ماضی کی بعض ایسی داستانیں بھی ہیں جو تاریخ اور اس کے عظیم ہیروز کے مقابلے میں زیادہ معقول اور دیرپا ہیں- 'باسمیہ' نامی ساحرہ کا ذکر نا آپ کو تاریخ کی کسی کتاب میں ملے گا اور نا ہی مغل تاریخ کے پنوں پر 'ساحرہ باسمیہ' کا نام کہیں لکھا نظر آۓ گا، وہ باسمیہ جو اپنے سحر کی طرح پرشکوہ اور عالیشان تھی- وہ حسن و جمال کا شاہکار تھی- اس کی بغاوت کی وجوہات تو نامعلوم ہیں، ہاں البتہ اس نے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنی مہربانیوں اور دریادلی سے گرویدہ بنا لیا تھا-
میواڑ سے لے کر آگرہ تک، وہ بیس ہزار کی فوج کے ساتھ پے درپے حملے کرتی چلی گئی- وہ کئی قابل مغل کمانڈروں کو شکست دے چکی تھی اور صاف لگ رہا تھا کہ اس کا دہلی پر قبضہ کرنے کا عزم محض ایک بیکار ڈینگ نہیں ہے-میدان جنگ سے آنے والی چونکا دینے والی خبروں نے شاہی فوجیوں کے دلوں میں خوف بٹھا دیا تھا، ان خبروں میں ایسے نادیدہ شکنجوں کا ذکر تھا جو مغل فوج کو گھوڑوں کی پیٹھ سے اٹھا کر آسمان کی طرف اچھال دیتے-مغل فوج کے ساتھ موجود سرجنوں کی رپورٹ کے مطابق فولادی زرہ بکتر میں پتھریلے تیروں سے چھید ہو گۓ تھے- پیادہ فوج نے بتایا کہ کس طرح کسی غیبی طاقت نے انہیں آگے بڑھنے سے روک دیا، اور جب انہوں نے خود کو آزاد کرنے کے لئے خنجر چلاۓ تو وہ ہوا میں لہرا کر رہ گۓ-کچھ کا کہنا تھا کہ باسمیہ اپنے فوجیوں کو جو راشن کھلاتی ہے اس میں ایسی جادوئی طاقت ہے کہ وہ نظر سے اوجھل ہو جاتے ہیں- دیگر، کا یہ خیال تھا کہ فوجی، باسمیہ کے حسن سے مست ہو کر خونخوار ہو جاتے ہیں، ان کے مطابق ملکہ جنگ سے پہلے فوج کی صفوں میں بے نقاب گھومتی تھی-ساحرہ کی تیزی سے پیشقدمی کرتی فوج نے جس طرح خوف و دہشت کی فضا قائم کردی تھی، اس سے تو یہی گمان تھا کہ باسمیہ ہندوستان کی پہلی جادوگرنی ملکہ بن جاۓ گی، لیکن اسے ہندوستان کے عظیم طاقتور ساحر حکمران: ابو المظفر محی الدین محمد اورنگزیب 'عالمگیر'، کی شکل میں سخت رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑا-جیسے جیسے باسمیہ کی فوج دہلی کی طرف پیشقدمی کرتی گئی، بادشاہ کے جاسوس اسے لمحہ بہ لمحہ رپورٹ پیش کرتے رہے- اس نے باسمیہ کی فوج میں موجود فقیروں، جوگیوں اور معجزہ کاروں، اور جنگ میں پیش آنے والے پراسرار واقعات کا تذکرہ سنا- اس نے ان لوگوں کے احوال پڑھے جو باسمیہ کے سدا بہار حسن و جمال کے شیدائی تھے اور ان کے بھی جنہوں نے اسے ایک ایسی بدصورت، بوڑھی چڑیل بتایا جس نے انسانی قربانیوں کے ذریعہ اپنا سدا بہار حسن حاصل کیا تھا-بادشاہ کے کمانڈر اس بات پر فکر مند تھے کہ باسمیہ کے شیطانی لڑاکوں اور غیبی شکنجوں کا خوف فوجیوں میں بیٹھ گیا ہے، اور ممکن ہے کہ پہلی جنگ کا نقارہ بجنے سے پہلے ہی وہ میدان چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوں- وہ حیران تھے کہ بادشاہ نے ابھی تک جنگ کے لئے دوسری کونسل کیوں نہیں بلوائی-وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ ہر شام شہر کی فصیلوں سے باہر ایک بے نشان خیمے میں جنگی کونسل کا انقعاد کیا جاتا تھا، جہاں شہنشاہ ایک طاقتور منتر کے ذریعہ غیبی مدد طلب کرتا، اور جب اس کے منتر کا جواب خاموشی کی صورت میں آیا تو پہلی بار اسے خوف محسوس ہوا، پہلی بار اسے باسمیہ کو حاصل جادوئی طاقت کا اندازہ ہوا- اس کا مطلب صاف تھا کہ اس سے قربانی طلب کی جا رہی ہے-اور پھر ایک صبح شاہی محافظوں نے دیکھا کہ شہنشاہ کے خیمے کی اونچی چھت جہاں کسی انسان کا ہاتھ نہیں پنہچ سکتا تھا، پر گہرے سرخ ہاتھوں کے نشان چھپے ہوۓ ہیں- شہنشاہ نے کس چیز کی قربانی دی اس کا کوئی ریکارڈ نہیں- اس نذرانے نے شہنشاہ کا منتر اتنا طاقتور بنا دیا کہ غیبی طاقتوں کے لئے اسے نظر انداز کرنا ممکن نہ رہا-اسی دوپہر بادشاہ نے اپنے آدمیوں کی جنگی کونسل بلوائی اور یہ اعلان کیا کہ شہنشاہ بقلم خود میدان جنگ میں ساحرہ کے خلاف لڑیں گے- ہر کمانڈر کو بادشاہ کے ہاتھ سے لکھا ہوا ایک تعویذ دیا گیا- اس کے علاوہ فوجی ہاتھیوں اور گھوڑوں کے لئے بھی تعویذ دیے گۓ، توپ کے دہانوں پر جادوئی اعداد کندہ کیے گۓ-باسمیہ کی فوج پسپا ہو گئی، اور وہ خود اپنے کئی پیروکاروں کے ساتھ ماری گئی- میدان جنگ سے اسکا جوان جسم تو مل گیا لیکن سر نہ مل سکا- ملکہ کے حکم کے مطابق اس کے نائب نے ملکہ کا سر تن سے الگ کر کے میدان جنگ سے غائب کر دیا-
Comment