Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

(Ishq e LaaFana)حسین بن منصور حلاج

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • (Ishq e LaaFana)حسین بن منصور حلاج

    حسین بن منصور حلاج

    حلاج کی زندگی کا خاکہ


    Attached Files
    "Can you imagine what I would do if I could do all I can? "

  • #2
    Re: (Ishq e LaaFana)حسین بن منصور حلاج

    buhat khooob sharing

    Comment


    • #3
      Re: (Ishq e LaaFana)حسین بن منصور حلاج

      عقیدۂ حلول اور حسین بن منصور حلاج
      عقیدۂ حلول

      عقیدۂ حلول ۔۔۔ وہ باطل نظریہ ہے جس کے مطابق؛
      انسان اپنے آئینۂ دل کو اتنا لطیف اور صاف بنا لیتا ہے کہ خدا کی ذات خود اس کے جسم میں داخل ہو جاتی ہے یا حلول کر جاتی ہے۔

      خدا کا کسی انسان کے جسم میں حلول کر جانے کا عقیدہ یہود و نصاریٰ میں بھی پایا جاتا تھا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے؛
      وَقَالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللّهِ وَقَالَتِ النَّصَارَى الْمَسِيحُ ابْنُ اللّهِ ذَلِكَ قَوْلُهُم بِأَفْوَاهِهِمْ يُضَاهِؤُونَ قَوْلَ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِن قَبْلُ
      اردو ترجمہ : طاہر القادری
      اور یہود نے کہا: عزیر (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے ہیں اور نصارٰی نے کہا: مسیح (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے ہیں۔ یہ ان کا (لغو) قول ہے جو اپنے مونہہ سے نکالتے ہیں۔ یہ ان لوگوں کے قول سے مشابہت (اختیار) کرتے ہیں جو (ان سے) پہلے کفر کر چکے ہیں
      ( سورة التوبة : 9 ، آیت : 31 )

      ایک دوسرے مقام پر قرآن ، اس عقیدہ کی مزید وضاحت یوں کرتا ہے؛
      لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُواْ إِنَّ اللّهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ
      اردو ترجمہ : طاہر القادری
      درحقیقت ایسے لوگ کافر ہوگئے ہیں جنہوں نے کہا کہ اﷲ ہی مسیح ابنِ مریم (علیہما السلام) ہے
      ( سورة المآئدة : 5 ، آیت : 72 )

      اسلام میں "عقیدۂ حلول" کی داغ بیل عبداللہ بن سبا یہودی نے ڈالی تھی۔ قرون اولیٰ میں یہودیوں کو جو ذلت نصیب ہوئی اس کا انتقام لینے کے لیے عبداللہ بن سبا منافقانہ طور پر مسلمان ہوا کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ عملی میدان میں مسلمانوں سے انتقام لینے کی سکت اب یہودیوں میں باقی نہیں رہ گئی ہے ، لہذا مسلمانوں کے عقائد میں تفرقہ کے بیج بو کر اس نے تشتت و انتشار پیدا کر دیا۔

      عبداللہ بن سبا کا یہ عقیدہ حلول ، اس کے پیروکاروں نصیریہ ، کیسانیہ ، قرامطیہ اور باطنیہ سے ہوتا ہوا صوفیا کے اندر داخل ہو گیا !۔

      حسین بن منصور حلاج

      حسین بن منصور حلاج (م:309ھ) اس عقیدہ کے علمبردارِ اعلیٰ تسلیم کئے جاتے ہیں۔ ہر چند کہ ان سے پہلے بھی ایسے صوفیاء گزرے ہیں جو یہ عقیدہ رکھتے تھے مگر اپنے سینوں میں چھپائے رکھتے تھے۔
      اس عقیدہ کو شہرتِ دوام حلاج سے ہی ہوئی۔
      منصور حلاج کا دعویٰ تھا کہ : خدا اس کے اپنے اندر حلول کر گیا ہے !!

