Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

حیات بعد الموت (life after death)

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • حیات بعد الموت (life after death)

    حیات بعد الموت (life after death)


    Click image for larger version

Name:	deadlikeme_lifeafterdeath.jpg
Views:	1
Size:	51.5 KB
ID:	2487282

    حیات بعد الموت (life after death) سے مراد ایک ایسے تخیل یا نظریے کی لی جاتی ہے کہ جس کے مطابق جسمانی موت کے بعد فطری یا مافوق الفطری وسیلوں سے مرنے والے جاندار کا شعور اور اس کی عقل یعنی دنیاوی زندگی کے دوران اس کی یاداشتیں زندہ رہتی ہیں؛ یہاں شعور اور عقل کا ذکر اس لیے کیا جاتا ہے کہ حیات بعد الموت میں کم و پیش ہمیشہ ہی اس دنیا کے گوشت پوست کے جسم سے الگ ایک روحانی شکل میں نئی زندگی پانے کا رجحان یا تصور موجود ہوتا ہے یعنی موت کے بعد نئی زندگی میں گو دنیاوی جسم سے تو جدائی حاصل ہو جاتی ہے لیکن اس کے باوجود عقل و شعور زندہ رہتا ہے گویا وہ شخصیت ایک نئی صورت میں زندگی پا لیتی ہے۔ اس بات کو یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ حیات بعد الموت کے نظریے کے مطابق جانداروں (انسانوں) میں ان کے جسم کے کچھ حصے ایسے ہوتے ہیں جو کبھی مرتے نہیں۔ مرنے کے بعد کی صورتحال بیان کرنے کے لیے مذہبی ، نفسیاتی اور سائنسی ماہرین اپنے اپنے الگ الگ نظریات رکھتے ہیں۔ متعدد مذاہب عالم کے نظریات میں ایک بات بکثرت اور مشترک نظر آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ مرنے کے بعد مرنے سے قبل کی حالت کی نسبت نئی اور زیادہ صلاحیتیں حاصل ہو جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ مرنے کے بعد کی زندگی میں اس مرنے والے کے مسکن کے بارے میں بھی متعدد نظریات ملتے ہیں جن میں جنت اور دوزخ دو مشہور ترین مقامات بیان کیئے جاتے ہیں لیکن ان دو مشہور مساکن کے علاوہ بھی مرنے کے بعد والی زندگی کے مقام کی دیگر مذاہب (بالخصوص غیرابراھیمی مذاہب) میں مختلف وضاحتیں ملتی ہیں۔ اگر نفسیاتی نقطۂ نظر دیکھا جائے تو تمام تر اختلافات کے باوجود ان تمام نظریات اور وضاحتوں کا منبع ایک ہی سامنے آتا ہے یعنی ؛ بعد از موت قبل از موت کی حالت سے بہتر ہوگی یا بدتر ہوگی۔



    مذاہب اور حیات بعد الموت

    اسلام

    اسلام میں حیات بعد الموت کا تذکرہ یوم آخرت جس کو بکثرت قیامت بھی کہا جاتا ہے سے منسلک ہوتا ہے اور یہ آخرت کا تصور قرآن و حدیث دونوں میں ملتا ہے۔ ایمان مفصل میں جو اجزائے ایمان بیان ہوتے ہیں ان میں ساتواں جزء والبعث بعد الموت کا ہے جہاں والبعث کا لفظ بعث سے بنا ہے اور اسی سے انبعاث (resurrection) بنایا جاتا ہے جو حیات بعد الموت کی موجودگی کی نمائندگی کرتا ہے۔ اسلامی نظریات کے مطابق جسمانی زندگی کے بعد روح کی زندگی کا تصور یوں ملتا ہے کہ موت کے وقت عزرائیل مرنے والی شخصیت پر خود کو ظاہر کریں گے اور اس کے جسم سے روح کو الگ کر لیں گے یا نکال لیں گے۔ اس جسمانی موت کے بعد قبر کی حالت اور پھر آخرت کے قیام پر جنت دوزخ کے فیصلے تک کے مختلف مراحل اسلامی دستاویزات میں بیان کیئے جاتے ہیں جو اس متعلقہ مضمون کے دائرے میں شامل نہیں لیکن بوقتِ مرگ جسم اور روح کا الگ ہونا اور پھر اس الگ ہونے والے حصے یعنی روح کا قبر اور بعض قرآنی تشریحات کے مطابق برزخ میں عرصۂ قیام ؛ حیات بعد الموت کے اسلامی تصور کی جانب واضح اشارہ کرتے ہیں

