Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

تخلیق اورارتقا

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • تخلیق اورارتقا




    Click image for larger version

Name:	Irtqa.gif
Views:	1
Size:	70.6 KB
ID:	2488175

    :(

  • #2
    Re: تخلیق اورارتقا

    اف یہ فلسفی لوگ۔۔۔ کہاں سے کہاں پہنچ گے لیکن ان کی سوئی ایک ہی جگہے پر اٹکی وی ہے۔۔۔مجھکو تو ہنسی آتی ہے اس مادہ والے کونسپٹ پر۔۔۔۔

    اگلے حصے کا انتظار ہے۔۔۔
    میں نعرہ مستانہ، میں شوخی رندانہ

    Comment


    • #3
      Re: تخلیق اورارتقا

      بہت شاندار معلومات ہے خاص کر انسان پیدا ہوتے وقت لاچار ہوتا ہے
      عامر میں نے سیکڑوں موضوعات پڑھنے اور سمجھنے کا بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے
      کوئی طاقت ایسی ہے جس نے سب بنایا ہے اور نہ صرف بنایا بلکہ اس زندگی کی حیرت انگیز چیزیں بھی دیں

      کھانے کو دانت ، دیکھنے کو کیمرا آنکھیں سننے کو کان بولنے کو زبان چلنے کو ٹانگیں اٹھانے کو ہاتھ
      ایسا نا ممکن ہے ارتقاء میں یہ سب مل جائے

      کتے کو زخم ہوجائے شیر کو زخم ہوجائے تو یہ کچھ کر نہیں سکتے زبان سے چاٹتے ہیں اور ان کے لعاب میں
      معلوم ہے کیا ہوتا ہے ۔انٹی سپٹک جس سے زخم ٹھیک ہوجاتا کہاں سے آئی یہ انٹی سپٹک؟

      چیتا 60 میل فی گھنٹہ بھاکتا ہے تقریبا اور ہرن 45 میل لیکن چیتا ایک سے ڈیڑھ منٹ بھاگ سکتا ہے اس سے
      زیادہ بھاگے کا تو اس کا دل رک جائے گا مگر ہرن مسلسل بھاگ سکتی ہے یہ صلاحیت تو سمجھ میں
      آتی ہے مگر ایک منٹ صرف بھاگ سکنا اس کی پابندی اس کے بنانے والے نے رکھی تاکہ ہرن اور
      دوسرے جانوروں کو ایڈوانٹج ملے

      اس کے علاوہ بھی بہت ساری صلاحتیں جو بنانے والے نے رکھی
      اونٹ کی چودہ دن پیاس برداشت کرنے کی صلاحیت
      انسان بھی صحرا میں رہا مگر یہ طاقت اونٹ کو ملی

      گدھوں کا مردار کھا کر صفائی کا کا کام یہ سڑے سے سڑا گوشت بھی با آسانی ہضم کر لیتے ہیں

      اور بھی گنواؤں گا جلد
      ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
      سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

      Comment


      • #4
        Re: تخلیق اورارتقا

        ارسطو 322-384 قبل از مسیح کی قاموسی شخصیت سے کون واقف نہیں وہ پہلا یونانی فلسفی تھا جس نے وسیع پیمانے پہ سائنسی تجربے کئے اس کے پیش رو فلسفی اپنےمشاہدے کی بنا پر ظن و قیاس سے کام لیتے تھے لیکن ارسطو کے نزدیک یہ طریقہ اطمینان بخش نہیں تھااس نے اپنے شاگردوں یی مدد سے انواع اقسام کے پودے پھول اور جانور جمع کئے اور ان پر طرح طرح کے تجربے کرتا رہا ۔کہتے ہیں کہ اس کے شاگرد سکندر اعظم، نے شاہی شکاریوں مچھیروں اور باغ بانوں کی ہدائت کر رکھی تھی کے جب کوئی نئی قسم کا پودا یا جانور ملے تو اس کا ایک نمونہ ارسطو کے
        عجائب گھر میں ضرور بھجوا دو۔ارسطو نے جانوروں کی تقریبا ساڑھے پانچ سو انواع کی درجہ بندی کی تھی اور مختلف نوع کے کم از کم پچاس جانوروں کی چیر پھاڑ کر کے ان کے متعلق اپنے مشاہدات قلم بند کئے تھے