      منصور حلاج اپنے اسی عقیدے کے سبب " انا الحق " کا نعرہ لگاتا تھا۔
      جبکہ اسے یہ بھی خوب معلوم تھا کہ اس کا یہ عقیدہ مسلمانوں کے متفقہ عقیدہ کے سراسر خلاف ہے۔ اس سلسلے میں اس کے اپنے مندرجہ ذیل اشعار ملاحظہ فرمائیں :

      عَقَدَ الخلائقُ في الإلهِ عقائدا
      وانا اعتقدت جميع ما اعتقدوة
      الٰہ کے بارے میں لوگوں کے بہت سے عقیدے ہیں اور میں ان سب عقیدوں پر عقیدہ رکھتا ہوں۔

      كفرت بدين الله والكفر واجب
      لديّ وعند المسلمين قبيح
      میں اللہ کے دین سے کفر کرتا ہوں اور یہ کفر میرے لیے واجب ہے جبکہ تمام مسلمانوں کے نزدیک یہ برا ہے۔
      ديوان الحلاج:ص(34)

      حسین بن منصور نے اپنے متعلق دین سے ارتداد اور کفر کا فتویٰ تو خود ہی لگا دیا۔ سمجھانے کے باوجود بھی جب وہ اپنے اس عقیدہ پر مصر رہا تو بالآخر اسے خلیفہ بغداد "المقتدر باللہ" نے 24۔ذی قعدہ 309ھ (914 سن عیسوی) کو بغداد میں قتل کر دیا۔ اور اس "خدا" کی لاش کو جلا کر دریا میں پھینک دیا گیا۔

      حلاج کے متعلق ابن عربی نے اپنی کتاب "فتوحات مکیہ" میں ایک اور واقعہ نقل کیا ہے کہ :
      مشہور بزرگ شیخ ابوعمرو بن عثمان مکی ، حلاج کے سامنے سے گزرے اور پوچھا کہ کیا لکھ رہے ہو؟
      حلاج نے جواب دیا : قرآن کا جواب لکھ رہا ہوں۔
      یہ سن کر ابوعمرو بن عثمان مکی نے بد دعا کی اور انہی کی بد دعا کا نتیجہ تھا کہ حلاج قتل کر دیا گیا۔

      اتنے شدید جرم کے باوجود صوفیاء کی اکثریت نے حلاج کے حق پر ہونے اور حلاج کو سزا دینے والوں کے باطل پر ہونے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔ ذیل میں ان صوفیاء کے چند ارشادات ملاحظہ فرمائیں۔

      حلاج کے کفر کی نفی

      حضرت علی ہجویری
      انہیں میں سے مستغرق معنیٰ ابوالغیث حضرت حسین بن منصور حلاج رضی اللہ عنہ ہیں۔ آپ سرمستان بادۂ وحدت اور مشتاقِ جمالِ احدیث گزرے ہیں اور نہایت قوی الحال مشائخ تھے۔
      بحوالہ:
      کشف المحجوب ، ص:300

      مولانا روم
      گفت فرعونے اناالحق گشت پست
      گفت منصورے اناالحق گشت مست
      لعنة اللہ ایں انارا درقفا
      رحمة اللہ ایں انارا درقفا
      اردو ترجمہ : عبدالرحمٰن کیلانی
      فرعون نے "انا الحق" کہا تو ذلیل ہو گیا اور منصور نے "انا الحق" کہا (عشق و محبت میں) تو مست قرار پایا۔ فرعون کی خودی کے لیے تو بعد میں اللہ کی لعنت ہی رہ گئی اور منصور کی خودی کے لیے بعد میں اللہ کی رحمت رہی ہے۔
      بحوالہ :
      مثنوی روم