    بدھ مت

    بدھ مت میں حیات بعد الموت کی اصطلاح کی وضاحت ایک پیچیدہ موضوع ہے جس کی ایک سب سے بڑی وجہ جغرافیائی اعتبار سے ملک ملک میں بدھ مت کی موجود اس کی مختلف اشکال ہیں۔ بنیادی طور پر ہندو مت سے متاثر ہونے اور حیات مکرر (rebirth) یعنی تناسخ (reincarnation) کے نظریے کی وجہ سے موت کے بعد زندگی کے اختتام کا امکان تو باقی نہیں رہ جاتا لیکن روح کے واضح تصور کے بجائے قدیم بدھ مت میں انسان کے پانچ اجزاء (سکاندھا) بیان کیئے جاتے ہیں جسم ، احساسات ، فہم ، ارادہ اور فکر (شعور)۔ موت کے بعد دوبارہ پیدا یا حیات مکرر کا عمل وقوع پذیر ہونے یا نا ہونے کا انحصار اس شخص کے اعمالِ زندگی پر ہوتا ہے ؛ اور وہ موت کے اننچاس (49) (یا اس کم) دنوں تک ایک درمیانی حالت (جو روح نہیں تصور کی جاتی) میں رہنے کے بعد ایک مرتبہ پھر حیات مکرر (rebirth) سے دوچار ہوسکتا ہے یا پھر وہ نروان کو پا کر حیات مکرر (سمسار) سے چھٹکارا پا لیتا ہے-ہینایانا بدھ مت کے برعکس ماہایانا بدھ مت میں ایک سے زیادہ جنت اور دوزخ نما مقامات کا ذکر بھی پایا جاتا ہے۔

    جاری ہے




    Last edited by Jamil Akhter; 20 January 2012, 21:35.
    ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
    سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

  • #2
    Re: حیات بعد الموت (life after death)

    شنتو مت


    اسلام ، بدھ مت اور یہودیت وغیرہ جسے مذاہب کے برخلاف شنتو کو کسی ایک مرکزی ہستی کی جانب منسوب کرنا تاریخی اعتبار سے ممکن نہیں گو کہ متعدد افسانوی شخصیات کے نام بہرحال سامنے آتے ہیں۔ قبل از تاریخ آبی حدود پار کر کے چین ، کوریا اور منگولیا وغیرہ سے آنے والوں کے لیے جاپانی جزیروں کی قدرتی ساخت اور انکا حسن مسحور کن رہا ہوگا اور یہیں سے اس نئی وجود میں آنے والی جاپانی قوم میں ، زندگی اور فطرت کی آپس میں پیوستگی اور یکجائی کے شدید احساسات کا آغاز ہوا ہوگا، ان کے لیے فطرت کے شاہکار چشمے ، آبشاریں ، پہاڑ اور چٹانیں ہی اس دنیا کو جاری و ساری رکھنے والی قوتیں (یا یوں کہہ لیں کہ خدا) بن گئی ہوں گی-اور فطرت کے انہی شاہکاروں کو کامی کہا جانے لگا۔ گو آج کل اس جاپانی لفظ کامی کا ترجمہ خدا کر دیا جاتا ہے لیکن قدیم شنتو میں خدا کا کوئی واضح تصور نہیں ملتا بلکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ شنتو دیگر مذاہب کی طرح کوئی مذہب نہیں بلکہ ایک فطری راستہ ہے۔ زندگی اور فطری حسن کی پیوستگی نے ہی شنتو میں موت اور حیات بعد الموت کے تصور کو زیادہ اہمیت نہیں دی گئی اور موت کے بعد مرنے والی شخصیت کے بھی اسی فطرت میں ضم ہو جانے (یعنی کامی بن جانے) کے خیالات پائے جاتے ہیں۔


    عیسائیت


    عیسائیت میں بنیادی طور پر حیات بعد الموت اور پھر روز قیامت پر جنت یا دوزخ کی جانب چلے جانے کا نظریہ موجود تو ہے لیکن اپنا ایک تاریخی سفر رکھتا ہے اور اس حیات بعد الموت کے عیسائیت میں داخل ہونے کے متعدد نظریات بیان کیئے جاتے ہیں ۔ موجودہ بائبل کے عہد قدیم (old testament) کی تحریر کے مطابق ابتداء میں ، حیات بعد الموت میں روح کی لافانیت کے بجائے دنیاوی زندگی کے دوران جیسے جسمانی تسلسل کا ذکر بھی ملتا ہے اور دنیاوی موت کے بعد سے یوم القیامت پر انبعاث (resurrection) کے وقت تک ایک درمیانی کیفیت میں رہنے کا تصور بھی پایا جاتا ہے -بہرحال مختصر یہ کہ خواہ یہ تصورات عیسائیت میں کہیں سے بھی آئے ہوں ، اس بحث کا مقام الگ ، یہ بات ثابت ہے کہ عیسائیت کے مذہب میں حیات بعد الموت کی تعلیمات موجود ہیں۔


