مسواک کی اہمیت اور افادیت
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر مسلمانوں پر شاق (یعنی مشکل) نہ ہوتا اور زہیر کی روایت میں یوں ہے کہ اگر میری امت پر مشکل نہ ہوتا تو میں ان کو حکم کرتا کہ ہر نماز کے وقت مسواک کیا کریں۔
صحیح مسلم
وضو کے مسائل
باب: وضو کے وقت مسواک کرنا۔
حدیث نمبر : 123
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب گھر میں آتے تو پہلے مسواک کرتے۔
صحیح بخاری
کتاب الجمعہ
باب: جمعہ کے دن مسواک کرنا
حدیث نمبر : 887
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر مجھے اپنی امت یا لوگوں کی تکلیف کا خیال نہ ہوتا تو میں ہر نماز کے لیے ان کو مسواک کا حکم دے دیتا۔
مختصر صحیح مسلم
جمعہ کے مسائل
باب: جمعہ کے دن خوشبو اور مسواک کا بیان۔
حدیث نمبر : 405
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جمعہ کے دن نہانا اور مسواک کرنا ہر بالغ پر واجب ہے۔ اور خوشبو میسر ہو تو وہ بھی لگانی چاہئے۔
مسواک کے طبی و سائنسی فوائد
رسول اللہ ﷺ نے مسواک کے استعمال پر اتنی تاکید اس لیے فرمائی کیونکہ اس میں کئی طبی اور سائنسی فوائد موجود ہیں ۔ اب قارئین مسواک کے طبی اور سائنسی فوائد ملاحظہ فرمائیں۔
مسواک قاتلِ جراثیم ہے ۔یہ منہ سے تعفن کو دور کرتی ہے ۔ اس کے استعمال سے منہ کے اندر جراثیم مرکر ختم ہوجاتے ہیں اور اس طرح مسواک کرنے والا شخص منہ کی بیماریوں سے بچا رہتا ہے ۔ جدید تحقیق کے مطابق کچھ ایسے جراثیم بھی ہوتے ہیں جو مروجہ برش اور پیسٹ سے دور نہیں ہوتے بلکہ ان کو صر ف مسواک سے ہی دور کیا جاسکتا ہے ۔
طب اور میڈیکل سائنس نے ثابت کر دکھایا ہے کہ مسواک سے دماغ کو قوت حاصل ہوتی ہے اور اس سے دماغ کی صحت برقرا ر رہتی ہے ۔ دماغ مسواک کرنے سے تیز ہوتا ہے اور طویل عرصہ تک تندرست رہ سکتا ہے ۔ اگر مسواک سے دانتوں کو صاف نہ کیا جائے تو دانت گندے ہوجاتے ہیں ۔ جس کی جبڑوں اور مسوڑھوں میں پیپ بن جاتی ہے جو دماغی امراض کا سبب بنتی ہے ۔ نفسیاتی بیماریاں بھی اسی سے لاحق ہوتی ہیں۔
انسان کھانا کھاتا ہے ،پانی پیتا ہے اور کئی ایک دیگر اشیاء بھی کھاتا رہتا ہے ۔ جس سے کھانے کے چھوٹے چھوٹے ذرے دانتوں کے درمیان پھنستے رہتے ہیں جو معمول کے مطابق صرف کلی کرنے سے خارج نہیں ہوتے جس کی وجہ سے دانتوں میں تعفن پیدا ہوجاتا ہے جو کئی بیماریوں کا موجب بنتا ہے۔ظاہراً بھی اگر آدمی کے دانت گندے ہوں تو بو آنےلگتی ہے ۔تعفن زدہ دانتوں کی وجہ سے مسوڑھے بھی متعفن ہوجاتے ہیں ۔ مسوڑھوں میں پیپ پڑھ جاتی ہے ۔جسے کے ساتھ گلے پر بھی اثر پڑتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ کھانسی ،نزلہ ،زکام اور بخار وغیرہ کی آ مد ہو جاتی ہے ۔ یوں دانت مسواک سے صاف نہ کرنے کے باعث انسانی زندگی بربادہو کر رہ جاتی ہے ۔ زندگی تو صحت اور تندرستی سے ہے اگر آدمی تندرست ہی نہ رہے تو کیا زندگی ؟پس مسواک کے بغیر چارہ نہیں اور بغیر مسواک کسی بھی پیپ،تعفن اور غیر مرئی جراثیم کو دور نہیں کیا جاسکتا۔
