاقتور مقناطیسی معدن ہے۔
"ہم تیزی سے روایتی الیکٹرانکس کی حدود تک پہنچ رہے ہیں۔ کمپیوٹر کے پرزے چھوٹے اور چھوٹے ہوتے جا رہے ہیں اور ہم ان پرزوں کو بنانے کے لیے جن مشینوں کا استعمال کرتے ہیں وہ بہت کارآمد نہیں ہیں۔ اس مسئلے کا حل فطرت کے پاس ہی ہے۔"
ڈاکٹر سارہ، لیڈز یونیورسٹی
سائنسدان اس بات کا پتہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ بیكٹيريا کس طرح سے لوہے کو ہضم کر پاتا ہے اور کس طرح سے مقناطیس کو اپنے جسم کے اندر محفوظ کرتا ہے۔ وہ انہی طریقوں کا استعمال کر کے مقناطیس تیار کرنے کے خواہاں ہیں۔
لیڈز یونیورسٹی کی ڈاکٹر سارا سٹنيلیڈ کا کہنا ہے کہ ’ہم تیزی سے روایتی الیکٹرانکس کی حدود تک پہنچ رہے ہیں۔ کمپیوٹر کے پرزے چھوٹے اور چھوٹے ہوتے جا رہے ہیں اور ہم ان پرزوں کو بنانے کے لیے جن مشینوں کا استعمال کرتے ہیں وہ بہت کارآمد نہیں ہیں‘۔
ڈاکٹر سارا کے مطابق اس مسئلے کا حل فطرت کے پاس ہی ہے۔
ان بیكٹيريا کے ذریعے مقناطیس بنانے کے علاوہ سائنسدان ان کی مدد سے سے تار اور نلیاں بھی بنا رہے ہیں۔ سائنسدانوں نے ان کے جسم پر موجود جھلی کی مدد سے انتہائی لطیف نلياں بھی بنائی ہیں۔ مستقبل میں اس طرح کی نلياں حیاتیاتی تاروں کو بنانے میں مدد دیں گي۔
سائنسدان چاہتے ہیں کہ ان نليوں کی مدد سے كمپيوٹرز کے اندر اطلاعات کو ٹھیک اسی طرح سے ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچایا جا سکے جس طرح سے انسان کی جسم کے اندر موجود خلیے پہنچاتے ہیں۔
ٹوکیو یونیورسٹی کے ڈاکٹر ماسايوشي تاناكا نے بی بی سی کو بتایا ’کمپیوٹر کے علاوہ ان نليوں یا تاروں کا استعمال انسان کے جسم پر سرجری کرنے کے لیے بھی کیا جا سکتا ہے‘۔
ان کے مطابق فی الوقت انسانی جسم کے آپریشن میں استعمال کرنے کے لیے بہت باریک تار موجود تو ہیں لیکن وہ جسم میں گھلتے نہیں اور یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ ڈاکٹر تاناكا کے مطابق حیاتیاتی تاروں کی ایجاد سے یہ مسئلہ ختم ہو جائے گا۔
سائنسدانوں نے ایک ایسے مقناطیسی بیكٹيريا یا جراثیم تلاش کیے ہیں جو مستقبل میں بایولوجیکل یا حیاتیاتی کمپیوٹرز کی تیاری میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔
برطانیہ کی لیڈز یونیورسٹی اور جاپان کی ٹوکیو یونیورسٹی آف ایگریکلچر اینڈ ٹیکنالوجی کے سائنسدانوں نے ایسے بیكٹيرياز پر تحقیق کی ہے جو لوہا کھاتے ہیں۔
لوہا کھانے کے بعد ان بیکٹیریاز کے اندر ایسے چھوٹے مقناطیس بن جاتے ہیں جیسے کہ کمپیوٹرز کی ہارڈ ڈرائیو کے اندر ہوتے ہیں۔
سائنسدانوں کا دعوی ہے کہ اس تحقیق کی وجہ سے ایسا ممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں بہت تیز رفتار ہارڈ ڈرائیوز بنائی جا سکیں۔
یہ تحقیق سائنسی میگزین ’سمال‘ میں شائع کی گئی ہے۔
