اولئک ھم المفسدون
۔۔
یہ کون لوگ ہیں جو ایک دوسرے کو قتل کر دیتے ہیں؟ اور یہ قتل کرنے والے ہمیشہ مذہب کے ہی قبیلے سے کیوں اٹھتے ہیں؟یہاں ہمیں ذرا کچھ دیر رک کر سوچنا چاہیے۔۔شہروں ور شہرتیوں کی تاریخ میں دو چیزیں ایک دوسرے کی ھریف رہی ہیں یعنی عقل اور عقیدہ یا فلسفہ اور مذہب۔۔ہم دیکھتے ہیں کہ عقل اور فلسفے کے لوگ کبھی ایک دوسرے کا قتل نیں کرتے۔۔افلاطون اور دیموقراطیس کے گروہ کبھی ایک دوسرے سے نہیں ٹکرائے۔۔فارابی کے مکتبہ خیال نے شیخ شہاب الدین سہروردی کی خانقاہ کے مفکروں پر کبھی حملہ نہیں کیا۔۔ایتھنس کی ہیککل کے دروازے سے کبھی کوئی ایسا ہجوم نہیں نکلا جس نے انسانوں کی گردنیں اڑا دی ہوں اور شہروں گو اگ لگا دی ہو۔
فتنہ و فساد کی آگ ہمیشہ مذہبی فرقوں کے درمیان کیوں بھڑکتی ہے؟ آتش و خون کہ یہ داستان آج سے نہیں صدیوں سے دہرائی جا رہی ہے۔۔وہ کون سا دور تھا جب عقیدوں کی قربان گاہ پر انسانوں کا خون نہیں بہایا گیا۔۔۔۔
اج یہ بات کہی جائے تو لوگوں کے چہرے بگڑ جاتے ہیں پر اب ھقیقتوں کو چھپایا نہیں جاسکتا۔۔ہماری طرف سے انسانوں کے ہجوم میں عام اعلان کر دیا جائے کہ اب نفرتوں کے خلاف نفرتییں ہیں۔اور دعووں کے خلاف دعوے اگر کلام کا زہر کانوں سے اتر کر کلیجوں کو ٹکرے ٹکرے کرنے کی خاصیت رکھتا تو انسانیت دشمنوں کے روبہ رو سب سے زیادہ بولنے والے ہم ہوتے اور اب بھی ایسا ہے کہ بولتے بولتے ہمارے سینوں میں دھول اڑنے لگی ہے۔۔
یہ وقت کے قیدی ہیں ان میں س ہر ایک حد سے تجاوز کرنے والا اور بستیوں میں فساد برپا کرنے والا ہے۔ یہ وقت کے وہ قیدی ہیں جو اپنی ہی زنجیروں سے ایک دوسرے کے جمسوں کو لہولہان کرتے ہیں۔۔انہیں مل کر بیٹھنا تھا پر یہ ایک دوسرے پر چھپٹے ہیں۔۔ماضی کی وہ کون سی سازش ہے جو انہیں کسی طرح چین سے نہیں بیٹھنے دیتی۔۔تاریخ کا آکر وہ کونسا بازار ہے جہاں نفرتوں کا زہر فروخت ہوتا ہے اور زہر کی وہ کون سی قسم ہے جس کی قیمت میں زندگی تک پیش کر دی جاتی ہے
سوچو کہ تمہاری سرنوشت میں کس نقطے سے خرابی پیدا ہوئی اور ہلاکتوں کا سلسلہ کہاں جا کر رکے گا۔
:rose
۔۔
یہ کون لوگ ہیں جو ایک دوسرے کو قتل کر دیتے ہیں؟ اور یہ قتل کرنے والے ہمیشہ مذہب کے ہی قبیلے سے کیوں اٹھتے ہیں؟یہاں ہمیں ذرا کچھ دیر رک کر سوچنا چاہیے۔۔شہروں ور شہرتیوں کی تاریخ میں دو چیزیں ایک دوسرے کی ھریف رہی ہیں یعنی عقل اور عقیدہ یا فلسفہ اور مذہب۔۔ہم دیکھتے ہیں کہ عقل اور فلسفے کے لوگ کبھی ایک دوسرے کا قتل نیں کرتے۔۔افلاطون اور دیموقراطیس کے گروہ کبھی ایک دوسرے سے نہیں ٹکرائے۔۔فارابی کے مکتبہ خیال نے شیخ شہاب الدین سہروردی کی خانقاہ کے مفکروں پر کبھی حملہ نہیں کیا۔۔ایتھنس کی ہیککل کے دروازے سے کبھی کوئی ایسا ہجوم نہیں نکلا جس نے انسانوں کی گردنیں اڑا دی ہوں اور شہروں گو اگ لگا دی ہو۔
فتنہ و فساد کی آگ ہمیشہ مذہبی فرقوں کے درمیان کیوں بھڑکتی ہے؟ آتش و خون کہ یہ داستان آج سے نہیں صدیوں سے دہرائی جا رہی ہے۔۔وہ کون سا دور تھا جب عقیدوں کی قربان گاہ پر انسانوں کا خون نہیں بہایا گیا۔۔۔۔
اج یہ بات کہی جائے تو لوگوں کے چہرے بگڑ جاتے ہیں پر اب ھقیقتوں کو چھپایا نہیں جاسکتا۔۔ہماری طرف سے انسانوں کے ہجوم میں عام اعلان کر دیا جائے کہ اب نفرتوں کے خلاف نفرتییں ہیں۔اور دعووں کے خلاف دعوے اگر کلام کا زہر کانوں سے اتر کر کلیجوں کو ٹکرے ٹکرے کرنے کی خاصیت رکھتا تو انسانیت دشمنوں کے روبہ رو سب سے زیادہ بولنے والے ہم ہوتے اور اب بھی ایسا ہے کہ بولتے بولتے ہمارے سینوں میں دھول اڑنے لگی ہے۔۔
یہ وقت کے قیدی ہیں ان میں س ہر ایک حد سے تجاوز کرنے والا اور بستیوں میں فساد برپا کرنے والا ہے۔ یہ وقت کے وہ قیدی ہیں جو اپنی ہی زنجیروں سے ایک دوسرے کے جمسوں کو لہولہان کرتے ہیں۔۔انہیں مل کر بیٹھنا تھا پر یہ ایک دوسرے پر چھپٹے ہیں۔۔ماضی کی وہ کون سی سازش ہے جو انہیں کسی طرح چین سے نہیں بیٹھنے دیتی۔۔تاریخ کا آکر وہ کونسا بازار ہے جہاں نفرتوں کا زہر فروخت ہوتا ہے اور زہر کی وہ کون سی قسم ہے جس کی قیمت میں زندگی تک پیش کر دی جاتی ہے
سوچو کہ تمہاری سرنوشت میں کس نقطے سے خرابی پیدا ہوئی اور ہلاکتوں کا سلسلہ کہاں جا کر رکے گا۔
:rose
Comment