جن مریضوں کا گلا خرا ب ہوتا ہے وہ ٹانسلز کے مریض ہوتے ہیں ۔ ایسے مریض باقاعدہ مسواک کے استعمال سے تندرست ہو سکتے ہیں ۔ اسی طرح اگر کسی مریض کے گلے کے غدود بڑ ھ گئے ہوں تو وہ شربتِ شہتوت اور باقاعدہ مسواک کرکرکے آرا م حاصل کرسکتا ہے ۔بعض مرتبہ منہ کے اندر گرمی ،تیزابیت اور غیرمرئی جراثیم کی وجہ سے چھالے ہو جاتے ہیں ۔ان چھالوں میں سے ایسی قسم کے چھالے بھی ہیں جو کبھی نکل آتے ہیں اورکبھی چھپ جاتے ہیں ۔ یہ نہایت تکلیف دہ اور نقصان دہ ہوتے ہیں۔ ان کے جراثیم منہ میں پھیل کرپورے منہ کو پانی لپیٹ میں لےلیتے ہین جن کی وجہ سے کھانا تناول کرنامشکل وناممکن ہوجاتا ہےاور مریض بھوک کی وجہ سے کمزور پڑ جاتا ہے ۔اگر روزنہ بلاناغہ تازہ مسواک کی جائے، اس کے لعاب کواچھی طرح مَلا جائے تو مرض پیداہی نہ ہوگا ااور اگرکبھی سستی کی وجہ سے ہوگیا تو مسواک کے باقاعدہ استعمال سے مریض تندرست ہو جائےگا۔
بعض ایسے مریض ہوتے ہیں جو کانوں کے ورم،پیپ اور درد میں مبتلا ہوتے ہیں ،مہنگے سے مہنگا علاج کرانے کے باوجود انہیں اس تکلیف سے نجات نہیں ملتی ۔ جب اچھی طرح ایسے مریضوں کی تشخیص کی جاتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے مسوڑھوں میں پیپ پڑھ گئی ہے اور سارا منہ تعفن سے بھرپور ہے ۔جب مسوڑھوں کا علاج کیا جاتا ہے اور باقاعدہ سے تازہ مسواک کی جاتی ہے تو ساتھ ہی کان بھی بالکل صحت مند ہوجاتےہیں ۔ اسی طرح آنکھوں کی بیماریوں اور نظر کے امراض میں دانتوں کی عدم صفائی کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے ۔کمزور بینائی کے مریضوں میں متعدد مریض ایسے ہوتے ہیں جن کے مرض کے دیگر اسباب کے علاوہ دانتوں کے بارے میں ان کی غفلت سب سے بڑا سبب ہوتی ہے ۔ماہرین کے تجربات سے یہ بات تحقیق شدہ ہے کہ تقریباً 80 فیصد امراض کی وجہ معدہ اور دانتوں کے نقائص اور بیماریاں ہوتی ہیں ۔ بالخصوص آج کل ہر تیسرا شخص معدے کے امراض میں مبتلا ہے ۔
دائمی نزلہ اور زکام کے ایسے مریض جن کی بلغم رُک چکی ہو جب وہ مسواک کرتے ہیں تو وہ بلغم اندر سے خارج ہو نا شروع ہوجاتی ہے اور یوں مریض کا دماغ ہلکا ہونا شروع ہوجاتا ہے ۔ پیتھالوجسٹ حضرات کے تجربے اور تحقیق سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ دائمی نزلہ کے لیے مسواک تریاق سے کم نہیں ۔ یہاں تک کہ مسواک کے مستقل اور باقاعدہ استعمال سے ناک اور گلےکے آپریشن کے مواقع بہت کم ہوجاتے ہیں۔