      خواجہ نظام الدین اولیاء ، دہلی
      خواجہ نظام الدین اولیاء (م:725ھ) حلاج کی بزرگی کے اس قدر قائل تھے کہ آپ نے فرمایا :
      ذکر مشائخ کا ہو رہا تھا۔ بندہ نے عرض کیا کہ سیدی احمد (سید احمد رفاعی) کیسے تھے؟ آپ نے فرمایا : وہ بزرگ شخص تھے۔ عرب کا قاعدہ ہے کہ جب کسی کو بزرگی سے یاد کرتے ہیں تو اسے سیدی کہتے ہیں۔ وہ شیخ حسین بن منصور حلاج کے زمانے میں تھے۔ جب کہ ان کو جلایا گیا اور ان کی خاک دجلہ میں ڈالی گئی۔ سیدی احمد نے ذرا سی خاک اس میں سے تبرکاً اٹھا کر کھالی تھی۔ یہ ساری برکتیں اسی سبب سے انہیں حاصل تھیں۔
      بحوالہ :
      فوائد الفواد ، ملفوضات نظام الدین اولیاء صاحب ، مرتبہ: خواجہ حسن دہلوی ، ص:471

      احمد رضا خان فاضل بریلوی
      فاضل بریلوی صاحب سے سوال کیا گیا :
      حضرت منصور و تبریز و سرمد نے ایسے الفاظ کہے جن سے خدائی ثابت ہے ، لیکن وہ ولی اللہ گنے جاتے ہیں اور فرعون ، شداد ، ہامان و نمرود نے دعویٰ کیا تھا تو مخلد و النار ہوئے ، اس کی کیا وجہ ہے؟
      جواب :
      " ان کافروں نے خود کہا اور ملعون ہوئے اور انہوں نے خود نہ کہا۔ اس نے کہا جسے کہنا شایاں ہے اور آواز بھی انہی سے مسموع ہوئی۔ جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے درخت سے سنا ' انی انا اللہ' میں ہوں رب اللہ سارے جہاں کا ، کیا درخت نے کہا تھا؟ حاشا بلکہ اللہ نے۔ یونہی یہ حضرات اس وقت شجرِ موسیٰ ہوتے ہیں۔"
      بحوالہ :
      احکام شریعت ، ص:93

      حلاج کے کفر کا اثبات

      حلاج کے متعلق اب دوسرا رُخ ملاحظہ فرمائیں جس سے حلاج کے کفر کی وضاحت ہوتی ہے۔
      امام ابن تیمیہ اور حافظ ابن قیم رحمہم اللہ دونوں نے صاف لکھا ہے کہ؛
      وہ کافر تھا اور اس کے متعلق علماء کا فیصلہ بالکل ٹھیک تھا۔

      امام ابن تیمیہ
      کچھ لوگ کہتے ہیں کہ حلاج فنا میں ڈوب گیا اور باطنی حقیقت سے معذور تھا، مگر ظاہری طور پر اس کا قتل واجب تھا اور کچھ دوسرے اسے شہید ، فنا فی اللہ ، موحد اور محقق کہتے ہیں۔ یہ لوگ شریعت کی پرواہ نہیں کرتے۔
      آگے چل کر امام ابن تیمیہ واضح الفاظ میں لکھتے ہیں؛
      حلاج اپنے کفر کی وجہ سے قتل کیا گیا ، وہ قرآن کا معارضہ کرتا تھا ، اس کا یہ بھی خیال تھا کہ اگر کسی کا حج فوت ہو جائے تو اپنے ہاں کعبہ بنا کر اس کا طواف کر سکتا ہے اور حج کے سوا تمام رسوم ادا کر سکتا ہے اور حج پر جتنی رقم خرچ ہو سکتی ہو اس کو صدقہ دے سکتا ہے۔
      امام محترم مزید لکھتے ہیں؛
      جنید (بغدادی) ، عمرو بن عثمان مکی اور ابو یعقوب (رحمہم اللہ) جیسے جلیل القدر مشائخ نے حلاج کی مذمت کی ہے۔ اگر کوئی شخص حلاج کے متعلق حسنِ ظن رکھتا ہے تو اس کی وجہ محض یہ ہے کہ وہ اصل حالات سے آگاہ نہیں ہے۔
      بحوالہ؛
      مجموعہ الرسائل الکبریٰ ، ج:2 ، ص:97 تا 99

