Announcement
Collapse
No announcement yet.
Unconfigured Ad Widget
Collapse
کیا ہم خلاء سے سگنل کے لیے تیار ہیں؟
Collapse
X
-
Re: کیا ہم خلاء سے سگنل کے لیے تیار ہیں؟
قران پاک میں ہے
اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے ارض و سماوات کی تخلیق کی ان دنوں میں جاندار مخلوق کو پھیلا دیا۔اور وہ اللہ اس پہ قادر ہے کے جب چاہے انہیں آپس میں ملا دے 42،29
ماضی میں زمین کے باشندوں کی جانب سے بہت سی کوششیں کی گئی تھیں فرانسیسی موجد چارلس
کراس کا ارداہ تھا ایک بہت بڑا آئیبنہ بنا یا جائے اور اس سے ایسی چکا چوند پیدا کی جائے تا کہ مریخکی مخلوق کو انسان کے وجود کی
خبر ہو جائے۔ایڈیسن کے کارکنوں نے بھی دس میل
پر محیط بلبلوں کا ایک سلسہ بنانے کا منصوبہ پیش کیا تھا جسے دس منٹ کے وقفوں
سے جلایا بجاھنا تھا
ایک خیال ہے کہ ریڈیو اور ٹی وی کے سگنلز خلا میں جاتے گو کمزور ہو جاتے ہیں لیکن امکان ہوتا ہے کہ کہیں
ان کو وصول کر لیا جائے لیکن سب سے بڑا مسئلہ یہ کہ فرض کریں ایک مخلوق ہمیں
ریڈیو سگنلز سے رابطہ کی کوشش میں تو ہمیں کیا معلوم وہ کس
فریکونسی پر رابطے کی کوشش کر رہی ہے پھر پورے سیارے پر تما م ریڈیو
استیشن مخصوص فریکونسی پر سگنل بھیجتے ہیں اور وصول کرتے ہیں
تاکہ ایک دوسرے کی نشریات اپس میں الجھ نہ جائیں ان لاکھوں سگنلز میں سے
ایک خلائی مخلوق کا سگنل تلاش کرنا از ھد دشوار ہے
پھر ڈچ فلکیات دان ہنڈرک وان ڈین ہلسٹ ن ے اس سلسے میں کہا
کہ ہائیڈروجن جو سادہ ترین عنصر ہیے اس کا ایک اٹیم توانئی کی سطع کی تبدیلی
کے دوران 21 سم طول موج کے ریڈیو سگنل خارج کرتا ہے اٹمی طبعیات اور ریڈیو
سگنل سے واقفیت رکھنے والی کوئی بھی تہذیب کائنات میں سب سے زیادہ
پائے جانے والے اس عنصر کے طول موج کے سگنل ہی ارسال کرے گی
لیکن ا سوال تھا کہ اگر کوئی پیغام مل جائے تو اس کوکیسے سمجھا جائےگا
لیکن ہمیں یقن ہے کہ کوئی مخلوق تکنیکی طور پر کتنی ہی
مختلف کیوں نہ ہوں ان کی مشترکہ زبان ایک ہے اور وہ ہے سائینس اور ریاضی
ایک ہی طرح کے کیمیائی اجزا پوری کائنات میں بکھرے ہیں ہمارے زمین پر ایک موم بتی
کی روشنی اور دور کائنتاوں سے خارج ہونی والی روشنی
کا پیٹرن ایک ہی ہے ایک طرح کے قوانین زمین سے لیکر کائنات کے
انت تک لاگو ہوتے ہیں کوئی بھی حیات کائنات کے کسی بھی حصے
میں ارتقا پا رہی ہے تو اس کا واسطہ ایک ہی طرح کے
قوانین قدرت سے واسطہ پڑھے گا دور دراز کی کہکشائوں