ایک شخص کے منہ سے بو آیا کرتی تھی ۔اس بیچارے نے متعدد اچھی اچھی قسم کی ٹوتھ پیسٹ اور منجن استعمال کیے ،اس کے علاوہ متعدد ڈاکٹروں سے مختلف ادویات بھی استعمال کیں مگر کوئی فاعدہ نہ ہوا ۔ کسی ڈینٹل سپیشلسٹ کے مشورے سے اس نے پیلو کی مسواک استعمال کی ۔ وہ باقاعدہ مسواک استعمال کرتا اور پرانے ریشوں کو کاٹ کر روزانہ نئے سرے سے مسواک کرتا رہا تو تھوڑا عرصہ گزرنے کے بعد رسول اللہ ﷺ کی اس سنت کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے اسے تندرستی عطا فرما دی ۔
گورونانک کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اپنے ہاتھ میں مسواک رکھا کرتا تھا، دانتوں کو اس سے صاف کرتا اور کہا کرتا تھا:
“یایہ لکڑی لے لو اور یا پھر بیماری لے لو”
ایک شخص کے گلے ،گردن میں درد ہوتا تھا اور ساتھ ہی گردن میں سوجن بھی تھی ۔ اس کے ساتھ آواز میں بھی کمی آگئی اور ذہنی یاداشت بھی متاثر ہوگئی نیز سر بھی چکرانے لگا۔ یہ آدمی برین سپیشلسٹ اور جنرل فزیشن سپیشلسٹ وغیرہ کے زیرِ علاج رہا مگر سب بے سود ثابت ہوئے ۔ کسی کے مشورے سے وہ باقاعدہ مسواک کرنے لگا ۔ اس طرح کہ مسواک کے دوٹکڑے کرکے پانی میں اُبالتا اور پانی سے غرارے کرتا ۔ علاوہ ازیں جہاں سُوجن تھی وہاں کچھ دوائی بھی لیپ کی گئی ۔ یہ علاج بڑا مفید ثابت ہوا ۔ اس کی تحقیق کی گئی تو اس کے تھائی رائیڈ گلینڈ متاثر تھے جس کا اثر سارے جسم پر ہوا تھا۔ اس مسواک والے علاج سے اس کی یہ بیماری دور ہو گئی اور وہ شفائے کاملہ سے ہمکنار ہو گیا۔
تحقیق وتجربات سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ جو ٹوتھ برش ایک دفعہ استعمال ہو جائے اس میں جراثیم کی تہہ جم جانے کے باعث دوبارہ استعمال کرنے سے صحت کو نقصان پہنچتا ہے۔پانی سے صاف کرنے کے باوجود وہ جراثیم صاف نہیں ہوتے اور اپنی نشوونما برقرار رکھتے ہیں ۔ مزید برآں برش کے استعمال سے دانتوں کے اوپر والی چمکیلی اور سفید تہہ اترجاتی ہے ۔بایں سبب دانتوں کے درمیان خلا ہوجاتا ہے اور دانت مسوڑھوں کی جگہ چھوڑتے جاتے ہیں ۔ لہذا غذا کے جو ذرات دانتوں کے خلا میں اَڑے رہتے ہیں وہ دانتوں کے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں اوربالآخر سارے جسم میں بیماریوں کا باعث بن جاتے ہیں ۔اس لیے ان مصیبتوں سے بچنے کے لیے سنتِ مصفیٰ ﷺ پر عمل کیجئے یعنی مسواک صبح وشا م متواتر استعمال کیجئے اور تندرستی قائم رکھیئے۔
