سرمد تاریخ کے دریچوں سے
سرمد ایران کا رہنے والا تھا تجارت کے سلسے میں ٹھٹھہ ایا ور یہاں ایک برہمن زادے کی الفت میں ایسا دیوانہ ہوا ک تارک لباس کر کے جوگی بن گیا اس عالم جذب و مستی میں اپنے محبوب ابھے چند کے ہمراہ حیدر اباد دکن کا سفر اختیار کیا اور وہاں سے دہلی چلا گیا۔۔دہلی میں شاہ جہان کے بیٹے دارشکوہ نے اس کی خوب اوئ بھگت کی مگر سرمد کو نہ مال و دولت کی ہوس تھی نہ حکام شریعت کی پروا۔گلی کوچوں میں گھومتا پھرتا اور اپی صوفیانہ رباعیوں سے سننے والوں کے دلوں میں معرفت کی جوت جگاتا۔۔البتہ جب اورنگزیب عالمگیر تخت پہ بٹھا تو سرمد کو دارشکوہ کی دوستی اور عوام کی اردات مندی کا خمیازہ اٹھانا پڑا۔۔وہ احکام شریعت کی پابندی نہ کرنے کے الزام میں گرفتار ہوا اور اورنگزیب کے دربار میں لایا گیا تو مولویوں نے اس سے پوچھا کہ سنتے ہیں تم کلمہ طیبہ میں فقط لا الہ کہتے ہو۔حالنکہ یہ نفی کا کلمہ ہے لیکن الا اللہ نہیں کہتے جو اثبات کا کلمہ ہے؟ سرمد نے جواب دیا تم نے سچ سنا ہے۔ابھی نفی کی منزل تک پہنچا ہوں اس لیے فقط لا الہ کہتا ہوں۔ جس دن اثبات کی منزل پر پہنچوں گا تو الا اللہ بھی کہنے لگوں گا۔بادشاہ کے حکم سے جب جلاد اس کا سر قالم کرنے لگے تو اس نے ہنس کر یہ شعر پڑھا
شورے شد و از خواب عدم دیدہ کشید م
دیدم کہ باقی از ست شب فتنہ، غنودیم
میں نے شور سن کر خواب عدم سے انکھیں کھولیں مگر جب دیکھا کہ فتنے کی رات باقی ہے تو پھر سو گیا۔۔
سرمد پھر ایک لمحے کے لیے ٹھہرتا ہے اور انہیں ان کی بینائی میں شگاف ڈال دینے والی نگاہوں سے ایک ماجرا ناک ہنسی ہنستی ہوئی نگاہوں سے گھور کر دکھتا ہے اور ھالت حال میں ایک شعر سر کرتا ہے اور ہوا کے ھاشیوں پر اگ لگا دیتا ہے
دیریست کہ افسانہ منصور کہن شد
من از سر جلوہ دہم دارو رسن
منصور حلاج کا افسانہ پرانا ہوچکا ہے میں نئے سرے سے دار ورسن کی جلوہ دہی کروں گا
یہ کہہ کر وہ ایک قہقہ لگاتے ہیں ایک اسرار آگیں قہقہ۔۔پھر پھر۔۔۔ ایک سناٹا ہے کہ چھا جاتا ہے۔۔لمحے لمحے کی گزاران، اداسی اور افسوس کا سناٹا۔۔۔تاریخ ہند کی 17 صدی کا سب سے اداس اور پر افسوس سناٹا۔۔۔
سرمد ایران کا رہنے والا تھا تجارت کے سلسے میں ٹھٹھہ ایا ور یہاں ایک برہمن زادے کی الفت میں ایسا دیوانہ ہوا ک تارک لباس کر کے جوگی بن گیا اس عالم جذب و مستی میں اپنے محبوب ابھے چند کے ہمراہ حیدر اباد دکن کا سفر اختیار کیا اور وہاں سے دہلی چلا گیا۔۔دہلی میں شاہ جہان کے بیٹے دارشکوہ نے اس کی خوب اوئ بھگت کی مگر سرمد کو نہ مال و دولت کی ہوس تھی نہ حکام شریعت کی پروا۔گلی کوچوں میں گھومتا پھرتا اور اپی صوفیانہ رباعیوں سے سننے والوں کے دلوں میں معرفت کی جوت جگاتا۔۔البتہ جب اورنگزیب عالمگیر تخت پہ بٹھا تو سرمد کو دارشکوہ کی دوستی اور عوام کی اردات مندی کا خمیازہ اٹھانا پڑا۔۔وہ احکام شریعت کی پابندی نہ کرنے کے الزام میں گرفتار ہوا اور اورنگزیب کے دربار میں لایا گیا تو مولویوں نے اس سے پوچھا کہ سنتے ہیں تم کلمہ طیبہ میں فقط لا الہ کہتے ہو۔حالنکہ یہ نفی کا کلمہ ہے لیکن الا اللہ نہیں کہتے جو اثبات کا کلمہ ہے؟ سرمد نے جواب دیا تم نے سچ سنا ہے۔ابھی نفی کی منزل تک پہنچا ہوں اس لیے فقط لا الہ کہتا ہوں۔ جس دن اثبات کی منزل پر پہنچوں گا تو الا اللہ بھی کہنے لگوں گا۔بادشاہ کے حکم سے جب جلاد اس کا سر قالم کرنے لگے تو اس نے ہنس کر یہ شعر پڑھا
شورے شد و از خواب عدم دیدہ کشید م
دیدم کہ باقی از ست شب فتنہ، غنودیم
میں نے شور سن کر خواب عدم سے انکھیں کھولیں مگر جب دیکھا کہ فتنے کی رات باقی ہے تو پھر سو گیا۔۔
سرمد پھر ایک لمحے کے لیے ٹھہرتا ہے اور انہیں ان کی بینائی میں شگاف ڈال دینے والی نگاہوں سے ایک ماجرا ناک ہنسی ہنستی ہوئی نگاہوں سے گھور کر دکھتا ہے اور ھالت حال میں ایک شعر سر کرتا ہے اور ہوا کے ھاشیوں پر اگ لگا دیتا ہے
دیریست کہ افسانہ منصور کہن شد
من از سر جلوہ دہم دارو رسن
منصور حلاج کا افسانہ پرانا ہوچکا ہے میں نئے سرے سے دار ورسن کی جلوہ دہی کروں گا
یہ کہہ کر وہ ایک قہقہ لگاتے ہیں ایک اسرار آگیں قہقہ۔۔پھر پھر۔۔۔ ایک سناٹا ہے کہ چھا جاتا ہے۔۔لمحے لمحے کی گزاران، اداسی اور افسوس کا سناٹا۔۔۔تاریخ ہند کی 17 صدی کا سب سے اداس اور پر افسوس سناٹا۔۔۔
Comment