حیات بعد الموت (life after death)
حیات بعد الموت (life after death) سے مراد ایک ایسے تخیل یا نظریے کی لی جاتی ہے کہ جس کے مطابق جسمانی موت کے بعد فطری یا مافوق الفطری وسیلوں سے مرنے والے جاندار کا شعور اور اس کی عقل یعنی دنیاوی زندگی کے دوران اس کی یاداشتیں زندہ رہتی ہیں؛ یہاں شعور اور عقل کا ذکر اس لیے کیا جاتا ہے کہ حیات بعد الموت میں کم و پیش ہمیشہ ہی اس دنیا کے گوشت پوست کے جسم سے الگ ایک روحانی شکل میں نئی زندگی پانے کا رجحان یا تصور موجود ہوتا ہے یعنی موت کے بعد نئی زندگی میں گو دنیاوی جسم سے تو جدائی حاصل ہو جاتی ہے لیکن اس کے باوجود عقل و شعور زندہ رہتا ہے گویا وہ شخصیت ایک نئی صورت میں زندگی پا لیتی ہے۔ اس بات کو یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ حیات بعد الموت کے نظریے کے مطابق جانداروں (انسانوں) میں ان کے جسم کے کچھ حصے ایسے ہوتے ہیں جو کبھی مرتے نہیں۔ مرنے کے بعد کی صورتحال بیان کرنے کے لیے مذہبی ، نفسیاتی اور سائنسی ماہرین اپنے اپنے الگ الگ نظریات رکھتے ہیں۔ متعدد مذاہب عالم کے نظریات میں ایک بات بکثرت اور مشترک نظر آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ مرنے کے بعد مرنے سے قبل کی حالت کی نسبت نئی اور زیادہ صلاحیتیں حاصل ہو جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ مرنے کے بعد کی زندگی میں اس مرنے والے کے مسکن کے بارے میں بھی متعدد نظریات ملتے ہیں جن میں جنت اور دوزخ دو مشہور ترین مقامات بیان کیئے جاتے ہیں لیکن ان دو مشہور مساکن کے علاوہ بھی مرنے کے بعد والی زندگی کے مقام کی دیگر مذاہب (بالخصوص غیرابراھیمی مذاہب) میں مختلف وضاحتیں ملتی ہیں۔ اگر نفسیاتی نقطۂ نظر دیکھا جائے تو تمام تر اختلافات کے باوجود ان تمام نظریات اور وضاحتوں کا منبع ایک ہی سامنے آتا ہے یعنی ؛ بعد از موت قبل از موت کی حالت سے بہتر ہوگی یا بدتر ہوگی۔
مذاہب اور حیات بعد الموت
اسلام
اسلام میں حیات بعد الموت کا تذکرہ یوم آخرت جس کو بکثرت قیامت بھی کہا جاتا ہے سے منسلک ہوتا ہے اور یہ آخرت کا تصور قرآن و حدیث دونوں میں ملتا ہے۔ ایمان مفصل میں جو اجزائے ایمان بیان ہوتے ہیں ان میں ساتواں جزء والبعث بعد الموت کا ہے جہاں والبعث کا لفظ بعث سے بنا ہے اور اسی سے انبعاث (resurrection) بنایا جاتا ہے جو حیات بعد الموت کی موجودگی کی نمائندگی کرتا ہے۔ اسلامی نظریات کے مطابق جسمانی زندگی کے بعد روح کی زندگی کا تصور یوں ملتا ہے کہ موت کے وقت عزرائیل مرنے والی شخصیت پر خود کو ظاہر کریں گے اور اس کے جسم سے روح کو الگ کر لیں گے یا نکال لیں گے۔ اس جسمانی موت کے بعد قبر کی حالت اور پھر آخرت کے قیام پر جنت دوزخ کے فیصلے تک کے مختلف مراحل اسلامی دستاویزات میں بیان کیئے جاتے ہیں جو اس متعلقہ مضمون کے دائرے میں شامل نہیں لیکن بوقتِ مرگ جسم اور روح کا الگ ہونا اور پھر اس الگ ہونے والے حصے یعنی روح کا قبر اور بعض قرآنی تشریحات کے مطابق برزخ میں عرصۂ قیام ؛ حیات بعد الموت کے اسلامی تصور کی جانب واضح اشارہ کرتے ہیں
