اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے رنگ اور روشنی سے کائنات کو روپ عطا فرمایا۔ چمن میں پھولوں کی رنگینیاں دیکھنے والی ہر شے کو کیف و سرور عطا کرتی ہیں اور کیف و سرور درحقیقت ایک خاص ترکیب کے ساتھ رنگوں کے امتزاج کا خوبصورت ثمر ہوتا ہے روشنی کا وجود درحقیقت لہروں کا مرہون منت ہے۔
رنگ اور روشنیاں اپنی ایک حیثیت رکھتی ہیں ان کے مستقل اثرات ہیں جو ماحول پر مرتب ہوتے ہیں۔ اللہ کریم نے ان میںموت کے سوا ہر مرض کا علاج پیدا کیا ہے اور یہ علاج مختلف طریقوں سے مختلف اشیاءکے ذریعے کیے جاتے ہیں۔
رنگ بولتے ہیں.... ان کی ایک زبان ہے.... ان کے ایک اثرات ہیں.... اثرات اچھے بھی اور برے بھی.... مثبت بھی اور منفی بھی.... اگر رنگوں کی قوت کا اندازہ مقصود ہو تو کسی مصروف چوک کے قریب جاکر دیکھ لیجئے ٹریفک پولیس کے اشارے لگے ہیں اور وہاں رنگوں کی حکومت ہے سرخ اشارہ چلتی گاڑیوں کو روک دیتا ہے اور سبز اشارہ گاڑی کو چلنے کی اجازت دیتا ہے کالا رنگ غم، گلابی محبت، پیلا بیماری اور سفید امن کی علامت خیال کیا جاتا ہے۔
ان رنگوں میں واقعی تاثیریں ہیں۔ حکماءاکثر کمزور نگاہ والے مریضوں کو سبزہ دیکھنے کا مشورہ دیتے ہیں کہ سبزہ دیکھنے سے آنکھوں میں تراوٹ پیدا ہوتی ہے اور بینائی میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آنکھوں کا آپریشن کرنے کے بعد آئی اسپیشلسٹ سبزرنگ کی پٹی مریض کی آنکھ پر باندھ دیتے ہیں۔
اسی طرح کتے کے کاٹے مریض کے لیے نیلارنگ دیکھنا مفید قرار دیا جاتا ہے۔ رنگوں کے مزاج کے حوالے سے اس بات پر ماہرین کا مکمل اتفاق ہے کہ سرخ رنگ کا مزاج گرم و خشک ہے۔ زرد رنگ کا مزاج گرم وتر ہے۔ آسمانی رنگ کا مزاج سردوتر ہے۔ بیجنی رنگ کا مزاج سردوخشک ہے۔ نارنجی رنگ کا مزاج گرم محض ہے۔ سبز رنگ کا مزاج تر محض ہے۔ نیلے رنگ کا مزاج سردمحض ہے اور اودے رنگ کا مزاج خشک محض ہے۔
یہ بات تو عام لوگوں میں بھی مشہور ہے کہ رنگوں کے اثرات ہوتے ہیں لیکن کچھ لوگوں نے اس کی آڑ میں توہم پرستی کا دامن پکڑلیا ہے توہم پرستی سے پلو چھڑانا بھی وقت کی ضرورت ہے۔
حضرت امام ابوحنیفہ نعمان بن ثابت کے استاد گرامی حضرت سیدنا امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کا ارشاد گرامی ہے کہ کالے رنگ کا جوتا پہننا بینائی کیلئے مضر ہے۔ ویسے بدنظری کے مضراثرات سے نجات کیلئے کالارنگ مستعمل ہے۔ کاش البرنی کے نام سے کون واقف نہیں۔ وہ مختلف رنگوں کا تجزیہ اور ان کے خصائص بیان کرتے ہوئے زرد، سرخ بیجنی، نارنجی، نیلے اور ہرے رنگ کے متعلق رقمطراز ہیں۔
بیجنی رنگ: میں انحطاطی اثرات ہیں۔ روشنی کو کم قبول کرتا ہے۔ کم روشنی میں بہت ہلکا ہوجاتا ہے اور مصنوعی روشنی میں تو درمیانی رنگ (بھورا) اختیار کرلیتا ہے جلد کیلئے یہ مضر ہے۔
نارنجی رنگ: چونکہ سرخ اور زرد سے بنا ہے۔ اس لیے شوخ رنگ ہے۔ مزاج اس کا گرم ہے اور یہ مان لیا گیا ہے کہ تمام رنگوں میں اس کی قوت سب سے زیادہ ہے۔
نیلارنگ: اس میں اضمحلالی اثر ہے جس رنگ سے ملتا ہے کمزوری اور سردی پیدا کردیتا ہے۔ دن کی تیز روشنی میں اس کی قوت بڑھتی رہتی ہے اور روشنی کی کمی کے ساتھ ساتھ اس میں بھی ضعف پیدا ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ مصنوعی روشنی میں بہت کمزور ہوجاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا تعلق زیادہ تر سیاہی سے ہے جو روشنی کوجذب کرلیتی ہے۔