        ارسطو نے ان تجربوں سے یہ نتیجہ اخد کیا کہ نباتات اور حیوانات کی دنیا ایک وحدت ہےاس وحدت کی نوعیت سیڑھی کی سی ہے جس میں بہت سے زینے ہیں پہلے زینے پر پودے ہیں اوپر کے زینوں پر درجہ بدرجہ مختلف انواع کے جانور ہیں اور سب سے اوپر کے زینے پہ انسان براجمان ہے۔اس طرح ارسطو نے مخلوقات کے گیارہ درجے یا زینے مقرر کئے



        ارسطو مخلوقات کی درجہ بندی ان کی جسمانی بناوٹ کے لحاظ سے کرتا ہے
        لیکن اس کا کہنا ہے کہ نوع کا تعین جسمانی ساخت سے نہیں ہوتا بلکہ نامیاتی اعضا کی ھرکت و عادات سے ہوتا ہے یہاں پہنچ کر ارسطو ما بعد الطبعیات کا سہارا لیتا ہے اور کہتا ہے کہ جسمانی ساخت اور کے عادات
        و حرکات بالاخر روح کے تابع ہوتے ہیں ارسطو کے نزدیک ہر شے کی اپنی مخصوص روحہوتی ہے۔۔ارسطو کے خیال میں روح انسانی کا مرکز دماغ نہیں بلکہ دل ہوتا ہے


        ارسطو کے خیال میں انسان اور دوسرے بچہ دینے والے جانوروں کی درمیانی کڑی بوزنہ ہے


        سکندر اعظم کی موت 327 ق م کے بعد یونانی سلطنت کا شیرازہ بکھر گیا
        اور اس کے جانشینوں کے درمیان حصول اقدار کی جنگ چھڑ گئی۔۔اس کے پانچ سال بعد جب ارسطو نے وفات پائی تو فلسفہ و حکمت کی درس گاہیں ختم ہو گئیں اور یونانی علما فضلا نے بھاگ کر اسکندریہ میں پناہ لی یہ درست کہ کے رومتہ الکبریٰ کے فرماں رواں فتح و ظفر اور جاہ و چشم میں یونانیوں
        سے بھی سبقت لے گئے تھے لیکن وہ افلاطون اور ارسطو نہ پیدا کر سکے اور جب بادشاہ سمیت حکمران طبقے نے عیسائی مذہب قبول کر لیا اور کلسیائے روم کا اقتدار ہوا تو سائنسی تحقیقی و جستجو کیروح بالکل ہی مردہ ہو گئی

        پادریوں نے لوگوں کے دلوں میں یہ بات بٹھا دی کہ خدا نے دنیا کو چھ دنوں
        میں خلق کیا تھا اور تب سے وہ یوں ہی چل رہی ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی اور نہ ترقی البتہ جو تبدیلیاں اور ترقیاں تم دیکھ رہے ہو یہ درحقیقت شیطانی شعبدے ہیں جس سے ہر خدا پرست کو پرہیز کرنا چاہیے

        پادریوں نے ہبوط ادم کی داستان کی جو تشریح کی اس کے نتائج اور زیادہ مضر ثابت ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بنی ادم اخلاقی طور پر مسلسل روبہ انحطاط ہے یہ زوال اس لمحے شروع ہوا تھا جب ادم نے شجر ممنوع کا پھل کھایا اور جنت سے نکال دیا گیا۔۔اگر کسی بدنصیب نے پادریوں کی ان خرافات کی خلاف منہ کھولا تو کلیسا کی عدالت نے اس کو زندیق دہریا بدعتی اور جادوگر قرار دے کر اگ میں جھونک دیایا بدن کے ٹکرے تکرے کر کے سولی چڑھا دیا۔۔چنانچہ قرون وسطی میں ہزاوں لاکھوں بے گناہ کلیسا کے ان انسانیت سوز جرائم کا نشانہ بنے۔۔





