Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

ابن انشا ء

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • ابن انشا ء



    ابن انشا ء
    مشہور مزاح نگار اور خوبصورت لب و لہجے کے مقبول شاعر ابنِ انشاء کا آج یوم ولادت ھے
    ولادت : 15 جون 1927 ء
    وفات : 11 جنوری 1978 ء
    شاعر، مزاح نگار، اصلی نام شیر محمد خان تھااور تخلص انشاء۔ آپ 15 جون 1927 کوجالندھر کے ایک نواحی گاؤں میں پیدا ہوئے۔ 1946ء میں پنجاب یونیورسٹی سے بی اے اور 1953ء میں کراچی یونیورسٹی سے ایم اے کیا۔ 1962ء میں نشنل بک کونسل کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ ٹوکیو بک ڈوپلمنٹ پروگریم کے وائس چیرمین اور ایشین کو پبلی کیشن پروگریم ٹوکیو کی مرکزی مجلس ادارت کے رکن تھے۔ روزنامہ جنگ کراچی ، اور روزنامہ امروز لاہورکے ہفت روزہ ایڈیشنوں اور ہفت روزہ اخبار جہاں میں ہلکےفکاہیہ کالم لکھتے تھے۔ دو شعری مجموعے، چاند نگر 1900ء اور اس بستی کے کوچے میں 1976ء شائع ہوچکے ہیں۔ 1960ء میں چینی نظموں کا منظوم اردو ترجمہ (چینی نظمیں) شائع ہوا۔یونیسکو کےمشیر کی حیثیت سے متعدد یورپی و ایشیائی ممالک کا دورہ کیا تھا۔ جن کا احوال اپنے سفر ناموں چلتے ہو چین چلو ، آوارہ گرد کی ڈائری ، دنیا گول ہے ، اور ابن بطوطہ کے تعاقب میں اپنے مخصوص طنزیہ و فکاہیہ انداز میں تحریر کیا۔ اس کے علاوہ اردو کی آخری کتاب ، اور خمار گندم ان کے فکاہیہ کالموں کے مجموعے ہیں۔ آپ کا انتقال 11 جنوری 1978 کو ھوا۔۔
    ءءءءءءءءءءءءء
    منتخب کلام
    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
    انشا جي اٹھو اب کوچ کرو، اس شہر ميں جي کو لگانا کيا
    وحشي کو سکوں سےکيا مطلب، جوگي کا نگر ميں ٹھکانا کيا

    اس دل کے دريدہ دامن کو، ديکھو تو سہي سوچو تو سہي
    جس جھولي ميں سو چھيدا ہوئے، اس جھولي کا پھيلانا کيا

    شب بيتي، چاند بھي ڈوب چلا، زنجير پڑي داوازے پہ
    کيوں دير گئے گھر آئے، سجني سے کرو گے بہانا کيا

    پھر ہجر کي لمبي رات مياں، سنجوگ کي تو يہي ايک گھڑي
    جو دل ميں ہے لب پر آنے دو، شرمانا کيا گھبرانا کيا

    اس حسن کے سچے موتي کو ہم ديکھ سکيں پر چھونا نہ سکيں
    جسے ديکھ سکيں پر چھو نہ سکيں وہ دولت کيا وہ خزانہ کيا

    اس کو بھي جلا دکھتے ہوئے من ايک شعلہ لال بھھوکا بن
    يوں آنسو بن نہ جانا کيا يوں ماني ميں جانا کيا

    جب شہر کے لوگ نہ رستا ديں، کيوں بن ميں نہ جا بسرام کرے
    ديوانوں کي سي نہ بات کرےتو اور کرے ديوانہ کيا
    __________________
    کل چودہويں کي رات تھي، شب بھر رہا چرچا تيرا
    کچھ نے کہا يہ چاند ہے، کچھ نے کہا چہرا تيرا

    ہم بھي وہيں موجود تھے ہم سے بھي سب پوچھا کيے
    ہم ہنس دئيے ہم چپ رہے، منظور تھا پردہ تيرا

    اس شہر ميں کس سے مليں، ہم سے توچھوٹيں محفليں
    ہر شخص تيرا نام لے، ہر شخص ديوانہ تيرا

    کوچے کو ترے چھوڑ کر، جوگی ہی بن جائیں مگر
    جنگل تیرے، پربت تیرے، بستی تیری، صحرا تیرا

    ہم اور رسمِ بندگی، آشفتگی، وارفتگی
    احسان ہے کیا کیا تیرا، اے حسن بے پروا تیرا

    دو اشک جانے کس لئے، پلکوں پہ آکر ٹک گئے
    الطاف کي بارش تيري، اکرام کا دريا تيرا

    اے بے دریغ و بے ایماں! ہم نے کبھی کی ہے فغاں؟
    ہم کو تیری وحشت سہی، ہم کو سہی سودا تیرا

