اس کائنات کا خالق اور مالک اللہ کی ذات ہے ،اور اللہ ہی اس کائنات کے تمام رازوں سے واقف ہے اللہ نے اس کرہ ارض پر چیونٹی سے لے کر ہاتھی تک ہر حجم کے جانداروں کو پیدا کیا ہے۔مگر تمام جانداروں کے متعلق درست اور صحیح علم اللہ کی ذات کو ہی ہے ۔کیونکہ اللہ تعالی فرماتے ہیں جس کا مفہوم ہے کہ
"تمہارے پروردگار کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا"
مگر رفتار زمانہ کے ساتھ ساتھ انسان نے جہاں دیگر شعبہ ہائے زندگی میں ترقی اور نئی نئی دریافتیں کی ہیں وہیں سائنسدانوں کے علم کے مطابق کرہ ارض پر پائے جانے والے جانداروں میں سب سے بڑا جاندار بلیو وھیل {نیلی وھیل} ہے۔
بلو وھیل دنیا کا سب سے بڑا جاندار ہے سائنسدانوں کے مطابق آج تک دنیا میں اس سے بڑا جاندار دکھائی نہیں دیا۔ زمانہ قدیم کے ایک عہد "جیوراسک دور" Jurassic Period کے ڈائنو سارس (Dinosaurs) بھی "بلو وھیل" کے مقابلے میں بہ اعتبار جسامت چھوٹے تھے۔ جبکہ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے جاندار ڈائینو سارس ہی ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ڈائینو سارس نہایت لحیم شحیم ہوا کرتے تھے، ویسے یہ جاندار اب معدوم ہوچکے ہیں لیکن ان کے محفوظ ڈھانچوں کے رکاز کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ "بلووھیل" بشمول ماضی و حال آج تک کی دنیا کا سب سے بڑا جاندار ہے۔ عام طور پر Blue Whale کے جسم کی لمبائی 30 میٹر یعنی 100 فٹ سے زیادہ ہوتی ہے۔ آج تک کی سب سے بڑی وھیل کو 1920 ء میں پکڑا گیا تھا۔ جو تقریبا34 میٹر یعنی 111 فٹ لمبی تھی۔ اور جس کا وزن 155 ٹن تھا۔
ویسے یہ قدرت کی عجیب کاریگری ہے کہ چھوٹی وھیل بھی 22 میٹر سے کم نہیں ہوتی۔ بلو وھیل کا وزن اوسطاً 135 ٹن یعنی ایک لاکھ 35 ہزار کیلو سے زیادہ ہوتا ہے۔ ان کی مادائیں Females نر کے مقابلے میں چھوٹی ہوتی ہیں۔ وھیل کی زبان کا وزن ایک ہاتھی کے وزن اور ان کا دل ایک کار کے برابر ہوتا ہے اور اس جانور کی بڑی شیریانوں کی اندرونی گولائی میں ایک آدمی بلا مزاحمت ، بآسانی تیر سکتا ہے۔
بلیو وہیل کا دیگرجانداروں سے تقابلی جائزہ۔
بلو وھیل ایک پستانیہ پے جو جماعت Cetecea سے تعلق رکھتا ہے۔ جس کا سائنسی زبان میں Balaenoptera musculus کہا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہ جانور 110 برس تک زندہ رہتا ہے۔ ان میں مدت حمل 11 مہینوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ لیکن یہ جاندار 2 یا 3 سال میں ایک بچہ دیتے ہیں ، ان میں Parental care مثالی ہوتا ہے اسی لئے یہ اپنے بچوں کو تقریباً 7 یا 8 مہینوں تک دیکھ بھال کرتے ہیں، غذا حاصل کرنے کی تربیت دیتے ہیں اور دوسرے جانوروں پر حملہ آور ہونے کے طریقے بتاتے ہیں۔ یہ اپنے پستان سے بچوں کے منہ میں دودھ انڈیلتی ہے ، قدرت نے ان کے دودھ کی مقدار کو بھی ان کے جسم کے تناسب سے مقرر کیا ہے۔ یہ روزانہ 600 لیٹر دودھ دیتے ہیں۔ اگر ان کے دودھ کا مقابلہ گائے کے دودھ سے کریں تو پتہ چلے گا کہ گائے کے دودھ میں صرف 3 تا5 فیصد چربی پائی جاتی ہے۔ جبکہ وھیل کے دودھ میں 25 تا 50 فیصد چربی پائی جاتی ہے۔ یہ انسان کے دودھ سے 10 گنا گاڑھا ہوتا ہے۔ اسی لئے ان کے بچوں کا وزن ابتدائی مدت میں تقریباً 90 کیلو روزانہ بڑھتا ہے۔ ویسے بوقت پیدائش بھی ان کے بچے کا وزن 3 ٹن سے زیادہ ہوتا ہے اور ان کی لمبائی 30 فٹ کے لگ بھگ ہوتی ہے۔
وھیل کے جسم کا رنگ ہلکا نیلا یا مٹیالا ہوتا ہے جن پر ہلکے دھبوں جیسی ساختیں پائی جاتی ہیں ان جانداروں کا نچلا حصہ زردی مائل ہوتا ہے۔ ان کی اوپری جانب کی Fin چھوٹی ہوتی ہےلیکن ان کی دم نہایت مضبوط اور موٹی ہوتی ہے جو تیرنے میں مدد دیتی ہے۔ یہ دنیا کے تقریباً تمام ہی سمندروں میں پائے جاتے ہیں۔ یہ خدا کی عجیب شان ہے کہ اس قدر بڑی جسامت کے باوجود ان جانداروں کی غذا سمندری Krill ہے۔ Krill یعنی چھوٹے چھوٹے Crustacians ، یہ کیڑے جیسے سمندری جانور ہیں جو جوڑدار پیر رکھتے ہیں ان کا سائز 20 تا 90 ملی لیٹر ہوتا ہے Krill لاکھوں کی تعداد میں ایک جگہ جھتے کی صورت میں پائے جاتے ہیں یہ چھوٹے چھوٹے اجسام 90 مختلف انواع پر مشتمل ہوتے ہیں۔ بلو وھیلس روزانہ 2500 کیلو سے زیادہ Krill استعمال کرتے ہیں ج بلو وھیل اپنا بڑا منہ کھولتی ہے تو پانی کے بہاؤ کے ساتھ یہ Krill بھی اس کے دہانے میں داخل ہوجاتے ہیں۔
بلو وھیل میں دانت نہیں پائے جاتے بلکہ Baleen پایا جاتا ہے یعنی اس کے منہ کے چھت سے سخت ہڈی نما ساختیں نکلتی ہیں جو ان کے ہضمی نظام کا ایک حصہ ہیں۔ ان ہڈی جیسی ساختوں کی تعداد 270 تا 390 تک ہوتی ہیں جو ایک خاص ترتیب میں جمع ہوکر چھنی جیسی شکل بناتے ہیں اور غذا کو چھاننے کا کام انجام دیتے ہیں۔ وھیل کے حلق میں 600 سے زائد بلعومی تہیں پائی جاتی ہیں جس کی وجہ سے ان تہوں کے سامنے کا حصہ تھیلی نما نظر آتا ہے۔
وھیل کی غذا صرف آبی جانداروں پر مشتمل ہوتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق وھیل روزانہ 2 تا 7 ٹن صدفیوں اور دوسرے چھوٹے جانداروں کو غذا بناتی ہے لیکن ان کا معدہ اس قدر بڑا ہوتا ہے کہ اس میں زائد از 17 ٹن غذا کی ذخیرہ اندوزی کی جاسکتی ہے ۔ اس مقصد کے لیے یہ جاندار زیادہ مقدار میں پانی منہ میں لیتا ہے تاکہ زیادہ مقدار میں غذا داخل ہوسکے، پھر بعد میں زائد پانی کو ہوا کے ساتھ باہر خارج کردیا جاتا ہے۔
بلیو وھیل کی غذا ننھا منا سمندری جانور کرل﴿Krill
روئے زمین کی سب سے بڑی زندہ مخلوق کے بارے میں ماہرین زیادہ معلومات نہیں رکھتے کیونکہ اس جانور کی عجیب و غریب فطرت پر انسانوں کی نظر بہت ہی کم گئی ہے۔ اسی لئے کتب میں ان کے عادات و اطوار کا مکمل بیان کم ہی ملتا ہے ۔ وھیل اپنے دوسرے ہم نوع جانداروں سے مل جل کر رہتے ہیں۔ ان کی تیرنے کی رفتار عموماً 30 تا 35 کیلو میٹر ہوتی ہے۔ ان کی دم مچھلی کی طرح ہوتی ہے ، ویسے ان کی دم ہوائی جہاز کے مانند اوپر نیچے بھی حرکت کر سکتی ہے تاکہ تیرنے کے دوران سمت کا تعین اور گہرائی میں پہنچنے میں مدد مل سکے۔ کبھی کبھی ان کے گروپ یا جھتے میں وھیلس کی تعداد بڑھ بھی جاتی ہےان کے بڑے گروپس کو "مدرسہ" یا اسکول اور چھوٹے گروپس کو Pods کہا جاتا ہے۔بعض ماہرین کے مطابق "مدرسہ" میں انکی تعداد 65 سے زیادہ ہوسکتی ہے۔