        جاری ہے


        :(

        Comment


        • #5
          Re: تخلیق اورارتقا

          البتہ پندرھیوں صدی کے اختتام پر جب امریکہ اور ہندوستان کے بحری راستےدریافت ہوئےتو بین الاقوامی تجارت لے فروغ کے باعث سرمایہ دوری نطام کی داغ بیل پڑیاور یورپ میں قومی ریاستیں بننے لگیں اور ان کے مفاد کلیسا سے ٹکرانے لگے اور پروسٹنٹ تحریک کی داغشروع ہوئی اور چھاپے خانے قائم ہوئےاور قومی زبان کا ادب ترقی کرنے لگا اور پاپائے روم کےسیاسی مخالفین نے روشن خیال دانش وروں کی سر پرستی شروع کر دی اور بین القوامی تجارت کے تقاضوںکو پورا کرنے کے لیے مشینی ایجادوں کی ھوصلہ افزائی ہونے لگی تو یورپ میں خد افروزی کا نیا دورشروع ہوگیا۔۔سائنسی دریافتوں اور صنعتی ترقیوں کی وجہ سے تحقیق و جستجو کا ایک نیا ماحول پیدا ہوا
          تقلید اور روایت پرستی کی جگہ اہستہ اہستہ تنقید اور تشکک اور کیوں اور کیسے کی اوازیں اٹھنے لگیں۔اب کم از کم تعلیم یافتہ طبقوں کو یہ کہہ کر مطمئین نہیں کیا جا سکتا تھا کہ فلاں باتانجیل یا مذہبی کتابوں میں یوں ہی لکھی ہے لہذا اس کو بے چون و چراں مان لو بلکہ ہر دعوےکی تائد میں عقلی دلیل طلب کی جاتی تھی۔اُس مذہب کے دن پورے ہو گئے جو خوف اور تعزیر کے تازیانوں سے حکومت کرتا تھا

          اکا دکا فلسفیوں سے قطع نظر ارتقا کے تصور کا حیا اٹھارہوں صدی عیسوی میں ہیوا قرون وسطی
          کا فلسفہ حیات اگر ادم کا زوال تھا تو 18 صدی نے ادم کی ترقی کا فلسفہ حیات بنایا یہ فلسفہ
          دانائے راز کے تخیل کی تخلیق نی تھا بلکہ گرد و بیش کی حقیقتوں سے اخذ کیا گیا تھا۔





          جاری ہے


          :(

          Comment


          • #6
            Re: تخلیق اورارتقا

            ٹھیک آپ بات مکمل کیجئے اس کے بعد میں ایک نقطہ اٹھاؤں گا جو مجھے ہمیشہ پریشان کرتا ہے
            ابھی کافی سمجھنے کو مل رہا ہے کہ کب کیسے کیوں کہاں
            ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
            سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

            Comment


            • #7
              Re: تخلیق اورارتقا





              اکا دکا فلسفوں سے قطع نظر ارتا کے تصور کا احیا اتٹھارہیوں صدی عیسوی میں ہوا۔۔قرون وسطیٰ کا فلسفہ حیات اگر ادم کا زوال تھا تو 18 صدی نے ادم کی ترقی کا فلسفہ حیات بینایا۔۔ یہ فلسفہ کسی دانائے راز کے تحیل کی تخیلق نہ تھا بلکہ گرد و پیش کی حقیقتوں سے اخز کیا گیا تھا۔۔صنعت و حرفت میں ترقی پیداوار اور تجارت میں ترقی فن و ہنر میں ترقی تعلیم و تدریس میں ترقی و معروضی حقیقیتیں جن سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا تھا۔۔اٹھارہیوں صدی کے مفکروں نے انہیں معروضی حقیقتوں کی بنا پر ارتقا کا ایک جامع نظریہ مرتب کیا جو کائنات اور انسانی معاشرے دونوں پر حاوی تھا۔۔اس نظریے کی وسیع پیمانے پر تبلیغ سب سے پہلے فرانس کے ’’ قاموسیوں ‘‘ نے کی۔یہ روشن خیال مفکروں کا ایک گروہ تھا جس کے سربراہ مشہور انقلابی مفکر دیدرو تھا۔اس جماعت نے 1751 سے1777 کے درمیان ایک انسائیکلو پیڈیا 22 جلدوں میں شائع کیا جس کا مقصد روئے زمین پہ بکھرے ہوئے علوم کو یکجا کرنا تھا تاکہ کوئی جام،ع نظام فکر وضع کیا جاسکے۔اس نظام فکر کی اساس عقل اور سائنس تھی انسائکلو پیڈیا کے مندرجات کا تعلیم یافتہ ذہنوں پر جو اثر ہوا اس کا اندازہ ایڈوکیٹ جنرل کے اس بیان سے ہوتا ہے کہ ان فلسفیوں نے تحت شاہی کو ہلا دیا اور کلیسا کو درہم برہم کر دیا۔