    ہم پر يہ سختي کي نظر ، ہم ہيں فقير رہگزر
    رستہ کبھي روکا تيرا دامن کبھي تھاما تيرا

    ہاں ہاں تري صورت حسين ليکن تو ايسا بھي نہيں
    اس شخص کے اشعار سے شہرہ ہوا کيا کيا تيرا

    بے درد سنني ہوتو چل کہتا ہے کيا اچھي غزل
    عاشق تيرا، رسوا تيرا، شاعر تيرا، انشا تيرا
    __________________
    آتی ہے پون جاتی ہے پون

    جوگن کا بنا کر بھيس پھرے
    بِرہن ہے کوئی چو ديس پھرے
    سينے ميں ليے سينے کی دُکھن۔۔ آتی ہے پون جاتی ہے پون
    پھولوں نے کانٹوں نے کہا
    کچھ دير ٹہر دامن نہ چُھڑا
    پر اس کا چلن وحشی کا چلن۔۔ آتی ہے پون جاتی ہے پون
    اس کا تو کہيں مسکن نہ مکاں
    آوارہ بہ دل آوارہ بجاں
    لوگوں کے ہيں گھر لوگوں کے وطن آتی ہے پون جاتی ہے پون
    يہاں کون پون کی نگاہ ميں ہے
    وہ جو راہ ميں ہے بس راہ ميں ہے
    پربت کہ نگر، صحرا کہ چمن آتی ہے، پون جاتی ہے پون
    رُکنے کی نہيں جا اُٹھ بھی چُکو
    انشا جی چلو ہاں تم بھی چلو
    اور ساتھ چلے دُکھتا ہوا من,,, آتی ہے پون جاتی ہے پون
    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
    اے دل والو گھر سے نکلو، دیتا دعوت عام ہے چاند
    شہروں شہروں قریوں قریوں وحشت کا پیغام ہے چاند

    تو بھی ہرے دریچے والی، آجا برسر بام ہے چاند
    ہرکوئی جگ میںخودساڈھونڈے، تجھ بن بسےآرام ہے چاند

    سکھیوں سے کب سکھیاں اپنے جی کے بھید چھپاتی ہیں
    ہم سے نہیں تو اس سےکہہ دے، کرتا کہاں کلام ہےچاند

    جس جس سے اسے ربط رہا ہے اور بھی لوگ ہزاروں ہیں
    ایک تجھی کو بے مہری کا دیتا کیوں الزام ہے چاند

    وہ جو تیرا داغ غلامی ماتھے پر لیے پھرتا ہے
    اس کا نام تو انشا ٹھہرا، ناحق کو بدنام ہے چاند

    ہم سے بھی دو باتیں کر لے کیسی بھگی شام ہے چاند
    سب کچھ سن لے آپ نہ بولے، تیرا خوب نظام ہے چاند

    ہم اس لمبے چوڑے گھر میں شب کو تنہا ہوتے ہیں
    دیکھ کسی دن آمل ہم سے ، ہم کو تجھ سے کام ہے چاند

    اپنے تو دل کے مشرق و مغرب اس کے رخ سے منور ہیں
    بے شک تیرا روپ بھی کامل، بے شک تو بھی تمام ہے چاند

    تجھ کو تو ہر شام فلک پر گھٹتا بڑھتا دیکھتے ہیں
    اس کو دیکھ کے عید کریں گے، اپنا اور اسلام ہے چاند
    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
    شامِ غم کی سحر نہیں ہوتی
    یا ہمیں کوخبر نہیں ہوتی

    ہم نے سب دُکھ جہاں کے دیکھے ہیں
    بے کلی اِس قدر نہیں ہوتی

    نالہ یوں نا رسا نہیں رہتا
    آہ یوں بے اثر نہیں ہوتی

    چاند ہے، کہکشاں ہے، تارے ہیں
    کوئی شے نامہ بر نہیں ہوتی

    ایک جاں سوز و نامراد خلش
    اِس طرف ہے اُدھر نہیں ہوتی

    دوستو، عشق ہے خطا لیکن
    کیا خطا درگزر نہیں ہوتی؟

    رات آ کر گزر بھی جاتی ہے
    اک ہماری سحر نہیں ہوتی

    بے قراری سہی نہیں جاتی
    زندگی مختصر نہیں ہوتی

    ایک دن دیکھنے کو آجاتے
    یہ ہوس عمر بھر نہیں ہوتی

    حُسن سب کو، خدا نہیں دیتا
    ہر کسی کی نظر نہیں ہوتی

    دل پیالہ نہیں گدائی کا
    عاشقی در بہ در نہیں ہوتی

    "Can you imagine what I would do if I could do all I can? "
Working...
X