      سید سلیمان ندوی
      اقتباسات از مضمون: حسین بن منصور حلاج کی تاریخی شخصیت
      حسین بن منصور حلاج ایران میں پیدا ہوئے۔ ان کا دادا پارسی تھا۔ باپ مسلمان ہوا۔ آبائی وطن شہر بیضا ہے۔ حسین نے بصرہ اور کوفہ کے درمیان واقع علاقہ "واسط" میں نشو و نما پائی۔ اس کی آمد و رفت بغداد میں بھی ثابت ہے۔ سن ولادت معلوم نہیں۔ 310ھ میں بغداد میں قتل ہوا۔

      تاریخ کی کتب اس امر پر متفق ہیں کہ حلاج ، نیرنگ ، شعبدہ بازی اور ہاتھوں کے کھیل میں بہت چالاک اور مشاق تھا۔ روپے برسا دیتا تھا ، طرح طرح کے میوے منگواتا ، ہوا میں اڑاتا اور اس کے علاوہ بھی کئی عجائبات دکھلاتا تھا۔
      اس کے ایک ہمسفر کا بیان ہے کہ حسین اس کے ساتھ صرف اس غرض سے ہندوستان آیا تھا کہ یہاں کی مشہور شعبدہ بازیوں کی تعلیم حاصل کرے۔ چنانچہ اس نے میرے سامنے ایک عورت سے رسی پر چڑھ کر غائب ہو جانے کا فن سیکھا۔ راہ میں گڑھے کھود کر کہیں پانی ، کہیں میوہ ، کہیں کھانا پہلے سے چھپا دیتا۔ پھر اپنے ہمراہیوں کو لے کر اسی سمت میں سفر کرتا اور بوقتِ ضرورت کرامتوں کے تماشے دکھاتا۔

      سید سلیمان ندوی نے ابن سعد قرطبی ، بغداد کے مشہور سیاح ابن موقل ، مورخ ابن ندیم ، ابو علی بن مسکویہ ، مسعودی ، علامہ ابن جوزی ، ابن اثیر اور امام الحرمین کی تواریخ سے ثابت کیا ہے کہ وہ ایک شعبدہ باز اور گمراہ شخص تھا۔
      چنانچہ ابن ندیم کے حوالے سے ، جو صرف ایک واسطہ سے روایت کرتا ہے ، لکھتے ہیں کہ؛
      (اردو ترجمہ)
      حسین بن منصور حلاج ایک حیلہ گر اور شعبدہ باز آدمی تھا۔ اس نے لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے صوفیوں کے طریقے اختیار کر لیے تھے۔ صوفیوں کی طرح باتیں کرتا اور علم کے جاننے کا دعویدار تھا ، حالانکہ وہ اس سے خالی تھا۔ البتہ علم کیمیا میں اسے کچھ مہارت ضرور تھی۔ جب اپنے مریدوں کے پاس ہوتا ، تو خدائی کا دعویٰ کرتا اور کہتا کہ : خدا مجھ میں حلول کر گیا ہے۔
      اور جب سلاطین کے پاس جاتا تو کہتا میں شیعہ مذہب کا آدمی ہوں اور عوام سے کہتا کہ میں ایک صوفی ہوں۔
      البتہ یہ بات سب سے کہتا کہ خدا نے مجھ میں حلول کیا ہے اور میں بالکل خدا ہی ہوں۔

