Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

مخول

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • مخول


    :rose

    ایک تحریر کے ساتھ ھاضر ہوں ۔۔میں اس تحریر کو پڑھ کر جس ذائقے سے گزارا وہ شاید اپ تک نہ پہنچا سکوں میرے پاس الفاظ نیہں ابلاغ کو۔۔لیکن اس تحریر کے ہر ایک لفظ میں ایک پوری تاریخ ہے اگر کسی نے برصغیر میں مسلمانوں کلے عروج و زوال کے حرف بحرف پڑھا ہو اور وہ اس تحریر میں مذکور شخصیات سے وافف ہو تو وہ جان سکے گا کے ان کچھ الفاظ میں ایک پورا عہد ہےافسوس کا اور بے حسی کا۔۔تحریر پڑھنے سے پہلے اسی فورم یعنی ہسٹری میں میری کچھ پوسٹسز پڑھ لیجئے سرمد، اور داا شکوہ پر تو اسے سمجھنے میں اسانی ہوگی۔۔اس پوسٹ میں ایک شخصیت یرمیاہ کا ذکر بھی ائے گا جناب یرمیاہ بنی اسرائیل میں اس وقت نبی تھے جب شاہ بابل بنو کد نصر نے یروشلم پہ حملہ کر کے یروشلم کی اینٹ سی اینٹ بجا دی تھی اور تمام یہودیوں کو قید کر لے بابل لے گیا تھا جہاں انہوں نے اسی سال اسیری میں گزارے۔۔اس پر نبی یرمیاہ نے مرثیہ کہا تھا۔۔تحریر میں اپ کو ظہیر الدین بابر کے پرشکوہ دربار اور اکبر کے عہد کا چڑھتے سورج اور پھر بہادر شاہ ظفراور دیگر شہزادوں کے ساتھ معمولی انگریز سپاہی کے ہتک امیز رویہ تک سب ہوگا ایک مختصر لیکن ایک زبان و ثقافت و تاریخ اور فلسفے کا ایک عجوبہ روزگار نمونہ۔۔بانیاز خان کی نذر۔۔ میرے عیز دوست مجھے یقین ہے آپ اس کے قدر دانوں میں سے پونگے۔۔تصور کئجیے ایک شخصیت اس وقت پاکتسان سے ہندوستان جاتی ہے اور جب وہ دہلی پہنچتی تو کیا ہوتا اس کی زبانی سنئے اس تحریر کا ایک ایک لفظ ایک عہد ہے۔۔

    مخول



    زمانے کا ایک بھٹکایا ہوا ایک مسافر، ایک عام سا مسافر ،اک عام سا راہ گیر اپنے اپ کو شاہ جہاں اباد کی جنوبی سمت سے شمال کی طرف گھسٹنے کی حالت میں ہانپ رہا ہے۔۔ہانپ رہا ہے اور اپنے اپ کو گھسیٹ رہا ہے۔وہ اس راستے میں اپنے اپ ہی کو نہیں گھسیٹ رہا۔۔اپنے ماضی اور اپنی تاریخ کی یادوں کو بھی گھیسٹ رہا ہے۔فقط وہی نہیں ہانپ رہا اس کے ساتھ اس کی تاریخ کی یادیں بھی ہانپ رہی ہیں۔۔

    اس وقت نہ دن کا پہلا پہر ہے، نہ دوسرا نہ تیسرا پہر ہے نہ چوتھا۔اور نہ رات کا پہلا پہر ہے اور نہ دوسرا۔۔۔بس وقت ہے جو بہہ رہا ہے اور بہے جا رہا ہے ۔۔ہر لمحہ اغاز اور ہر لمحہ انجام۔۔۔۔۔


    وقت کا بھٹکایا ہوا مسافر اب ایک چوراہے سے گزر رہا ہے اور لمحہ لمحہ بکھر رہا ہے۔۔لمحہ لمحہ بکھر رہا ہے اور گزر رہا ہے۔۔گزرتے جاو اور بکھرتے جاو۔اپنے ہونے کا رنگ رچائو اور اپنے ہونے کےساتھ اپنے سکون بخش نہ ہونے کا سوگ مناو۔۔۔


    اب وہ اپنے اپ کو ایک سنگی دروزے کے روبرو پاتا ہے اور اس کا جگر خون ہوجاتا ہے وہ خون ریز دھماکوں کی اوازیں سنتا ہے1857 اور کے کسی مہینے کے کسی دن لہولہان ہوجاتا ہے اور دم توڑ دیتا ہے۔۔‘‘ کہاں لہولہان ہوجاتا ہے ، کہاں دم توڑتا دیتا ہے؟ مں اپنے اپ سے پوچھتا ہوں اور پھر اپنے اپ کو ہی جواب دیتا ہوں
    ‘“ خونی دروازے کے سامنے’’

