Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

مقبرہ نورجہاں

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • مقبرہ نورجہاں

    ملکہ نورجہاں، مغل شہنشاہ جہانگیر کی سترہویں اور آخری بیگم تھیں اور مغلوں کی تاریخ کے مطابق جہانگیر کے دور ِ حکومت میں تو ملکہ نورجہاں کو پوری سلطنت میں بے پایاں اثرورسوخ حاصل تھا لیکن جہانگیر کی وفات کے بعد، نئے بادشاہ شاہجہان نے نورجہاں کو لاھور تک محدود کردیا تھا۔ اس کی وجہ تاریخ دان یہ بتاتے ہیں کہ نورجہاں اپنے داماد شہزادہ شہریار کو حکمران بنانا چاہتی تھی اور شاہجہان اپنی اس سوتیلی ماں کو اپنا دشمن سمجھتا تھا۔ تاریخ دانوں کے بقول غالباً یہی وجہ تھی کہ شاہجہان نے جہانگیر کی قبر کے پہلومیں نورجہاں کو اپنی قبر بنوانے کی اجازت نہیں دی تھی۔

    نور جہاں لاھور کے قریب شاہدرہ میں واقع مقبرہ جہانگیر کے باہر ایک الگ سے چھوٹے مقبرے میں دفن ہیں۔

    محکمہ آثارِقدیمہ کے عہدیدار سلیم الحق نے ایک انٹریو میں بتایا کہ ملکہ نورجہاں،مقبرہ جہانگیر کی تعمیر کی جب نگرانی کررہی تھیں تو اُس دور میں اُنہوں نے اپنے لیے یہ الگ مقبرہ بنوایا تھا جو آج بھی موجود تو ہے مگر اس کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔اُنہوں نے بتایا کہ اس مقبرے میں دو قبریں ہیں۔ ایک ملکہ نورجہاں کی اور دوسری ان کی بیٹی لاڈ لی بیگم کی۔ نور جہاں کی یہ بیٹی اُن کے پہلے شوہر شیر افگن سے تھیں اور اسی بیٹی کی شادی اُنہوں نے جہانگیر کے بیٹے شہزادہ شہریار سے کردی تھی جو جہانگیر کی کسی اور بیوی سے تھا۔ مقبرے کی تعمیر کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سلیم الحق نے کہا کہ اس میں سرخ پتھر استعمال ہوا تھا جو لاھور اور اُس کے قرب وجوار میں کہیں نہیں پایا جاتا۔ اُس دور میں اُن کے بقول لگ بھگ پانچ سو میل دور سے یہ پتھر لاھور لا کر اس سے مقبرہ نورجہاں تعمیر کیا گیا تھا لیکن سکھوں کے دور ِ حکومت میں اس مقبرے سے سُرخ پتھر نکال لیے جانے کے بعد اس کو جو نقصان پہنچا اُس نقصان کی آج تک تلافی نہیں ہوپائی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں سلیم الحق نے کہا کہ اس مقبرہ کو اس کی اصلی شکل میں بحال کر نا تو مشکل ہے لیکن اُن کے محکمہ نے پچانوے لاکھ روپے مالیت کا تین سالہ ایک ایسا منصوبہ بنا رکھا ہے جس سے یہ تاریخی عمارت اپنی اصلی شکل کے کافی قریب پہنچ سکتی ہے اور آئندہ کئی عشروں تک محفوظ بھی رہ سکتی ہے۔

    سلیم الحق کا کہنا تھا کہ امریکی سفارتخانہ، آثارِقدیمہ کی حفاظت کے لیے جو خصوصی فنڈفراہم کرتا ہے اُن کے محکمے نے اس فنڈ سے مقبرہ نورجہاں کی درستیابی کے لیے مالی امداد کے حصول کی درخواست دی ہوئی ہے۔ خیال رہے کہ امریکی کانگریس نے امریکی سفیروں کے ذریعے مختلف ملکوں میں آثارِقدیمہ کی حفاظت کے لیے ایک خصوصی فنڈ کی منظوری دے رکھی ہے جس سے پاکستان میں بھی کئی منصوبوں کو مالی امداد فراہم کی جاچکی ہے تاہم سلیم الحق کا یہ بھی کہنا تھا کہ ممکن ہے کہ حکومتِ پاکستان خود ہی اُن کے محکمے کو یہ رقم فراہم کردے۔

    مقبرہ نورجہاں میں قبروں کو تہہ خانے میں بنایا گیا ہے۔ اس حوالے سے بات کرتے ہوئے سلیم الحق نے کہا کہ نورجہاں اور لاڈ لی بیگم کی زیرِزمین تدفین نہیں ہوئی تھی بلکہ ان کی وصیت کے مطابق، دو پتھر کے تابوتوں کے اندر لکڑی کے تابوت رکھے گئے تھے جن میں ان عورتوں کے مردہ جسم رکھ کر اس مقبرہ کے تہہ خانے میں لٹکا دیا گیا تھا۔ اُنہوں نے کہا کہ سکھوں کے دورِ حکومت میں اس خیال سے ان تابوتوں کو توڑا گیا کہ شاید ان میں کوئی خزانہ دفن ہوگا مگر جب مردہ جسموں کی باقیات ہی نکلیں تو پھر اُن کو وہیں زیرِزمین دفن کردیا گیاتھا۔

    مقبرہ نورجہاں دیکھنے کافی لوگ آتے ہیں جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ، مقبرہ جہانگیر کے راستے میں واقع ہے اور جو سیاح جہانگیر کا مقبرہ دیکھنے آتے ہیں اُن میں سے اکثر نورجہاں کے مقبرے پر بھی جاتے ہیں۔
    Attached Files
    "Can you imagine what I would do if I could do all I can? "

  • #2
    Re: مقبرہ نورجہاں

    so nice info

    Comment

    Working...
    X