چونکہ یہ سمندر کی گہرائی میں تیرتے ہیں۔ اسی لئے جب کبھی زیادہ گہرائی میں جانا ہوتو یہ اپنے شش Lungs میں تازہ ہوا بھر لیتے ہیں اور اسی مقدار ہوا سے درکار مدت کے لیے تنفسی افعال انجام دیتے ہیں۔ (وھیل چونکہ ایک پستانیہ ہے اس لیے عمل تنفس ہوائی آکسیجن کے ذریعہ انجام پاتا ہے) ۔ عام الفاظ میں یہ جاندار زائد از 50 منٹ تک سانس روک سکتے ہیں۔ یہ بھی خدا کا عجیب نظام ہے کہ ان کے خون کے تنفسی مادوں یا خلیوں میں آکسیجن کی ذخیرہ اندوزی کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے۔ جب وھیل سمندر میں بے پناہ گہرائی میں غوطہ لگاتی ہے تو اس کے دل کی رفتار دھیمی ہوجاتی ہے اور دل ایک منٹ میں صرف 3 تا 5 مرتبہ دھڑکتا ہے۔ بعض خون کی نالیاں بند ہوجاتی ہیں جسم کے غیر ضروری حصوں تک خون کا بہاؤ منقطع ہوجاتا ہے۔ خون کی نالیوں کی ساخت میں تبدیلی واقع ہوتی ہے تاکہ خون میں موجود آکسیجن تیزی سے ختم ہونے نہ پائے اور جاندار کے جسم کے بلڈ پریشر اور فعلیاتی افعال کو اعتدال پر رکھا جاسکے۔
یہ ایک سائنسی اصول ہے کہ اگر کوئی جاندار کسی بھی وجہ کم مقدار میں آکسیجن استعمال کرتا ہوتو اس کے جسم میں لیکٹک ترشہ (Lactic Acid) بنتا ہے جو اپنے منفی اثرات کے باعث اس جاندار کے جسم کو مضحمل کر دیتا ہے لیکن قدرت نے وھیل کو ایک عجیب خصوصیت سے بھی نوازا ہے کہ ان میں بننے والا یہ لیکٹک ترشہ ان کو نقصان نہیں پہنچاتا۔ حالانکہ یہ ترشہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ضرر رساں ہونا چاہیے لیکن یہ قدرت ہی تو ہے کہ ایک کیمیائی تناسب و ساخت رکھنے والا مرکب کہیں نقصان دہ ہوجاتا ہے اور کہیں بے ضرر بن جاتا ہے حالانکہ دنیوی ضابطہ کے مطابق یہ مرکب ان جانداروں کو نقصان پہنچانا چاہیے لیکن قدرت نے اس مرکب سے یہ صفت چھین لی جو خالق کا اختیار اور اس کی شان قدرت کا غماز ہے۔ یہ تمام حقائق اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ یہ دنیا کسی چانس یا اتفاق کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ خالق کا ایک منصوبہ بند پروگرام ہے جو روز ازل سے شروع ہوا اور ابد تک جاری رہے گا۔ وھیل جانوروں کی دنیا کا سب سے زیادہ تیز آواز نکالنے والا جاندار ہے، جس کی آوازسمندر کی گہرائی میں بھی 1600 کیلو میٹر یعنی تقریباً 1000 میل دور تک سنی جا سکتی ہے۔ اس کی آواز کو Moans کہاجاتا ہے۔ یہ دراصل ان کا مواصلاتی ذریعہ ہے۔ ان کی آواز تیز سیٹی کی مانند ہوتی ہے۔ یہ آواز عموماً غذا کی تلاش کے دوران نکالتی ہے۔ لیکن یہ جاندار اسی وقت آواز نکالنے پر قادر ہوتے ہیں جبکہ وہ حرکت کر رہے ہوں۔
