حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا
حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضور نبی اکرم ﷺ کی تیسری صاحبزادی تھیں۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی والدہ ماجدہ کا نام حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی وفات کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے نکاح میں آئیں۔ سرور کائنات حضرت محمد مصطفی ﷺ کی تیسری بیٹی حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا مشہور قول کے مطابق بعثت نبوی ﷺ سے چھ سال پہلے پیدا ہوئیں۔ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے نکاح کے کچھ عرصہ بعد حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا پہلا نکاح ابولہب کے بیٹے عتیبہ سے ہوگیا لیکن تاحال رخصتی نہ ہوئی۔ آنحضورﷺ کے اعلان نبوتﷺ سے ابولہب نے نبی آخر الزمان حضرت محمد مصطفی ﷺ کی سخت مخالفت کے ساتھ ساتھ ظلم وستم کا بھی آغاز کردیا۔ آنحضورﷺ کو دکھ پہنچانے کی نیت سے اس نے اپنے بیٹے عتیبہ کو زور دے کر حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو طلاق دلوائی جو ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کیلئے ایک نیک شگون ثابت ہوئی۔ہجرت حبشہ کے موقع پر جب حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بہن حضرت رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنے شوہر حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے ہمراہ حبشہ تشریف لے گئیں تو حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا اپنی چھوٹی بہن حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ اپنے والد حضرت محمد مصطفی ﷺ اور والدہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی محبت و شفقت کے سائے میں والدین کے گھر رہنے لگیں۔ آنحضور ﷺ جب اشاعت وتبلیغ کیلئے گھر سے باہر جاتے تو حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کم سن ہونے کے باوجود اپنے والد کو ہمت و حوصلے کے ساتھ رخصت کرتیں اور جب آپ ﷺ کفار کی ایذا رسانیوں کو برداشت کرکے گھر واپس تشریف لاتے تو حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا آگے بڑھ کر والد محترم کی رنجیدگی اپنی معصوم محبت سے دور کردیتیں۔
دشمنان اسلام کی زور بروز بڑھتی سختیوں اور ظلم وستم سے تنگ آکر جب آنحضور ﷺ کے خاندان کو شعب ابی طالب میں محصور ہونا پڑا تو حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بھی اپنی والدہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور اپنی چھوٹی بہن حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ اپنے والد ختم المرسلین حضرت محمد مصطفی ﷺ کی معیت میں حصار کی تمام تر سختیاں صبرو استقامت کے ساتھ برداشت کیں۔اڑھائی تین سال کی محصوری کے بعد یہ مقاطعہ ختم ہوا تو خاندان رسول ﷺ نے اطمینان کا سانس لیا۔ مگر یہ اطمینان و سکون جلد ہی رنج و محن میں بدل گیا جب اسی سال رمضان المبارک کے متبرک مہینے میں آنحضور ﷺ کی زوجہ مطہرہ اور حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی والدہ ماجدہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اللہ کو پیاری ہوگئیں۔
اسد الغابہ اور طبقات ابن سعد کے مطابق حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے ساتھ ربیع الاول تین ہجری میں ہوا اور چند ماہ بعد جمادی الآخر تین ہجری میں رخصتی ہوئی۔ حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے شوہر حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ بلند اخلاق‘ کریم النفس اور شریف الطبع تھے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے آنحضور ﷺ کے ساتھ رشتہ داری کے مراسم انتہائی مخلصانہ تھے۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے نکاح میں جب تک یکے بعد دیگرے حضرت رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا زندہ رہیں تو انہوں نے کوئی دوسرا نکاح نہیں کیا۔ حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے ازدواجی تعلقات انتہائی خوشگوار رہے۔ حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی خدمت گزاری میں کوئی کسر اٹھانہ رکھی تھی۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ بھی اپنی اہلیہ کا ازحد احترام کرتے تھے اور ان کی ہر خواہش کو مقدم سمجھتے تھے۔ البتہ رب قدیر نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بطن سے اولاد سے نہیں نوازا تھا اور خدا تعالیٰ اپنی قدرت کی حکمتوں اور مصلحتوں سے خود ہی آگاہ ہے۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کورب رحمٰن اور رحیم نے مال و دولت کی فراوانی عطا کی تھی۔ وہ اپنی دولت کو مسلمانوں کی فلاح و بہبود کیلئے دل کھول کر استعمال کرتے تھے تاہم آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اپنی اہلیہ کی خوراک و لباس کیلئے بھی فراخ دلی کا مظاہرہ فرماتے تھے۔ نبی مکرم حضرت محمد مصطفی ﷺ کےخادم خاص حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ بیان کرتے ہیں کہ: میں نے حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر ایک بیش قیمت چادر دیکھی جو ریشم کی دھاریوں سے بنی ہوئی تھی‘ (بخاری‘نسائی‘ ابن سعد‘ ابن حجر) حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا لباس نہایت عمدہ ہوتا تھا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ جیسے دولت مند انسان اور غنی کا لقب پانے والے شوہر کے ساتھ رہتے ہوئے یہ انداز معاشرت میاں بیوی کی خوش و خرم زندگی اور ازدواجی تعلقات کی خوبصورتی کا غماز ہے۔
حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنے شوہر حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے ساتھ ازدواجی بندھن میں کوئی چھ سال تک رہیں۔ اس دوران رسول مکرم حضرت محمد مصطفی ﷺ مختلف غزوات و سراپا میں مصروف رہے جبکہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ بھی اپنے مال اور اپنی جان کے ساتھ آنحضور ﷺ کے ساتھ شریک جہاد رہے۔ 9 ہجری میں شعبان کے مہینے میں حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا آخری وقت قریب آگیا اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جان جان آفرین کے سپرد کی۔ حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی وفات کے بعد ان کے غسل اور کفن کے انتظامات سرور کائنات حضرت محمد مصطفی و مجتبیٰ ﷺ نے خود فرمائے اور جو عورتیں حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے غسل دینے میں شریک ہوئیں ان میں حضرت صفیہ بنت عبدالمطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہا‘ حضرت اسماء بن عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت ام عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا غسل اور کفن بمطابق ہدایات رسول مکرم ﷺ ہوچکا تو حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے جنازہ کیلئے ختم المرسلین ﷺ تشریف لائے اور نماز جنازہ خود پڑھائی بعدازاں آپ ﷺ نے حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی مغفرت کیلئے دعائیں مانگیں۔ حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔ اس وقت حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عمر مبارک صرف 22 برس تھی۔
حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضور نبی اکرم ﷺ کی تیسری صاحبزادی تھیں۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی والدہ ماجدہ کا نام حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی وفات کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے نکاح میں آئیں۔ سرور کائنات حضرت محمد مصطفی ﷺ کی تیسری بیٹی حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا مشہور قول کے مطابق بعثت نبوی ﷺ سے چھ سال پہلے پیدا ہوئیں۔ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے نکاح کے کچھ عرصہ بعد حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا پہلا نکاح ابولہب کے بیٹے عتیبہ سے ہوگیا لیکن تاحال رخصتی نہ ہوئی۔ آنحضورﷺ کے اعلان نبوتﷺ سے ابولہب نے نبی آخر الزمان حضرت محمد مصطفی ﷺ کی سخت مخالفت کے ساتھ ساتھ ظلم وستم کا بھی آغاز کردیا۔ آنحضورﷺ کو دکھ پہنچانے کی نیت سے اس نے اپنے بیٹے عتیبہ کو زور دے کر حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو طلاق دلوائی جو ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کیلئے ایک نیک شگون ثابت ہوئی۔ہجرت حبشہ کے موقع پر جب حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بہن حضرت رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنے شوہر حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے ہمراہ حبشہ تشریف لے گئیں تو حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا اپنی چھوٹی بہن حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ اپنے والد حضرت محمد مصطفی ﷺ اور والدہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی محبت و شفقت کے سائے میں والدین کے گھر رہنے لگیں۔ آنحضور ﷺ جب اشاعت وتبلیغ کیلئے گھر سے باہر جاتے تو حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کم سن ہونے کے باوجود اپنے والد کو ہمت و حوصلے کے ساتھ رخصت کرتیں اور جب آپ ﷺ کفار کی ایذا رسانیوں کو برداشت کرکے گھر واپس تشریف لاتے تو حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا آگے بڑھ کر والد محترم کی رنجیدگی اپنی معصوم محبت سے دور کردیتیں۔