    یہودیت


    اسلام کے برخلاف اور عیسائیت کے براتفاق ، یہودیت میں بھی حیات بعد الموت کا تصور ایک تاریخی پس منظر رکھتا ہے اور ترتیب زمانی کے لحاظ سے اس کا ارتقاء دیکھا جاسکتا ہے -عہد الآباء اثناعشریہ (Testaments of the twelve patriarchs) میں حضرت یعقوب کے بارہ فرزندوں میں ایک ، یہودا سے اپنی قوم میں دوبارہ ظاہر ہونے کا بیان منسوب ہے ، اور یہاں انکا یہ انبعاث جنت میں نہیں بلکہ دوبارہ اسرائیل میں ہونا آتا ہے۔ یہودیوں کے بزرگوں (آباء) کے بارے میں اور ان کی اولاد کے بارے میں بعض تشریحات میں یہ بھی آتا ہے کہ ان کی موت ، موت نہیں ہوگی بلکہ وہ خدا کے ساتھ ایک درمیانی حالت میں اس وقت تک رہیں گے جب تک دوبارہ اٹھ کھڑے ہونے (انبعاث) کا وقت نا آجائ۔ تورات میں بھی اس قسم کے بیانات ملتے ہیں کہ جس میں پاکباز لوگ مرنے کے بعد دوبارہ اپنے عزیزوں سے مل سکیں گے؛مافوقی نفسیات اور حیات بعد الموت



    جاری ہے
    Last edited by Jamil Akhter; 10 February 2012, 21:58.
    ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
    سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

    Comment


    • #3
      Re: حیات بعد الموت (life after death)

      [CENTER][CENTER][CENTER][RIGHT]
      تجربۂ بیرون جسم


      بعض مافوقی نفسیات کے ماہرین تجربات بیرون جسم (out of body experiences) تجربۂ بیرون جسم کی بنیاد پر یہ نظریہ بھی قائم کرتے ہیں کہ جب یہ مظاہر بوقتِ مرگ نظر آسکتے ہیں تو یہ بھی ممکن ہے کہ بعد از مرگ بھی جاری رہتے ہوں اور اس کو حیات بعد الموت کی ایک شہادت بھی سمجھا جاسکتا ہے؛ لیکن اس بارے میں ایک بڑا اعتراض یہ ہے کہ خروج الجسم تجربات یا مظاہر اس وقت ظاہر ہو رہے ہوتے ہیں جب (ابھی) دماغ کی موت واقع نا ہوئی ہو اور امکان یہ ہے کہ ان کے لیے ایک زندہ دماغ (یعنی زندگی) کا ہونا لازم ہو اور ایسا بعد از موت ممکن نہیں۔ یہ خروج الجسم مظاہر جو بوقت مرگ کسی کو نظر آتے ہیں فی الحقیقت عصبونات کی وہ شاذ (abnormal) تحریک ہو سکتی ہے جو کہ استقلابی نظام میں اضطراب کے باعث نمودار ہوتی ہے اور ان میں action potential کے پیدا ہونے کا سبب بن سکتی ہے


      روشن بینی

      تجربۂ بیرون جسم کو حاصل کرنے والے اشخاص کے علاوہ روحانی ، صوفی اور اسی قسم کے دیگر، مذہب یا کسی جنون میں ڈوبے ہوئے اشخاص کی جانب سے بیان کیے جانے والے (انتقال شدہ افراد کی دنیا کے) ایسے واقعات کہ جن کو عام انسان کی پانچ حسوں میں سے کوئی بھی محسوس نا کرسکتی ہو تو ان کو بھی حیات بعد الموت کی ایک اور شہادت کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور ان گہرے یا ڈوبے ہوئے اشخاص کو مستبصر (بصارت بیان کرنے والا یعنی بصیرت رکھنے والا) اور ان کی باتوں کو روشن بینی (clairvoyance) قرار دیا جاتا ہے -جسے اردو میں بسا اوقات بصیرت یا استبصار بھی کہتے ہیں لیکن آخر الذکر دونوں اصطلاحات مراقبہ کے لیے بھی مستعمل ہیں۔