    زمانے کا بھٹکایا ہوا مسافر دم توڑتے ہوئے اک خونچکاں ہنسی ہنستا ہے ، اک فالتو ایک فضول اور یک سر رائگاں ہنسی اور پھر سانس لینے لگتا ہے اور جینے کا عزاب سہنے لگتا ہے۔ازراں بعد وہ پتھر کی طرح ساکت اور صامت کھڑا رہ جاتا ہے اس پر ایک بے غیرت بے حسی مسلط ہوجاتی ہے اور پھر وہ اپنے اپ کواگے کی طرف گھسیٹتا ہے۔۔اگے کی طرف گھسٹتا ہے اور ایک بارگی نظر اٹھاتا ہے تو اپنے اپ اک دلی دروزے کے رو برو پاتا ہے۔۔‘

    نگاہ روبرو نگاہ روبرو’ سترویں اور اٹھارویں صدی کی مودبانہ اواز وقت کے گنبد پر گونجتی ہے اور ہاں انسویں صدی کے سینے کی زخم خوردہ اور ہزیمت نصیب اواز بھی۔۔

    مسافر کا سر تعظیم اور تکریم سے جھک جاتا ہے۔تاریخ کی تعظیم اور تکریم اور تاریخی تعظیم اور تکریم سے۔۔ یہاں یہ بات ملحوظ رکھی جائے کے مسافر مذکورہ شاہوں کے تخت و تاج کو بری طرح روندتا چلا آیا ہے

    مسافر کے پیر شل و چکے ہیں پھر بھی وہ اپنے اپ کو گھیسٹتا ہوا اگے بڑھ رہا ہے بہ صد اشتیاق اور بہ صد اذیت اگے بڑھ رہا ہے۔ فیض بازار کی طرف۔۔وہ بری طرح ہلکان ہے پر اگے تو جانا ہے پیروں کو چھالوں سے تو سجانا ہے۔۔سو وہ اپنے اپ کو گھسیٹتا ہوا اگے جا رہا ہے کہ اس زندیق اس دوزخی کی نظر تاریخ کی ایک مقدس سربلندی شاہ جہانی مسجد کی دید سے شرف اندوز ہوتی ہے کہتے ہیں س مسجد میں ماہ رمضان کے اخری جمعے کی نمازادا کرنے کا ثواب حج کے ثواب کے برابر ہے۔واللہ عالم بالصواب۔۔


    اس کی نگاہ میں دھند پھیل جاتی ہے۔۔دھنر اور وقت، خیال کا وقت، یاد کا وقت اور تاریخ کا وقت۔لمحے سسک رہے ہیں اور مر رہے ہیں اور وقت ماضی میں گزرت چلا جا رہا ہے۔۔شاہ جہانی مسجد کے حوض پر غنی کاشمیری اور ناصر علی بیٹھے باہم سخن کر رہے ہں اور مسافر اپنے لڑک پن کے زمانے میں اپنے گمان کے مطابق ان دونوں کے برابر بیٹھا ہے۔۔ کہ اتنے میں شعلے کی طرح بھڑکتا ہوا ایک قامت، ایک مرد قلندر ایک شاعر سویدائے سرمد حالت برہنگی میں ہاو ہو کرتاہوا مسجد کے شمالی دروز سے داخل ہوتا ہے۔۔غنی کاشمیری اور ناصر علی یک بارگی گنگ ہوجاتے ہیں اور پھر۔۔اور پھر اھترام اور تعظیم کی ھالت میں گویا ہوتے ہیں سرمد، اغا جان گونہ ای،چہ ھالت است؟کیا حال ہے کیا حالت ہے

    جاری ہے

    :(

  • #2
    Re: مخول

    سرمد یہ سن کر ایک لمحے کے لیے ٹھہرتا ہے اور انہیں ان کی بینائی میں شگاف ڈال دینے والی نگاہوں سے ایک ماجرا ناک ہنسی ہنستی ہوئی نگاہوں سے گھور کر دکھتا ہے اور حالتِ حال میں ایک شعر سر کرتا ہے اور ہوا کے حاشیوں میں اگ لگا دیتا ے
    دیرست کہ افسانہ منصور کہن شد
    من از سر نو جلوہ دہم دار و رسن را
    منصور حلاج کا افسانہ پرانا ہو چکا ہے۔میں نئے سرے سے دارو رسن کی جلوہ دہی کروں گا۔
    وہ یہ کہہ کر قہقہہ لگاتے ہوئے ایک اسرار آگیں اور مہب قہققہ لگاتے ہوئے مسجد کی جنوبی دیوار سے باہر نکل جاتا ہے اور ایک سناٹا ہے کہ چھا جاتا ہے۔۔لمحے لمحے کی گزران، اداسی اور افسوس کا سناٹا۔تاریخ ہند کی 17 صدی کا سب سے اداس اور پر افسوس سناٹا