مسواک کے لیے ہر اس درخت کی شاخ مناسب ہوتی ہے جس کے ریشے نرم ہوں کہ دانتوں میں خلا نہ بنائیں اور مسوڑھوں کو نقصان نہ پہنچائیں ۔ بہترین اور اعلیٰ مسواک پیلو،نیم اور کیکر کے درختوں اور کنیر کے پودے سے حاصل ہوتی ہے۔پیلو کا مسواک تحفہ کے طور پر دینا سنتِ رسول اللہ ﷺ ہے۔چناچہ حضرت ابو خیرہ صباحی ؓ فرماتے ہیں کہ میں اس وفد میں شامل تھا جو رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ آپ ﷺ نے ہمیں پیلو کے درخت کی لکڑیاں مسواک کرنے کےلیے توشہ میں دیں ۔(مجمع الزوائد،جلد2،صفحہ 268)
پیلو کا مسواک نرم ریشوں والا ہوتا ہے ۔ اس میں کیلشیم اور فاسفورس ہوتی ہے ۔ اکثر کلرزدہ اور ویران وبیابان مقامات پر ہوتا ہے ۔ جدید سائنسی اور طبی تحقیق سے یہ بات ثابت ہے کہ مختلف اشیاء جو دماغ کی خوراک و معاون ہیں ،ان میں ایک فاسفورس بھی ہے ۔ پیلو کی مسواک میں موجود فاسفورس لعاب اور مساموں کے ذریعے دماغ تک پہنچتا ہے جس کے ذریعے دماغ کو قوت حاصل ہوتی ہے ۔
نیم کے درخت کا مسواک بھی نہایت مفید ہے ۔ اس میں دانتوں کی مجموعی بیماریوں کا علاج ہے ۔یہ درخت عام پایا جاتاہے ۔ اس کے بعد پھر کیکر کے مسواک کا درجہ ہے ۔ اس سے دانت بڑی اچھی طرح صاف کیے جاسکتےہیں اور یہ دانتو ں کو تعفن اور پیپ سے بچائے رکھتا ہے ۔ یاد رہے کہ ممکن حد تک مسواک تازہ ہونی چاہیے اگر پہلے استعمال شدہ مسواک استعمال کرنا ہو تواس کے پہلے استعمال شدہ ریشے کاٹ دیں اور دانتوں سے نئے سرے سے چبا کر ریشے بنائیں ۔
کنیر دوقسم کا ہوتا ہے ۔ سفید پھولوں والا اور سرخ پھولوں والا۔ یہ پودا اکثر پارکوں اور باغات وغیرہ میں ہوتا ہے ۔ اس کی مسواک استعمال کرنے سے دانتوں کی تمام تکالیف پائیوریا وغیرہ ختم ہوجاتی ہیں اور لاعلاج مریض بھی تندرست ہوجاتے ہیں ۔ یہ مسواک کڑوی ہوتی ہے مگر اس کی یہی کڑواہٹ دانتوں کے لیے ازحد مفید ہے ۔ اطباء نے اس میں موجود اجزاء کے باعث دانتوں کی چمک ،مضبوطی اور پائیوریا جیسے امراض کے لیے اسے اکسیر اعظم قرار دیا۔
خالق ِکائنات نے انسان کو پیدا فرمایا تو ساتھ اس کے استعمال کے لیے وہ اشیاء بھی پیدا فرمائیں جو اس کی صحت وتندرستی کو قائم رکھنے کا باعث ہیں اوراپنے خاص بندوں یعنی ابنیاء ورسل علیہم السلام کو بھیج کر بنی نوع انسان کو ایسی اشیا ء کا استعمال بھی بتا دیا۔ انہی اشیاء میں مسواک بھی ہے جو کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام علیہم السلام کے ذریعے نبی نوع انسان تک پہنچائی ، اس کے فوائد بیان فرمائے اور اس کو تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت اور کثیر بیماریوں کی شفاء کا درجہ دیا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر مسلمانوں پر شاق (یعنی مشکل) نہ ہوتا اور زہیر کی روایت میں یوں ہے کہ اگر میری امت پر مشکل نہ ہوتا تو میں ان کو حکم کرتا کہ ہر نماز کے وقت مسواک کیا کریں۔
