Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

حضرت عباس

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • حضرت عباس

    نسب: آپ کا تعلق عرب کے مشہور قبیلہ قریش سے تھا‘ آپ کے والد کا نام نامی عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدالمناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن حزیمہ بن مضر بن نزار بن معدبن عدنان بن اوس اود بن الیسع بن الیسع بن سلامان السبت بن حمل بن قیدار بن اسماعیل علیہ السلام بن ابراہیم علیہ السلام۔ (الاصابہ ولاستیعاب مطبوعہ دکن، ص: 499)
    حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے کل گیارہ بھائی اور چھ بہنیں تھیں‘ ان میں حقیقی بھائی ضرارہ بن عبدالمطلب تھے باقی بھائی علاتی تھے۔ خاندانی وجاہت: حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے تمام بڑے بھائی بہادر اور سخی تھے ضرارہ بن عبدالمطلب جو حقیقی بھائی تھے نہایت سخی تھے‘ حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ بڑے بہادر تھے‘ ابوطالب بڑی شان کے مالک تھے‘ عبدالمطلب کے بعد وہی سردار بنے‘ غیراق ایسے بہادر تھے کہ کوئی ان کے مقابلے میں نہیں آتا تھا۔ عبداللہ والد ماجد آنحضرت ﷺ بہت خوبصورت اور ہمہ صفت موصوف تھے‘ ابولہب بہت خوبصورت‘ مالدار اور ذی وجاہت تھا۔ حارث بڑے بہادر اور بڑے فیاض آدمی تھے۔ الغرض حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کا تمام خاندان زمانہ جاہلیت میں معزز و ممتاز گنا جاتا تھا اور یہی لوگ سب کے حاکم اور رئیس تھے‘ حج کے موسم میں تمام حجاج کو انہی کے یہاں سے کھانا اور پانی ملا کرتا تھا اور یہ لوگ نہایت سیرچشمی سے حجاج کی خدمت کیا کرتے تھے۔ آنحضرت ﷺ کے مبعوث ہونے سے قبل ہی حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اعلیٰ درجہ کے سخی تھے۔آپ کی پیدائش: حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ 566ء میں واقعہ فیل سے تین برس پہلے پیدا ہوئے اور آنحضرت ﷺ کی ولادت واقعہ فیل ہی کے سال ہوئی۔ اس حساب سے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ حضور نبی اکرم ﷺ سے عمر میں تین سال بڑے تھے۔ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی عمر پانچ سال کی ہوئی تو اتفاقیہ طور پر کہیں گم ہوگئے چونکہ پہاڑی ملک تھا‘ ان کی والدہ محترمہ کو بڑی فکر ہوئی‘ انہوں نے اسی وقت نذرمانی کہ اگر عباس مجھ کو مل گئے تو میں بیت اللہ پر حریر و دیباج کا جو نہایت بیش قیمت کپڑا ہوتا ہے غلاف چڑھاؤں گی۔ نذر ماننے کے بعد ہی حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ مل گئے تو ان کی والدہ نے نذر پوری کی۔ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی والدہ ہی وہ اول عرب خاتون ہیں جنہوں نے بیش بہا کپڑے کا غلاف بیت اللہ کو پہنایا‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ شاہی خاندان سے تھیں اور بہت مالدار تھیں۔حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ جب سن تمیز کو پہنچے تو علم انساب، علم تاریخ، علم ادیان کے علوم سیکھائے گئے چونکہ عرب میں یہ علوم عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے ‘ خصوصاً علم انساب کیونکہ حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام ہی کے زمانے سے برابر یہ خبر چلی آرہی تھی کہ عرب میں نسل اسماعیل ہی سے نبی آخرالزمان پیدا ہوں گے اس وجہ سے علم انساب کا بہت خیال تھا۔ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے والد عبدالمطلب اور ان کے آباؤاجداد اپنے آپ کو ملت ابراہیمی پر بتلاتے تھے‘ چنانچہ ان کی پرہیز گاری تمام قریش میں مشہور ہوگئی تھی‘ یہی وجہ ہے کہ عبدالمطلب کے بعد جب حضرت عباسؓ کی عمر گیارہ برس کی تھی اور باوجود یہ کہ اور بھی ان کے بھائی موجود تھے مگر قریش نے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ میں علم‘ شجاعت‘ سخاوت‘ سیادت‘ خاندانی‘ صلہ رحمی دیکھ کر انہیں کر بیت اللہ کا محافظ منتخب کیا۔ (الاستیعاب فی معرفت الاصحاب‘ ص، 498 مطبع دائرۃ المعارف حیدرآباد دکن) اور سب نے بالاتفاق یہ اعلان کیا کہ اگر کوئی حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کا کہنا نہ مانے گا تو اس کو ساری قوم کامقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوجانا چاہیے۔ چنانچہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ ہمیشہ بیت اللہ کی حفاظت میں اپنے وقت کو صرف کیا کرتے تھے اور آپ نے اس قدر اچھا انتظام کیا کہ کسی کی مجال نہ تھی کہ کوئی شخص بیت اللہ میں بیٹھ کر کسی کی ہجو یا غیبت کرسکے اگر کوئی ایسا کرتا تو حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فوراً اس کو تنبیہ فرما دیا کرتے تھے اور ان کے حکم کے آگے سب کی گردنیں خم ہوجاتی تھیں۔ (کامل ابن اشیر‘ ج:1، ص9)بیت اللہ کی حفاظت کے علاوہ اور بھی کئی خدمتیں بیت اللہ کی رسمی تھیں‘ جن کی وجہ سے متولی کعبہ ہمیشہ عظمت اور بزرگی کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے‘ وہ خدمت حسب ذیل ہیں:۔
    سقایہ: حجاج کو پانی پانے کی خدمت،رفادہ: حجاج کو کھانا کھلانے کی خدمت، حجاتہ: خدا کے مقدس گھر کی دربانی۔ ندوہ: دارالندوہ میں صدر انجمن کا استحقاق۔ لوا: لڑائی کے وقت علمبرداری کی خدمت۔ قیادت: جنگ کے وقت لشکر کی سپہ سالاری۔
    عہدہ رفادہ: عہدہ رفادہ کا منصب حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے جد امجد جناب ہاشم کے سپرد تھا‘ ان کے بعد ان کے بیٹے عبدالمطلب سے متعلق رہا اور عبدالمطلب کے بعد کچھ سال ابوطالب نے اس کو انجام دیا اور جب حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سن بلوغ کو پہنچے تو ابوطالب نے یہ خدمت حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے سپرد کردی۔ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے اس خدمت کو ایسے اعلیٰ درجہ کی فیاضی اور سخاوت سے انجام دیا کہ لوگ حیران ہوگئے۔ عہدہ سقایہ: اس کا منصب بھی حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے جد امجد جناب ہاشم کے سپرد تھا‘ ان کے بعد جناب عبدالمطلب پھر ابوطالب اس کو انجام دیتے رہے مگر ابوطالب نے یہ عہدہ بھی اپنی زندگی ہی میں اپنے بھائی حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی طرف منتقل کردیا۔
    تعمیر کعبہ: حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی عمر جب سولہ سال کی ہوئی تو خا نہ کعبہ کو اتفاقیہ طور پر آگ لگ گئی جس کی وجہ سے عمارت مسمار ہوگئی قریش نے جمع ہوکر اس کو بنانا شروع کیا تو ہر شخص کار ثواب سمجھ کر اس کی تعمیر میں حصہ لینے لگا‘ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سب سے زیادہ اس میں حصہ لے رہے تھے۔
    حضرت عباس کا نکاح: حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کا نکاح حضرت لبابتہ الکبریٰ سے ہوا جو ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حقیقی بہن تھیں‘ ابن سعد نے لکھا ہے کہ حضرت لبابتہ الکبریٰ جن کی کنیت ام الفضل ہے یہ وہ پہلی خاتون ہیں جو حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بعد مسلمان ہوئیں اور بہت سی حدیثیں ان سے مروی ہیں اور ان کے بطن سے چھ لڑکے حضرت فضل‘ حضرت عبداللہ‘ حضرت عبیداللہ‘ حضرت قشم‘ حضرت عبدالرحمن‘ حضرت معبد اور ایک صاحبزادی جن کا نام ام حبیبہ تھا پیدا ہوئیں۔ ان کے علاوہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی اور بھی اولادیں تھیں کل دس لڑکے اور چار لڑکیاں تھیں‘ سب سے آخر میں حضرت تمّام پیدا ہوئے۔