اتنا بڑا جاندار انسان کو پیغام دیتا ہے کہ جس خالق نے مجھے پیدا کیا وہ خود کتنا عظمت والا ہوگا۔
"تمہارے پروردگار کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا"
مگر رفتار زمانہ کے ساتھ ساتھ انسان نے جہاں دیگر شعبہ ہائے زندگی میں ترقی اور نئی نئی دریافتیں کی ہیں وہیں سائنسدانوں کے علم کے مطابق کرہ ارض پر پائے جانے والے جانداروں میں سب سے بڑا جاندار بلیو وھیل {نیلی وھیل} ہے۔
بلو وھیل دنیا کا سب سے بڑا جاندار ہے سائنسدانوں کے مطابق آج تک دنیا میں اس سے بڑا جاندار دکھائی نہیں دیا۔ زمانہ قدیم کے ایک عہد "جیوراسک دور" Jurassic Period کے ڈائنو سارس (Dinosaurs) بھی "بلو وھیل" کے مقابلے میں بہ اعتبار جسامت چھوٹے تھے۔ جبکہ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے جاندار ڈائینو سارس ہی ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ڈائینو سارس نہایت لحیم شحیم ہوا کرتے تھے، ویسے یہ جاندار اب معدوم ہوچکے ہیں لیکن ان کے محفوظ ڈھانچوں کے رکاز کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ "بلووھیل" بشمول ماضی و حال آج تک کی دنیا کا سب سے بڑا جاندار ہے۔ عام طور پر Blue Whale کے جسم کی لمبائی 30 میٹر یعنی 100 فٹ سے زیادہ ہوتی ہے۔ آج تک کی سب سے بڑی وھیل کو 1920 ء میں پکڑا گیا تھا۔ جو تقریبا34 میٹر یعنی 111 فٹ لمبی تھی۔ اور جس کا وزن 155 ٹن تھا۔
ویسے یہ قدرت کی عجیب کاریگری ہے کہ چھوٹی وھیل بھی 22 میٹر سے کم نہیں ہوتی۔ بلو وھیل کا وزن اوسطاً 135 ٹن یعنی ایک لاکھ 35 ہزار کیلو سے زیادہ ہوتا ہے۔ ان کی مادائیں Females نر کے مقابلے میں چھوٹی ہوتی ہیں۔ وھیل کی زبان کا وزن ایک ہاتھی کے وزن اور ان کا دل ایک کار کے برابر ہوتا ہے اور اس جانور کی بڑی شیریانوں کی اندرونی گولائی میں ایک آدمی بلا مزاحمت ، بآسانی تیر سکتا ہے۔
بلیو وہیل کا دیگرجانداروں سے تقابلی جائزہ۔
بلو وھیل ایک پستانیہ پے جو جماعت Cetecea سے تعلق رکھتا ہے۔ جس کا سائنسی زبان میں Balaenoptera musculus کہا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہ جانور 110 برس تک زندہ رہتا ہے۔ ان میں مدت حمل 11 مہینوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ لیکن یہ جاندار 2 یا 3 سال میں ایک بچہ دیتے ہیں ، ان میں Parental care مثالی ہوتا ہے اسی لئے یہ اپنے بچوں کو تقریباً 7 یا 8 مہینوں تک دیکھ بھال کرتے ہیں، غذا حاصل کرنے کی تربیت دیتے ہیں اور دوسرے جانوروں پر حملہ آور ہونے کے طریقے بتاتے ہیں۔ یہ اپنے پستان سے بچوں کے منہ میں دودھ انڈیلتی ہے ، قدرت نے ان کے دودھ کی مقدار کو بھی ان کے جسم کے تناسب سے مقرر کیا ہے۔ یہ روزانہ 600 لیٹر دودھ دیتے ہیں۔ اگر ان کے دودھ کا مقابلہ گائے کے دودھ سے کریں تو پتہ چلے گا کہ گائے کے دودھ میں صرف 3 تا5 فیصد چربی پائی جاتی ہے۔ جبکہ وھیل کے دودھ میں 25 تا 50 فیصد چربی پائی جاتی ہے۔ یہ انسان کے دودھ سے 10 گنا گاڑھا ہوتا ہے۔ اسی لئے ان کے بچوں کا وزن ابتدائی مدت میں تقریباً 90 کیلو روزانہ بڑھتا ہے۔ ویسے بوقت پیدائش بھی ان کے بچے کا وزن 3 ٹن سے زیادہ ہوتا ہے اور ان کی لمبائی 30 فٹ کے لگ بھگ ہوتی ہے۔