صحیح مسلم
وضو کے مسائل
باب: وضو کے وقت مسواک کرنا۔
حدیث نمبر : 123
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب گھر میں آتے تو پہلے مسواک کرتے۔
صحیح بخاری
کتاب الجمعہ
باب: جمعہ کے دن مسواک کرنا
حدیث نمبر : 887
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر مجھے اپنی امت یا لوگوں کی تکلیف کا خیال نہ ہوتا تو میں ہر نماز کے لیے ان کو مسواک کا حکم دے دیتا۔
مختصر صحیح مسلم
جمعہ کے مسائل
باب: جمعہ کے دن خوشبو اور مسواک کا بیان۔
حدیث نمبر : 405
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جمعہ کے دن نہانا اور مسواک کرنا ہر بالغ پر واجب ہے۔ اور خوشبو میسر ہو تو وہ بھی لگانی چاہئے۔
مسواک کے طبی و سائنسی فوائد
رسول اللہ ﷺ نے مسواک کے استعمال پر اتنی تاکید اس لیے فرمائی کیونکہ اس میں کئی طبی اور سائنسی فوائد موجود ہیں ۔ اب قارئین مسواک کے طبی اور سائنسی فوائد ملاحظہ فرمائیں۔
مسواک قاتلِ جراثیم ہے ۔یہ منہ سے تعفن کو دور کرتی ہے ۔ اس کے استعمال سے منہ کے اندر جراثیم مرکر ختم ہوجاتے ہیں اور اس طرح مسواک کرنے والا شخص منہ کی بیماریوں سے بچا رہتا ہے ۔ جدید تحقیق کے مطابق کچھ ایسے جراثیم بھی ہوتے ہیں جو مروجہ برش اور پیسٹ سے دور نہیں ہوتے بلکہ ان کو صر ف مسواک سے ہی دور کیا جاسکتا ہے ۔
طب اور میڈیکل سائنس نے ثابت کر دکھایا ہے کہ مسواک سے دماغ کو قوت حاصل ہوتی ہے اور اس سے دماغ کی صحت برقرا ر رہتی ہے ۔ دماغ مسواک کرنے سے تیز ہوتا ہے اور طویل عرصہ تک تندرست رہ سکتا ہے ۔ اگر مسواک سے دانتوں کو صاف نہ کیا جائے تو دانت گندے ہوجاتے ہیں ۔ جس کی جبڑوں اور مسوڑھوں میں پیپ بن جاتی ہے جو دماغی امراض کا سبب بنتی ہے ۔ نفسیاتی بیماریاں بھی اسی سے لاحق ہوتی ہیں۔
انسان کھانا کھاتا ہے ،پانی پیتا ہے اور کئی ایک دیگر اشیاء بھی کھاتا رہتا ہے ۔ جس سے کھانے کے چھوٹے چھوٹے ذرے دانتوں کے درمیان پھنستے رہتے ہیں جو معمول کے مطابق صرف کلی کرنے سے خارج نہیں ہوتے جس کی وجہ سے دانتوں میں تعفن پیدا ہوجاتا ہے جو کئی بیماریوں کا موجب بنتا ہے۔ظاہراً بھی اگر آدمی کے دانت گندے ہوں تو بو آنےلگتی ہے ۔تعفن زدہ دانتوں کی وجہ سے مسوڑھے بھی متعفن ہوجاتے ہیں ۔ مسوڑھوں میں پیپ پڑھ جاتی ہے ۔جسے کے ساتھ گلے پر بھی اثر پڑتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ کھانسی ،نزلہ ،زکام اور بخار وغیرہ کی آ مد ہو جاتی ہے ۔ یوں دانت مسواک سے صاف نہ کرنے کے باعث انسانی زندگی بربادہو کر رہ جاتی ہے ۔ زندگی تو صحت اور تندرستی سے ہے اگر آدمی تندرست ہی نہ رہے تو کیا زندگی ؟پس مسواک کے بغیر چارہ نہیں اور بغیر مسواک کسی بھی پیپ،تعفن اور غیر مرئی جراثیم کو دور نہیں کیا جاسکتا۔