    مسافر اپنے پونے سات سو برس کے وطن مین مسافر اور اجنبی۔۔۔ اس مقدس سر بلندی کو اذیت زدہ نگاہ سے دیکھا رہا ہے۔۔دیکھے جا رہا ہے اور پھر خود سے کہہتا ہے
    میں ایک زندیق ہوں ایک دوزخی ہوں بالکل اسی طرح جس طرح میرا نام ور بزرگ مرزا نوشہ ایک زندیق اور دوزخی تھا۔۔ میں نے اور میرے اس بزرگ نے اس مسجد میں کبھی نماز نہیں پڑھی پر میرا دل۔۔ مجھ زندیق کا دل اس مسجد کا دعا گو ہے

    مسجد کے مناروں کی سربلندی دھند میں کھو گئی ہے۔۔۔مسافر سر اٹھائے ہوئے اس سر بلندی کو ڈھونڈنتا ہے۔۔اس کی گردن دکھنے لگی ہے مگر اپنے دل میں اپنے دلی میں ایک مسافر۔ن گنبدوں اور ان مناروں کو دعا دینے کے سوا اور کر بھی کیا سکتا ہے


    اے گنبدوں اور منارو ! تمہارا کوئی بھی متولی بیسیوں صدی کے پہلے دہے سے لیکر دسویں دہے تک کا کوئی بھی متولی کوئی بڑا متولی کوئی بھی سیاست پیشہ متولی اس کے سوا کر بھی کیا سکتا ہے۔۔مسافر گریہ ناک اواز میں کلام کرتا ہے

    ترے گنبد، گنبد نیلی فام کے مانند ہمیشہ فضا پرور ریہں۔۔ترے مناروں کی سربلندی اور ارجمندی پر کبھی پستی کی دراز دستی کا زور نہ چلے۔۔۔یہ دعا ایک زندیق، ایک دوزخی کی دعا ہے۔اپنے صدیوں کے وطن میں ایک بے وطن زندیق اور دوزخی کی دعا۔۔

    یہ گنبد اور یہ منارے ایک ہارے مارے بے تدبیر اور دانش دشمن گروہ کے عہد عروج کے وقت آزما یادگار ہیں اور میں جو کوئی بھی نہیں ہوں وہ ‘ میں ’ ہارے مارے گرہوں کا غم گسار رہا ہوں۔میں تاریخ کے ہارے مرے گرو کا نوحہ خوان رہا ہوں اور ہوں۔۔۔سو اے گنبدوں اور منارو!!! میں تمہارا یرمیاہ ہوں تمہارا نوحہ خواں تمہارا مرثیہ گو مسافر اپنے سینے میں کراہنے لگتا ہے۔۔۔



    جاری ہے
    :(

    Comment


    • #3
      Re: مخول

      ۔۔


      مسجد کے مشرقی دروازے کے سامنے کچھ نفوس ابدی نیند سو رہے ہیں ان مں سے ایک نفس جب زندہ تھا تو اپنی خطابت کا بے تاثیر اور بے حاصل ہنر دکھایا کرتا تھا اس ن اس مسجد شاہ جہانی مسجد میں جانے کتنی بار اپنے شوق خطابت کی ہوس پوری ک تھی
      عزیزان گرامئ میرے لیے شاہ جہاں کی اس یادگار مسجد میں یہ اجتماع نیا نہیں مں نے اس زمانے میں بھی تم سے یہیی خطاب کیا تھا جب تمارے چہروں پر اضمحلال کے بجائے سکون اور تمہارے دلوں میں شک کے بجائے اعتماد تھا۔۔اج تمہارے چہروں کا اضطراب اور دلوں کی ویرانی دیکھتا ہوں تو مجھے بے اختیار پچھلے چند سالوں کی بھولی بسری کہانیاں یاد آ جاتی ہیں

      تمہیں یاد ہے میں نے تمہیں یہیں سے پکارا تھا اور تم نھے میری زبان کاٹ لی۔۔اب میرا احساس زخمی ہے سوچو تو سہی تم کہاں پہنچے اور اب کہاں کھڑے ہو؟ کیا یہ خوف کی زندگی نہں۔۔؟کیا تمہارے حواس میں اختلال نہیں آگیا۔ یہ خوف خود تم نے فراہم کیا ہے