وھیل کے جسم کا رنگ ہلکا نیلا یا مٹیالا ہوتا ہے جن پر ہلکے دھبوں جیسی ساختیں پائی جاتی ہیں ان جانداروں کا نچلا حصہ زردی مائل ہوتا ہے۔ ان کی اوپری جانب کی Fin چھوٹی ہوتی ہےلیکن ان کی دم نہایت مضبوط اور موٹی ہوتی ہے جو تیرنے میں مدد دیتی ہے۔ یہ دنیا کے تقریباً تمام ہی سمندروں میں پائے جاتے ہیں۔ یہ خدا کی عجیب شان ہے کہ اس قدر بڑی جسامت کے باوجود ان جانداروں کی غذا سمندری Krill ہے۔ Krill یعنی چھوٹے چھوٹے Crustacians ، یہ کیڑے جیسے سمندری جانور ہیں جو جوڑدار پیر رکھتے ہیں ان کا سائز 20 تا 90 ملی لیٹر ہوتا ہے Krill لاکھوں کی تعداد میں ایک جگہ جھتے کی صورت میں پائے جاتے ہیں یہ چھوٹے چھوٹے اجسام 90 مختلف انواع پر مشتمل ہوتے ہیں۔ بلو وھیلس روزانہ 2500 کیلو سے زیادہ Krill استعمال کرتے ہیں ج بلو وھیل اپنا بڑا منہ کھولتی ہے تو پانی کے بہاؤ کے ساتھ یہ Krill بھی اس کے دہانے میں داخل ہوجاتے ہیں۔
بلو وھیل میں دانت نہیں پائے جاتے بلکہ Baleen پایا جاتا ہے یعنی اس کے منہ کے چھت سے سخت ہڈی نما ساختیں نکلتی ہیں جو ان کے ہضمی نظام کا ایک حصہ ہیں۔ ان ہڈی جیسی ساختوں کی تعداد 270 تا 390 تک ہوتی ہیں جو ایک خاص ترتیب میں جمع ہوکر چھنی جیسی شکل بناتے ہیں اور غذا کو چھاننے کا کام انجام دیتے ہیں۔ وھیل کے حلق میں 600 سے زائد بلعومی تہیں پائی جاتی ہیں جس کی وجہ سے ان تہوں کے سامنے کا حصہ تھیلی نما نظر آتا ہے۔
وھیل کی غذا صرف آبی جانداروں پر مشتمل ہوتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق وھیل روزانہ 2 تا 7 ٹن صدفیوں اور دوسرے چھوٹے جانداروں کو غذا بناتی ہے لیکن ان کا معدہ اس قدر بڑا ہوتا ہے کہ اس میں زائد از 17 ٹن غذا کی ذخیرہ اندوزی کی جاسکتی ہے ۔ اس مقصد کے لیے یہ جاندار زیادہ مقدار میں پانی منہ میں لیتا ہے تاکہ زیادہ مقدار میں غذا داخل ہوسکے، پھر بعد میں زائد پانی کو ہوا کے ساتھ باہر خارج کردیا جاتا ہے۔
بلیو وھیل کی غذا ننھا منا سمندری جانور کرل﴿Krill
روئے زمین کی سب سے بڑی زندہ مخلوق کے بارے میں ماہرین زیادہ معلومات نہیں رکھتے کیونکہ اس جانور کی عجیب و غریب فطرت پر انسانوں کی نظر بہت ہی کم گئی ہے۔ اسی لئے کتب میں ان کے عادات و اطوار کا مکمل بیان کم ہی ملتا ہے ۔ وھیل اپنے دوسرے ہم نوع جانداروں سے مل جل کر رہتے ہیں۔ ان کی تیرنے کی رفتار عموماً 30 تا 35 کیلو میٹر ہوتی ہے۔ ان کی دم مچھلی کی طرح ہوتی ہے ، ویسے ان کی دم ہوائی جہاز کے مانند اوپر نیچے بھی حرکت کر سکتی ہے تاکہ تیرنے کے دوران سمت کا تعین اور گہرائی میں پہنچنے میں مدد مل سکے۔ کبھی کبھی ان کے گروپ یا جھتے میں وھیلس کی تعداد بڑھ بھی جاتی ہےان کے بڑے گروپس کو "مدرسہ" یا اسکول اور چھوٹے گروپس کو Pods کہا جاتا ہے۔بعض ماہرین کے مطابق "مدرسہ" میں انکی تعداد 65 سے زیادہ ہوسکتی ہے۔