جن مریضوں کا گلا خرا ب ہوتا ہے وہ ٹانسلز کے مریض ہوتے ہیں ۔ ایسے مریض باقاعدہ مسواک کے استعمال سے تندرست ہو سکتے ہیں ۔ اسی طرح اگر کسی مریض کے گلے کے غدود بڑ ھ گئے ہوں تو وہ شربتِ شہتوت اور باقاعدہ مسواک کرکرکے آرا م حاصل کرسکتا ہے ۔بعض مرتبہ منہ کے اندر گرمی ،تیزابیت اور غیرمرئی جراثیم کی وجہ سے چھالے ہو جاتے ہیں ۔ان چھالوں میں سے ایسی قسم کے چھالے بھی ہیں جو کبھی نکل آتے ہیں اورکبھی چھپ جاتے ہیں ۔ یہ نہایت تکلیف دہ اور نقصان دہ ہوتے ہیں۔ ان کے جراثیم منہ میں پھیل کرپورے منہ کو پانی لپیٹ میں لےلیتے ہین جن کی وجہ سے کھانا تناول کرنامشکل وناممکن ہوجاتا ہےاور مریض بھوک کی وجہ سے کمزور پڑ جاتا ہے ۔اگر روزنہ بلاناغہ تازہ مسواک کی جائے، اس کے لعاب کواچھی طرح مَلا جائے تو مرض پیداہی نہ ہوگا ااور اگرکبھی سستی کی وجہ سے ہوگیا تو مسواک کے باقاعدہ استعمال سے مریض تندرست ہو جائےگا۔
بعض ایسے مریض ہوتے ہیں جو کانوں کے ورم،پیپ اور درد میں مبتلا ہوتے ہیں ،مہنگے سے مہنگا علاج کرانے کے باوجود انہیں اس تکلیف سے نجات نہیں ملتی ۔ جب اچھی طرح ایسے مریضوں کی تشخیص کی جاتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے مسوڑھوں میں پیپ پڑھ گئی ہے اور سارا منہ تعفن سے بھرپور ہے ۔جب مسوڑھوں کا علاج کیا جاتا ہے اور باقاعدہ سے تازہ مسواک کی جاتی ہے تو ساتھ ہی کان بھی بالکل صحت مند ہوجاتےہیں ۔ اسی طرح آنکھوں کی بیماریوں اور نظر کے امراض میں دانتوں کی عدم صفائی کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے ۔کمزور بینائی کے مریضوں میں متعدد مریض ایسے ہوتے ہیں جن کے مرض کے دیگر اسباب کے علاوہ دانتوں کے بارے میں ان کی غفلت سب سے بڑا سبب ہوتی ہے ۔ماہرین کے تجربات سے یہ بات تحقیق شدہ ہے کہ تقریباً 80 فیصد امراض کی وجہ معدہ اور دانتوں کے نقائص اور بیماریاں ہوتی ہیں ۔ بالخصوص آج کل ہر تیسرا شخص معدے کے امراض میں مبتلا ہے ۔
دائمی نزلہ اور زکام کے ایسے مریض جن کی بلغم رُک چکی ہو جب وہ مسواک کرتے ہیں تو وہ بلغم اندر سے خارج ہو نا شروع ہوجاتی ہے اور یوں مریض کا دماغ ہلکا ہونا شروع ہوجاتا ہے ۔ پیتھالوجسٹ حضرات کے تجربے اور تحقیق سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ دائمی نزلہ کے لیے مسواک تریاق سے کم نہیں ۔ یہاں تک کہ مسواک کے مستقل اور باقاعدہ استعمال سے ناک اور گلےکے آپریشن کے مواقع بہت کم ہوجاتے ہیں۔