              اور انقلاب فرانس کے ایک نقیب کون دورسے نے اپنی کتاب روح انسان کی ترقی میں لکھا ہے ’’ میں نے دلائل و شواہد سے ثابت کیا ہے کہ انسان کی کاملیت دراصل محدود ہے اس کی ترقی کی رفتار گھٹی بڑھتی ہے مگر انسان کبھی پیچھے کی طرف نہیں دوڑے گا اور مشہور سائنس دان لمارک نے اپنے تجربوں کا نچوڑ 1809 میں فلسفہ حیوانات میں بڑی تفصیل سے پیش کیا۔اس کا خیال تھا کہ جانوروں نے بھی مشینوں کی طرح ارتقا کے مدارج بہتر نوع کی شکل میں ’’ قانون ترقی ‘‘ کے مطابق کئے ہیں۔۔


              جاری ہے
              :(

              Comment


              • #8
                Re: تخلیق اورارتقا

                فرانس کے خدر مند یونانی فلسفیوں کے نظریہ ارتقا سے بہت متاثر تھے مثلا بنائے دامیلے نے 1794 میں انسکیمانڈر کی تقلید میں یہ رائے ظاہر کی ’’ کہ خشکی کے تمام جانور مچھلی سے نکلے ہیں انہوں نے بدلتی عادتوں اور تغیر پذیر ماحول کے باعث موجودہ شکلیں اختیار کی ہیں۔۔پرندے ابتدا میں اڑنے والی مچھلیاں تھے اور شیر دریائی شیر کی نسل سے ہیں انسان جل پریوں کی اولاد ہیں جن کا اوپری دھڑ عورت کا اور نچلا دھڑ مچھلی کا ہوتا ہے اور ماپر ٹوئیس نے 1751 میں یونان کے اٹیمی فلسفیوں کی طرح دعویٰ کیا کہ پودوں اور جانوروں کی مختلف انواع اٹیموں کی مختلف ترتیبوں سے پیدا ہوئی ہیں۔


                دوسرے ملک جہاں ارتقا کا نظریہ بہت مقبول ہوا جرمنی تھا۔ مگر وہاں کے مفکر ارتقا کی تشریح مشینوں کے ھوالے سے نہیں کرتے تھے بلکہ ان کی توجہ کا مرکز ذہن انسانی کا ارتقا تھا۔وہ آئیڈلسٹ تھے اور ان کے نذدیک موجدات عالم کے ارتقا کی محرک ’’ روح عالم ‘“ تھی یا تصور مطلق۔۔انہوں نے نیچر کے ارتقا کے تین گریڈ مققر کئے تھے، پہلا میکانکی جیسے سورج اور سیاروں کا نظام جس میں ’’ خود مختاری ‘‘ برائے نام ہوتی ہے دوسرے کیمائی عناصر اور تیسرے حیوانات جو خود بخود ترقی کرتے ہیں۔ہر گریڈ میں بعض اپنی انفرادی خصوصیات ہوتی ہیں اور بعد نچلی سطع کی اشیا کی لیکن یہ تینوں گریڈ پستی سے ترقی کر کے یکے بعد دیگرے دوجود میں نہیں آئی ہیں اور نہ ایک کا ایک دوسرے کے وجود سے کوئی تعلق ہے۔تاریخی ارتقا تو فقط ’’ روح عالم ‘‘ کی باطنی ذات میں ہوا ہے۔ اس روح عالم نے اپنے داخلی تضادات کو تحلیل کر کے مختلف شکلیں خلق کی جو قدرت کے معروضات کا مخرج ہیں۔۔تمام موجودات عالم کی باطنی حرکت کے معروضی مظاہر ہیں لیکن ان کا ایک دوسرے سے کوئی طبعی رشتہ نہیں