چونکہ یہ سمندر کی گہرائی میں تیرتے ہیں۔ اسی لئے جب کبھی زیادہ گہرائی میں جانا ہوتو یہ اپنے شش Lungs میں تازہ ہوا بھر لیتے ہیں اور اسی مقدار ہوا سے درکار مدت کے لیے تنفسی افعال انجام دیتے ہیں۔ (وھیل چونکہ ایک پستانیہ ہے اس لیے عمل تنفس ہوائی آکسیجن کے ذریعہ انجام پاتا ہے) ۔ عام الفاظ میں یہ جاندار زائد از 50 منٹ تک سانس روک سکتے ہیں۔ یہ بھی خدا کا عجیب نظام ہے کہ ان کے خون کے تنفسی مادوں یا خلیوں میں آکسیجن کی ذخیرہ اندوزی کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے۔ جب وھیل سمندر میں بے پناہ گہرائی میں غوطہ لگاتی ہے تو اس کے دل کی رفتار دھیمی ہوجاتی ہے اور دل ایک منٹ میں صرف 3 تا 5 مرتبہ دھڑکتا ہے۔ بعض خون کی نالیاں بند ہوجاتی ہیں جسم کے غیر ضروری حصوں تک خون کا بہاؤ منقطع ہوجاتا ہے۔ خون کی نالیوں کی ساخت میں تبدیلی واقع ہوتی ہے تاکہ خون میں موجود آکسیجن تیزی سے ختم ہونے نہ پائے اور جاندار کے جسم کے بلڈ پریشر اور فعلیاتی افعال کو اعتدال پر رکھا جاسکے۔
یہ ایک سائنسی اصول ہے کہ اگر کوئی جاندار کسی بھی وجہ کم مقدار میں آکسیجن استعمال کرتا ہوتو اس کے جسم میں لیکٹک ترشہ (Lactic Acid) بنتا ہے جو اپنے منفی اثرات کے باعث اس جاندار کے جسم کو مضحمل کر دیتا ہے لیکن قدرت نے وھیل کو ایک عجیب خصوصیت سے بھی نوازا ہے کہ ان میں بننے والا یہ لیکٹک ترشہ ان کو نقصان نہیں پہنچاتا۔ حالانکہ یہ ترشہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ضرر رساں ہونا چاہیے لیکن یہ قدرت ہی تو ہے کہ ایک کیمیائی تناسب و ساخت رکھنے والا مرکب کہیں نقصان دہ ہوجاتا ہے اور کہیں بے ضرر بن جاتا ہے حالانکہ دنیوی ضابطہ کے مطابق یہ مرکب ان جانداروں کو نقصان پہنچانا چاہیے لیکن قدرت نے اس مرکب سے یہ صفت چھین لی جو خالق کا اختیار اور اس کی شان قدرت کا غماز ہے۔ یہ تمام حقائق اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ یہ دنیا کسی چانس یا اتفاق کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ خالق کا ایک منصوبہ بند پروگرام ہے جو روز ازل سے شروع ہوا اور ابد تک جاری رہے گا۔ وھیل جانوروں کی دنیا کا سب سے زیادہ تیز آواز نکالنے والا جاندار ہے، جس کی آوازسمندر کی گہرائی میں بھی 1600 کیلو میٹر یعنی تقریباً 1000 میل دور تک سنی جا سکتی ہے۔ اس کی آواز کو Moans کہاجاتا ہے۔ یہ دراصل ان کا مواصلاتی ذریعہ ہے۔ ان کی آواز تیز سیٹی کی مانند ہوتی ہے۔ یہ آواز عموماً غذا کی تلاش کے دوران نکالتی ہے۔ لیکن یہ جاندار اسی وقت آواز نکالنے پر قادر ہوتے ہیں جبکہ وہ حرکت کر رہے ہوں۔
اتنا بڑا جاندار انسان کو پیغام دیتا ہے کہ جس خالق نے مجھے پیدا کیا وہ خود کتنا عظمت والا ہوگا۔
اگر انتظامیہ کو لگے کہ یہ تھریڈ مناسب جگہ نہیں تو اس کو موو کرنے کے بعد مجھے اطلاع ضرور دیں شکریہ۔
Comment