Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

دارشکوہ تاریخ کے دریچوں سے

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • دارشکوہ تاریخ کے دریچوں سے


    دارشکوہ تاریخ کے دریچوں سے



    تیموری خاندان میں دارشکوہ (1615سے1659) سے زیادہ علم و حکمت کا شیدائی کبھی پیدا نہیں ہوا۔۔وہ شاہجہان کا سب سے بڑا بیٹا تھا ۔تصوف اس کا مسلک ہی نہ تھ بلکہ اس کی فطرت بن چکا تھا وہ اپنی نیک نفسی اور خوش خوئی کے باعث رعایا میں بہت مبول تھا اس کے دربار میں صوفوں، جوگیوں بھگتوں، عالموں اور شاعروں کا ہجوم اور علم و حکمت کا چرچا رہتا تھا۔ وہ عربی، فارسی سنسکرت اور ہندی پہ کامل دستگاہ رکھتا تھا۔۔اس نے بھگوت گیتا اپ نشدھ اور یوگ وشٹ رامائن کا ترجمہ فارسی میں کیا تھا اس اپنی پیلی تصنیف سٍیتہ الاولیا ہے جس میں411 بزرگان اسلام کے حالات بیان کئے گئے ہیں یہ کتاب اس ن 25 سال کی عمر میں مکمل کی اس کے بعد سکینتہ الاولیا اور حسنات العارفین اور پھر 11654 میں مجمع البحرین لکھی۔۔۔۔۔ داراشکوہ نے مجمع البحرین میں اسلام اور ہندو مت میں جو عقائد مشترک ہیں ان کو بہت اختصار سے بیان کر دیا ہے رسالے کی ابتدا وہ حکیم سنائی کے ایک شعر سے کرتا ہے جو دارشکوہ کے اپنے پورے مسلک کا پورا آئینہ ہے

    ببنام آنکہ او نامے دارد
    بہر نامے کہ خوانی سر بر ارد

    میں اس کتاب کے اس کے نام سے شروع کرتا ہوں جس کا کوئی نام نہیں اس کو جس نام سے پکارا جائے وہی بلندی اور مراتب کا باعث ہوگا”

    وہ کفر اسلام کو خدا کے ‘‘ رخ زیبا ’’ پہ دو ذلفوں سے تعبیر کرتا تھا لیکن خدا نے ان دونوں متضاد صفتوں میں سے کسی صفت کا نقاب ا“پنے رخ زیبا پہ نہیں ڈالا۔۔کتاب کا مقصد بیان کرتے ہوئے وہ لکھتا ہے

    مجھے حق شناسی اور معرفت الہی کے متعلق صوفیا ئے کرام اور جوگیوں میں سوائے لفظی اختلافات اور بزاع کے اور کوئی فرق معلوم نہیں لہذا میں نے فریقین کے کلام میں مطابقت پیدا کر کے اور بعض اہم بناتیں جمع کر کے ایک رسالہ مرتب کیا ہے چونکہ یہ رسالہ دو گروہ کے ھقائق و معارف کا مجموعہ ہے اس لیے میں نے اس کا نام مجمع البحرین رکھا۔۔




    جاری ہے
    :(

  • #2
    Re: دارشکوہ تاریخ کے دریچوں سے

    منتظر ہیں ۔
    :star1:

    Comment

    Working...
    X