                جاری ہے
                :(

                Comment


                • #9
                  Re: تخلیق اورارتقا


                  ارتقا کا سائنسی نظریہ باقاعدہ طور پر سب سے پہلے زاں لا مارک نے 1809 میں اپنی تصنیف فلسفہ حیوانات میں پیش کیا ۔لمارک کے والدین چاہتے تھے کہ بیٹا پادری بنے مگر اس کا دل مذہبی تعلیم میں نہ لگا اور وہ فوج میں بھرتی ہوگیا۔۔پھر تجارت کرنے لگا لیکن سو و زیاں کا ماحول بھی اسے پسند نہ ایا اور وہ پیرس کے شاہپی باغ میں ملازم ہوگیا۔ پودوں اور جانوروں کی یہ دنیا اسے اچھی لگی حتی کے وہ اپنی فرصت کے اوقات میں بھی انہیں کے مطالعے میں صرف کرنے لگا۔ لمارک نے اپنی تحقیق کی ابتدا پودوں سے کی ان سے فارغ ہوا تو سب سے نچلے درجے کے جانوروں کا مطالعہ کرنے لگا اور اس طرح بتدریج انسان تک پہنچا


                  لمارک بڑھاپے میں اندھ اہوگیا تھا اس کے اخری دن بڑی عسرت اور کسمپرسی میں گزرے۔ اس کا واحد سہارا دو بیٹیاں تھیں جو اص کی خدمت کرتی تھیں اور جن سے وہ اپنی کتابیں لکھواتا تھا۔۔البتہ اس کے مرنے کے بعد اس کی شاہ کار تصنیفات کے سو سالہ جشن کے موقع پر 1909 میں پیرس میں اس کا مجسمہ بڑی دھوم دھام سے نصب کیا گیا نیچے لکھا تھا۔ ’’ نظریہ ارتقا کا موجد مجسمے کی پشت پر ایک نابینا بوڑھے کی ابھرواں تصویر بنی تھی جو ارام کرسی پر بیٹھا ہے اور اس کی بیٹی پاس کھڑی کہہ رہی ہے کہ ’” آئیندہ نسلیں اپ پہ فخر کریں گی اور اپ کے ساتھ جو نا انصافی ہوئی اس کا بدلہ لیں گی ‘‘


                  لمارک کا کہنا تھا کہ پودوں اور جانوروں نے بہت طویل مدت کے ارتقائی عمل سے گزر کر موجودوہ شکل اختیار کی ہے ان میں جو تبدیلیاں ہوئی ان کا باعث ماحول کی تبدیلیاں ہیں۔جسم کی تبدیلیاں نئی نسلوں میں منتقل ہو جاتی ہیں یوں یہ سلسہ نسلا بعد نسل یوں ہی چلتا رہتا ہے ۔اس نے پانی کے کنارے اگنے والے ایک پودے کی مثا، دیتے ہوئے لکھا کہ یہ پودا ادھا پانی کے اندر ہوتا ہے اورا دھا پانی کے اوپر۔ جو شاخیں پانی میں ڈابی رہتی ہیں ان میں باریک باریک کانٹے نکل اتے ہیں البتہ جو شاخیں سطع آب سے اوپر ہوتیں ہیں ان میں کانٹے نہیں ہوتے بلکہ چوڑی چوڑی پتیاں اور پھول ہوتے ہیں مگر اسی پودے کو خشکی میں لگا دیا جائے تو اس کی تما شاخوں میں پتیاں نکجل اتی ہیں اور دوبارہ پانی میں لگا دیا جائے تو پہلے کی طرح زیر اب شاخوں میں پھر کانٹے نکل اتے ہیں