      پھر سید سلیمان ندوی ابن اثیر کی عبارت درج کرتے ہوئے لکھتے ہیں؛
      (اردو ترجمہ)
      حسین بن منصور کے قتل کا سبب یہ ہے کہ؛
      حلاج جب واپس بغداد آیا ، تو کسی نے وزیر حامد بن عباس کو اطلاع دی کہ حلاج کہتا ہے کہ میں نے بہت سے لوگوں کو زندہ کیا ہے اور میں مُردوں کو زندہ کر سکتا ہوں اور بہت سے جنات میرے تابع ہیں اور میں جو چاہوں میرے پاس لا کر حاضر کر دیتے ہیں۔ نیز یہ کہ بہت سے اہل کار میرے گرویدہ ہو گئے ہیں۔ نصر حاجب سرکاری دفاتر کا نگران بھی میری طرف مائل ہو گیا ہے اور اس کے علاوہ کئی بڑے بڑے لوگ حلقہ بگوش ہو گئے ہیں۔
      یہ سن کر وزیر حامد بن عباس نے خلیفہ سے درخواست کی کہ حلاج کا معاملہ اس کے سپرد کر دیا جائے لیکن نصر حاجب آڑے آیا۔ جب وزیر نے اصرار کیا تو خلیفہ مقتدر باللہ نے منصور اور اس کے چیلوں کا معاملہ حامد بن عباس کے سپرد کر دیا۔

      حامد بن عباس نے علماء سے اس کے قتل کا فتویٰ طلب کیا تو علماء اور فقہاء نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ثبوت کافی نہیں۔
      پھر حامد نے علماء کے سامنے حلاج کی ایک کتاب پیش کی ، جس میں لکھا تھا کہ؛
      "اگر کوئی شخص حج نہ کر سکے تو ایک صاف ستھری کوٹھی کو لیپ پوت کر حج کے ارکان اس کے سامنے ادا کرے۔ پھر تین یتیموں کو بلوا کر انہیں عمدہ کھانا کھلائے ، عمدہ کپڑے پہنائے اور سات سات درہم ان کے حوالے کر دے ، تو اس کو حج کا ثواب مل جائے گا۔"
      حامد بن عباس نے جب یہ فقرے قاضی القضاة کو سنائے تو اس نے حلاج سے پوچھا کہ : اس کا ماخذ کیا ہے؟
      حلاج نے حسن بصری رحمة اللہ علیہ کی کتاب "الاخلاص ، کتاب السنة" کا حوالہ دیا۔
      حلاج کی یہ کذب بیانی سن کر قاضی القضاة غضب ناک ہو گیا کیونکہ مذکورہ کتاب وہ پڑھ چکا تھا اور اس میں کوئی ایسی بات نہ تھی۔
      بالاخر قاضی القضاة نے لکھ دیا کہ ایسے شخص کا خون حلال ہے۔
      اس تحریر پر اور بھی کئی علماء نے دستخط کر دئے۔
      چنانچہ حلاج ارتداد اور زندقہ کی سزا میں پہلے قتل کیا گیا ، پھر جلایا گیا اور اس کی راکھ کر دریا بُرد کر دیا گیا۔
      اس کے مرنے کے بعد اس کے پیروؤں نے وہی بات مشہور کر دی جو ہر ناکام مدعی کے پیروکار کرتے ہیں ۔۔۔ یعنی : وہ مرا نہیں بلکہ زندہ ہے اور پھر لوٹ کر آئے گا۔
      مگر افسوس کہ وہ آج تک واپس نہ آ سکا !!۔
      بحوالہ؛
      رسالہ "معارف" ، ج:2 ، شمارہ:4 ، مضمون: حسین بن منصور حلاج کی تاریخی شخصیت

      Comment


      • #4
        Re: (Ishq e LaaFana)حسین بن منصور حلاج

        Bohat Khoob LovelyAliTime


        Bohat Achi Tehreer Ha Ma Aj kal Islamic Tasuwaf Pa research
        Kar reha..


        Bohat Informative Post ha Bohat Shukria


        Khush rehay
        :(

        Comment


        • #5
          Re: (Ishq e LaaFana)حسین بن منصور حلاج

          شکریہ

          Comment


          • #6
            Re: (Ishq e LaaFana)حسین بن منصور حلاج

            Nice & informative post...lovellyalltime...:thmbup:


            Allah-o-Akbar Kabeera, Wal Hamdulillaah-e-Kaseera, Subhan Allah-e-Bukratan-wa-Aseela

            Comment

            Working...
            X