    جب آنحضرت ﷺ نے اعلان نبوت کیا تو حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی عمر تینتالیس سال کی تھی‘ حضور نبی کریم ﷺ نے تمام بنی ہاشم اور بنو عبدالمطلب کو جمع کیاچونکہ یہ حکم خداوندی تھا ’’یعنی اپنے رشتہ داروں کو ڈرائیں‘‘ اس لیے آپ ﷺنے اپنے خاندان کے تمام افراد کو جمع کیا اور کھانے کی دعوت دی جس پر ابوطالب‘ حضرت حمزہ‘ حضرت عباس تو خاموش رہے مگر ابولہب نے کہا کہ کیا تم نے اس کام کیلئے ہم کو بلایا تھا اور نازیبا الفاظ منہ سے نکالے جس کے جواب میں سورۂ لہب نازل ہوئی۔ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے حالات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے دل میں قبل الاسلام ہی سے حضور ﷺ کی حقانیت اور بزرگی گھرکرچکی تھی‘ جب قریش نے بنوہاشم کا بائیکاٹ کیا تو حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ بھی آنحضرت ﷺ کیساتھ شعب ابی طالب میں چلے گئے اور سخت سختیاں اٹھائیں۔ جب قریش کی سختیاں بام عروج کو پہنچ گئیں تو حضور ﷺ نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کا ارادہ فرمایا مگر اولاً اپنے عم بزرگوار حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے مشورہ لینے کی غرض سے ان کے پاس تشریف لے گئے کیونکہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ آپ کے خیرخواہ اور ہمدرد تھے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: اے عم میں اپنا راز آپ سے کہتا ہوں اس کو ظاہر نہ کیجئے کہ قریش سے کیسی سختیاں اور اذیتیں اٹھارہا ہوں اب صبر کرتے کرتے دل سرد ہوگیا ہے ان کا راستی پر آنا بظاہر مشکل معلوم ہوتا ہے‘ میں نے اکثر چاہا کہ جب مختلف قبائل حج کے واسطے آتے ہیں ان کے ساتھ چلا جاؤں اور وہاں جاکر اپنے دین کا اظہار کروں مگر کوئی نہ ملا ہاں البتہ یثرب کے چھ آدمی آئے تھے وہ مسلمان ہوکر چلے گئے اور اب کے بارہ آدمی آئے ہیں اور مجھ سے بیعت کی ہے اور مسلمان ہوگئے ہیں میں چاہتا ہوں کہ ان کے ساتھ چلا جاؤں؟
    حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے یہ سن کر کہا: ’’میں آپ (ﷺ) کو نیک مشورہ دیتا ہوں اور آئندہ ایسے امور میں ہمیشہ اچھے اور مناسب مشورے دیتا رہوں گا۔ میری یہ رائے ہے کہ آپ (ﷺ) ان بارہ آدمیوں کے ہمراہ نہ جائیں اس وجہ سے کہ مدینہ میں تقریباً دس ہزار کی آبادی ہے اور وہ آپس میں ایک دوسرے کے مخالف ہیں اور جس شہر میں اتنے آدمی ہوں اور پھر ان میں اختلاف بھی ہو ایسی حالت میں وہاں کے تھوڑے آدمیوں کے ساتھ جانا ٹھیک نہیں اور نہ یہ لوگ قابل اعتماد ہیں‘ علاوہ ازیں آئندہ آپ(ﷺ) واپس مکہ نہ آسکیں گے کیونکہ یہاں سے جانے کے بعد تو یہ لوگ کھلم کھلا آپ (ﷺ) کی جان کے دشمن ہوجائیں گے۔ اب تو جب تک آپ (ﷺ) یہاں ہیں میں جاں نثاری کیلئے تیار ہوں مگر یاد رکھیں پوری قوم کا مقابلہ ہے‘ ہاں آپ(ﷺ) اپنے اہل بیت میں سے کسی کو ان کے ساتھ مدینہ روانہ کردیں‘ وہ وہاں جاکر آپ (ﷺ) نیابت کریں اور وہ لوگوں کو آپ (ﷺ) کے دین کی طرف رغبت دلائیں اور جب وہاں کے لوگ آپ (ﷺ) کے دین کے گرویدہ ہوجائیں گے تو اس وقت وہاں جانا مناسب ہوگا اور اگر وہ لوگ آپ (ﷺ) کے دین کے گرویدہ نہ ہوں تو آپ(ﷺ) اپنے قبیلے سے الگ نہ رہیں۔
    حضور نبی اکرم ﷺ کو یہ تجویز بہت پسند آئی اور اسی پر کاربند ہوئے اور حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو جو کے چچا زاد بھائی تھے ان کو ساتھ بھیج دیا۔ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے جاکر وہاں تبلیغ اسلام کی اور آخر کار آپ کی کوششوں سے سعدبن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ مشرف بااسلام ہوگئے اور حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی وجہ سے تمام بنی الاشہل مسلمان ہوگئے اور حج کے موقع پر اسی افراد مکہ آئے۔ آنحضرت ﷺ نے اس کی اطلاع حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو دی۔ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے فرمایا: آپ (ﷺ) ان کے پاس چلیں میں ابھی آتا ہوں اور یہ دیکھتا ہوں کہ وہ کیسے آدمی ہیں اور وہ لوگ قابل اعتماد ہیں کہ نہیں؟شام کے وقت حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ آنحضرت ﷺ کے ساتھ اس مقام پرپہنچے جہاں مدینے والے منتظر تھے ابھی اس تک حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کا ایمان ظاہر نہیں ہوا تھا‘ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ یہ چاہتے تھے کہ ان مدینے والوں سے اچھی طرح مضبوط عہد لیں پھر آنحضرت ﷺکو ان کے سپرد کردیں۔
    حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کھڑے ہوئے اور یہ تقریر کی: ’’اے اوس و خزرج کے سردار! تم سردارانِ قوم ہو اور تم لوگ سفر کی سختیاں اٹھا کر آئے ہو اس کا ہم کو خیال ہے تم سمجھ لو کہ محمد ﷺ میرا بھتیجا ہے اور ساری خلقت سے مجھے عزیز ہے کسی شخص کو اس پر دسترس نہیں مگر قریش کی گستاخیوں سے ان کا دل ان لوگوں سے متنفر ہوگیا ہے اور ان کی بھی یہ مرضی ہے کہ تمہارے ساتھ چلے جائیں مگر یاد رکھو! یہ جب یہاں سے چلے جائیں گے تو قریش کا جو شرم و لحاظ ہے وہ نہیں رہے گا اور یہ لوگ سخت درجہ کی لڑائی پر آمادہ ہوجائیں گے۔ اگر تم لوگ محمد ﷺ سے بدعہدی کرو اور مدینے جاکر علیحدہ ہوجاؤگے تو ابھی کہہ دو ایسا نہ ہوکہ انہیں یہاں سے لے جانے کے بعد اپنا وعدہ پورا نہ کرسکو اور ہمیں اپنا دشمن بنالو کیونکہ محمد ﷺ اب بھی اپنی قوم میں محترم ومعزز ہیں‘ ان لوگوں نے پورا عہد کیا اور کہا: اے عباس! ہم نے خدا کے لیے ان کو قبول کیا ہم ان پر اپنی جانیں قربان کریں گے لیکن ایک عرض ہماری بھی ہے کہ اگر آنحضرت ﷺ اپنے دشمنوں پر غالب آجائیں اور کسی کا خوف و اندیشہ نہ رہے تو ایسا نہ ہو کہ آپ ﷺ ہمیں چھوڑ کر چلے آئیں۔ آنحضرت ﷺ نے یہ سن کر فرمایا کہ ایسا نہ ہوگا میں تمہارا اور تم میرے‘ میرا جینا مرنا تمہارے ساتھ ہوگا میری قبر تمہاری قبروں میں ہوگی اورمیرا گھر تمہارے گھروں میں ہوگا جن کے ساتھ تم لڑوگے میں بھی لڑوں گا جن سے تم صلح کروگے میں بھی صلح کروں گا۔ یہ فرما کر آپ ﷺ کھڑے ہوئے اور تقریر کی چند ایام گزرنے کے بعد آپ ﷺ بااذن خداوندی حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو ہمراہ لے کر مدینہ کی طرف ہجرت کرگئے۔
    دو ہجری میں کفار قریش مدینہ منورہ پر حملے کرنے کیلئے نکلے تو حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ جنگ میں جانا نہیں چاہتے تھے مگر قبیلہ اقوام کے شدید اصرار پر بادل نخواستہ نکلے۔ حضورﷺ کو اس کا علم تھا کہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ بادل نخواستہ نکلے ہیں اور اس کا بھی علم تھا کہ وہ دل میں اسلام لاچکے ہیں‘ اس لیے آپ ﷺ نے مسلمانوں میں اعلان فرمادیا کہ عباس (رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ) کو کوئی قتل نہ کرے۔ (ابن اثیر ج۲،ص۳۸)
    کفار قریش کو جنگ میں شکست ہوئی اور ان کے ستر آدمی گرفتار ہوئے جن میں حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ بھی شامل تھے جب حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے فدیہ کی رقم مانگی گئی تو فرمایا کہ میرے پاس جو رقم تھی سب کی سب خرچ ہوگئی ہے‘ صرف بیس اوقیہ سونا ہے جو بچ گیا ہے‘ وہ تمام سونا لے لیا گیا۔ اس وقت حضور ﷺ نے فرمایا وہ سونا جو چچی صاحبہ کے پاس آپ رکھ کر آئے ہیں وہ کہاں ہے؟ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے فرمایا کہ اس کی خبر آپ ﷺ کو کیسے ملی؟ یہ معاملہ تو شب میں بالکل خاموشی اور علیحدگی میں ہوا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اسی وقت جبرائیل علیہ السلام نے اطلاع دی تھی‘ یہ سن کر حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے بآواز بلند کلمہ طیبہ پڑھا اور کہا کہ میں تو پہلے ہی سے مسلمان تھا اور آپ ﷺ بھی میرے برتاؤ سے واقف ہیں اور یہ بھی آپ ﷺ کو معلوم ہے کہ قریش مجھے زبردستی کھینچ کر لائے ہیں۔
    اس کے بعد حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ مکہ معظمہ واپس چلے گئے اور وہیں قیام فرمایا مدینہ منورہ سے جو مسلمان عمرہ وغیرہ کرنے کیلئے جاتا ان کو حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اپنے پاس ٹھہراتے اور ان کی ہر طرح سے معاونت کرتے کسی کی مجال نہیں تھی کہ ان سے کچھ کہہ سکے اس کے باوجود حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ یہ چاہتےتھے کہ مدینہ منورہ چلے جائیں اور برابر خط کے ذریعہ حضور نبی کریم ﷺ سے اجازت طلب کرتے رہے مگر حضور اکرم ﷺ جب مکہ معظمہ فتح کرنے تشریف لے جارہے تھے راستہ میں مقام ذوالحلیفہ پر حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ مع اپنے اہل وعیال کے لشکراسلام سے مل گئے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے حکم دیا کہ اہل و عیال کو مدینہ منورہ روانہ کریں اور آپ (رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ) ہمارے ساتھ رہیں‘ اسی موقع پر حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں خاتم النبین ﷺ ہوں آپ (رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ) خاتم المہاجرین ہیں۔