بدھ مت
بدھ مت میں حیات بعد الموت کی اصطلاح کی وضاحت ایک پیچیدہ موضوع ہے جس کی ایک سب سے بڑی وجہ جغرافیائی اعتبار سے ملک ملک میں بدھ مت کی موجود اس کی مختلف اشکال ہیں۔ بنیادی طور پر ہندو مت سے متاثر ہونے اور حیات مکرر (rebirth) یعنی تناسخ (reincarnation) کے نظریے کی وجہ سے موت کے بعد زندگی کے اختتام کا امکان تو باقی نہیں رہ جاتا لیکن روح کے واضح تصور کے بجائے قدیم بدھ مت میں انسان کے پانچ اجزاء (سکاندھا) بیان کیئے جاتے ہیں جسم ، احساسات ، فہم ، ارادہ اور فکر (شعور)۔ موت کے بعد دوبارہ پیدا یا حیات مکرر کا عمل وقوع پذیر ہونے یا نا ہونے کا انحصار اس شخص کے اعمالِ زندگی پر ہوتا ہے ؛ اور وہ موت کے اننچاس (49) (یا اس کم) دنوں تک ایک درمیانی حالت (جو روح نہیں تصور کی جاتی) میں رہنے کے بعد ایک مرتبہ پھر حیات مکرر (rebirth) سے دوچار ہوسکتا ہے یا پھر وہ نروان کو پا کر حیات مکرر (سمسار) سے چھٹکارا پا لیتا ہے-ہینایانا بدھ مت کے برعکس ماہایانا بدھ مت میں ایک سے زیادہ جنت اور دوزخ نما مقامات کا ذکر بھی پایا جاتا ہے۔
جاری ہے
حیات بعد الموت (life after death) سے مراد ایک ایسے تخیل یا نظریے کی لی جاتی ہے کہ جس کے مطابق جسمانی موت کے بعد فطری یا مافوق الفطری وسیلوں سے مرنے والے جاندار کا شعور اور اس کی عقل یعنی دنیاوی زندگی کے دوران اس کی یاداشتیں زندہ رہتی ہیں؛ یہاں شعور اور عقل کا ذکر اس لیے کیا جاتا ہے کہ حیات بعد الموت میں کم و پیش ہمیشہ ہی اس دنیا کے گوشت پوست کے جسم سے الگ ایک روحانی شکل میں نئی زندگی پانے کا رجحان یا تصور موجود ہوتا ہے یعنی موت کے بعد نئی زندگی میں گو دنیاوی جسم سے تو جدائی حاصل ہو جاتی ہے لیکن اس کے باوجود عقل و شعور زندہ رہتا ہے گویا وہ شخصیت ایک نئی صورت میں زندگی پا لیتی ہے۔ اس بات کو یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ حیات بعد الموت کے نظریے کے مطابق جانداروں (انسانوں) میں ان کے جسم کے کچھ حصے ایسے ہوتے ہیں جو کبھی مرتے نہیں۔ مرنے کے بعد کی صورتحال بیان کرنے کے لیے مذہبی ، نفسیاتی اور سائنسی ماہرین اپنے اپنے الگ الگ نظریات رکھتے ہیں۔ متعدد مذاہب عالم کے نظریات میں ایک بات بکثرت اور مشترک نظر آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ مرنے کے بعد مرنے سے قبل کی حالت کی نسبت نئی اور زیادہ صلاحیتیں حاصل ہو جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ مرنے کے بعد کی زندگی میں اس مرنے والے کے مسکن کے بارے میں بھی متعدد نظریات ملتے ہیں جن میں جنت اور دوزخ دو مشہور ترین مقامات بیان کیئے جاتے ہیں لیکن ان دو مشہور مساکن کے علاوہ بھی مرنے کے بعد والی زندگی کے مقام کی دیگر مذاہب (بالخصوص غیرابراھیمی مذاہب) میں مختلف وضاحتیں ملتی ہیں۔ اگر نفسیاتی نقطۂ نظر دیکھا جائے تو تمام تر اختلافات کے باوجود ان تمام نظریات اور وضاحتوں کا منبع ایک ہی سامنے آتا ہے یعنی ؛ بعد از موت قبل از موت کی حالت سے بہتر ہوگی یا بدتر ہوگی۔
مذاہب اور حیات بعد الموت
اسلام
اسلام میں حیات بعد الموت کا تذکرہ یوم آخرت جس کو بکثرت قیامت بھی کہا جاتا ہے سے منسلک ہوتا ہے اور یہ آخرت کا تصور قرآن و حدیث دونوں میں ملتا ہے۔ ایمان مفصل میں جو اجزائے ایمان بیان ہوتے ہیں ان میں ساتواں جزء والبعث بعد الموت کا ہے جہاں والبعث کا لفظ بعث سے بنا ہے اور اسی سے انبعاث (resurrection) بنایا جاتا ہے جو حیات بعد الموت کی موجودگی کی نمائندگی کرتا ہے۔ اسلامی نظریات کے مطابق جسمانی زندگی کے بعد روح کی زندگی کا تصور یوں ملتا ہے کہ موت کے وقت عزرائیل مرنے والی شخصیت پر خود کو ظاہر کریں گے اور اس کے جسم سے روح کو الگ کر لیں گے یا نکال لیں گے۔ اس جسمانی موت کے بعد قبر کی حالت اور پھر آخرت کے قیام پر جنت دوزخ کے فیصلے تک کے مختلف مراحل اسلامی دستاویزات میں بیان کیئے جاتے ہیں جو اس متعلقہ مضمون کے دائرے میں شامل نہیں لیکن بوقتِ مرگ جسم اور روح کا الگ ہونا اور پھر اس الگ ہونے والے حصے یعنی روح کا قبر اور بعض قرآنی تشریحات کے مطابق برزخ میں عرصۂ قیام ؛ حیات بعد الموت کے اسلامی تصور کی جانب واضح اشارہ کرتے ہیں
بدھ مت
بدھ مت میں حیات بعد الموت کی اصطلاح کی وضاحت ایک پیچیدہ موضوع ہے جس کی ایک سب سے بڑی وجہ جغرافیائی اعتبار سے ملک ملک میں بدھ مت کی موجود اس کی مختلف اشکال ہیں۔ بنیادی طور پر ہندو مت سے متاثر ہونے اور حیات مکرر (rebirth) یعنی تناسخ (reincarnation) کے نظریے کی وجہ سے موت کے بعد زندگی کے اختتام کا امکان تو باقی نہیں رہ جاتا لیکن روح کے واضح تصور کے بجائے قدیم بدھ مت میں انسان کے پانچ اجزاء (سکاندھا) بیان کیئے جاتے ہیں جسم ، احساسات ، فہم ، ارادہ اور فکر (شعور)۔ موت کے بعد دوبارہ پیدا یا حیات مکرر کا عمل وقوع پذیر ہونے یا نا ہونے کا انحصار اس شخص کے اعمالِ زندگی پر ہوتا ہے ؛ اور وہ موت کے اننچاس (49) (یا اس کم) دنوں تک ایک درمیانی حالت (جو روح نہیں تصور کی جاتی) میں رہنے کے بعد ایک مرتبہ پھر حیات مکرر (rebirth) سے دوچار ہوسکتا ہے یا پھر وہ نروان کو پا کر حیات مکرر (سمسار) سے چھٹکارا پا لیتا ہے-ہینایانا بدھ مت کے برعکس ماہایانا بدھ مت میں ایک سے زیادہ جنت اور دوزخ نما مقامات کا ذکر بھی پایا جاتا ہے۔
جاری ہے
Comment