ہرارنگ: ثانوی رنگوں میں عالمگیر ہے۔ اس سے مزاج میں اعتدال۔ تازگی ٹھنڈک اور سکون پیدا ہوتاہے۔
رنگ اور روشنیاں اپنی ایک حیثیت رکھتی ہیں ان کے مستقل اثرات ہیں جو ماحول پر مرتب ہوتے ہیں۔ اللہ کریم نے ان میںموت کے سوا ہر مرض کا علاج پیدا کیا ہے اور یہ علاج مختلف طریقوں سے مختلف اشیاءکے ذریعے کیے جاتے ہیں۔
رنگ بولتے ہیں.... ان کی ایک زبان ہے.... ان کے ایک اثرات ہیں.... اثرات اچھے بھی اور برے بھی.... مثبت بھی اور منفی بھی.... اگر رنگوں کی قوت کا اندازہ مقصود ہو تو کسی مصروف چوک کے قریب جاکر دیکھ لیجئے ٹریفک پولیس کے اشارے لگے ہیں اور وہاں رنگوں کی حکومت ہے سرخ اشارہ چلتی گاڑیوں کو روک دیتا ہے اور سبز اشارہ گاڑی کو چلنے کی اجازت دیتا ہے کالا رنگ غم، گلابی محبت، پیلا بیماری اور سفید امن کی علامت خیال کیا جاتا ہے۔
ان رنگوں میں واقعی تاثیریں ہیں۔ حکماءاکثر کمزور نگاہ والے مریضوں کو سبزہ دیکھنے کا مشورہ دیتے ہیں کہ سبزہ دیکھنے سے آنکھوں میں تراوٹ پیدا ہوتی ہے اور بینائی میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آنکھوں کا آپریشن کرنے کے بعد آئی اسپیشلسٹ سبزرنگ کی پٹی مریض کی آنکھ پر باندھ دیتے ہیں۔
اسی طرح کتے کے کاٹے مریض کے لیے نیلارنگ دیکھنا مفید قرار دیا جاتا ہے۔ رنگوں کے مزاج کے حوالے سے اس بات پر ماہرین کا مکمل اتفاق ہے کہ سرخ رنگ کا مزاج گرم و خشک ہے۔ زرد رنگ کا مزاج گرم وتر ہے۔ آسمانی رنگ کا مزاج سردوتر ہے۔ بیجنی رنگ کا مزاج سردوخشک ہے۔ نارنجی رنگ کا مزاج گرم محض ہے۔ سبز رنگ کا مزاج تر محض ہے۔ نیلے رنگ کا مزاج سردمحض ہے اور اودے رنگ کا مزاج خشک محض ہے۔
یہ بات تو عام لوگوں میں بھی مشہور ہے کہ رنگوں کے اثرات ہوتے ہیں لیکن کچھ لوگوں نے اس کی آڑ میں توہم پرستی کا دامن پکڑلیا ہے توہم پرستی سے پلو چھڑانا بھی وقت کی ضرورت ہے۔
حضرت امام ابوحنیفہ نعمان بن ثابت کے استاد گرامی حضرت سیدنا امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کا ارشاد گرامی ہے کہ کالے رنگ کا جوتا پہننا بینائی کیلئے مضر ہے۔ ویسے بدنظری کے مضراثرات سے نجات کیلئے کالارنگ مستعمل ہے۔ کاش البرنی کے نام سے کون واقف نہیں۔ وہ مختلف رنگوں کا تجزیہ اور ان کے خصائص بیان کرتے ہوئے زرد، سرخ بیجنی، نارنجی، نیلے اور ہرے رنگ کے متعلق رقمطراز ہیں۔
بیجنی رنگ: میں انحطاطی اثرات ہیں۔ روشنی کو کم قبول کرتا ہے۔ کم روشنی میں بہت ہلکا ہوجاتا ہے اور مصنوعی روشنی میں تو درمیانی رنگ (بھورا) اختیار کرلیتا ہے جلد کیلئے یہ مضر ہے۔
نارنجی رنگ: چونکہ سرخ اور زرد سے بنا ہے۔ اس لیے شوخ رنگ ہے۔ مزاج اس کا گرم ہے اور یہ مان لیا گیا ہے کہ تمام رنگوں میں اس کی قوت سب سے زیادہ ہے۔
نیلارنگ: اس میں اضمحلالی اثر ہے جس رنگ سے ملتا ہے کمزوری اور سردی پیدا کردیتا ہے۔ دن کی تیز روشنی میں اس کی قوت بڑھتی رہتی ہے اور روشنی کی کمی کے ساتھ ساتھ اس میں بھی ضعف پیدا ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ مصنوعی روشنی میں بہت کمزور ہوجاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا تعلق زیادہ تر سیاہی سے ہے جو روشنی کوجذب کرلیتی ہے۔
ہرارنگ: ثانوی رنگوں میں عالمگیر ہے۔ اس سے مزاج میں اعتدال۔ تازگی ٹھنڈک اور سکون پیدا ہوتاہے۔
Comment