فتح مکہ کے بعد جب مسلمان جنگ حنین کیلئے نکلے تو حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ بھی ہمراہ تھے جنگ میں مسلمانوں کا لشکر بچھڑ گیا اور شکست ہوگئی تھی کہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی آواز پر سب جمع ہوگئے اور پھر فتح حاصل ہوئی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے اس جنگ میں انتہائی بے جگری سے دشمنوں کا مقابلہ کیا اور پوری جنگ میں حضور نبی کریم ﷺ کی حفاظت و نگرانی کرتے رہے۔
    آنحضرت ﷺ کے دنیا سے پردہ فرما جانے کے بعد خلفائے راشدین نے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کابڑا اکرام کیا‘ اہم معاملات میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے مشورہ لیتے اور اس پر عمل کرتے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے اموالِ غنیمت بحساب درجات تقسیم کرنے کا ارادہ فرمایا اوراس کے واسطے ایک رجسٹر بنایا تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے مشورہ دیا کہ اول
    اس میں اپنا نامی گرامی لکھیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے فرمایا کہ میں کس طرح اول نام لکھوں کہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ عم رسول اللہ ﷺ ہم میں موجودہیں۔ چنانچہ سب سے پہلے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کا اسم گرامی لکھا گیا اور سب سے بڑھ کر حصہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کیلئے مقرر کیا گیا۔وفات: جب حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی عمر 88 برس کی ہوئی تو 12 رجب 32 ہجری میں بروز جمعہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی وفات ہوئی۔ حضرت ابن عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی نماز جنازہ پڑھا۔مناقب: ایک موقع پر حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ عباس (رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ) مجھ سے ہیں اور میں عباس (رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ) سے ہوں‘ یہ غایت محبت کے الفاظ ہیں جس سے حضورﷺ کی حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے محبت معلوم ہوتی ہے۔ آپ بے انتہا سخی اور صلہ رحمی کرنے والے تھے ایک موقع پر حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ یہ عباس بن عبدالمطلب (رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ) قریش کے اعلیٰ درجہ کے سخی لوگوں میں سے ہیں اور اعلیٰ درجہ کی صلہ رحمی کرنےو الے ہیں۔ (اصابہ، ص۶۶۶)۔ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو حضور ﷺ نے بطور خاص صلوٰۃ التسبیح کی تعلیم دی اور ارشاد فرمایا کہ یہ وہ نماز ہے کہ جس کے پڑھنے سے آپ کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف ہوجائینگے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے دور مبارک میں جب لوگ قحط میں مبتلا ہوگئے تو حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو وسیلہ قرار دے کر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے تو فوراً بارش ہوجاتی۔ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ دنیائے اسلام میں آپ کی مقبولیت اس قدر ہے کہ تمام فرقہ اسلامی آپ کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
    اللھم صلی علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما صلیت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔
    اللھم بارک علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما بارکت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔

Working...
X