دشمنان اسلام کی زور بروز بڑھتی سختیوں اور ظلم وستم سے تنگ آکر جب آنحضور ﷺ کے خاندان کو شعب ابی طالب میں محصور ہونا پڑا تو حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بھی اپنی والدہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور اپنی چھوٹی بہن حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ اپنے والد ختم المرسلین حضرت محمد مصطفی ﷺ کی معیت میں حصار کی تمام تر سختیاں صبرو استقامت کے ساتھ برداشت کیں۔اڑھائی تین سال کی محصوری کے بعد یہ مقاطعہ ختم ہوا تو خاندان رسول ﷺ نے اطمینان کا سانس لیا۔ مگر یہ اطمینان و سکون جلد ہی رنج و محن میں بدل گیا جب اسی سال رمضان المبارک کے متبرک مہینے میں آنحضور ﷺ کی زوجہ مطہرہ اور حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی والدہ ماجدہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اللہ کو پیاری ہوگئیں۔
اسد الغابہ اور طبقات ابن سعد کے مطابق حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے ساتھ ربیع الاول تین ہجری میں ہوا اور چند ماہ بعد جمادی الآخر تین ہجری میں رخصتی ہوئی۔ حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے شوہر حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ بلند اخلاق‘ کریم النفس اور شریف الطبع تھے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے آنحضور ﷺ کے ساتھ رشتہ داری کے مراسم انتہائی مخلصانہ تھے۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے نکاح میں جب تک یکے بعد دیگرے حضرت رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا زندہ رہیں تو انہوں نے کوئی دوسرا نکاح نہیں کیا۔ حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے ازدواجی تعلقات انتہائی خوشگوار رہے۔ حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی خدمت گزاری میں کوئی کسر اٹھانہ رکھی تھی۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ بھی اپنی اہلیہ کا ازحد احترام کرتے تھے اور ان کی ہر خواہش کو مقدم سمجھتے تھے۔ البتہ رب قدیر نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بطن سے اولاد سے نہیں نوازا تھا اور خدا تعالیٰ اپنی قدرت کی حکمتوں اور مصلحتوں سے خود ہی آگاہ ہے۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کورب رحمٰن اور رحیم نے مال و دولت کی فراوانی عطا کی تھی۔ وہ اپنی دولت کو مسلمانوں کی فلاح و بہبود کیلئے دل کھول کر استعمال کرتے تھے تاہم آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اپنی اہلیہ کی خوراک و لباس کیلئے بھی فراخ دلی کا مظاہرہ فرماتے تھے۔ نبی مکرم حضرت محمد مصطفی ﷺ کےخادم خاص حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ بیان کرتے ہیں کہ: میں نے حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر ایک بیش قیمت چادر دیکھی جو ریشم کی دھاریوں سے بنی ہوئی تھی‘ (بخاری‘نسائی‘ ابن سعد‘ ابن حجر) حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا لباس نہایت عمدہ ہوتا تھا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ جیسے دولت مند انسان اور غنی کا لقب پانے والے شوہر کے ساتھ رہتے ہوئے یہ انداز معاشرت میاں بیوی کی خوش و خرم زندگی اور ازدواجی تعلقات کی خوبصورتی کا غماز ہے۔
حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنے شوہر حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے ساتھ ازدواجی بندھن میں کوئی چھ سال تک رہیں۔ اس دوران رسول مکرم حضرت محمد مصطفی ﷺ مختلف غزوات و سراپا میں مصروف رہے جبکہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ بھی اپنے مال اور اپنی جان کے ساتھ آنحضور ﷺ کے ساتھ شریک جہاد رہے۔ 9 ہجری میں شعبان کے مہینے میں حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا آخری وقت قریب آگیا اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جان جان آفرین کے سپرد کی۔ حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی وفات کے بعد ان کے غسل اور کفن کے انتظامات سرور کائنات حضرت محمد مصطفی و مجتبیٰ ﷺ نے خود فرمائے اور جو عورتیں حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے غسل دینے میں شریک ہوئیں ان میں حضرت صفیہ بنت عبدالمطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہا‘ حضرت اسماء بن عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت ام عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا غسل اور کفن بمطابق ہدایات رسول مکرم ﷺ ہوچکا تو حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے جنازہ کیلئے ختم المرسلین ﷺ تشریف لائے اور نماز جنازہ خود پڑھائی بعدازاں آپ ﷺ نے حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی مغفرت کیلئے دعائیں مانگیں۔ حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔ اس وقت حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عمر مبارک صرف 22 برس تھی۔