ایک شخص کے منہ سے بو آیا کرتی تھی ۔اس بیچارے نے متعدد اچھی اچھی قسم کی ٹوتھ پیسٹ اور منجن استعمال کیے ،اس کے علاوہ متعدد ڈاکٹروں سے مختلف ادویات بھی استعمال کیں مگر کوئی فاعدہ نہ ہوا ۔ کسی ڈینٹل سپیشلسٹ کے مشورے سے اس نے پیلو کی مسواک استعمال کی ۔ وہ باقاعدہ مسواک استعمال کرتا اور پرانے ریشوں کو کاٹ کر روزانہ نئے سرے سے مسواک کرتا رہا تو تھوڑا عرصہ گزرنے کے بعد رسول اللہ ﷺ کی اس سنت کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے اسے تندرستی عطا فرما دی ۔
گورونانک کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اپنے ہاتھ میں مسواک رکھا کرتا تھا، دانتوں کو اس سے صاف کرتا اور کہا کرتا تھا:
“یایہ لکڑی لے لو اور یا پھر بیماری لے لو”
ایک شخص کے گلے ،گردن میں درد ہوتا تھا اور ساتھ ہی گردن میں سوجن بھی تھی ۔ اس کے ساتھ آواز میں بھی کمی آگئی اور ذہنی یاداشت بھی متاثر ہوگئی نیز سر بھی چکرانے لگا۔ یہ آدمی برین سپیشلسٹ اور جنرل فزیشن سپیشلسٹ وغیرہ کے زیرِ علاج رہا مگر سب بے سود ثابت ہوئے ۔ کسی کے مشورے سے وہ باقاعدہ مسواک کرنے لگا ۔ اس طرح کہ مسواک کے دوٹکڑے کرکے پانی میں اُبالتا اور پانی سے غرارے کرتا ۔ علاوہ ازیں جہاں سُوجن تھی وہاں کچھ دوائی بھی لیپ کی گئی ۔ یہ علاج بڑا مفید ثابت ہوا ۔ اس کی تحقیق کی گئی تو اس کے تھائی رائیڈ گلینڈ متاثر تھے جس کا اثر سارے جسم پر ہوا تھا۔ اس مسواک والے علاج سے اس کی یہ بیماری دور ہو گئی اور وہ شفائے کاملہ سے ہمکنار ہو گیا۔
تحقیق وتجربات سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ جو ٹوتھ برش ایک دفعہ استعمال ہو جائے اس میں جراثیم کی تہہ جم جانے کے باعث دوبارہ استعمال کرنے سے صحت کو نقصان پہنچتا ہے۔پانی سے صاف کرنے کے باوجود وہ جراثیم صاف نہیں ہوتے اور اپنی نشوونما برقرار رکھتے ہیں ۔ مزید برآں برش کے استعمال سے دانتوں کے اوپر والی چمکیلی اور سفید تہہ اترجاتی ہے ۔بایں سبب دانتوں کے درمیان خلا ہوجاتا ہے اور دانت مسوڑھوں کی جگہ چھوڑتے جاتے ہیں ۔ لہذا غذا کے جو ذرات دانتوں کے خلا میں اَڑے رہتے ہیں وہ دانتوں کے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں اوربالآخر سارے جسم میں بیماریوں کا باعث بن جاتے ہیں ۔اس لیے ان مصیبتوں سے بچنے کے لیے سنتِ مصفیٰ ﷺ پر عمل کیجئے یعنی مسواک صبح وشا م متواتر استعمال کیجئے اور تندرستی قائم رکھیئے۔