ایک دوسرے کے گرد اسی قانون کے تحت گھومتی ہیں جس قانون کے
تحت ایک سیب زمین پر گرتا ہے یا جس قانون کے تحت ہمارے
خلائی جہاز ستاروں کی جانب رواں ہیں
خوش رہیں
جان کیپلر
Last edited by Dr Fausts; 18 January 2012, 08:44.:(
-
Re: کیا ہم خلاء سے سگنل کے لیے تیار ہیں؟
بہت عمدہ عامر مفید معلومات ہے خاص کر قرآن کی آیت کے مخلوق کو پھیلا دیا جب چاہے ملادیں اگر تو یہ بات کائنات کے لئے ہے تو ہمیں انتظار کرنا چاہئے مگر مسئلہ یہ ہے کہ سگنل کی رفتار یعنی آواز کی موج کی رفتار اتنی کم ہے کہ اگر ہمارے سگنل صرف ملکی وے کے کنارے تک ہی پہنچے گے تو اس کے لئے پچیس لاکھ سال چاہئے مطلب اگر کوئی سگنل ملتا بھی ہے تو اس کو چھوڑے ہوئے لاکھوں سال بھی ہوسکتے ہیں مثلاـ ایک سیارے سے سگنل ملتے ہیں جو ہم تک بیس لاکھ سال بعد پہنچے ہیں ہوسکتا ہے وہاں کوئی آفت آچکی ہو یا انہوں نے مدد کے لئے سگنل بھیجے ہو جیسے ابھی سائنسدانوں نے ایک باکس خلا میں بیجا ہے جو ٹھوس دھات میں ہے ا میں کچھ تصویریں رکھی گئی ہے جس میں سورج اور نو سیارے دکھائے گئے ہیں اس کے ساتھ پانی کا ایٹم بتایا گیا ہے تاکہ وھ باکس کسی مخلوق کو ملے تو وہ جان سکے ہم کہاں ہیں کس گلیکسی میں موجود ہیںہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں
Comment
-
Re: کیا ہم خلاء سے سگنل کے لیے تیار ہیں؟
یہ باکس والا قصہ بہت پرنا ہو چکا ہے 1976 میں وائجر خلائی جہاز پہ یہ بھیجا گیا
تھا ور پانی کا اٹیم ہوتا ہی نہیں پانی مرکب ہے نہ کہ عنصر۔۔جہاز پہ ہائیڈروجن کی طول موج
رابطے کے لیے درج تھی اور ایک مرد اور ایک عورت کی تصویر بھی جہاز پیہ بنی تھی
مرد نہ ہاتھ کھڑا کیا تھا لیکن یہ ایک احمقانہ پراجیکٹ تھا کیونکہ کوئی بھی ذۃین مخلوق
بالفرض اس جہاز کو دیکھ لیتی تو مرد کا کھڑا ہاتھ دیکھ کر یہی سمجھے گا یہ خبرادار رہنے کا شارہ
ہے اسی وجہ سے یہ پراجیکٹ جس کو پائنر پراجیکٹ کا نام دیا گیا تھا مزید
کام روک فدیا گیا ہے
فی الحال ریڈیو سنل کے ذریعے سگنلز ہر کہیں بھیجے جا رہے ہیں یہ سگنلزوہ فاصلہ منٹوں میں
طے کر لیتے جو خلائی جہاز سالوں میں کرتا چنانچہ زمین کا سب سے
بڑا ریڈیو ٹیلی سکوپ
puerto Rico
کے ایک جزیرے کی رسد گاہ میں نصب ہے اس کا ایک راڈ ایک ہزار فٹ لمبا ہے یہ ریڈیائی
اشارے بھیجتا اور وصول کرتا ہپے یہ اتنا بڑا اور اتنا طاقتور ہے
کہ پندرہ ہزار نوری سال کے فاصلے پر اپنے جیسے
ٹیلی سکوپ سے رابطہ کر سکتا ہے
:(
Comment
Comment