      مسافر اپنے سینے میں کراہے جا رہا ہے۔اس اثنا میں اس کی نگاہ دائیں جانب اٹھتی ہے دائیں جانب ایک سرخ سنگینی۔ خم کھائی ہوئی ایک طویل سنگینی سینہ پھیلائے کھڑی ہے اور وقت سے ٹھٹھول کر رہی ہے ایک عالی شان ٹھٹھول۔۔اور وقت باجبروت اور پرجلال وقت اس سے ٹھٹھول کر رہا ہے ایک باجبروت اور پر جلال ٹحٹھول اور یہ سلسہ کئی پشتوں سے جاری ہے۔۔‘نگاہ روبہ رو! نگاہ روبرو

      دربار عام کی حضوری، بدبخت حضوری اور بد نجام ترین حاضری نسل ہا نسل کے ھافظے کا تمسخر بن چکی ہے۔۔ایک بے رحم، بے حد بے رحم اور یک سر بجا تمسخر۔۔ اگر وقت سے مخول کیا جائے تو اس کی سزا بھی بھگتی جائے گی۔۔انہوں نے وقت سے مخول کیا اور اس بات کی طرف کوئی دھییان نہیں دیا کہ وقت سب سے بڑا مخول کرنے والا ہے
      دربار خاص سے ایک اواز آتی ہے

      اگر فردوس بر روئے زمین است
      ہمیں است و ہمں است و ہمیں است

      مسافر یہ اواذ سن کر ہنسی کے مارے بے قابو ہوجاتا ہے اور اتنا ہنستا ہے کہ انجام کار رونے لگتا ہے۔۔مگر نہ اس کے منہ سے کوئی اواز نکلتی ہے اور نہ اس کی انکھوں سے کوئی آنسو۔۔!!






      :rose
      :(

      Comment


      • #4
        Re: مخول

        بڑی سسپنس آمیز تحریر ہے جناب ۔۔۔

        پر کچھ کچھ الجھی الجھی لگی ہے





        Comment


        • #5
          Re: مخول

          Originally posted by Baniaz Khan View Post
          بڑی سسپنس آمیز تحریر ہے جناب ۔۔۔

          پر کچھ کچھ الجھی الجھی لگی ہے


          asi wja sa ap ko dedicate ki hai
          :(

          Comment


          • #6
            Re: مخول

            Originally posted by Dr Faustus View Post
            asi wja sa ap ko dedicate ki hai

            کہاں لکھا ہے جی کہ مجھے ڈیڈیکیٹ ہے

            یہ تو میرے ریپلائی کے بعد بتارہے ہو





            Comment


            • #7
              Re: مخول

              Originally posted by Baniaz Khan View Post



              کہاں لکھا ہے جی کہ مجھے ڈیڈیکیٹ ہے

              یہ تو میرے ریپلائی کے بعد بتارہے ہو

              حضور پوسٹ کی تہمید میں پڑھیں ذرا؟ اور بھئی جی اسے تحریر کو سکون سے وقت نکال کے پڑھنا اس کا میں نے ایکسرپیس یور سلف میں ذکر کیا تھا

              :(

              Comment


              • #8
                Re: مخول

                یہ تحریر واقعی بانیاز کے لئے ہے تاکہ اس کی اردو رہی سہی بھی ختم ہوجائے
                ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
                سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

                Comment


                • #9
                  Re: مخول

                  Bohat achi sharing ha

                  Comment


                  • #10
                    Re: مخول

                    Originally posted by umeedz View Post
                    Bohat achi sharing ha
                    Khush Amdeed


                    Bohat acha laga Janab..Ya Tahreer waqi Ma Bakmal Thi par.. :(
                    :(

                    Comment


                    • #11
                      Re: مخول


                      ترے گنبد، گنبد نیلی فام کے مانند ہمیشہ فضا پرور ریہں۔۔ترے مناروں کی سربلندی اور ارجمندی پر کبھی پستی کی دراز دستی کا زور نہ چلے۔۔۔یہ دعا ایک زندیق، ایک دوزخی کی دعا ہے۔اپنے صدیوں کے وطن میں ایک بے وطن زندیق اور دوزخی کی دع


                      wah

                      Comment


                      • #12
                        Re: مخول


                        مسافر یہ اواذ سن کر ہنسی کے مارے بے قابو ہوجاتا ہے اور اتنا ہنستا ہے کہ انجام کار رونے لگتا ہے۔۔مگر نہ اس کے منہ سے کوئی اواز نکلتی ہے اور نہ اس کی انکھوں سے کوئی آنسو

                        bohat khob janab aali

                        Comment

                        Working...
                        X