مسواک کے لیے ہر اس درخت کی شاخ مناسب ہوتی ہے جس کے ریشے نرم ہوں کہ دانتوں میں خلا نہ بنائیں اور مسوڑھوں کو نقصان نہ پہنچائیں ۔ بہترین اور اعلیٰ مسواک پیلو،نیم اور کیکر کے درختوں اور کنیر کے پودے سے حاصل ہوتی ہے۔پیلو کا مسواک تحفہ کے طور پر دینا سنتِ رسول اللہ ﷺ ہے۔چناچہ حضرت ابو خیرہ صباحی ؓ فرماتے ہیں کہ میں اس وفد میں شامل تھا جو رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ آپ ﷺ نے ہمیں پیلو کے درخت کی لکڑیاں مسواک کرنے کےلیے توشہ میں دیں ۔(مجمع الزوائد،جلد2،صفحہ 268)
پیلو کا مسواک نرم ریشوں والا ہوتا ہے ۔ اس میں کیلشیم اور فاسفورس ہوتی ہے ۔ اکثر کلرزدہ اور ویران وبیابان مقامات پر ہوتا ہے ۔ جدید سائنسی اور طبی تحقیق سے یہ بات ثابت ہے کہ مختلف اشیاء جو دماغ کی خوراک و معاون ہیں ،ان میں ایک فاسفورس بھی ہے ۔ پیلو کی مسواک میں موجود فاسفورس لعاب اور مساموں کے ذریعے دماغ تک پہنچتا ہے جس کے ذریعے دماغ کو قوت حاصل ہوتی ہے ۔
نیم کے درخت کا مسواک بھی نہایت مفید ہے ۔ اس میں دانتوں کی مجموعی بیماریوں کا علاج ہے ۔یہ درخت عام پایا جاتاہے ۔ اس کے بعد پھر کیکر کے مسواک کا درجہ ہے ۔ اس سے دانت بڑی اچھی طرح صاف کیے جاسکتےہیں اور یہ دانتو ں کو تعفن اور پیپ سے بچائے رکھتا ہے ۔ یاد رہے کہ ممکن حد تک مسواک تازہ ہونی چاہیے اگر پہلے استعمال شدہ مسواک استعمال کرنا ہو تواس کے پہلے استعمال شدہ ریشے کاٹ دیں اور دانتوں سے نئے سرے سے چبا کر ریشے بنائیں ۔
کنیر دوقسم کا ہوتا ہے ۔ سفید پھولوں والا اور سرخ پھولوں والا۔ یہ پودا اکثر پارکوں اور باغات وغیرہ میں ہوتا ہے ۔ اس کی مسواک استعمال کرنے سے دانتوں کی تمام تکالیف پائیوریا وغیرہ ختم ہوجاتی ہیں اور لاعلاج مریض بھی تندرست ہوجاتے ہیں ۔ یہ مسواک کڑوی ہوتی ہے مگر اس کی یہی کڑواہٹ دانتوں کے لیے ازحد مفید ہے ۔ اطباء نے اس میں موجود اجزاء کے باعث دانتوں کی چمک ،مضبوطی اور پائیوریا جیسے امراض کے لیے اسے اکسیر اعظم قرار دیا۔
خالق ِکائنات نے انسان کو پیدا فرمایا تو ساتھ اس کے استعمال کے لیے وہ اشیاء بھی پیدا فرمائیں جو اس کی صحت وتندرستی کو قائم رکھنے کا باعث ہیں اوراپنے خاص بندوں یعنی ابنیاء ورسل علیہم السلام کو بھیج کر بنی نوع انسان کو ایسی اشیا ء کا استعمال بھی بتا دیا۔ انہی اشیاء میں مسواک بھی ہے جو کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام علیہم السلام کے ذریعے نبی نوع انسان تک پہنچائی ، اس کے فوائد بیان فرمائے اور اس کو تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت اور کثیر بیماریوں کی شفاء کا درجہ دیا۔