جیسے جیسے ٹیکنالوجی ترقی کرتی جا رہی ہے اور کمپیوٹرز چھوٹے ہوتے جا رہے ہیں، انتہائی چھوٹے یا باریک سطح کے الیکٹرانک آلات کو بنانا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اس لیے اب اس مسئلہ کو حل کرنے کی خاطر سائنسدان قدرت کا سہارا لے رہے ہیں۔
اس تحقیق کے لیے سائنس دانوں نے جس قدرتی طور پر مقناطیسیت رکھنے والے جس بیكٹيريا کا استعمال کیا ہے وہ پانی کے تالابوں میں ایسے مقامات پر پایا جاتا ہے جہاں آکسیجن کم ہوتی ہے۔ یہ بیكٹيريا زمین کے مقناطیسی میدان کا تعاقب کرتے ہوئے زیادہ آکسیجن والے حصوں کی تلاش میں تیرتے ہیں۔
جب یہ بیكٹيريا لوہا کھاتے ہیں تو ان کے جسم کے اندر کا پروٹین اس لوہے سے مل کر میگنیٹائٹ نامی وہ مقناطیسی مادہ پیدا کرتا ہے جو زمین پر پایا جانے والا سب سے طاقتور مقناطیسی معدن ہے۔
"ہم تیزی سے روایتی الیکٹرانکس کی حدود تک پہنچ رہے ہیں۔ کمپیوٹر کے پرزے چھوٹے اور چھوٹے ہوتے جا رہے ہیں اور ہم ان پرزوں کو بنانے کے لیے جن مشینوں کا استعمال کرتے ہیں وہ بہت کارآمد نہیں ہیں۔ اس مسئلے کا حل فطرت کے پاس ہی ہے۔"
ڈاکٹر سارہ، لیڈز یونیورسٹی
سائنسدان اس بات کا پتہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ بیكٹيريا کس طرح سے لوہے کو ہضم کر پاتا ہے اور کس طرح سے مقناطیس کو اپنے جسم کے اندر محفوظ کرتا ہے۔ وہ انہی طریقوں کا استعمال کر کے مقناطیس تیار کرنے کے خواہاں ہیں۔
لیڈز یونیورسٹی کی ڈاکٹر سارا سٹنيلیڈ کا کہنا ہے کہ ’ہم تیزی سے روایتی الیکٹرانکس کی حدود تک پہنچ رہے ہیں۔ کمپیوٹر کے پرزے چھوٹے اور چھوٹے ہوتے جا رہے ہیں اور ہم ان پرزوں کو بنانے کے لیے جن مشینوں کا استعمال کرتے ہیں وہ بہت کارآمد نہیں ہیں‘۔
ڈاکٹر سارا کے مطابق اس مسئلے کا حل فطرت کے پاس ہی ہے۔
ان بیكٹيريا کے ذریعے مقناطیس بنانے کے علاوہ سائنسدان ان کی مدد سے سے تار اور نلیاں بھی بنا رہے ہیں۔ سائنسدانوں نے ان کے جسم پر موجود جھلی کی مدد سے انتہائی لطیف نلياں بھی بنائی ہیں۔ مستقبل میں اس طرح کی نلياں حیاتیاتی تاروں کو بنانے میں مدد دیں گي۔
سائنسدان چاہتے ہیں کہ ان نليوں کی مدد سے كمپيوٹرز کے اندر اطلاعات کو ٹھیک اسی طرح سے ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچایا جا سکے جس طرح سے انسان کی جسم کے اندر موجود خلیے پہنچاتے ہیں۔
ٹوکیو یونیورسٹی کے ڈاکٹر ماسايوشي تاناكا نے بی بی سی کو بتایا ’کمپیوٹر کے علاوہ ان نليوں یا تاروں کا استعمال انسان کے جسم پر سرجری کرنے کے لیے بھی کیا جا سکتا ہے‘۔
ان کے مطابق فی الوقت انسانی جسم کے آپریشن میں استعمال کرنے کے لیے بہت باریک تار موجود تو ہیں لیکن وہ جسم میں گھلتے نہیں اور یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ ڈاکٹر تاناكا کے مطابق حیاتیاتی تاروں کی ایجاد سے یہ مسئلہ ختم ہو جائے گا۔
Comment