      تجربۂ قریب الموت


      مذکورہ بالا تجربات بیرون الجسم
      (OBE)
      کی طرح تجربات قریب الموت
      (near death experiences)
      کو بھی حیات بعد الموت کے حق میں پیش کیا جاتا ہے لیکن عمومی طور پر سائنسدان ان تجربات کو حیات بعد الموت کی شہادت تسلیم نہیں کرتے۔ تجربات قریب الموت سے گذرنے

      والے اشخاص کی بیانات میں ؛ اپنے جسم سے خود کو الگ ہوتے ہوئے دیکھنا ، ایک طویل سرنگ سے گذرتے ہوئے روشنی کی جانب سفر ، اپنی زندگی کے دوران کے واقعات کا خلاصہ نظر آنا اور اپنے سے پہلے مر جانے والے اشخاص سے ملاقات کرنا وغیرہ شامل ہوتے ہیں -ان تجربات سے گذرنے والے ایسے افراد بھی جو زندگی سے مایوس (خودکشی پر مائل) تھے خاصے تبدیل ہوتے ہوئے دیکھے گئے ہیں ؛ ان کے مطابق وہ موت کے بعد کی دنیا دیکھ کر انکا زندگی سے متعلق نظریہ مثبت ہوگیا۔
      جاری ہے

      Last edited by Jamil Akhter; 23 January 2012, 21:53.
      ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
      سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

      Comment


      • #4
        Re: حیات بعد الموت (life after death)

        سائنس اور حیات بعد الموت




        روح کا وزن


        بعض اوقات چند تجربات کو جو سائنس کے بجائے کاذب سائنس سے زیادہ نزدیک ہیں ، حیات بعد الموت کی شہادت پر پیش کیا جاتا ہے۔ 1906ء میں Duncan MacDougall نے بستر المرگ سمیت قریب المرگ افراد کا وزن کیا اور یہ مشاہدہ بیان کیا کہ ان کا وزن قریباً 21 گرام ، موت کے بعد کم ہوگیا یعنی روح نکل گئی تو اپنے ساتھ اپنا وزن بھی لے گئی! یہ واقعات ایک تو یہ کہ تجرباتی طور پر اپنی تکرار نہیں رکھتے اور دوسرے یہ کہ اگر یہ درست بھی ہوں تو بھی حیات بعد الموت کا ثبوت فراہم نہیں کرتے کیونکہ کہ روح کا ثبوت وزن کم ہونے سے مل گیا تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ روح ، جسم سے نکلتے ہی فنا ہوگئی یا اس کو ایک نئی حیات (بعد الموت) مل گئی [-مذکورہ بالا محقق نے ساتھ ہی کتوں کے ساتھ بھی یہی تجربہ دہرایا اور معلوم کیا کہ وزن میں کوئی کمی نہیں آتی! یعنی کتوں میں روح نہیں ہوتی وزن کی یہ کمی فی الحقیقت خون کی گردش رک جانے اور پھیپھڑوں میں ٹھنڈا نا ہوسکنے کی وجہ سے بڑھنے والے درجۂ حرارت اور (پسینے کے مساموں سے) اس کی وجہ نکلنے والے بخارات کی وجہ ممکن ہے؛ کتوں میں (انسانوں کی طرح) پسینے کے مسام نہیں ہوتے اور یہ ان کا وزن تبدیل نا ہونے کی ایک ممکنہ وجہ ہو سکتی ہے۔


        روح کی آواز


        برقیاتی صوتی مظہر (electronic voice phenomena) کو بکثرت حیات بعد الموت کی دنیا میں رہنے والوں کی آواز کہہ کر حیات بعد الموت کی سائنسی شہادت کہا جاتا ہے اور اسے مخصراً بصم یا انگریزی میں evp بھی کہتے ہیں۔ اس مظہر پر تحقیق کرنے والے ماہرین نے ایسی آوازوں کو سجل (record) کرنے کی کوششیں بھی کی ہیں۔ ان برقیاتی صوتی مظاہر میں سجل کی جانے والی آوازوں کا تجزیہ کرنے کے لیے شمارندوں کی مدد بھی لی جاتی ہے اور شمارندے کے معیار سے (جاندار کی) آواز نما محسوس ہونے والی آوازوں کو بار بار سنا جاتا ہے؛ آج کل اس قسم کے متعدد نمونے روح کی آوازوں کے، روئے خط بھی دستیاب ہو جاتے ہیں ۔برقی صوتی مظہر (بصم) میں آنے والی ان آوازوں کے بارے میں متعدد نظریات دیکھنے میں آتے ہیں۔


        جاری ہے
        ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
        سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

        Comment


        • #5
          Re: حیات بعد الموت (life after death)

          بہت خوب ۔۔۔زبردست ہے



          خوش رہیں




          کیپلر
          :(

          Comment

          Working...
          X