حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کا قبول اسلام اور مصائب
حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ مشہور صحابی ہیں جو مسجد نبوی کے ہمیشہ مؤذن رہے۔ شروع میں ایک کافر کے غلام تھے۔ اسلام لے آئے جس کی وجہ سے طرح طرح کی تکلیفیں دیئے جاتے تھے۔ امیہ بن خلف جو مسلمانوں کا سخت دشمن تھا ان کو سخت گرمی میں دوپہر کے وقت تپتی ہوئی ریت پر سیدھا لٹا کر ان کے سینہ پرپتھر کی بڑی چٹان رکھ دیتا تھا تاکہ وہ حرکت نہ کر سکیں اور کہتا تھا کہ یا اس حال میں مر جائیں اور زندگی چاہیں تو اسلام سے ہٹ جائیں مگر وہ اس حالت میں بھی اَحد اَحد کہتے تھے یعنی معبود ایک ہی ہے۔ رات کو زنجیروں میں باندھ کر کوڑے لگائے جاتے اور اگلے دن ان زخموں کو گرم زمین پر ڈال کر اور زیادہ زخمی کیا جاتا تاکہ بے قرار ہو کر اسلام سے پھر جاویں یا تڑپ تڑپ کر مر جائیں۔ عذاب دینے والے اُکتا جاتے۔ کبھی ابو جہل کا نمبر آتا۔ کبھی امیہ بن خلف کا، کبھی اوروں کا، اور ہر شخص اس کی کوشش کرتا کہ تکلیف دینے میں زور ختم کر دے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس حالت میں دیکھا تو اُن کو خرید کر آزاد فرمایا۔
چونکہ عرب کے بت پرست اپنے بتوں کو بھی معبود کہتے تھے اس لئے اُن کے مقابلہ میں اسلام کی تعلیم توحید کی تھی، جس کی وجہ سے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی زبان پر ایک ہی ایک کا ورد تھا۔ یہ تعلق اور عشق کی بات ہے ہم جھوٹی محبتوں میں دیکھتے ہیں کہ جس سے محبت ہو جاتی ہے اس کا نام لینےمیںلطف آتا ہے۔ بے فائدہ اس کو رٹا جاتا ہے تو اللہ کی محبت کا کیا کہنا جو دین اور دنیا میں دونوں جگہ کام آنے والی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو ہر طرح سے ستایا جاتا تھا۔ سخت سے سخت تکلیفیں پہنچائی جاتی تھیں۔ مکہ کے لڑکوں کے حوالہ کر دیا جاتا کہ وہ اُن کو گلی کوچوں میں چکر دیتے پھریں اور یہ تھے کہ ’’ایک ہی ایک ہے‘‘ کی رٹ لگاتے تھے ۔ اسی کا یہ صلہ ملا کہ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں مئوذن بنے اور سفر حضر میں ہمیشہ اذان کی خدمت اُن کے سپرد ہوئی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد مدینہ طیبہ میں رہنا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ کو خالی دیکھنا مشکل ہوگیا۔ اس لئے ارادہ کیا کہ اپنی زندگی کے باقی دن ہیں جہاد میں گزاردوں اسلئے جہاد میں شرکت کی نیت سے چل دیئے۔ ایک عرصہ تک مدینہ منورہ لوٹ کر نہیں آئے ۔ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خواب میں زیارت کی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بلال یہ کیا ظلم ہے ہمارے پاس کبھی نہیں آتے تو آنکھ کھلنے پر مدینہ طیبہ حاضر ہوئے۔ حضرت حسن حسین نے اذان کی فرمائش کی۔ لاڈلوں کی فرمائش ایسی نہیں تھی کہ انکار کی گنجائش ہوتی۔ اذان کہنا شروع کی اور مدینہ میںحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی اذان کانوں میں پڑ کر کہرام مچ گیا۔ عورتیں تک روتی ہوئی گھر سے نکل پڑیں ۔ چند روز قیام کے بعد واپس ہوئے اور ۲۰ھجری کے قریب دمشق میں وصال ہوا۔
حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ مشہور صحابی ہیں جو مسجد نبوی کے ہمیشہ مؤذن رہے۔ شروع میں ایک کافر کے غلام تھے۔ اسلام لے آئے جس کی وجہ سے طرح طرح کی تکلیفیں دیئے جاتے تھے۔ امیہ بن خلف جو مسلمانوں کا سخت دشمن تھا ان کو سخت گرمی میں دوپہر کے وقت تپتی ہوئی ریت پر سیدھا لٹا کر ان کے سینہ پرپتھر کی بڑی چٹان رکھ دیتا تھا تاکہ وہ حرکت نہ کر سکیں اور کہتا تھا کہ یا اس حال میں مر جائیں اور زندگی چاہیں تو اسلام سے ہٹ جائیں مگر وہ اس حالت میں بھی اَحد اَحد کہتے تھے یعنی معبود ایک ہی ہے۔ رات کو زنجیروں میں باندھ کر کوڑے لگائے جاتے اور اگلے دن ان زخموں کو گرم زمین پر ڈال کر اور زیادہ زخمی کیا جاتا تاکہ بے قرار ہو کر اسلام سے پھر جاویں یا تڑپ تڑپ کر مر جائیں۔ عذاب دینے والے اُکتا جاتے۔ کبھی ابو جہل کا نمبر آتا۔ کبھی امیہ بن خلف کا، کبھی اوروں کا، اور ہر شخص اس کی کوشش کرتا کہ تکلیف دینے میں زور ختم کر دے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس حالت میں دیکھا تو اُن کو خرید کر آزاد فرمایا۔
چونکہ عرب کے بت پرست اپنے بتوں کو بھی معبود کہتے تھے اس لئے اُن کے مقابلہ میں اسلام کی تعلیم توحید کی تھی، جس کی وجہ سے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی زبان پر ایک ہی ایک کا ورد تھا۔ یہ تعلق اور عشق کی بات ہے ہم جھوٹی محبتوں میں دیکھتے ہیں کہ جس سے محبت ہو جاتی ہے اس کا نام لینےمیںلطف آتا ہے۔ بے فائدہ اس کو رٹا جاتا ہے تو اللہ کی محبت کا کیا کہنا جو دین اور دنیا میں دونوں جگہ کام آنے والی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو ہر طرح سے ستایا جاتا تھا۔ سخت سے سخت تکلیفیں پہنچائی جاتی تھیں۔ مکہ کے لڑکوں کے حوالہ کر دیا جاتا کہ وہ اُن کو گلی کوچوں میں چکر دیتے پھریں اور یہ تھے کہ ’’ایک ہی ایک ہے‘‘ کی رٹ لگاتے تھے ۔ اسی کا یہ صلہ ملا کہ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں مئوذن بنے اور سفر حضر میں ہمیشہ اذان کی خدمت اُن کے سپرد ہوئی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد مدینہ طیبہ میں رہنا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ کو خالی دیکھنا مشکل ہوگیا۔ اس لئے ارادہ کیا کہ اپنی زندگی کے باقی دن ہیں جہاد میں گزاردوں اسلئے جہاد میں شرکت کی نیت سے چل دیئے۔ ایک عرصہ تک مدینہ منورہ لوٹ کر نہیں آئے ۔ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خواب میں زیارت کی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بلال یہ کیا ظلم ہے ہمارے پاس کبھی نہیں آتے تو آنکھ کھلنے پر مدینہ طیبہ حاضر ہوئے۔ حضرت حسن حسین نے اذان کی فرمائش کی۔ لاڈلوں کی فرمائش ایسی نہیں تھی کہ انکار کی گنجائش ہوتی۔ اذان کہنا شروع کی اور مدینہ میںحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی اذان کانوں میں پڑ کر کہرام مچ گیا۔ عورتیں تک روتی ہوئی گھر سے نکل پڑیں ۔ چند روز قیام کے بعد واپس ہوئے اور ۲۰ھجری کے قریب دمشق میں وصال ہوا۔
Comment