                  جاری ہے
                  :(

                  Comment


                  • #10
                    Re: تخلیق اورارتقا

                    مجھے ایک بات سے اختلاف ہوا جب کچھ لائنز میں کہا گیا مچھلیاں اڑنے لگیں جبکہ تمام اڑنے والے پرندے ڈائناسار کی ارتقاء ہیں
                    پہلے پہل جاندار جو واقعی کہ سکتے ہیں کچھ سمجھ بوجھ والے تھے ڈائناسار تھے جو نڈے دیتے تھے بچے دینے والے جاندار بہت
                    بعد میں آئے پرندوں کے بعد بھی اور ڈائناسار کی جسامت دیکھ کر کچھ حیرت نہیں ان کا ارتقاء کیا تھا جو سیکڑوں ٹن کے تھے
                    اور زمیں پر دندانتے پھرتے تھے
                    انسانی جین جس میں مائکرو چپ ہوتی جس میں تمام معلومات جو دس پچاس کی نہیں جب سے انسان پیدا ہوا جب سے اب تک
                    کی ہے اور سب سے حیرت کی بات اس میں انسان کی موت کا ٹائم بھی فیڈ ہوتا ہے ۔ اس کا رنگ ساخت کی معلومات کے علاوہ
                    اس کے خاندان کی اچھائی برائی ، بہادری بزدلی ، بیماریاں وغیرہ
                    جب انسان پیدا ہوتا ہے تو اس سے پہلے یہ سب کس طرح پراپر طریقے سے پروگرام چلتا ہے

                    ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
                    سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

                    Comment


                    • #11
                      Re: تخلیق اورارتقا

                      Originally posted by Sub-Zero View Post
                      Originally posted by Sub-Zero View Post
                      مجھے ایک بات سے اختلاف ہوا جب کچھ لائنز میں کہا گیا مچھلیاں اڑنے لگیں جبکہ تمام اڑنے والے پرندے ڈائناسار کی ارتقاء ہیں
                      پہلے پہل جاندار جو واقعی کہ سکتے ہیں کچھ سمجھ بوجھ والے تھے ڈائناسار تھے جو نڈے دیتے تھے بچے دینے والے جاندار بہت
                      بعد میں آئے پرندوں کے بعد بھی اور ڈائناسار کی جسامت دیکھ کر کچھ حیرت نہیں ان کا ارتقاء کیا تھا جو سیکڑوں ٹن کے تھے
                      اور زمیں پر دندانتے پھرتے تھے
                      انسانی جین جس میں مائکرو چپ ہوتی جس میں تمام معلومات جو دس پچاس کی نہیں جب سے انسان پیدا ہوا جب سے اب تک
                      کی ہے اور سب سے حیرت کی بات اس میں انسان کی موت کا ٹائم بھی فیڈ ہوتا ہے ۔ اس کا رنگ ساخت کی معلومات کے علاوہ
                      اس کے خاندان کی اچھائی برائی ، بہادری بزدلی ، بیماریاں وغیرہ
                      جب انسان پیدا ہوتا ہے تو اس سے پہلے یہ سب کس طرح پراپر طریقے سے پروگرام چلتا ہے




                      میرے پیارے بھائی اگر اپ نے تحریر یکسوئی سے پڑھی ہوتی تو اپ جانتے کہ یہ ارتقا ک تاریخ بیان ہو رہی ہے۔قدیم فلسفی اس بات کو نہیں مانتے تھے کہ کائنات محض عدم سے وجود میں ائی۔وہ جیسے بھی تھے ان کے افکار کیسے بھی ہوں لیکن اس بات سے انکار نہیں کہ انہوں نے سوچا اپنے ارگرد کے ماحول کے بارے میں اور اپنا ذہن استعمال کیا انہوں نے عقل کو جنون پہ ترجیح دی۔۔اب یہ ارتقا کی تاریخ لامارک تک پہنچی اس کے بعد شہرہ آفاق سائیدان چارلس ڈارون پہ بات ہوگی۔۔اور اس کے بعد مسلمانوں یہودیوں کنانیوں، بابلیوں مصریوں کے عقیدہ تخلیق پہ بات ہوگی اور یہ بات بھی زیر بحث ائے گ کہ کیونکر قدیم انسان میں آدم و حوا اور انسان کو چاک پہ بنانے کا تصور و دیگر عقائد قدیم اقوام میں پیدا ہوا اور فی الحال یہ ارتقا کا موضوع چل رہا اس لیے جنیٹک انجنئیرنگ کی بات فی الحال چھوڑ دیتے ہیں کہ یہ موضوع سے خارج ہے


                      خوش رہیں



                      پروفیسر بےتاب تابانی



                      :(

                      Comment

                      Working...
                      X